احسانِ عظیم

نسیم حجازی
’’اور خدا کے اس احسان کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ خدا نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا۔ پھر اس کے لطف و محبت سے تم بھائی بھائی بن گئے۔‘‘
قرآن حکیم کی اس آیت میں اُس عظیم انقلاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس نے صحرا نشینانِ عرب کے قلب و نظر کے تمام زاویے بدل دیئے تھے۔ اہلِ عرب اسلام سے قبل اپنی مخصوص تہذیبی و اخلاقی روایات کے باوجود ایک قوم یا ملت نہ تھے۔ اجتماعی زندگی کے متعلق وہ زیادہ سے زیادہ اپنے جدا جدا قبائل کی حد تک سوچ سکتے تھے۔ اپنے قبیلے کے اقتدار سے باہر وہ کسی اور کے اقتدار کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اور پھر جس طرح وہ اپنے قبیلے کے مفاد یا اس کے تمام افراد کی جان و مال کی حفاظت اپنا فرض سمجھتے تھے، اسی طرح وہ دوسرے قبائل کو لوٹنا اپنا قدرتی حق تصور کرتے تھے۔ باَلفاظِ دیگر ایک عرب جس طرح اپنے قبیلے کے تمام افراد کا پیدائشی دوست ہوتا تھا، اسی طرح وہ دوسرے قبائل کے ہر فرد کو اپنا پیدائشی دشمن سمجھتا تھا۔
ایام جاہلیت کی بیشتر داستانیں چراگاہوں اور پانی کی تقسیم کے جھگڑوں کے باعث پیدا ہونے والی خانہ جنگیوں سے لبریز تھیں۔ جنگوں میں حصہ لینے والے قبائل کو لوٹ مار اور ان کے سورمائوں کو انفرادی جرأت و بہادری کی دھاک بٹھانے کے مواقع ملتے تھے، ان کے شعرا جس جوش و خروش کے ساتھ اپنے قبائل کے فوجی رہنمائوں کے قصائد لکھتے تھے، اس سے کہیں زیادہ جوش اور ولولے کے ساتھ دوسرے قبائل کی ہجو کرتے تھے۔ زمانۂ جاہلیت کا بیشتر شعر و ادب اس قسم کے قصائد اور ہجووں تک محدود تھا۔ قبائلی جنگیں افراد سے شروع ہوتی تھیں اور اس کے بعد پورے کے پورے قبائل میدان میں آجاتے تھے۔ طاقتور قبیلہ فتح کی صورت میں اپنے کمزور حریف کے گھروں کو آگ لگا دینے، ان کا مال و متاع لوٹ لینے اور ان کے بچوں کو غلام بنا لینے کو اپنا حق سمجھتا تھا۔ وہ قبیلے جو تلوار سے اپنی جان اور مال کی حفاظت نہیں کرسکتے تھے انہیں کسی طاقتور ہمسائے کی پناہ حاصل کرنے کے لیے خراج اَدا کرنا پڑتا تھا۔ اپنے مقتولین کا انتقام لینا ان کے نزدیک ایک مقدس فریضہ تھا۔ اگر قاتل مقتول کے مقابلے میں ادنیٰ حیثیت کا مالک ہوتا تو مقتول کے وارث قاتل کے خاندان یا قبیلے کے کسی بـڑے آدمی کو ذبح کر ڈالتے تھے۔ قاتل کے روپوش ہوجانے یا بھاگ نکلنے کی صورت میں اس کے بھائیوں، بیٹوں، پوتوں یا دوسرے عزیزوں اور رشتہ داروں سے انتقام کا سلسلہ مدتوں تک جاری رہتا۔ بوس، بعاث اور الفجار کی جنگیں جن کی ابتدا نہایت معمولی واقعات سے ہوئی تھی، انسانی تاریخ کی طویل ترین جنگیں تھیں۔ جب متحارب قبائل کی رگوں میں خون کے ذخیرے ختم ہوجاتے تھے اور زخمی بازوئوں میں تلوار اٹھانے کی سکت نہ رہ جاتی تھی تو شاعر حضرات اپنی شعلہ نوائی سے نفرت، عداوت اور انتقام جہنم کے لیے تازہ ایندھن مہیا کرتے تھے اور قتل و غارت اور لوٹ مار کا طوفان ازسرنو شروع ہوجاتا تھا۔ یہ خانہ جنگیاں کسی ایسی فارغ البال سوسائٹی کی جھلک پیش نہیں کرتی تھیں جس کے افراد جنگ یا آپس کی قوت آزمائی کو ایک کھیل سمجھتے ہوں، بلکہ یہ اس معاشرے کی عکاسی کرتی تھیں جس میں ہر طاقتور ہر کمزور سے زندگی کی قلیل ترین آسائشیں چھیننے پر آمادہ ہوجاتا تھا۔ صحرا کی بے آب و گیاہ وسعتوں میں زندگی کے وسائل کی کمی نے ایک قبیلے کو دوسرے کے لیے مستقل شکاری بنادیا تھا۔ باہر کے تہذیب و تمدن اور سیاسی مدوجزر کا اُن پر کوئی اثر نہ پڑتا تھا۔
اہلِ عرب مشرق و مغرب کی ان سلطنتوں کے اثر و اقتدار سے آزاد چلے آتے تھے جو گزشتہ صدیوں میں بارہا شام اور عراق کے میدانوں میں ایک دوسرے کے خلاف قوت آزمائی کرچکی تھیں۔ پانی کی کمیابی، جھلسا دینے والی گرمی، بے نشان راستے اور خوراک کی بے پناہ قلت جو عام حالات میں اُن کے دشمن تھے، خطرے کے وقت ان کے سب سے بڑے محافظ ثابت ہوتے تھے، اور یہی وجہ تھی کہ مصر، ایران، روم اور شام کی سمتوں سے وقتاً فوقتاً جو سیلاب اُٹھتے تھے وہ عرب کی سرحدوں پر آکر رُک جاتے تھے۔
