کیا وزیراعظم عمران خان کا نیا پاکستان پرانے اور روایتی سیاست پر مبنی ترقی کے ماڈل سے باہر نکل سکے گا؟ اورکیا ایک ایسی ترقی حاصل کرسکے گا جس کی مجھ سمیت بہت سے لوگ توقع رکھتے ہیں؟ وزیراعظم عمران خان کی سیاست بنیادی طور پر تبدیلی کے نعرے سے کھڑی ہوئی تھی اور اُن کا دعویٰ تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد حقیقی تبدیلی کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ موجودہ حکومت سے کئی طرح کی توقعات رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف پہلی بار حکمرانی کے ایک نئے تجرباتی عمل سے گزر رہی ہے اور مجھ سمیت بہت سے لوگ عمران خان کے حکمرانی کے انداز پر نظر رکھے ہوئے ہیںکہ تبدیلی کس طرح آتی ہے، کیا عمران خان روایتی سیاست سے نکل سکیں گے، جس کے بعد پاکستان حقیقی ترقی کی طرف سفر کرے گا۔کیونکہ ایک بات طے ہے کہ جس انداز سے ہم ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں وہ عملی طور پر ترقی نہیں بلکہ چند مخصوص خاندانوں کی ترقیکے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
پاکستان میں اگر سرکاری سطح پر سیاسی، سماجی، معاشی اور ترقیاتی امور سے متعلق اعدادوشمار دیکھیں تو کئی سطح پر تفریق اور محرومی کی سیاست غالب نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ ہماری ریاستی اور حکومتی پالیسیوں اور ذاتی مفادات کو فوقیت حاصل ہے۔ اس کا نتیجہ عام اور کمزور طبقات پر پہلے سے موجود استحصال میں مزید اضافے کی صورت میں سامنے آتا ہے، اور یہ عمل بنیادی طور پر ریاست، عوام اور حکمرانوں کے درمیان لاتعلقی اور عدم اعتماد کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ہماری ترقی کا بیانیہ اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ بالخصوص بنیادی نوعیت کے انسانی حقوق جو ترقی کے ساتھ جڑے ہیں اور جن کا ادا کرنا عملاً ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہے، اس میں ہم مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو بدحالی پیدا ہورہی ہے اُس کا حکمران طبقات کو ادراک ہی نہیں کہ وہ اس ملک کو ترقی کے نام پر کہاں لے کر جارہے ہیں، اور اس ترقی کو بنیاد بناکر کس کی ترقی کے عملی ماڈل کو تقویت دے رہے ہیں!
دنیا میں ترقی کی نئی نئی جہتیں سامنے آرہی ہیں، جبکہ اس کے برعکس ہم ابھی تک روایتی طرز کی ترقی کے سفر کو فوقیت دے کر فرسودہ نظام چلانے پر بضد ہے۔آج کی ترقی میں بنیادی نکتہ انسانی ترقی ہے۔ انسان سے مراد محض انسان ہونا نہیں بلکہ ایسے مرد اور عورتیں جو عملی طور پر محرومی اور بدحالی کا شکار ہیں اُن کو ترقی کے قومی دھارے میں لانا ہوتا ہے۔ آج دنیا میں ترقی کے جن نئے نئے اشاریوں کی بنیاد پر ترقی کو جانچا جاتا ہے اس میں محروم طبقات کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، اور اسی کو بنیاد بناکر ملکوں کی ترقی کی کامیابی اور ناکامی کو جانچا جاتا ہے۔ اس لیے آج متعلقہ عالمی ادارے ہماری ترقی کی بنیاد پر جو اعدادو شمار پیش کرتے ہیں یا ملکوں کی درجہ بندی کرتے ہیں تو اس سے ہمیں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر ہماری ساکھ پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہم عالمی امداد کے باوجود ترقی کے معاملات میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمارے مقابلے میں بہت سے دیگر ممالک ترقی کو بنیاد بناکر ہم سے بہت آگے چلے گئے ہیں، جبکہ ہم اپنے داخلی تضادات کے باعث وہ کچھ نہیں کرسکے جو عملی طور پر ہمیں عام آدمی کے تناظر میں کرنا چاہیے تھا۔
