ایس پی محمد طاہر داوڑ کی پراسرار گمشدگی اورالمناک شہادت

وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے شہید ایس پی محمد طاہر داوڑ کی رہائش گاہ حیات آباد پشاور میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایس پی محمد طاہر داوڑ قتل کیس کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے اور قتل کی تحقیقات کے حوالے سے اہلِ خانہ کو مطمئن کیا جائے گا اور تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ قبل ازیں وزیراعلیٰ نے شہید کے اہلِ خانہ سے ملاقات کی اور شہید کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ انہوں نے سوگوار خاندان سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا اورشہید کے درجات کی بلندی کے لیے دُعا کی۔ انہوں نے صوبے میں امن وامان قائم رکھنے کے حوالے سے طاہر داوڑ کی خدمات کو بھی خراج عقیدت پیش کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی اور کورکمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر بھی موجود تھے۔
واضح رہے کہ طاہر داوڑ قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے قتل کی ازسرنو تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ایس پی انویسٹی گیشن گلفام ناصر کی سربراہی میں ایس پی طاہر داوڑ قتل کیس کی تحقیقات کے لیے قائم سات رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا پہلا اجلاس گزشتہ روز ہوا جس میں ٹیم نے قتل کی ازسرِنو تحقیقات کا فیصلہ کیا۔ پولیس ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جے آئی ٹی نے طاہر داوڑ کے بھائی، اہلِ خانہ اور شہید ایس پی کے اسٹاف کو بھی شاملِ تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں اس بات کی تحقیقات کی جائے گی کہ مقتول پولیس افسر کے گھر کون کون آتا تھا، وہ کس کے ساتھ رابطے میں تھے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے جیو فینسنگ اور مختلف مقامات پر نصب سیف سٹی کے کیمروں کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے۔ اسی طرح اسلام آباد کے علاقے جی الیون اور ایف ٹین سمیت شہر کے داخلی و خارجی راستوں کی فوٹیجز بھی طلب کی گئی ہیں۔
دوسری طرف طاہر داوڑ کے بھائی احمدالدین داوڑ نے کیس کی تحقیقات کے لیے بننے والی جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی حساس شہر سے لاپتا ہوئے اور ان کی لاش افغانستان سے ملی، اس لیے اس کیس میں ایک ملک نہیں بلکہ دو ممالک ملوث ہیں، لہٰذا جب کسی معاملے کا تعلق دو ممالک سے ہو تو فیصلہ بھی عالمی سطح پر کیا جانا چاہیے، اور کیس کی نوعیت کو نظر میں رکھتے ہوئے تحقیقات کے لیے بین الاقوامی جے آئی ٹی تشکیل دی جانی چاہیے۔
اسی اثناء ایس پی محمد طاہر داوڑ کے قتل کے اندوہناک واقعے پر تعزیت اور مرحوم کے پسماندگان کے ساتھ فاتحہ خوانی کے لیے مختلف طبقۂ فکر کے لوگوں اور سیاسی قائدین اور نمائندوں کی آمد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔گزشتہ اتوار کے روز جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مشتاق احمد خان اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مرحوم ایس پی طاہر داوڑ کے گھر ان کے اہلِ خانہ کے ساتھ تعزیت اور فاتحہ خوانی کے لیے گئے۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ طاہر داوڑ ایک فرض شناس اور دلیر پولیس آفیسر تھے، ان کا قتل کسی بڑے سانحے سے کم نہیں، ایسے واقعات حکمرانوں کی بے حسی کی منہ بولتی تصویر ہیں، عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی اوّلین ذمے داری ہے، ایک بہادر پولیس آفیسر کا دن دہاڑے اغوا اور قتل لمحۂ فکریہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبرِ جمیل سے نوازے۔
