نئے قرضوں کے حصول کے لیے وزیر خزانہ اسد عمر کی قیادت میں حکومت کی مالیاتی ٹیم کے آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع ہوگئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف نے حسب توقع سخت شرائط پیش کردی ہیں۔ اسی دوران میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہ ذریعہ ٹوئٹر پاکستان کی 1.3 ارب ڈالر کی امداد کی بندش عاید کردی ہے۔ انھوں نے پاکستان کو بے وفائی کا طعنہ دیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ہم نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے لیکن پاکستان نے ہمارا کام نہیں کیا۔ امریکی صدر کا اشارہ اس ’’امریکی وار آن ٹیرر‘‘ کی جانب ہے جو 17 برس سے جاری ہے اور نائن الیون کے پر اسرار واقعے کے بعد پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا۔ ایک ٹیلی فون دھمکی پر پاکستان کے حکمران ،اس وقت کے فوجی آمر نے پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو قربان کرکے برادر اور مسلم ملک افغانستان پر حملے کے لیے کرائے کے سپاہی کا کردار قبول کرلیا۔ اس جنگ کی ناکامی کا اعلان خود امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جوزف ڈن فورڈ کرچکے ہیں اور صاف الفاظ میں افغانستان میں امریکی شکست کا اعتراف کیا ہے اور اسی حوالے سے امریکا نے افغان نژاد سفارت کار زلمے خلیل زاد کے ذریعے افغان طالبان سے بالواسطہ اور براہ راست مذاکرات بھی شروع کردیے ہیں۔ اس پس منظر میں امریکی حکام کی جانب سے پاکستان کو یہ دھمکی بھی دے دی گئی تھی کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی منظوری پر نظر رکھیں گے۔امریکی عہدیدار کے خیال کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لے کر سی پیک کے سلسلے میں چینی قرضے ادا کرے گا۔ یہ بات کھلا راز ہے کہ امریکا سی پیک کے خلاف ہے جو وسیع تر چینی منصوبے ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ ہے۔ پاکستان میں سی پیک کو گیم چینجر کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں قوم آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات کو قومی نجات تصور کرتی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت سے توقع تھی کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے سے گریز کرے گی۔ سابقہ حکومتوں پر سب سے بڑی چارج شیٹ بھی یہی ہے کہ انھوں نے پاکستان پر عاید قرضوں میں تباہ کن اضافہ کردیا ہے جس نے قوم کو مہنگائی اور بے روزگاری کے شکنجے میں جکڑدیا ہے۔ خود وزیراعظم عمران خان قرضوں کی معیشت کے سخت خلاف اور اسے غلامی کی ایک شکل باور کرتے تھے۔ 2011ء میں برطانوی اخبار گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ’’ایک ملک جو قرضوں پر انحصار کرے اس سے موت بہتر ہے۔ یہ آپ کو ا پنی استعداد کے مطابق مقام حاصل کرنے سے روکتا ہے، جس طرح استعماری طاقتوں نے کیا تھا۔ قرض ذلت آمیز شے ہے۔ وہ تمام ممالک جنہوں نے آئی ایم ایف یا عالمی بینک سے قرض لیے وہاں غریب کی غربت اور دولت مند کی دولت میں اضافہ ہوا ہے۔ ا پنے اس موقف کے باوجود حکومت نے بالآخر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ عمران خان کی مالیاتی ٹیم کے قائد وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا اعلان کرتے ہوئے قوم کو خواب دکھایا ہے کہ ’’ہم انیسویں بار آئی ایم ایف کے پاس جارہے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ یہ آخری بار ہو‘‘ یہ دعویٰ انہوں نے کس بنیاد پر کیا ہے کہ آئی ایم ایفکا موجودہ قرضہ آخری قرضہ ہوگا؟ نہیں بتایا البتہ آئی ایم ایف کے قرض کے لیے تمام سخت اور تباہ کن اقتصاداری شرائط قبول کرلی ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کی نئی جکڑ بندی کا آغاز پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت میں ہوا جو امریکی این آر او کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی اسی این آر او کی وجہ سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جبری جلاوطنی بھی ختم ہوئی تھی۔ حالانکہ این آر او کرنے والی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو سفاکانہ دہشت گردی کا شکار کردی گئیں۔ آصف زرداری کی حکومت نے آئی ایم ایف کے نئے قرضوں کے شکنجے میں جکڑا، حزب اختلاف کی حیثیت سے مسلم لیگ ن نے اگر تعاون نہیں تو مزاحمت بھی نہیں کی جس نے پاکستان کے عوام کے معاشی حالات انتہائی ابتر کردیے۔حکومت میں آنے کے بعد آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لیا۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کے نتیجے میں غریب تو کیا متوسط طبقے کے حالات بھی خراب ہوگئے ہیں۔ اسی تناظر میں پاکستان میں تبدیلی کی پیاس میں اضافہ ہوگیا۔ تبدیلی کی خو اہش عمران خان کے سیاسی عروج کا سبب بنی، لیکن ان کے پاس پاکستان کے عوام کے حالات بہتر بنانے کے لیے نہ کوئی ٹیم ہے اور نہ کوئی بصیرت افروز منصوبہ، وزیراعظم عمران خان نے یہ تاثر دیا کہ وہ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے قرض حاصل کرکے آئی ایم ایف کے پروگرام سے بچنے کی کوشش کریں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ جن کی عالمی حالات پر نظرہے وہ اس بات سے واقف ہیں کہ پاکستان کی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت عالمی طاقتوں کے غلامی کی عادی ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے بھی تبدیلی کا نعرہ لگانے کے باوجود تبدیلی کی کوئی حقیقی تشریح نہیں کی۔ صرف نعروں اور جذباتی باتوں پر انحصار کیا۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتا اور چند دنوں میں تبدیلی نہیں آتی، لیکن پہلا قدم تو اٹھایا جائے۔ پاکستان کے عوام سے زیادہ اس کی قیادت واقف ہے کہ آئی ایم ایف ایک استعماری ادارہ ہے۔ اس کے ایجنڈا عوام دشمن، ملک دشمن اور اسلام دشمن ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک امریکا اور عالمی سرمایہ دار ممالک، غریب اور کمزور ممالک کے وسائل کا استحصال کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جب تک آپ عالمی قرضوں کی معیشت سے نجات حاصل نہیں کریں گے اس وقت تک سودی معیشت سے بھی نجات حاصل نہیں کرسکتے۔ سود کو اﷲ نے، اﷲ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلان جنگ قرار دے دیاہے۔ اﷲ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے کیسے فلاحی معیشت قائم ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں کے شرائط کا ایک مقصد پاکستانی مسلمانوں کو سزا دینا بھی ہے۔ اس کی جتنی شرائط ہیں اس کی زد پاکستان کے عام شہریوں پر ہی پڑے گی۔