بنیادی مسئلہ ترقی کا زاویہ ہے، اور ہم ترقی کی نئی جہتوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں، اور نہ ہی دنیا میں ترقی کے جو نئے ماڈل یا تجربات ہیں اُن سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم انسانی ترقی سے زیادہ انتظامی ڈھانچے کو ترقی کی بنیادی کنجی سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتظامی ترقی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انتظامی ترقی کو بنیاد بناکر انسانی ترقی کو نظرانداز کردیا جائے ۔ ایک مسئلہ اس ملک میں ترقی کے تناظر میں بہت سے فکری مغالطے بھی ہیں جن کو جان بوجھ کر ترقیاتی امور سے جڑے اہلِ دانش پیش کرتے ہیں۔ ہم انسانوں کی ترقی کو نظرانداز کرکے جس ترقی کا سیاسی، سماجی اور قانونی جواز پیش کرتے ہیں اُس کی منطق بھی سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے۔ اصل میں اہلِ دانش کا بھی ایک بڑا گروپ ریاستی اور حکمران طبقات کی ترقی کے ماڈل سے خود کو جوڑ کر اپنے مفادات کا کھیل کھیلتا ہے، اور اُس کی چاپلوسی اور ذاتی مفاد پر مبنی دانش نے ہماری ترقی کے معاملات کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔
پاکستان میں محرومیاں بڑھ رہی ہیں۔سیاسی، سماجی، معاشی عدم انصاف اور غربت جیسے سنگین نوعیت کے مسائل نے ہماری ترقی پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں جو بھی فیصلہ ساز، صاحبِ اختیار اور وسائل تک رسائی رکھنے والے لوگ ہیں اُن کی ترقی کا فریم ورک عام اورکمزور آدمی کے ترقی کے فریم ورک سے مختلفبلکہ متصادم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں اور عوام کی ترجیحات میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف جیسے بنیادی نوعیت کے شعبوں میں سمجھوتوں کی سیاست اور ان شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری نہ کرنے کے رجحان نے ہماری ترقی میں منفی تاثر کو زیادہ مضبوط کیا ہے۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ہم جو وسائل خرچ کررہے ہیں وہ شرمناک حد تک کم ہیں، اور تمام تر دعووں کے باوجود ہم ان اہم شعبوں کو نظرانداز کرکے لوگوں کو اور زیادہ لاتعلق کررہے ہیں۔ ریاست نے عوامی فلاح و بہبود کے تمام بنیادی نوعیت کے شعبوں کی نج کاری کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے جس نے عام آدمی کی زندگی کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ عام آدمی کے تناظر میں ریاست اور اُس کے بنائے ہوئے بنیادی حقوق سے متعلق قوانین اور آئین کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، یا ریاست اور شہریوں کے باہمی تعلق کو کیسے مضبوط اور مستحکم بنایا جاسکتا ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سرمائے اور منافع کی بنیاد پر چلنے والی جمہوریت اب دنیا بھر میں کئی طرح کی ناکامیوں سے دوچار ہے۔لیکن ان ناکامیوں کا ملبہ بھیطاقت ور طبقات کے بجائے کمزور طبقات پر گر رہا ہے۔ اس گلوبل سیاست اور معیشت کے فریم ورک میں بہت سی پالیسیوں کو ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی قبول کرنا پڑتا ہے۔ ان پالیسیوں کا نزلہ بھی عام آدمی پر گرتا ہے۔ اس لیے ہمارے تبدیلی سے جڑے ماہرین کو موجودہ جمہوری اور سیاسی فریم ورک پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ اس کی موجودگی میں حقیقی تبدیلی کا عمل کیسے ممکن ہوگا! کیونکہ ہم جن بڑی تبدیلیوں کی خواہش رکھتے ہیں وہ ایک بڑی نوعیت کی تبدیلی، جو بنیادی طور پر نظام میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا ترقی پر جو بیانیہ موجود ہے جسے وہ بڑی شدت سے پیش کرتے رہے ہیں، اس میں انسانی ترقی کو فوقیت حاصل ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی وہ اسی سوچ اور فکر کے ساتھ ترقی کے تناظر میں اپنا مقدمہ پیش کررہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس نظام کی موجودگی میں وہ سب کچھ کرپائیں گے جو وہ چاہتے ہیں؟ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ اس کے لیے ہماری ریاست، حکومت اور پالیسی سازوں کو کڑوی گولیاں خود بھی نگلنی پڑیں گی اور دوسروں کو بھی کھلانی پڑیں گی۔ ہماری ترقی کے تناظر میں جو پانچ سالہ منصوبہ پلاننگ کمیشن میں بنتا ہے اس کے فریم ورک کو بدلنا ہوگا، اور مقامی ترقی سے جڑے اداروں کو اہمیت دے کر ادارہ سازی کے عمل کو بڑھانا ہوگا۔ مقامی ترقی جتنی زیادہ مضبوط اور ٹھوس حقائق پر مبنی ہوگی اتنا ہی محرومی کی سیاست کا خاتمہ ہوگا۔
یہ جو شہروں، دیہات اور چھوٹے، بڑے شہروں کے درمیان منصوبہ بندی کے معاملات میں فرق موجود ہے اُس کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ ہم جب تک ترقی کے عمل میں فیصلہ سازی کے عمل کو سب فریقین کی مشاورت سے آگے نہیں بڑھائیں گے پائیدار ترقی ممکن نہیں۔ یہ جو ہم نے دنیا کے سامنے پائیدار ترقی کے اہداف 2015-30ء طے کررکھے ہیں، اسی طرز کے دیگر سماجی معاہدات کو جب تک اپنی ترقی کی منصوبہ بندی سے نہیں جوڑیں گے، کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کا عمل ہی ایک ایسی ترقی کی بنیاد کو مضبوطی فراہم کرسکتا ہے جو لوگوں کی توقعات اور خواہشات کے مطابق ہو۔
ہماری سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور سیاسی قیادتوں کے مسائل عام آدمی کے مسائل سے مختلف ہیں، اور اس تضاد نے عملی طور پر ہماری سیاست اور جمہوریت کو بھی کمزور کیا ہے۔ میڈیا میں عام آدمی کے مسائل تو بہت حد تک پیش کیے جاتے ہیں مگریہ مسائل کیسے حل ہوں گے، اس پر مباحث خاصے کمزور ہیں، اور جن لوگوں کے حقیقی مسائل ہیں وہ ان مباحث میں کہیں نظر نہیں آتے۔ حقیقی ترقی میں ایک بنیادی نوعیت کا مسئلہ ہماری منصوبہ بندی کی غیر شفافیت پر مبنی نگرانی اور جوابدہی کے نظام کا نہ ہونا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم منصوبہ بندی تو بہت کرتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد کے نظام میں سیاسی، سماجی اور قانونی رکاوٹیں ہیں جن پر ہم مؤثر کام کرنے سے قاصر ہیں۔
ہمیں ترقی کے بڑے بڑے ماڈل بنانے کے بجائے زیادہ توجہ چھوٹے ماڈلز پر دینی چاہیے۔اسی طرح اس نکتے پر غورکیا جانا چاہیے کہ ترقی کے تناظر میںافراد کی تربیت یا کردار اور شخصیت سازی کا عملکیسے ہوگا۔ جہاں کردار سازی کا عمل کمزور ہو وہاں انسانی ترقی کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ سوچ بڑھنی چاہیے کہ انسان کو اپنی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرے یا سماج کی ترقی کا حصہ بننا ہوگا، کیونکہ اس کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ سماج کی تبدیلی بنیادی کلید ہے جس پر توجہ دینی چاہیے۔ وگرنہ مصنوعی اور روایتی طرز کی ترقی کا ماڈل ملک میں لوگوں کے اندر سوائے محرومی کے، کچھ بھی پیدا نہیں کرسکے گا۔
بےبنیاد امریکی الزامات سے افغانستان میں تعاون کو نقصان پہنچ سکتا ہے
