ہمارے طالبان سے رابطے موجود ہیں

پاکستان میں افغانستان سفیر عمر زاخیل کی جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو

پاکستان میں افغان سفیر عمر زاخیل وال نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں بنیادی مسئلہ بداعتمادی کا ہے، منفی رجحان کو رد کرنا اور دو طرفہ غصے کو ٹھنڈا کرنا چاہیے۔ طاہر داوڑ سانحہ کی ہینڈلنگ کو کئی حوالوں سے مزید بہتر کیا جاسکتا تھا، مجھے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے طاہر داوڑ کی لاش افغان علاقے کے چند سو میٹر اندر سے ملنے کا علم ہوا، اس سے پہلے نہ مجھے اور نہ ہی حکومت کو طاہر داوڑ کے بارے میں کچھ علم تھا، اس اطلاع کے بعد میں نے کابل اور جلال آباد رابطہ کیا تو جلال آباد نے لاش کی تصدیق کی لیکن کابل حکومت اس حوالے سے مکمل آگاہ نہیں تھی، میرا مشورہ تھا کہ حالات کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے عزت و احترام کے ساتھ لاش حوالے کی جائے، اور ایسا ہی ہوا۔ طاہر داوڑ کی لاش مسخ شدہ اور بری حالت میں ملی تھی، ان کی لاش کو غسل دیا گیا اور کفن کا بندوبست کرکے عزت سے رکھا گیا تھا۔ اس واقعہ نے ہمدردی، تعزیت اور جذبات کو تقویت دی جنہیں مثبت نظر سے دیکھنا چاہیے، ایسے واقعات باہمی اتحاد کا سب بننے چاہئیں۔ کچھ لوگوں کے منفی نقطہ نظر سے اس واقعہ کو نہیں پرکھنا چاہیے، ذمے دار لوگوں کو میڈیا اور سوشل میڈیا کے منفی تاثر میں نہیں جانا چاہیے، سیاسی رہنماؤں، افسران اور دیگر حکام کو ایسے منفی رجحانات کو رد کرنا اور دو طرفہ غصے کو ٹھنڈا کرنا چاہیے۔ بے شک یہ ایک اندوہناک سانحہ ہے، ایسے واقعات سے دونوں ممالک کو قریب آنا چاہیے۔ عمر زاخیل وال کا کہنا تھا کہ طاہر داوڑ کی لاش افغان سرزمین سے ملی، اس کی تحقیقات ہمارے متعلقہ اداروں کی ذمے داری ہے، بدھ کے روز طاہر داوڑ کی لاش کی تصدیق ہوئی لیکن وہاں ہمارے پاس پوسٹ مارٹم کی سہولت موجود نہیں تھی، جمعرات تک کابل سے لوگ آئے جنہوں نے لاش کا پوسٹ مارٹم کیا، جمعرات کو دوپہر طورخم سے لاش لنڈی کوتل روانہ کردی گئی تھی، آخرکار لاش براستہ طورخم پاکستانی حکام کو ہی ملی اور ان کے ساتھ لواحقین بھی موجود تھے، ریاست پاکستان کے حکام نے ہی یہ لاش بذریعہ ہیلی کاپٹر طورخم سے لنڈی کوتل اور پھر لنڈی کوتل سے آگے منتقل کی۔ اس معاملے میں عدم برداشت اور عجلت سے کام لیا گیا اور رابطے کا فقدان بھی نظر آیا۔ لوگوں کے انفرادی بیانات اور خیالات کے ذریعے پرکھنے کے بجائے عمل کو پرکھنا چاہیے۔ عمر زاخیل وال نے کہا کہ طاہر داوڑ سولہ دن تک غائب رہا، اگر ریاست پاکستان سولہ دن انتظار کرسکتی تھی تو چند گھنٹے مزید بھی کرلیا جاتا، یہ چند دنوں کا نہیں چند گھنٹوں کا معاملہ تھا۔ وہ پرسوں دوپہر کو وہاں گئے، شاید انہیں امید تھی کہ لاش بارہ بجے مل جائے گی، ہوسکتا ہے وہ لاش انہیں دو بجے یا پانچ بجے ملی ہوگی، لیکن اس سے پہلے ہی ان کو لاش مل چکی تھی۔ وزیرمملکت برائے داخلہ پاکستان کچھ گھنٹوں کی تاخیر کا تو گلہ کررہے ہیں لیکن اگر طاہر داوڑ سولہ دن سے لاپتا تھا تو کوئی بڑی بات ہی نہیں تھی! ذمے دار لوگوں کی ذمے داری ہے کہ وہ بڑے مسائل کو باہمی طور پر حل کریں، لیکن وہ چھوٹی باتوں کو بڑا بنارہے ہیں تو ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے افغان سفیر عمر زاخیل وال نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بنیادی مسئلہ بداعتمادی کا ہے، اس عدم اعتماد کے باعث مثبت چیزیں بھی منفی میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ دونوں ممالک کو آپس میں کھل کر بات کرنے کے لیے بداعتمادی کو ختم کرنا ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کو ایک دوسرے کے خدشات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مخلصانہ طور پر کوشش کی جائے تو دونوں ممالک میں مسائل کا خاتمہ مشکل نہیں ہے۔ میں نے پاکستان میں بطور افغان سفیر اس بداعتمادی کے خاتمے کے لیے اپنے طور پر کچھ اقدامات اٹھائے جسے دونوں اطراف نے سراہا۔ اس سے قبل دونوں ممالک نہ ایک دوسرے کی بات سن رہے تھے، نہ ایک دوسرے کے قومی مفادات کو دیکھتے تھے۔ اس بے اعتمادی نے نہ صرف افغانستان کو متاثر کیا بلکہ پاکستان بھی اس کا شکار ہوا۔
ایک سوال کے جواب میں عمر زاخیل وال کا کہنا تھا کہ افغان حکومت پاکستان سے ایسی پالیسیاں چاہتی ہے جو افغانستان میں امن و استحکام کی ضامن ہوں، پاکستان افغانستان کو ایک آزاد ریاست اور پاکستان کے مخلص دوست کے طور پر دیکھے، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو یہ پاکستان کا ایک جائز مطالبہ ہے، پاکستان کو اس بات کا یقین دلانا افغانستان کے اپنے قومی مفاد میں بھی ہے۔ عمر زاخیل وال نے کہا کہ طالبان بھی انسان اور افغان ہیں، ہماری طرح وہ بھی متاثر ہوئے ہیں، یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ طالبان تباہی سے لطف اندوز ہوتے ہیں، بہت سے سخت معاملات بات چیت سے حل ہوجاتے ہیں، اسی لیے ہم مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے براہِ راست مذاکرات نہیں ہورہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا اُن سے رابطہ نہیں ہے، ہمارے طالبان سے رابطے موجود ہیں جن میں زیادہ تر روابط غیرسرکاری ہیں، میں نے بھی یہاں طالبان سے رابطے کیے، اُن سے بات چیت ہوئی بلکہ مباحثے بھی ہوئے، طالبان کو قائل کرنے کےلیے پُرامید ہیں کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کےلیے دیگر راستے اختیار کریں گے۔ افغان عوام نے امریکہ کی طرف سے طالبان سے مذاکرات میں پہل کو خوش آمدید کہا ہے تاکہ ہمارے ملک میں امن و استحکام آسکے۔ روس میں ہونے والے مذاکرات میں امن کونسل کا نمائندہ شریک تھا جس نے افغان حکومت کی کم اور افغان عوام کی نمائندگی زیادہ کی۔
پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے متعلق سوال پر عمر زاخیل وال کا کہنا تھا کہ میں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو غیر معمولی انسان پایا ہے، میں نے اُن کو بات چیت کے دوران کھلے ذہن والا، صاف گو انسان پایا، انہوں نے ہر بات بڑی توجہ سے سنی، وہ ایک اچھے سننے والے ہیں، میں اُن سے کافی ملاقاتیں کرچکا ہوں اور اُن کے ساتھ ذاتی مراسم بھی بنائے ہیں، وہ بہت دل موہ لینے والے آدمی ہیں، وہ یہ سب کچھ ہمدردی کے طور پر نہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں کررہے ہیں، میں نے اُن کو فوج کے سالار اور بطور آرمی چیف سمجھنے کی کوشش کی، اور میری کچھ تجاویز اور مشورے بھی انہوں نے سنے، میں نے اُن کو یکم اکتوبر 2017ء کو کابل کے دورے کی دعوت دی، انہوں نے یہ دورہ کیا اور یہ بہت اچھی ملاقات تھی۔ میری جنرل باجوہ سے مسلسل بات چیت ہوتی رہی، آخرکار ہم اس طرح ایک نتیجے پر پہنچ گئے اور ستائیس مئی کو پھر ملاقات ہوئی، جس میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور این ڈی ایس چیف اور وزیرداخلہ موجود تھے، ان کے گھر پر سات سے آٹھ گھنٹے تک طویل بات چیت ہوئی اور پھر بارہ جون کو کابل کا دورہ کیا، عیدالفطر پر سیزفائر میں جنرل باجوہ اور ان کے ادارے کا کردار رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام معاملات میری اور جنرل باجوہ کی ملاقاتوں کے نتیجے میں ہوئے، اس لیے میں اُن کے کردار کو سراہتا ہوں، جنرل باجوہ مجھ سے بہت عزت سے ملے، نہ صرف انہوں نے میرے ساتھ اچھا سلوک کیا بلکہ پاکستان کے تمام رہنماء بشمول سابق وزیراعظم، موجودہ وزیراعظم، وزراء، سابق آرمی چیف، سیاسی رہنماء اور میڈیا سے وابستہ تمام لوگ بڑی عزت سے پیش آئے، مجھے امید ہے اس عزت و احترام کو بنیاد بنا کر ہم باہمی تعلقات کو فروغ دے پائیں گے۔ میں مستقبل کے بارے میں پُرامید ہوں۔ اس قسم کے واقعات تکلیف دہ ہیں، اس لیے کہوں گا کہ طاہر داوڑ کا معاملہ ہمیں پٹری سے نہ اتار دے۔
افغان سفیر عمر زاخیل وال کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی مولانا سمیع الحق کو خطرے کے طور پر نہیں دیکھا، مولانا سمیع الحق اب اس دنیا میں نہیں رہے، میں پہلا آدمی تھا جس نے اُن کے بیٹے اور نائب سے تعزیت کی، میں نے مولانا سمیع الحق سے کئی ملاقاتیں کیں۔ عوام میں ان کی شہرت بالکل مختلف تھی۔ مثال کے طور پر وہ ”فادر آف طالبان“ کے نام سے جانے جاتے تھے، کہا جاتا تھا کہ وہ طالبان کو کنٹرول اور رہنمائی کرتے تھے۔ لیکن ان سب باتوں میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ وہ کئی موقعوں پر طالبان کے حق میں بیانات دیتے تھے مگر ان کا طالبان پر کنٹرول نہیں تھا۔ کئی سابق طالبان رہنماؤں کا تعلق مدرسہ حقانیہ سے تھا لیکن وہ مدرسہ حقانیہ سے مدد نہیں لیتے تھے کہ اس سے وہ کوئی بڑا اثر ڈال سکیں۔ ایک دفعہ میں نے مولانا سمیع الحق سے رابطہ کیا تو انہوں نے ان تمام الزامات پر افسوس کا اظہار کیا۔ مولانا سمیع الحق کی طرح مولانا فضل الرحمٰن کا بھی عوام میں ایسا ہی تشخص ہے کہ وہ پاکستان کا ماسٹر مائنڈ مذہبی لیڈر ہے جس کا طالبان پر کنٹرول ہے، جبکہ ہم جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کا طالبان پر زیادہ اثر رسوخ نہیں ہے، کچھ اثر ضرور ہے لیکن عوامی خیالات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا سمیع الحق دونوں سے عوام میں پوزیشن پر بات کی تو انہوں نے آپ جیسے کچھ صحافی حضرات کو اس کا ذمے دار ٹھیرایا جو آتے ہیں اور انہیں اس طرح کے ناپسندیدہ بیانات کی طرف دھکیل دیتے ہیں جو امن کےلیے مددگار ثابت نہیں ہوتے۔ ہم نے ایسی بات چیت کی ہے جو بعض دفعہ مددگار ثابت ہوئی۔
عمر زاخیل وال نے کہا کہ افغانستان واپس جاکر ایک معمولی افغان شہری کے طور پر پُرامن افغانستان میں زندگی گزارنے کو ترجیح دوں گا بجائے اس کے کہ ایک غیرمستحکم افغانستان میں صدر بنوں۔ افغانستان میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کروں گا، میری یہاں ذمے داری ختم ہورہی ہے اور میں نے پلان بھی کیا ہے، کئی اہم پیشکشیں موجود ہیں، میں نے کچھ ترتیب بنائی ہے، یقیناً جو بھی میرے لیے اور میرے ملک کےلیے اچھا ہوگا اس کو دیکھ کر فیصلہ کروں گا۔ اگر کوئی شاندار موقع میسر آیا اور اپنے آپ کو اس قابل سمجھا تو ضرور سوچوں گا، مجھے امید ہے میرے پاکستانی دوست جب کابل آئیں گے تو مجھے میزبانی کا موقع دیں گے۔