مصنوعی ذہانت کا ورلڈ آرڈر

بیسویں صدی کئی حوالوں سے تاریخ کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ ایک حوالہ فلسفے کی موت ہے۔ دوسرا حوالہ کمیونزم کی موت ہے۔ تیسرا حوالہ یک قطبی دنیا کی موت ہے۔ چوتھا حوالہ انسانی اجارہ داری میں انفوٹیک اور بائیوٹیک کی شراکت داری ہے۔ پانچواں حوالہ لبرل عالمگیریت کی پسپائی ہے۔ چھٹا حوالہ یہ اہم ترین سوال ہے کہ آیا عالمگیرانسانی تہذیب کا کوئی امکان ہے؟ اگر ہے، توکون اس کا وارث ہوگا؟ یا انسانی تہذیب مکمل طور پر تباہ ہوجائے گی؟ سائنٹفک دنیا میں انسان کا کیا مستقبل ہے؟ یہ اموات بیسویں صدی میں ہوئیں، یہ سوالات اکیسویں صدی میں چلے آئے ہیں۔
بیسویں صدی کے آغاز پر یہ یقین قبولِ عام پاچکا تھا کہ مذہب کا کردارختم ہوچکا۔ کیونکہ ڈارون کے نظریے نے باورکردیا تھا کہ انسان ارتقا کے ذریعے امیبا اور بندر سے جدید ترین حالت پر پہنچا تھا۔ چنانچہ سمجھ لیا گیا کہ جس کا جتنا بہتر فطری چناؤ ہوا ہے وہ اتنا ہی اعلیٰ نسل ہے۔ ادنیٰ نسلوں پر حاکمیت کا اتنا ہی حقدار ہے۔ فطرت کی جانب سے انسان کا یہ حیاتیاتی چناؤ اور درجہ بندی مغرب کا عقیدہ قرار پاچکا تھا۔ چنانچہ بھورے یورپی اعلیٰ ترین نسل ٹھیرے تھے۔ جرمن بضد تھے کہ وہ اعلیٰ ترین آریائی سلسلے کے وارث ہیں۔ یہی دعویٰ صدیوں سے یہودی کرتے آئے تھے۔ یہی وہ وجہ بنی، جس نے یہودیوں کو دربدر کیا، پھر جرمن نازیوں کا وجود مٹادیا۔ ڈارونیت کی اس بندر بانٹ نے جدیدیت کے وہ جنازے نکالے کہ انسان نے پہلے نہ دیکھے تھے۔ جنگوں کے مارے فلسفی پال سارتر اور البرٹ کامیو وغیرہ نے مایوس کن ادب و فلسفہ تخلیق کیا۔ فلسفہ مابعد جدیدیت وجود میں آیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب فلسفہ سائنس کے ’حقِ ملکیت‘ سے محروم ہوا۔ یوں فلسفے کی موت واقع ہوگئی۔ سائنس ’ترقی‘ کے دعووں اور ارادوں کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ معروف ماہر فلکیات اسٹیفن ہاکنگ نے تصنیف The Grand Designکے آغاز پر لکھا ہے کہ ’’ہم سب مختصر وقت کے لیے زندہ ہیں۔ اس مختصر وقت میں کائنات کا مختصر حصہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ بہرکیف ہم متجسس ہیں۔ کائنات کے اسرار پر حیران ہوتے ہیں، جواب تلاش کرتے ہیں: ہم اس دنیا کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ کائنات کیسے کام کرتی ہے؟ حقیقت کی فطرت کیا ہے؟ یہ سب کہاں سے آیا ہے؟ کیا اس کائنات کا کوئی خالق ہے؟ ہم سب ان سوالات پر ہر وقت غور نہیں کرتے، مگر ہم سب ان سوالات پرکبھی نہ کبھی ضرور غور کرتے ہیں۔ روایتی طور پر یہ فلسفے کے سوالات ہیں، مگر فلسفے کی موت ہوچکی۔ فلسفہ جدید ترقی کا ساتھ نہیں دے سکا ہے، بالخصوص طبیعات میں۔‘‘
اسٹیفن ہاکنگ نے بالکل درست کہا ہے۔ اسّی نوّے کی دہائی تک لبرلزم اور کمیونزم کے نظریات نے بھی بتدریج عمر پوری کرلی۔ دنیا اکیسویں صدی میں یتیم ہی داخل ہوئی، جس کا احساس نائن الیون کے بعد گہرا ہوتا گیا۔ مغرب میں انسانی فکر و فلسفے کی جگہ اب بے حس سائنس وٹیکنالوجی نے سنبھال لی ہے۔ یہ مغربی تہذیب کی وہ نئی صورت ہے، جس میں ذی روح انسان کا کردار ختم ہوچکا ہے، وہ غیر محسوس انداز میں ’لاتعلقی کے بحران‘ سے دوچار ہے۔ ایک فیصد عالمی اشرافیہ، جو سائنس و ٹیکنالوجی کی شراکت داری میں دنیا کی حکمران ہے، وہ سو افراد جن کے اثاثے چار ارب غریبوں کی جمع پونجی سے زائد ہیں، انسانی تہذیب کے لیے سنگین ترین خطرہ بن چکے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ عالمی مساوات کے لیے ہے۔ معاشرے عالمی معاملات سے یکسر لاتعلق کیے جارہے ہیں۔ بیشتر دنیا آٹومیشن پر چلانے کی منصوبہ بندی ہوچکی ہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس بتدریج انسانوں کی معاشی اور سیاسی اہمیت ختم کررہی ہے۔ چین کی آرٹی فیشل انٹیلی جنس صنعت ملکی اور عالمی سطح پر بے روزگاری کے خدشات پیدا کررہی ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسی زینہوا میں آرٹی فیشل انٹیلی جنٹ نیوز ریڈر شامل کرلیا گیا ہے، جو ظاہر ہے کسی انسان کی جگہ لے چکا ہے۔ شنگھائی میں ایک بینک انسانوں سے خالی کیا جاچکا ہے۔ ایسا ہی کچھ جاپان اور دیگرسائنٹفک دنیا میں ہورہا ہے۔ جاپانی معاشرے کا رویہ اس قدر سائنٹفک اور مشینی ہوچکا ہے کہ لوگ متواتر خودکشی کررہے ہیں، جبکہ ابھی یہاں بے روزگاری نے قدم نہیں رکھے۔ غیر انسانی طرزِ زندگی سے مر جانے کی حد تک مایوسی طاری ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی میں تحقیق کا رجحان تخلیقِ خداوندی میں ایسی ترامیم لارہا ہے جو ماحولیات کی مانند انسانی حیات پرتباہ کن اثرات مرتب کررہی ہیں، اور آئندہ مزید شدت سے کرسکیں گی۔ یہ سب مغرب کیوں ہونے دے رہا ہے؟ اس کے جواب کے لیے اسٹیفن ہاکنگ سے پھر رجوع کرتے ہیں۔ اپنی نسل کے سب سے بڑے سائنسدان اور ماہر فلکیات کی جانب سے سوال Will artificial intelligence outsmart us? کا جواب بعد از مرگ سامنے آیا، جو خاصا دلچسپ ہے، Brief answers to the big questions کے صفحہ 181 سے 196 تک وہ کہتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ ایک کیڑے کے دماغ اورکمپیوٹر کی پروسیسنگ میں خاص فرق نہیں ہوتا۔ مجھے یہ بھی یقین ہے جیسا کہ ارتقائی عمل ثابت کرتا ہے کہ ایک کیڑے اور انسان کے دماغ میں معیاری فرق نہیں ہے۔ لہٰذا ایک کمپیوٹر انسانی ذہانت کی ہمسری کرسکتا ہے، بلکہ اس سے زیادہ قابلیت کی استعداد پیدا کرسکتا ہے۔ آئندہ سو سال میں کمپیوٹر انسانی ذہانت کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ مصنوعی ذہانت کا طوفان آسکتا ہے۔ اگر ہم اسے محض سائنس فکشن سمجھتے ہیں، تو بہت بڑی غلطی کرتے ہیں۔ سپر انٹیلی جنٹ AI انسانوں پر گزرنے والا بدترین یا بہترین تجربہ ہوسکتا ہے۔ آرٹی فیشل ذہانت سے اصل خطرہ دشمنی کا نہیں بلکہ قابلیت کا ہے، جو اگر اہداف میں انسانوں سے انحراف کرگئی، تو ہم مشکل میں پڑ جائیں گے۔ مستقبل کی سب سے بڑی جنگ جدید ٹیکنالوجی اور ہماری دانش کے درمیان ہوگی کہ آیا ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ آئیے ہم سب انسانی دانش کو کامیاب بنائیں۔‘‘
اسٹیفن ہاکنگ کی منتخب گفتگو سے سمجھا جائے تولگتا ہے کہ جدید سائنس ڈارونزم ہی میں کائنات کی توجیہہ ڈھونڈ رہی ہے۔ یہ اتنی ہی دہشت ناک بات ہے، کہ جتنی نازیوں یا صہیونیوں کی نفسیات میں مرتسم ہے، کہ ادنیٰ انسانوں کی اکثریت فنا کردی جائے۔ اس باب میں اسٹیفن ہاکنگ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ عالمی قوتیں آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کے حصول میں بڑھ چڑھ کرسرگرم ہیں، تاکہ اپنی استعماریت اور دفاع کوناقابلِ شکست بناسکیں۔ اب ظاہر ہے جہاں انسان اور کیڑے کے دماغ میں فرق نہیں وہاں انسان اور کیڑے میں کتنا فرق قابلِ قبول ہوسکتا ہے! بہرحال اسٹیفن ہاکنگ کا جواب نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی ہلاکت خیزی کا تذکرہ تشویش ناک ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے امرا ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں میں اَپ گریڈیشن پر پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں، جبکہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ یہ تفریق خوفناک ہوچکی ہے۔ بائیو انجینئرنگ اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا اشتراک دو انسانی گروہوں میں بہت بڑا فرق پیدا کرسکتا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ بائیو ٹیکنالوجی اور انفو ٹیکنالوجی پرکنٹرول رکھنے والوں کی مٹھی میں معاملات سمٹ رہے ہیں۔ غرض سرمایہ دارانہ لبرلزم جس کا نام ہے، وہ عالمگیریت نہیں بلکہ عالمگیر عدم مساوات کی وجہ بن رہا ہے۔ سلیکون ویلی، ماسکو اور بیجنگ کے ارب پتی سرمایہ کار عام انسانوں کے لیے عالمگیر ’بے کاری‘ اور ’لاتعلقی‘ تشکیل دے رہے ہیں۔ یہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ہم سب اپنا ڈیٹا اُن کے حوالے کررہے ہیں۔ ہمارے بینک اکاؤنٹس سے ہیلتھ کارڈ تک، اے ٹی ایم کارڈ سے فیس بُک آئی ڈی تک سب کچھ آن لائن بلیک مارکیٹ میں بیچا جارہا ہے۔ بات بائیو میٹرک بریسلٹ اور دیگر ایسی ڈیوائسز تک جارہی ہے، جو نہ صرف بہت دور سے آپ کو ٹریس کرسکتی ہیں بلکہ ہدف بھی بناسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ ڈیوائسز آپ کی حیاتیاتی کیفیات پربھی نظریں رکھ سکتی ہے۔ مثال کے طور پرکسی شخص کی کسی حساس صورت حال میں کیا کیفیت ہے، بلڈ پریشر کیسا ہے، باڈی لینگویج کیا ہے۔ اب آن لائن انسانوں کے معاملات میں ریاست، ملک اورجغرافیائی سرحدوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ یہ سب اب بے معنی ہورہے ہیں۔ انسان آن لائن دنیا میں عالمگیر ہوچکے ہیں۔ مواصلات، روابط، کاروبار، سب کچھ ایک کلک کے فاصلے پر ہے۔ المیہ مگر یہ ہے کہ اس عالمگیر انسان کی رہنمائی اورترقی کے لیے کوئی عالمگیر راہِ عمل موجود نہیں۔
یہاں پہنچ کرمغرب کے بڑے دماغ سارے نظریات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسلام اور مغرب کی تہذیبوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ حسبِ روایت اسلام کی تفہیم میں حیران کن لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس ’لاعلمی‘ یا ’تعصب‘ پر فلسطینی عیسائی دانشور پروفیسر ایڈورڈ سعید نے عمدہ تحقیقی کام کیا ہے۔ شہرۂ آفاق کتاب Orientalism اورCulture and Imperialism میں اس حوالے سے بھرپور اور لاجواب تنقید موجود ہے۔ براہِ راست مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ مغرب کے محققین اسلام سے یکسر نابلد ہیں، قرآن سے یکسر لاعلم ہیں، اور اسلام کی تشریح و تعبیرعیسائیت کے تناظر میں کرتے رہے ہیں، جو ظاہر ہے علمی بددیانتی ہے۔
مضمون کا مدعا مصنوعی ذہانت کا ورلڈ آرڈر ہے۔ یہ روح سے عاری ہے۔ جذبات واحساسات سے بے پروا ہے۔ بے حس وسفاک ترین صفات کا حامل ہے۔ یوں انسانوں سے معاملات میں اسے حاکم ومالک بنانا انسانی تہذیب کے لیے تباہ کن ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے انسان نے رب کی نافرمانی کی اور خود خدا بن بیٹھا، پھر سائنس نے اپنے محقق کی حیثیت ختم کرکے اپنی حاکمیت قائم کرلی۔ سادہ منطق ہے کہ مخلوق خالق نہیں بن سکتی۔ سائنس قدیم سے وہ قائم ودائم الٰہیاتی علم ہے جسے انسان نے تھوڑا بہت دریافت کیا اورمحقق کیا، اور یہ سب کچھ خالق کی عطاکردہ صلاحیتوں سے ہی ممکن ہوا۔ اس میں انسان کا اپنا کوئی کارنامہ نہیں۔ مسئلہ سائنس کی غیر الٰہیاتی تعبیرات، تشریحات اوراستعمال کا ہے۔ انفوٹیک، بائیوٹیک، آرٹی فیشل انٹیلی جنس ورلڈ آرڈر انسانی تہذیب کی تکمیل نہیں کرسکتا (یہاں اسٹیفن ہاکنگ کے مذکورہ اقتباس کا آخری جملہ کس قدر برمحل معلوم ہوتا ہے کہ ’’ہمارے مستقبل کی سب سے بڑی جنگ جدید ٹیکنالوجی اور ہماری دانش کے درمیان ہوگی کہ آیا ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ آئیے ہم سب انسانی دانش کو کامیاب بنائیں)۔ انسانی تہذیب کا امکان صرف حکم الٰہی ہی سے ممکن ہے، جسے انسان کی نیابت میسر ہو، اورسائنس کی خدمت حاصل ہو۔ یہی واحد آرڈرہے جو پوری کائنات میں جاری وساری ہے۔ اس کے سوا جوکچھ ہے، ڈس آرڈر ہے، اور ڈس آرڈر ہی رہے گا۔