امیر جماعت اسلامی خیبر پختون خوا سینیٹر مشتاق احمد خان نے تعزیت کے موقع پر کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کی مظلومانہ موت حکومت کی ناکامی ہے، طاہر داوڑ کو علاقہ غیر سے نہیں بلکہ حکومت کی ناک کے نیچے سے اغوا کرکے افغانستان منتقل اور بعد میں شہید کردیا گیا، حکومتی وزیر نے سینیٹ میں جو رپورٹ پیش کی ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ طاہر داوڑ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پہلی صف میں لڑرہے تھے، حکومت نے طاہر داوڑ کے اغوا سے لے کر شہادت تک مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا، حاضر سروس پولیس افسر کا غائب ہونا پولیس کا مورال ڈاؤن کرنے کے مترادف ہے، جس مقتول کے قاتل معلوم نہ ہوں اس کے قاتل حکمران ہوتے ہیں، حکومت اس واقعے کی شفاف تحقیقات کرائے اور قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے نظر آنے والے اقدامات اٹھائے۔
قومی وطن پارٹی کے مرکزی چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو نے ایک نمائندہ وفد کے ہمراہ شہید ایس پی طاہر داوڑکے خاندان سے تعزیت کے موقع پر کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کا اغوا اور بعد ازاں قتل ریاست اور اس کے اداروں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے شہید کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی اور غم زدہ خاندان کو تسلی دیتے ہوئے ان کے ساتھ دلی ہمدردی و یک جہتی کا اظہار کیا۔ آفتاب شیرپائو نے کہا کہ اس افسوسناک سانحے پر وہ اور ان کی پارٹی کے تمام عہدیداران اور ورکرز انتہائی دکھی ہیں اور اس المناک گھڑی میں غم زدہ خاندان کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید ایس پی طاہر داوڑ کا اسلام آباد میں اغوا اور افغانستان میں قتل پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے، اوراس سے خیبر پختون خوا، پنجاب اور وفاقی حکومتوں کی مکمل ناکامی عیاں ہوچکی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ طاہر داوڑکے اغوا، اور بعد ازاں افغانستان میں قتل کے معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے اور اس سلسلے میں مزید بے بنیاد وضاحتوں کے بجائے واقعہ کے محرکات کو بے نقاب کرکے ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لاکر انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔
ایس پی طاہر داوڑ کی المناک شہادت پر مختلف چہ میگوئیوں کے تناظر میں پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستانی پولیس افسر طاہر داوڑ کا اسلام آباد سے اغوا، افغانستان منتقلی، وہاں قتل اور پھر افغان حکام کا رویہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ معاملہ افغانستان میں ایک دہشت گرد تنظیم تک محدود نہیں ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیاہے کہ ایس پی طاہر داوڑ کا افغانستان میں بہیمانہ قتل انتہائی قابلِ مذمت ہے، ہم نے ایک بہادر پولیس افسر کھو دیا۔ ترجمان نے کہا کہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں لیکن ہم اعادہ کرتے ہیں کہ افغان سیکورٹی حکام اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کے لیے آہنی باڑ لگانے میں تعاون کریں۔