اپنے تیرہ و تار ماحول، اپنی جہالت، اپنی خانہ بدوشانہ زندگی اور ہر اجتماعی یا ملّی ولولے سے تہی دامن ہونے کے باوجود ایک عام عرب کی ’’اَنا‘‘ روم و ایران کے شہنشاہوں سے کم نہ تھی۔ اگر وہ جاہل تھے تو انہیں اپنی جہالت پر فخر تھا۔ اگر ان میں کسی قومی وحدت یا ملّی اتحاد کا فقدان تھا تو وہ اپنی خاندانی اور قبائلی تنگ نظری پر نازاں تھے۔ اگر ان کے شعر و ادب نے انہیں خانہ جنگی کے جہنم میں دھکیل دیا تھا یا ان کے لیے فحاشی و بے حیائی کے دروازے کھول دیئے تھے تو اس میدان میں بھی اُن کے احساسِ برتری کا یہ عالم تھا کہ وہ باہر کی تمام دنیا کو عجم یعنی گونگا تصور کرتے تھے، انہیں اس ماضی پر فخر تھا جس کے اوراق صرف بے مقصد، بے نتیجہ اور غیر مختتم قبائلی جنگوں کی ہولناکیوں سے لبریز تھے۔ انہیں اس حال کے متعلق کوئی پریشانی نہ تھی جس کی تاریکیوں میں ہر آن اضافہ ہورہا تھا، اور انہیں اس مستقبل کی کوئی فکر نہ تھی جو اپنے دامن میں ان کے لیے مزید خونریزیوں اور مزید تباہ کاریوں کے طوفان لیے ہوئے تھا۔
پھر یکایک فاران کی چوٹیوں سے آفتابِ رسالت طلوع ہوا، اور تاریکیوں کے اس مسکن سے ہدایت کے نور کے چشمے پھوٹ نکلے۔ آج ہم چودہ صدیوں کے بعد انسانیت کے اس محسن اعظمؐ کا یوم ولادت منارہے ہیں جس نے قبائلی اور نسلی عصبیوں کے صنم کدے مسمار کرکے اہلِ عرب کو ایک ملّی وحدت کا شعور عطا کیا تھا۔ مدینہ کے انصار اور مکہ کے مہاجرین کے درمیان اخوت کا رشتہ اس عظیم عمارت کا سنگِ بنیاد تھا جس میں صرف عرب کی دم توڑتی اور سسکتی ہوئی انسانیت کو ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے امن اور انسانیت کے متلاشیوں کو پناہ ملی تھی۔
عرب پر اسلام کی فتح کسی ایک قبیلے کی دوسرے قبیلے پر فتح نہ تھی، بلکہ یہ اس نظام حیات کی فتح تھی جس نے قبیلوں اور خاندانوں کے درمیان سے منافرت کی آگ کے پہاڑ ہٹا کر انہیں ایک رشتۂ اخوت میں منسلک کردیا تھا۔ اسی طرح ایران، شام، مصر اور عراق پر عربوں کی فتوحات ایک قوم پر دوسری قوم کا غلبہ نہ تھیں بلکہ یہ ایک ایسے نظام کی فتح تھی جو باقی دنیا کے ہر نظام پر حاوی تھا۔
عرب کے اندر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم ترین احسان یہ تھا کہ وہ قبائل اور خاندان جو مدتوں سے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار چلے آتے تھے، ایک ہوگئے۔ اور عرب سے باہر آقائے عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان یہ تھا کہ وہ اقوام جو صدیوں سے ایک دوسرے کو اپنا دُشمن سمجھتی چلی آرہی تھیں، ایک دوسرے سے بغل گیر ہورہی تھیں۔
نورِ رسالت کی پہل لہر نے اہلِ عرب کو ایک پرچم تلے جمع کردیا تھا اور دوسری لہر نے شام، عراق، مصر اور ایران کے باشندوں کو ایک بین الاقوامی رشتۂ اخوت میں منسلک کردیا تھا۔ چنانچہ زمانے کے مؤرخ قادسیہ اور یرموک کے میدانوں میں اگر عربوں کے ناقابلِ یقین اتحاد کا منظر دیکھ رہے تھے تو چند برس بعد وہ مشرق و مغرب کے دُور افتادہ ممالک میں اس ناقابلِ تسخیر سیلاب کا مشاہدہ کررہے تھے جس نے اسلام کی بین الاقوامی اخوت کی آغوش میں جنم لیا تھا۔
آج بھی پاکستان میں آقائے عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کو سمجھنے کی ضر ورت ہے کہ ہمیں بھی صرف اسی ضابطۂ اخلاق کی پیروی علاقائی تنگ نظری اور نسلی منافرتوں کے فتنوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے جس نے چودہ صدی قبل کے منتشر قبائل کو ایک وحدتِ ملّی کے اندر جذب کرکے ان کے لیے لازوال کامرانیوں کی راہیں کھول دی تھیں۔ اگر خدانخواستہ ہم اس جادۂ مستقیم سے بھٹک گئے تو ہم ایک ایسی عمارت تعمیر کررہے ہوں گے جس کی کوئی بنیادہی نہ ہو۔
(روزنامہ کوہستان،24اگست 1961ء)