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق منگل کو امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور پال جونز کو طلب کیا گیا اور صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے بلاجواز اور بے بنیاد الزامات پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ سیکریٹری خارجہ نے امریکی صدر کے تازہ ٹوئٹس اور بیان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی ناظم الامور کو بتایا کہ پاکستان کے خلاف اس قسم کی بےبنیاد بیان بازی بالکل قابلِ قبول نہیں۔ یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ دو دن کے دوران پاکستان کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو اور ٹوئٹس میں متعدد الزام تراشیاں کی ہیں۔ پیر کو اپنے ایک ٹوئٹ میں انھوں نے کہا کہ ”ہم پاکستان کو اربوں ڈالر اب اس لیے نہیں دیتے کیونکہ وہ پیسے لے لیتے ہیں اور کرتے کچھ نہیں۔ بن لادن اس کی بڑی مثال ہے اور افغانستان ایک اور۔ وہ ان کئی ممالک میں سے ایک ہے جو امریکہ سے لیتے تو ہیں لیکن جواب میں دیتے کچھ نہیں۔ یہ اب ختم ہورہا ہے“۔ اس سے قبل اتوار کو امریکی ٹیلی ویژن چینل فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے عندیہ دیا تھا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں رکھا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا: ”پاکستان میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ (اسامہ بن لادن) فوجی اکیڈمی کے قریب رہتے ہیں۔ اور ہم انھیں 1.3 ارب ڈالر سالانہ امداد دے رہے ہیں۔ ہم اب یہ امداد نہیں دے رہے۔ میں نے یہ بند کردی تھی کیوں کہ وہ ہمارے لیے کچھ نہیں کرتے“۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے بیان کو مسترد کرتے ہوئے سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے امریکی ناظم الامور کو یاددہانی کرائی کہ پاکستانی انٹیلی جنس تعاون ہی سے اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکیں۔ سیکریٹری خارجہ نے امریکی ناظم الامور کو بتایا کہ کسی اور ملک نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنی بھاری قیمت ادا نہیں کی جتنی کہ پاکستان نے کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی قیادت نے کئی مواقع پر القاعدہ کی قیادت کے قلع قمع اور خطے سے دہشت گردی کے خطرے کے خاتمے کے سلسلے میں پاکستان کے تعاون کا اعتراف کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو نہیں بھولنا چاہیے کہ القاعدہ کے کئی اہم ترین رہنما پاکستان کے تعاون سے ہی ہلاک یا گرفتار ہوئے۔بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں عالمی برادری کی کوششوں کی حمایت جاری رکھی ہے اور امریکہ کی جانب سے افغانستان کے مسئلے کے سیاسی حل کی کوششوں کے اعلان کے بعد امریکہ اور پاکستان خطے کی دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر اس طویل عرصے سے جاری تنازعے کے خاتمے کے لیے کوشاں تھے۔ پاکستانی دفترِ حارجہ کا کہنا ہے کہ ایسے نازک موڑ پر تاریخ کے ایک بند باب کے بارے میں بےبنیاد الزامات اس اہم تعاون کے لیے نقصان دن ثابت ہوسکتے ہیں۔ خیال رہے کہ دفترِ خارجہ کے احتجاج سے قبل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض ہے کہ پاکستان کبھی بھی نائن الیون میں ملوث نہیں رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اپنی ٹوئٹ میں عمران خان نے کہا کہ اس جنگ میں پاکستان نے 75ہزار افراد کی قربانی دی اور 123 ارب ڈالر کا مالی خسارہ برداشت کیا، جبکہ اس بارے میں امریکی امداد صرف 20 ارب ڈالر کی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں پاکستان کے قبائلی علاقے تباہ ہوئے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے۔ اپنی ٹوئٹ میں عمران خان نے امریکی صدر سے پوچھا ہے کہ کیا وہ اپنے کسی دوسرے اتحادی ملک کا نام بتا سکتے ہیں جس نے شدت پسندی کی جنگ میں اتنی قربانیاں دی ہوں۔ (بی بی سی اردو)