افغانستان میںشہید کیے گئے ایس پی رورل سرکل پشاور طاہر داوڑ کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوںنے 23سال تک پولیس میں خدمات انجام دیں۔ 1995ء میں اے ایس آئی بھرتی ہونے کے بعد اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے وہ ترقی کرکے ایس پی کے عہدے تک پہنچے۔ طاہر داوڑ 4 دسمبر 1968ء کو شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کے گائوں خدی میں پیدا ہوئے، 1982ء میں میٹرک، 1986ء میں بی اے اور 1989ء میں پشتو ادب میں ایم اے پاس کیا۔ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی کے بعد اے ایس آئی کی حیثیت سے پولیس فورس میں شمولیت اختیار کی، 1998ء میں ایس ایچ او ٹائون بنوں، 2002ء میں سب انسپکٹر اور 2007ء میں انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پائی۔ انہیں قائداعظم پولیس ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 2009ء سے 2012ء تک ایف آئی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا، جبکہ 2014ء میں ڈی ایس پی کرائمز پشاور سرکل اور ڈی ایس پی فقیر آباد رہے۔ رواں سال ڈی ایس پی پشاور ٹائون بھی تعینات رہے۔ طاہر داوڑ 2003ء میں اقوام متحدہ کے امن مشن پر مراکش اور 2005ء میں سوڈان میں تعینات رہے، 2005ء میں دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں ان کی بائیں ٹانگ اور بازو میں گولیاں لگی تھیں۔ دو ماہ قبل انہیں ایس پی کے عہدے پر ترقی دے کر رورل سرکل پشاور میں تعینات کیا گیا تھا۔ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہونے کی وجہ سے دو دفعہ شہید ایس پی طاہر داوڑ پر خودکش حملے بھی ہوئے۔ شہید ایس پی پشتو زبان میں شاعری بھی کرتے تھے جبکہ لاپتا ہونے سے قبل انہوں نے پشتو زبان میں ایک نظم بھی لکھی تھی جو ان کی موت کی عکاس بن گئی۔ یاد رہے کہ شہید ایس پی طاہر داوڑ کو اسلام آباد G-10 سے 26 اکتوبر کو اغوا کیا گیا تھا، جن کے اغوا کا مقدمہ بھی تھانہ رمنا میں درج کیا گیا تھا۔ ان کے اغوا سے متعلق کئی روز تک مختلف الخیال اطلاعات اور افواہیں گردش کرتی رہی تھیں کہ اس دوران ان کی لاش افغانستان کے سرحدی صوبے ننگرہار سے ملنے کی اطلاعات سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جس کی تصدیق بعدازاں افغان حکام نے ان اطلاعات کے ساتھ کی کہ ان کی لاش کے قریب ہی ان کا سروس کارڈ پڑا ہو اتھا، جب کہ ان کی لاش پر پشتو میں خراسان نامی جنگجوتنظیم کی جانب سے ایک خط بھی لکھا ہوا ملا تھا جس میں ان کی شہادت کی ذمے داری قبول کی گئی تھی، جب کہ دوسری جانب تحریک طالبان اور جماعت الاحرار نے اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کرکے اس سارے واقعے کو مشکوک بنادیا تھا، جو اب بھی شکوک وشبہات کے کئی دبیزپردوں میں چھپا ہو اہے۔
وفاقی وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے ایس پی طاہر داوڑ کی میت حوالگی کے معاملے پر افغان حکام کی بے حسی اور ان کے شرمناک رویّے کو پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایس پی طاہر داوڑ کی میت حوالگی کے معاملے پر پاک افغان طورخم بارڈر پر پاکستانی حکام کو ڈھائی گھنٹے انتظار کروانے کے باوجود افغان حکام نے ایس پی طاہر داوڑ کی میت انہیں حوالے نہیں کی جس سے انہیں اور دیگر پاکستانی حکام کو طورخم سرحد پر اذیت ناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ میت 100میٹر کے فاصلے پر پڑی تھی، افغان حکام پاکستانی قونصل جنرل اور حکومتی وفد کے بجائے میت حوالگی کے لیے مختلف نام لیتے رہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تحقیقات کی جائیں گی۔افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس کے 17لاکھ باشندوں کو پناہ دے کر ہم نے اپنی روٹی ان کے ساتھ تقسیم کی ہے، افغان حکومت کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس نے ایسا رویہ کیوں اختیار کیا؟ افغان حکومت نے پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے لاش دینے کے حوالے سے تاخیری حربے استعمال کرکے سیاسی کھیل کھیلنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اس رویّے پر بالکل خاموش نہیں رہے گا بلکہ سفارتی طور پر یہ معاملہ افغان حکومت کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ شہریار آفریدی نے کہاکہ طاہر داوڑ 26 اکتوبر کو لاپتا ہوئے، 27 اکتوبر کو ان کے بھائی احمد الدین نے متعلقہ تھانے کو آگاہ کیا، جبکہ28 اکتوبر کو مقدمہ درج کیا گیا۔ 