خوشحالی کے خواہش مند عوام اور موقع پرستی کی دلدل میں پھنسے ہوئے سندھ کے اہل دانش

تحریر:لطیف جمال
سندھی زبان کے معروف کالم نگار اور دانشور لطیف جمال نے صوبہ سندھ کے موجودہ سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں کثیرالاشاعت سندھی روزنامہ ’’کاوش‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر بروز منگل 13نومبر 2018ء کو درج بالا عنوان سے تحریر کردہ اپنے کالم میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کا ترجمہ برائے معلومات و دلچسپی پیش خدمت ہے۔
’’امریکی سائنسی ادب کے بہت بڑے نام ’’رابرٹ اے ہینکین‘‘ نے جسے سائنسی ادب لکھنے پر کئی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا، دوسری جنگِ عظیم کی تباہیوں کے پس منظر میں لکھی گئی کتاب ’’ورلڈ وار ٹو‘‘ میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کی جانب سے پھینکے گئے ایٹم بموں کے باعث وہاں زہریلے ایٹمی اثرات پھیلنے کے بعد کمرِ ہمت کس کر میدانِ عمل میں اُترنے والے جاپانیوں کے بارے میں خامہ فرسائی کی تھی کہ ’’مسلح معاشروں کے پسِ پردہ ایک مہذب سماج موجود ہوا کرتا ہے، بس محض زندگی کی ٹوٹی ہوئی کڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ ہینکین کی مذکورہ بالا بات سے اتفاق کرتے ہوئے جب سندھ کی سیاسی، سماجی، مذہبی، فکری، ادبی اور اخلاقی اقدار کا جائزہ لیا جائے تو سارے راستے مایوسی اور نااُمیدی کی سمت جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ کا معاشرہ شاید ہی اوپر بیان کردہ اُمور میں کسی تباہی سے دوچار ہونے کے بعد کسی انسانی تہذیبی اقدار کی بنیادیں استوار کرنے میں کامیاب ہوپائے گا۔
اہلِ سندھ بیزار ہونے کے باوجود بھی ایسی سیاسی پارٹیوں کی پیروی کرنے میں لگے ہوئے ہیں جن سے انہیں کسی بہتر سماج اور معاشرے کی تعمیر کی اُمید ہی دکھائی نہیں دیتی۔ سوال محض سندھی سماج کی دائمی بقا کا ہی نہیں، بلکہ سوال سندھ کی اُس شناخت کا ہے جو سندھی سماج کو درست راستہ دکھانے اور اپنے بنیادی فرائض کو نبھانے میں ناکام ہوچکی ہے۔ سندھ کا اہلِ دانش حلقہ اب نئے طبقے میں تبدیل ہوچکا ہے، جو اپنے مزاج میں حد درجہ قابلِ فروخت، موقع پرست اور مصلحتوں کا شکار ہوگیا ہے۔ سندھ میں نہ صرف سیاست نے ایک کاروباری شکل اختیار کرلی ہے بلکہ ادبی حلقہ بھی ایسے کاروبار کا بڑا Beneficiaryبنا ہوا ہے۔ کل تک بدترین حکمرانی کی مثال بنی ہوئی پارٹی کے حوالے سے ہمارے ادیبوں کا کردار جس قدر زیادہ تنقیدی رہا، اتنا ہی مشکوک بھی رہا کہ وہ نہ صرف بدترین حکمرانی کی بہتی ہوئی گنگا میں اشنان کرتے رہے بلکہ اپنے حواریوں کے لیے بھی سرکار سے فوائد سمیٹتے رہے۔ ایک طرف ہمارا دانشور اور باشعور طبقہ جو اپنی تحاریر کے ذریعے سندھ پر مسلط تاریک رات کے حوالے سے بہ ظاہر تنقید کرتا رہا، لیکن جب اُس نے محسوس کیا کہ اِس نظام سے وہ بھی بہتر طور سے شکم سیر ہوسکتا ہے تو اُس نے خاموش رہنے کو ترجیح دے کر براہِ راست سندھی سماج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ چوں کہ ہم اپنے مزاج میں خود موقع پرستیوں کا شکار ہیں اس لیے چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے سندھ کے مجموعی مفادات کے معاملے پر ہم اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ سندھ بھر میں ادیبوں اور شاعروں کی سوسائٹیاں قائم ہیں۔ ان کے ایک دوسرے سے مفادات وابستہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر آپ دیکھتے ہیں کہ ادیب اور دانشور ایک دوسرے کے مفادات کے لیے ماحول بناتے ہیں تاکہ فلاں ادیب یا شاعر وغیرہ سرکار کی نظرِ کرم سے محروم نہ رہ جائے۔ ایسی انتہائی بیمار سماجی فرسٹریشن میں مبتلا ہمارے دانشور اور ادیب سندھ کے تباہ شدہ سماج کو تبدیل کرنے کے لیے بھلا کون سا کردار اَدا کرسکیں گے؟ جہاں پر سیاست مختلف کاروباروں کی طرح ایک بیوپار بن چکی ہے وہاں پیپلز پارٹی، نواز لیگ یا عمران خان کے سونامی سے سندھ کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ سندھ بنیادی طور پر ایسے جاگیردارانہ سیاسی سماج کے اندر سانس لے رہا ہے جہاں مکمل مڈل کلاس سیاسی قیادت کا نمو پانا تاحال ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ جاگیردارانہ مجموعی سیاسی قیادت تبدیلی کی راہ میں ایک بڑی رُکاوٹ بنی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے یہ لگ رہا ہے کہ اس تمام سیاسی سماج کو انفرادی مقاصد کے حصول کے لیے سیاسی افراد اپنے ذاتی مفادات کی خاطر چلارہے ہیں، جن کا عوامی خدمت اور بہتر سیاسی و عوامی مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سندھ نے ماضی میں پیپلز پارٹی کو مختلف اسباب کی بنا پر ایوانوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ ایک جذباتی سیاسی وابستگی بھی اس کا سبب تھی۔ لیکن اب جبکہ اس ملک میں حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں، ایسے میں ہمارے اہلِ دانش و بینش کاکردار بھی مزید موقع پرستیوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے، جس کے نتیجے میں اہلِ سندھ بھی سیاسی طور پر کسی سیاسی پارٹی یا قیادت کو منتخب کرنے میں ناکام ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جب بھی بلاول بھٹو زرداری کی پارٹی ہدفِ تنقید بنتی ہے تو وہ پڑھی لکھی، سمجھ دار اور نوجوان قیادت کو مرکزی دھارے میں لانے کا دعویٰ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومتِ سندھ میں وزارتوں کے قلمدانوں کی جلدی جلدی تبدیلی بھی اسی جوش اور جذبے کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ معلوم نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کی پڑھی لکھی اور نوجوان قیادت سے مراد کیا ہوتی ہے؟ لیکن یہ حقیقت اب کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہی ہے کہ محض علمی قابلیت پر انحصار ہی سماج کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ علمی قابلیت کا حامل ہونا ایک اچھی بات ہے، مگر عوام سے فطری تعلق اور اس کے لیے دردِ دل کا پیدا ہونا ایک الگ معاملہ (یا بات) ہے۔ اس کے لیے آکسفورڈ یا ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرکے تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ اس کے لیے واہی پاندھی سے کشمور اور کیٹی بندر تک عوام کے درد اور کرب کو سمجھنا اور محسوس کرنا ضر وری ہوتا ہے۔ اگر بلاول بھٹو جیسا کوئی فرد آکسفورڈ جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے سے سند حاصل کرکے نکلتا ہے تو کیا وہ اپنے مزاج اور طبیعت میں بھی کوئی تبدیلی لاتا ہے؟ اِس وقت تک تو ایسے اشخاص کی ’’تعلیم‘‘ سندھ کو سنگین بحرانوں سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، لہٰذا روایتی طور پر یہ کہہ دینا کہ چہروں کی تبدیلی سے بدترین حکمرانی کو بہتر حکمرانی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، ایک غلط بات ہے۔ اس طرح کا ’’جگاڑ‘‘ کرنے سے سندھی عوام کو آج تک محض سرمہ ہی پہنایا جاتا رہا ہے، جس میں ہمارے دانشوروں نے ’’سہولت کاری‘‘ کا کردار انتہائی چالاکی سے نبھایا ہے۔ جنہوں نے سندھ کی بات کرتے کرتے ذاتی طور پر خود معاشی فوائد اور ثمرات حاصل کیے ہیں۔ اب اہلِ سندھ اس خوش فہمی کا شکار بھی نہیں ہیں کہ سندھ کے جاگیردار گھرانے میں کوئی ایسا بچہ جنم لے سکتا ہے جو اپنے مزاج میں گوتم بدھ کی طرح بادشاہی کو ٹھکرا کر اپنی درویشانہ طبیعت سے سندھ میں تبدیلی کی کوئی بڑی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ اس لیے موجودہ سیاسی ’اسٹیٹس کو‘ میں پیپلز پارٹی سے اگر یہ اُمید باندھی جائے کہ وہ نئے چہروں اور شکلوں کو لاکر سندھ میں بہتر حکمرانی کی مثالیں قائم کرے گی، تو یہ امر اب عقل و فہم سے بالاتر ہوچکا ہے۔ یہ تبدیلی دراصل فطری انسانی جذبے کے تحت ہی ممکن ہوتی ہے۔ سندھ کے بھوتاروں اور جاگیرداروں کی بنیادی کمزوری لگاتار اقتدار میں رہنا اور اپنے مفادات کا حصول ہے۔ انہیں سندھ کی خوشحالی اور ترقی میں ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں ہے، جو بقول لارڈ بائرن ’’دولت کو الٰہ دین کا چراغ سمجھتے رہے ہیں‘‘، جب کہ سندھ کا باشعور اور اہلِ دانش طبقہ جس کے پاس گنوانے کو کچھ بھی نہیں ہے اور فروخت ہوکر حاصل کرنے کے لیے سب کچھ ہے، کسی نہ کسی طور سے پی پی کے گناہوں کو چھپانے کے لیے اپنی قیمت وصول کرنے میں مگن ہے، جن کی سندھ کے ساتھ پہلے بھی کوئی سیاسی کمٹمنٹ نہیں تھی، اور نہ ہی اب ان کی سندھ سے کوئی سیاسی کمٹمنٹ ہے، جو اپنی باری آنے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں، لیکن سندھ کے اہلِ دانش کا کچھ حصہ ضرور موجود ہے جو سندھ کو کسی بھی طرح سے سیاسی نیلامی سے بچانے کے لیے اپنے قلم کی پوری طاقت کو پیش کرے گا اور سندھ کی سیاسی آزادی کی خاطر اپنے ایمان کو کمزور نہیں کرے گا، کیونکہ ایسے قلم کار اور اہل دانش بکائو مال نہیں ہوا کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ون یونٹ میں زیادہ سے زیادہ جیلیں دانشور طبقے سے نہ بھرگئی ہوتیں۔ سندھ میں دانشوروں کا ایک مخصوص طبقہ ہے جو سندھ کے سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتا ہے، لیکن مجموعی طور پر سندھی سماج نے خودکشی کی راہ کو نہیں اپنایا ہے اور آج بھی راکھ میں دبی چنگاریاں سلگتی رہتی ہیں۔ 60 یا 70کی دہائی سندھ کے دانشوروں اور ادیبوں پر ’’گن اٹیک‘‘ کا زمانہ تھا، جس میں سندھ کے ادیبوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنان نے صعوبتیں برداشت کیں۔ لیکن اب ’’گولڈ اٹیک‘‘ کا دور ہے جہاں سندھ کے وزراء اور مشیروں کے سامنے قالین بن چکے ہیں۔ اگر سندھ کا دانشور طبقہ سندھ کے وسیع تر قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے ذاتی مفادات اور شخصی فوائد کے حصول کی کوشش کرے گا تو اس کی قیمت سندھ کو اَدا کرنی پڑے گی، کیونکہ سندھ کا دانشور آج پنساری کی دکان پر بکنے والے سودے کی طرح فروخت ہورہا ہے اور اس کی دانش و فہم ارزاں نرخ پر بیچے جارہے ہیں۔ کچھ وطن فروش خیالات کے حامل اہلِ دانش پیپلز پارٹی کے سامنے پنساری کی پڑیوں کی طرح بک بھی چکے ہیں، لیکن انہیں تاریخ میں اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جائے گا۔ جدید دور کے دانشور نوم چومسکی نے کہا تھا کہ ’’جو نسل اپنے دور سے علیحدہ اور حالات کی سنگینیوں سے لاعلم رہتی ہے وہ ایک ایسی بیماری کو دعوت دیتی ہے جو سماج کی بنیاد ہی جڑوں سے اُکھاڑ ڈالتی ہے‘‘۔ 60کے عشرے میں سندھ کے سیاسی حالات کیسے تھے اور سندھ کے وطن دوست نوجوانوں کا سیاسی کردار کس طرح کا تھا؟ 80کی دہائی میں سندھ میں وطن دوست سیاسی جدوجہد اور نظریاتی سیاست کی بنیاد کس نہج پر استوار تھی؟ اور موجودہ دور کی سیاست کن حالات اور کیفیات میں سانس لے رہی ہے؟ 60کا وہی عشرہ تھا جس کے دوران سندھ میں مزاحمتی ادب کی داغ بیل ڈالی گئی تھی، اور وہ ادب جس نے نہ صرف مزاحمت کی راہ اپنائی بلکہ وہ سندھ میں ایک توانا سیاسی آواز بن کر سندھ میں کمزور پڑ جانے والی سیاست کے تنِ مُردہ میں ایک طرح سے حیاتِ نو ڈالنے کا باعث بھی ثابت ہوا تھا۔ 4مارچ 1967ء کی شاگرد جدوجہد بھی اسی تسلسل کا ایک حصہ تھی۔ سندھ کے باشعور اور وطن دوست طلبہ لگاتار جدوجہد کے ذریعے ایوبی آمریت کے خلاف ایک بڑی للکار بن کر سامنے آئے۔ عوام کے اندر بھی غصہ اور اشتعال تھا جس کا اظہار کسی نہ کسی طرح سے ہوتا رہا، اور وطن دوست جذبہ سیاسی طور پر غیر منظم انداز سے برسرپیکار رہا۔‘‘