لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیز
اکرپشن کے خاتمے کے لیے نیشنل اکائونٹیبلٹی بیورو (NAB) کھڑا کیا گیا اور ایک سخت قانون بنا، جو نہایت مؤثر تھا۔ شروع میں NAB کی کارروائی تیز تھی، لُوٹے ہوئے اربوں روپے واپس آئے۔ پھر کچھ ہی عرصے میں شوکت عزیز صاحب کا محکمہ پریشان ہونے لگا۔ کہنے لگے: سارا پیسہ ملک سے باہر جارہا ہے، اگر NAB کو نہ روکا گیا تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ پیسے والوں سے یہ پوچھنا چھوڑیں کہ اتنی دولت کہاں سے کمائی۔ سول سروس کو بھی لگاتار دبائو رہا کہ سرکاری ملازمین NABکی وجہ سے خوف و ہراس کا شکار ہیں، کسی کی بھی عزت کو تحفظ نہیں۔ اس خوف سے لوگ فیصلے کرنے سے گھبراتے ہیں، اور یوں حکومت کا کاروبار نہیں چل سکتا۔ حکومت کا کام رک جائے گا اور معیشت ڈوب جائے گی، جس کی وجہ سے عوام ہی خسارے میں رہیں گے، غریب کا بہت نقصان ہوگا۔ NAB کے سربراہ جنرل امجد کو ہٹا دیا گیا۔ سب نے سُکھ کا سانس لیا۔ جنرل مشرف نے بھی۔
جو سول سروس کی اصلاحات تھیں، کچھ عرصہ اِدھر اُدھر لڑھکتی رہیں، پھر دم توڑ گئیں۔ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (DMG) نے کہا آپ نے ہماری کمر ہی توڑ دی۔ بے معنی سی چند تبدیلیاں ہوئیں، اور کچھ نہیں۔ نیا پولیس آرڈی نینس تیار کیا گیا، مگر پولیس کی کارکردگی میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ کہا گیا کہ اس کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے پیسہ درکار ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ہمیں ان سے بہت سے غلط کام کروانے ہوتے ہیں، پھر جب یہ ہمارے ناجائز کام کرتے ہیں تو انہیں اپنے لیے غلط کام کرنے سے کوئی کیسے روکے؟
عدالتوں میں انصاف مہیا کرنے کے لیے جنرل مشرف نے یہی کہا کہ ابھی پیسے نہیں ہیں، پہلے پیسے بنا لیں پھر یہ سب ٹھیک ہوسکتا ہے۔ کیسے کہتے کہ عدالتوں نے اگر انصاف شروع کردیا تو حکومت کیسے چلے گی؟ ایک مرتبہ فوج نے بہت زور دے کر جسٹس فلک شیر صاحب کو لاہور کا چیف جسٹس لگوادیا۔ ان کا نام لوگ بہت عزت سے لیتے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں یہ شکایت آئی کہ یہ کسے لگوا دیا، یہ تو کسی کی سنتا ہی نہیں۔ پھر موقع پاتے ہی انہیں سپریم کورٹ منتقل کردیا گیا۔ کتنی مشکل سے ایسا ڈھونڈا تھا جو سنتا نہیں تھا، لیکن حکومت کے گلے میں پھنسنے لگا۔
اب سات نکاتی ایجنڈا سکڑنے لگا اور توجہ صرف مالیاتی حیثیت بہتر کرنے پر مرکوز کردی گئی۔ باقی کچھ ہو جو نہیں رہا تھا، اور پھر کامیابی بھی تو دکھانی تھی۔ مگر جب امریکی حمایت کے عوض ملک میں غیر ملکی پیسہ آبھی گیا، تو کیا ٹھیک ہوا؟ ایک مرتبہ کور کمانڈر کانفرنس میں نکتہ چینی کی گئی کہ تمام معاشی ترجیحات ایسی ہیں کہ پیسے والا ہی امیر سے امیر تر ہوتا جارہا ہے۔ غریب پر ہماری پالیسیوں کا کچھ اثر نظر نہیں آتا۔ جنرل مشرف نے شوکت عزیز کا فلسفہ دہرایا کہ جب اوپر کی سطح پر پیسہ آئے گا تو آہستہ آہستہ قطرے نیچے پہنچیں گے، یہی معیشت کا اصول ہے، اس میں ذرا وقت لگتا ہے۔ صبر کرنا ہوگا۔ نیچے والے بے چارے آج تک صبر ہی کررہے ہیں۔