28 اکتوبر سے 13نومبر تک ریاست ہرگز خاموش نہیں تھی بلکہ حساس معاملات کو حکمت کے ساتھ ڈیل کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے دشمن ملک کے اندر پاکستانیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ہم تحقیقات کریں گے کہ طاہر داوڑ اسلام آباد سے اغوا ہوکر افغانستان کیسے پہنچے۔ وزیراعظم عمران خان کا عزم ہے کہ طاہر داوڑ کے قاتل پاکستان میں ہوں یا افغانستان میں، ان کو ضرور انجام تک پہنچائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ ایس پی طاہر خان داوڑ شہید جن کو26 اکتوبر کو اسلام آباد جیسے محفوظ ترین سمجھے جانے والے وفاقی دارالحکومت سے اغوا کیا گیا، اس پر پولیس سمیت تمام دیگر متعلقہ سیکورٹی کے ریاستی اداروں نے وہ سنجیدگی اور گرمجوشی کیوں نہیں دکھائی جو ایس پی رینک کے ایک اعلیٰ افسر تو کجا ایک کانسٹیبل اور سپاہی کے اس طرح اچانک اغوا اور گمشدگی پر دکھانا بھی متعلقہ اداروں کا قانونی اور آئینی فرض ہے۔ ایس پی طاہر خان داوڑ کوئی معمولی انسان نہیں تھے بلکہ وہ پاکستان کے غیرت مند بیٹے تھے، ان پر پہلے بھی دو مرتبہ خودکش حملے ہوچکے تھے، ان کی جان کو اتنا خطرہ تھا کہ وہ سات سال تک خیبرپختون خوا سے باہر رہے اور2017ء میں ان کا خاندان منتقل ہوکر بہارہ کہو اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوگیا تھا، ان کے ایک بھائی اور بھابھی کو بھی ایک سال قبل شہید کیا گیا۔ ایس پی طاہر داوڑ شہیدکے بارے میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ انہیں اغوا کرنے کے بعد پہلے پنجاب لے جایا گیا، اور دو دن بعد براستہ میانوالی بنوں پہنچایا گیا، جہاں سے انہیں افغانستان منتقل کیا گیا۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ انہیں بنوں کے راستے شمالی یا جنوبی وزیرستان کے بجائے ننگرہار صوبے کیسے پہنچایا گیا؟ کیوں کہ ننگرہار کی سرحد پاکستان کے ضلع خیبر، یا پھر کرم سے ملتی ہے۔ لہٰذا یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ایس پی طاہر خان داوڑ افغانستان منتقلی تک زندہ تھے تو انہیں اس طویل روٹ پر قائم درجنوں سیکورٹی چیک پوسٹوں سے کیسے گزارا گیا؟ اور اگر ان کو پاکستان میں شہید کیا گیا تو پھر یہ سوال اور بھی پیچیدہ صورت اختیار کر جاتا ہے کہ ان کے اغوا کار ان کی لاش کو اس طویل روٹ پر سیکورٹی چیک پوسٹوں پر موجود اہلکاروں کی نظر سے بچا کر لے جانے میں کیوں کر کامیاب ہوئے۔ اسی طرح یہ سوال بجائے خود انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ انہیں اغوا کرنے والے انہیں افغان سرزمین پر شہید کرکے آخر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟ اگر انہیں صرف شہید کرنا ہی مقصود ہوتا تو وہ یہ کام اسلام آباد سمیت کہیں بھی بے دھڑک کرسکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہ کرکے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں تاحال تو وہ یقیناً کامیاب نظر آتے ہیں۔ لیکن اس واقعے پر پاکستان کے سیکورٹی اداروں، افغان حکومت اور مختلف سیاسی قوتوں نے جس بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بجائے خود نہ صرف انتہائی تکلیف دہ اور قابلِ مذمت ہے بلکہ اس سے پتا چلتا ہے کہ طاہر داوڑ شہیدکی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس کی آڑ میں کئی قوتوں نے اپنے مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی شرمناک کوشش کی ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