آج کل ذرائع ابلاغ میں یو۔ٹرن کا بڑا چرچا ہے، اور ہر ایک اپنی سمجھ کے مطابق اس کے معانی نکال رہا ہے۔ اس کے لیے اردو میں ایک لفظ ہے جو کم کم استعمال ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی پڑھنے میں آجاتا ہے، اور یہ لفظ ہے ’’رجعت قہقری‘‘۔ بنیادی طور پر تو یہ دونوں الفاظ عربی کے ہیں، تاہم رجعت اردو میں بہت عام ہے۔ قہقری کا تلفظ ایسا ہے کہ حلق چھل جائے، اس لیے اس کا استعمال کم ہے مگر اردو لغات میں موجود ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یو۔ٹرن کا یہ بڑا جامع ترجمہ ہے۔ لغت کے مطابق مونث ہے اور مطلب ہے ’’الٹے قدموں پھرنا، اس طرح واپس ہونا کہ منہ تو اسی طرف رہے جدھر گئے تھے اور پیچھے سرکتے آئیں‘‘۔ یہ منظر اکثر درگاہوں اور پیروں کی خانقاہوں میں نظر آجاتا ہے۔ ممکن ہے کوئی کسی حکمران کے سامنے سے بھی ایسے ہی سرکے۔ کہتے ہیں یہ اس لیے کہ کوئی پیچھے سے وار نہ کردے۔ قہقری کا عربی میں مطلب ہے ’’الٹے پائوں چلنا‘‘۔ مومن خان مومنؔ کا شعر ہے:
صبح دم آنے کو وہ تھا کہ گواہی دی ہے
رجعت قہقرئی چرخ و قمر آخر شب
رجعت کو ہم ’را‘ پر پیش کے ساتھ یعنی رُجعت بولتے اور پڑھتے رہے ہیں، لغت دیکھ کر رجوع لارہے ہیں کہ ’را‘ پر زبر ہے یعنی رَجعت۔ مطلب سبھی کو معلوم ہے کہ واپسی، لوٹنا، عورت کو طلاق کے بعد زوجیت میں لانا (طلاق رجعی کے بعد)، علاوہ ازیں چاند، سورج کے سوا اور کسی سیارے کا اپنی معمول کی گردش سے پھرنا۔ اردو میں جنون، سودا اور کسی جلالی عمل کی شرط میں غلطی ہوجانے سے پاگل ہوجانا۔ اللہ بچائے، سنا ہے کہ عملیات تو ایک اونچے گھر میں بھی ہوتے ہیں جہاں جنوں کی بے کھٹکے آمد و رفت ہے۔ رجعت کے معانی فضول بکنا، بے ہودہ بکنا بھی ہے، جیسے ’’تجھے تو ایک بات کی رجعت ہوگئی‘‘۔ یہ رجعت کئی وزیروں کو بھی لاحق ہے۔ عجیب بات ہے کہ رَجعت میں تو حرفِ اوّل بالفتح ہے لیکن ’’رجوع‘‘ بضم اوّل ہے، یعنی ’را‘ پر پیش ہے۔ اور اس کا مطلب یہی ہے: لوٹنا، جھکنا، مائل ہونا (کرنا، ہونا کے ساتھ)۔ اس کے مذکر، مونث ہونے میں اختلاف ہے۔ استاد ناسخ نے اسے مذکرکہا ہے:
ایسا طبیب کون ہے اے گل کہ بارہا
تجھ سے رجوع نرگسِ بیمار نے کیا
نور اللغات کے مطابق ترجیح تانیث کو ہے۔ برقؔ کا شعر ہے:
دل اس صنم سے دمِ نزع پھر گیا تو کیا
رجوع اور سے کی جب مرض کو طول ہوا
لیکن ہم تو امام بخش ناسخؔ کا ساتھ دیں گے۔ رجوع کرنا یا ہونا عام ہے لیکن ’رجوع لانا‘ فصیح ہے۔ ہم نے ایک بار کسی خبر میں رجوع لانا لکھ دیا تھا تو پروف ریڈر نے ’’صحیح‘‘ کروادیا۔
چلیے اب انگریزی لغت سے رجوع لاتے ہیں کہ U-Turn انگریزی ہی کا لفظ ہے۔ انگریزی لغت کے مطابق: پورا گھمائو گاڑی کا، اس طرح گھوم جانے کا عمل کہ گاڑی جدھر سے آرہی ہو اُدھر رُخ ہوجائے۔ حکمتِ عملی میں یکسر تبدیلی۔ لیکن اگر عمل میں حکمت ہے تو اس میں تبدیلی کیسی؟ لیکن یہ جملہ بھی بہت عام ہوگیا ہے کہ ’’حکمت عملی غلط ہے‘‘ یا ’’حکمتِ عملی بدل لی‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس میں حکمت کا دخل ہی نہ ہوگا۔ اور حکمت ہو تو اس میں تبدیلی بجائے خود بے حکمتی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ حکمتِ عملی بدلنے والا ہی بڑا لیڈر ہوتا ہے اور یو۔ٹرن عظیم قیادت کی پہچان ہے۔ یو۔ٹرن یا رجعت قہقری کے جو مطالب ہم نے سامنے رکھے ہیں، عظیم قائدین ان میں سے کوئی اپنے لیے منتخب کرلیں اور اُلٹے پھر جانے کو اپنا وتیرہ بنالیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا کہ
اُلٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
چلیے، اب ہم بھی یوٹرن لیتے ہیں۔ ٹی وی پر ایک اور دلچسپ جملہ سنا’’دوبارہ سے از سرِ نو تحقیقات‘‘۔ انگریزی بولنے والے تو عموماً ’’دوبارہ ریپیٹ کرنا‘‘ بولتے ہی ہیں۔ جسارت میں کسی کی جائداد ’’غضب‘‘ ہوگئی۔ اضافی نکتہ قمیص پر بھی لگ جاتا ہے۔ میعاد تو عموماً معیاد ہوجاتا ہے۔ ایک بڑے اخبار میں ایک بار پھر ’’خانہ پوری‘‘ پڑھا۔ پہلے بھی لکھا تھا کہ پوری بغیر حلوے کے مزہ نہیں دیتی۔ پوری کے بجائے ’’پری‘‘ شاید اس لیے نہیں لکھا کہ کوئی اسے پروں والی پری نہ پڑھ لے۔
پچھلے شمارے میں صالون کے بارے میں استفسار کیا تھا کہ کیا یہ انگریزی سیلون سے آیا ہے، یا عربی سے انگریزی میں گیا ہے؟ دراصل ایسے بے شمار الفاظ ہیں جنہوں نے اِدھر سے اُدھر سفر کیا ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ ’’چیچک‘‘ ہے۔ اللہ محفوظ رکھے۔ پاکستان میں تو اس مرض کا سدباب ہوچکا ہے، لیکن یہ مرض جتنا خطرناک ہے اس کا نام اتنا ہی خوبصورت ہے۔ یہ ترکی زبان کا لفظ ہے اور ترکی میں اس کا املا ‘CICEK’ہے، اور اس کے معنی ہیںپھول۔ جسم پر نمودار ہونے والے ان لال لال دانوں کو پھول سے تشبیہ دی گئی ہے۔ہندی میں اس کو ’ماتا‘ بھی کہتے ہیں جس کا مطلب ہے ماں۔ اس سے مراد ایک دیوی ہے جو ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق لوگوں کو اس مرض میں مبتلا کرتی ہے۔ اس دیوی کا نام سیتلا بھی ہے۔ اردو لغات میں بھی یہ ’ماتا‘ موجود ہے جس کا مطلب چیچک، سیتلا دیا ہے۔ ماتا کا ایک معنی مست بھی ہے جیسے نیند کا ماتا۔ یہاں یہ مذکر ہے۔ مونث اس کا ماتی ہے۔ ایک شعر یاد آگیا:
سورج کب کا سر پر آیا، دیواروں تک دھوپ گئی
لیکن شب کی نیند کے ماتے اب تک آنکھیں ملتے ہیں
ماں کے معنی تو عام ہیں اور ماتا بھی ہندی میں ماں کے لیے آتا ہے۔ ہندی میں ایک اور لفظ ہے ’ماترا‘ یعنی ہندی حروف کا اعراب (لگانا)
آدھی دنیا پر ڈالر کی بادشاہت ہے۔ پاکستان بھی اس کے حصول کے لیے بھاگ دوڑ کررہا ہے، کبھی چین اور کبھی سعودی عرب۔ اس کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ ڈاکٹر عبدالرحیم اپنی کتاب ’’پردہ اٹھادوں اگر چہرۂ الفاظ سے‘‘ میں اس کا پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’جمہوریہ چیک کے مغرب میں بوہیمیا کا علاقہ ہے۔ (ابنِ صفی کے مشہور کردار تھریسا کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔ تھریسا بمبل بی آف بوہیمیا) یہاں کی ایک وادی ’’یوا خیمس ٹالی‘‘ کہلاتی ہے، یعنی وادی یواخیم۔ اس وادی میں چاندی کی ایک کان ہے۔ 1519ء میں یہاں کی چاندی سے ایک سکہ ڈھالا گیا جس کا نام اس وادی کی مناسبت سے ’’یواخیمس ٹالر‘‘ پڑ گیا۔ بعد میں اسے مختصر کرکے ٹالر کردیا گیا۔ یہ سکہ 16ویں صدی میں جرمنی میں رائج تھا۔ مرورِ زمانہ سے اس کے املا اور تلفظ میں تبدیلی آتی گئی، پہلے THALER، پھر DALERبنا، اور پھر DOLLAR ہوگیا۔ جرمنی میں اس کی جگہ مارک نے لے لی۔ 1772ء میں یہ ریاست ہائے متحدہ کا سکہ قرار دیا گیا، اور 1858ء میں کینیڈا کا، اور اب یہ وہ ڈالر ہے جس پر دنیا مرتی ہے۔