’’وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی (معجزہ) کیوں نہیں لاتا؟ ]تو[ کیا ان کے پاس اگلے صحیفوں کی تمام تعلیمات کا بیانِ واضح نہیں آگیا؟‘‘ (طہٰ:20:133)
یعنی کیا یہ کوئی کم معجزہ ہے کہ انہی میں سے ایک اُمّی شخص نے وہ کتاب پیش کی ہے جس میں شروع سے اب تک کی تمام کتبِ آسمانی کے مضامین اور تعلیمات کا عطر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ان کتابوں میں جو کچھ تھا، وہ سب نہ صرف یہ کہ اس میں جمع کردیا گیا بلکہ اس کو کھول کر واضح بھی کردیا گیا ہے کہ صحرا نشین بدو تک اس کو سمجھ کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
’’(اے نبیؐ) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑسکتے تھے۔ دراصل یہ روشن نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے دلوں میں جنہیں علم بخشا گیا ہے، اور ہماری آیات کا انکار نہیں کرتے مگر وہ جو ظالم ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتاری گئیں اس شخص پر نشانیاں (یعنی معجزات) اس کے رب کی طرف سے؟ کہو: نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور میںصرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر۔ اور کیا ان لوگوں کے لیے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘ (العنکبوت 29: 48۔51)
]ان آیات[ میں استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اَن پڑھ تھے۔ آپؐ کے اہلِ وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ، جن کے درمیان روزِ پیدائش سے سنِ کہولت کو پہنچنے تک آپؐ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی، اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپؐ نے عمر بھر نہ کبھی کوئی کتاب پڑھی، نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا۔ اس امر واقع کو پیش کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کتبِ آسمانی کی تعلیمات، انبیائے سابقین کے حالات، مذاہب وادیان کے عقائد، قدیم قوموں کی تاریخ، اور تمدن و اخلاق و معیشت کے اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اس اُمّی کی زبان سے ہورہا ہے یہ اُس کو وحی کے سوا کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر اس کو نوشت و خواند کا علم ہوتا اور لوگوں نے کبھی اسے کتابیں پڑھتے اور مطالعہ و تحقیق کرتے دیکھا ہوتا تو باطل پرستوں کے لیے یہ شک کی کچھ بنیاد ہو بھی سکتی تھی کہ یہ علم وحی سے نہیں بلکہ اخذ و اکتساب سے حاصل کیا گیا ہے۔ لیکن اس کی اُمّیت نے تو ایسے کسی شک کے لیے برائے نام بھی کوئی بنیاد باقی نہیں چھوڑی ہے۔ اب خالص ہٹ دھرمی کے سوا اس کی نبوت کا انکار کرنے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے جسے کسی درجے میں بھی معقول کہا جاسکتا ہو۔
(تفہیم القرآن، سوم، ص711۔712، العنکبوت، حاشیہ 88)
اُمّی ہونے کے باوجود تم پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا، کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ تمہاری رسالت پر یقین لانے کے لیے یہ کافی ہو؟ اس کے بعد بھی کسی معجزے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ دوسرے معجزے تو جنہوں نے دیکھے اُن کے لیے وہ معجزے تھے، مگر یہ معجزہ تو ہر وقت تمہارے سامنے ہے، تمہیں آئے دن پڑھ کر سنایا جاتا ہے، تم ہر وقت اسے دیکھ سکتے ہو۔
(تفہیم القرآن، سوم، ص 713، العنکبوت، حاشیہ 91)
’’اور کیا ہو جاتا اگر کوئی ایسا قرآن اُتار دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے، یا زمین شق ہوجاتی، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟‘‘ (الرعد 31:13)
اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی ضروری ہے کہ اس میں خطاب کفار سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے ہے۔ مسلمان جب کفار کی طرف سے بار بار نشانی کا مطالبہ سنتے تھے تو ان کے دلوں میں بے چینی پیدا ہوتی تھی کہ کاش ان لوگوں کو کوئی ایسی نشانی دکھا دی جاتی جس سے یہ لوگ قائل ہوجاتے۔ پھر جب وہ محسوس کرتے تھے کہ اس طرح کی کسی نشانی کے نہ آنے کی وجہ سے کفار کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہات پھیلانے کا موقع مل رہا ہے تو ان کی یہ بے چینی اور بڑھ جاتی تھی۔ اس پر مسلمانوں سے فرمایا جارہا ہے کہ اگر قرآن کی کسی سورت کے ساتھ ایسی اور ایسی نشانیاں یکایک دکھا دی جاتیں تو کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ لوگ ایمان لے آتے؟ کیا تمہیں ان سے یہ خوش گمانی ہے کہ یہ قبولِ حق کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں، صرف ایک نشانی کے ظہور کی کسر ہے؟ جن لوگوں کو قرآن کی تعلیم میں، کائنات کے آثار میں، نبیؐ کی پاکیزہ زندگی میں، صحابہ کرام کے انقلابِ حیات میں نورِ حق نظر نہ آیا، کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ پہاڑوں کے چلنے اور زمین کے پھٹنے اور مُردوں کے قبروں سے نکل آنے میں کوئی روشنی پالیں گے؟
(تفہیم القرآن، دوم، ص 460، الرعد، حاشیہ 47)