پھر وزارتِ خزانہ سے ایک تجویز آئی کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ اس سلسلے میں فوج کو کہا گیا کہ CBR (آج کا FBR) کی امداد میں تجارتی طبقے سے نئے ٹیکس فارم بھروائے جائیں۔ میں نے کہا کہ فوج کی بندوق کے زور پر دکان داروں کے اوپر ایک کرپٹ محکمے کو حملہ آور نہ کرایا جائے۔ اگر عوام پر یوں بوجھ ڈالنا ہی ہے ، تو پہلے اس محکمے کی کچھ صفائی کرلیں۔ پھر اس میں چند لوگوں کی لسٹ تیار ہوئی، کہ یہ کچھ زیادہ ہی خراب ہیں۔ چیئرمین CBR نے کہا کہ اگر آپ صرف صاف لوگ ہی چاہتے ہیں تو CBR میں میرے پاس ایک بھی آدمی ایسا نہیں جو ’’للی وائٹ‘‘ (lilly white) ہو۔ جو ہیں ان ہی سے کام چلائیں۔ پھر فوج دکان دکان پھر کر ذلیل ہوئی۔ دکان داروں نے ہڑتالیں شروع کردیں اور کچھ دن خوب ہنگامہ ہوا۔ آخر حکومت پیچھے ہٹ گئی، اور دکان داروں سے مذاکرات کرکے ٹیکس فارم پھاڑ ڈالا۔ اپنے ٹیکس کے اہداف ہی تبدیل کرلیے۔ پھر کہا کامیابی ہوئی۔سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کو تین سال کا عرصہ دیا تھا کہ الیکشن کرا کے حکومت عوام کے نمائندوں کو 2002ء تک سونپ دی جائے۔ جنرل مشرف کوکچھ کور کمانڈروں نے کانفرنس میں کہا کہ آپ خود سیاست میں نہ الجھیں، گندے ہوں گے۔ آپ صاف ستھرے لوگوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دیں اور خود کو اس سے اوپر رکھیں۔ اگر حکومت صحیح کام نہیں کرتی تو سیاسی نظام اسے بدل دے گا۔ کہنے لگے کہ جو سیاسی پنڈت ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ سیاست سے باہر رہو گے تو کوئی چیز قابو میں نہ رہے گی۔ اگر حکومت کرنی ہے تو سیاست کے میدان مینںاترنا ہی پڑے گا اور یہ کھیل ہے ہی گندا، تو پھر گندا ہونا پڑے گا۔
ناکارہ اور کمزور سیاسی قیادت کے چنائو کی بھی یہی وجہ تھی کہ طاقت کا سرچشمہ فوجی ٹوپی کے نیچے ہی رہے۔ اس کے لیے تابعدار سول سروس، طارق عزیز صاحب کی سربراہی میں حاضر تھی… جنرل مشرف کی نئی ٹیم۔ بندوق کی نوک پر جاگیردارانہ، موروثی سیاسی نظام ختم کرکے نیا سیاسی نظام لانا تھا، جو لوگوں کی امنگوں کا آئینہ دار ہوتا۔ یہی حکمران کا شروع سے منصوبہ تھا اور یہی وعدہ۔ شروع دنوں میں فوج کا بھی اس سلسلے پر خاصہ زور تھا۔ کوئی کہتا صدارتی نظام لگا دیں، ہمارے ملک کے لیے یہ موزوں ہے۔ کوئی کہتا یہی نظام ٹھیک ہے، بس الیکٹورل نظام کو مضبوط کریں، تاکہ اچھے لوگ ابھر سکیں۔
اس بحث کو ختم کرتے ہوئے ایک مرتبہ جنرل صاحب کہنے لگے کہ میں چین گیا تھا، وہاں اپنے چینی بھائیوں سے بھی مشورہ کیا۔ اُن کی بات میں بہت گہرائی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ نظام جو بھی ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا، اہم چیز یہ ہے کہ جو بھی نظام ہو اُس کی ملک پر گرفت صحیح ہونی چاہیے۔ مسکرائے، کچھ دیر خاموش رہے۔ سوچا ہوگا کہ میں کمانڈو ہوں، سخت گرفت رکھتا ہوں، بس اتنا کافی ہے۔ یہ نہیں سوچا کہ چینی بھائی نے کہا تھا کہ نظام کی گرفت ہونی چاہیے، ناظم کی نہیں۔
(’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘، صفحہ 262۔263)
حضور رسالت مآبؐ میں
یہ نظم اقبال نے شاہی مسجد لاہور میں پڑھی تھی۔ خود بھی روئے تھے اور مسلمانوں کو بھی بے طرح رلایا تھا۔ نظرثانی میں اس کا یہ شعر قلم زد کر دیا: