نام کتاب: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
سفارت کاری اور خارجہ پالیسی
مصنفہ: پروفیسر ڈاکٹر حسین بانو
فون: 0334-2761224
صفحات: 491 قیمت 850 روپے
ناشر
راحیل پبلی کیشنز،314 بک مال،اردو بازار،کراچی
موبائل فون: 0321-8762213
ای میل: raheelpublications@gmail.com
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ بذاتِ خود سراج منیر ہے، اس کی ضیا باری کے ہزارہا پہلو ہیں جس میں ایک پہلو آپؐ کی سیاسی زندگی کا ہے۔ اس ایک پہلو کے بھی ہزارہا واجب العمل اور قابل العمل گوشے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین بانو ایم اے اسلامیات، ایم اے بین الاقوامی تعلقات، پی ایچ ڈی (علوم اسلامی)، پروفیسر اسلامک اسٹڈیز، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کراچی، استاد بحریہ ماڈل کالج ڈالمیا کراچی نے نبی کریمؐ رئوف الرحیم کی سفارت کاری اور ریاست مدینہ کی خارجہ پالیسی کو پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع تحقیق بنایا ہے، اور ڈاکٹر حافظ محمد ثانی حفظہ اللہ کی زیر نگرانی اس موضوع پر اپنے نتائجِ فکر کو پیش کردیا ہے ۔ یہ کتاب سیرت کی لائبریری میں وقیع و ثمین اضافہ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ تحریر فرماتی ہیں:
’’انتساب… اپنی کم علمی و بے مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی اس علمی کاوش کو محبوبِ رب العالمین، سید المرسلین، سرورِ کونین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام نامی سے منسوب کرتی ہوں، جس عظیم المرتبت ذاتِ گرامی نے زندگی کے ہر شعبے میں انسانیت کی بھرپور رہنمائی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بے مثل حیاتِ طیبہ اور بالخصوص اپنے اور غیر اقوام کے ساتھ عفو و درگزر کے رویّے نے عالمِ انسانیت کو بے پناہ متاثر کیا، اسی جذبے نے مجھے اس موضوع کے اختیار کرنے اور اسے موضوع تحقیق بنانے کی مہمیز کی۔ درود و سلام اس ذاتِ گرامی پر۔‘‘
ڈاکٹر حسین بانو نے ’’طرزِ اسلوب اور طریقہِ تحقیق‘‘ کے عنوان سے کتاب کا مختصر تعارف کرایا ہے، وہ تحریر فرماتی ہیں:
’’خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات میرا پسندیدہ موضوع ہے، اس موضوع کی تحقیق کے لیے میں نے مختلف معروف جامعات کے مطالعاتی دورے بھی کیے، اس کے علاوہ کئی اہلِ علم سے ذاتی طور پر ملاقات، مختلف کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت سے بھی کافی راہنمائی ملی۔ اس موضوع کی مختلف جہتوں پر اس سے پہلے بھی مختلف انداز سے کام ہوا ہے۔ دورانِ تحقیق اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے موضوع سے متعلق بنیادی ان مصادر سے استفادہ کیا جو اس موضوع پر اُمہات الکتب کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کتب سے بھی استفادہ کیا جو کسی نہ کسی حیثیت میں موضوع سے مناسبت رکھتی ہیں۔ موضوع کا بنیادی عنوان ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارت کاری و خارجہ پالیسی کا علمی و تحقیقی جائزہ‘‘ ہے۔‘‘
’’عنوانِ مقالہ چونکہ انتہائی وسیع موضوع سے متعلق ہے، لیکن ہر قسم کی غیر ضروری ابحاث سے گریز کرتے ہوئے نفسِ موضوع پر قناعت اختیار کرتے ہوئے بحث کی گئی ہے اور قبل از اسلام مختلف اقوام کی خارجہ پالیسی اور عہدِ اسلامی کی خارجہ پالیسی کو بنیاد بنایا ہے۔ میرا دعویٰ ہرگز یہ نہیں ہے کہ موضوع کا خاطر خواہ حق ادا کردیا گیا ہے، البتہ اس بات کو کہنے میں کوئی تامل نہیں سمجھتی کہ اقوام و ممالک کے تناظر میں دینِ اسلام کی دی ہوئی خارجہ پالیسی ایک بہترین پالیسی ہے، جو اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے اہداف و مقاصد کو بہترین رہنمائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا سے ظلم و جبر، طبقاتی تفریق، جنگ و جدل کو ختم کرنے میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہے، اور مختلف اقوام و ملل میں نظریاتی ہم آہنگی نہ ہونے کے باوجود بھی انہیں ایک دوسرے کے قریب لاسکتی ہے، جس کی روشن مثالیں ہمیں عہدِ نبوی میں بھی نظر آتی ہیں جو راقمہ نے تحقیقی مقالے میں جابہ جا ذکر کی ہیں۔ عہدِ نبوی کی خارجہ پالیسی نے جانی دشمنوں کو دوست بنانے، اللہ کے بندوں کو خالق کی غلامی اختیار کرنے، رنگ و نسل کے امتیازات کو مٹانے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھار کر آگے لانے میں کلیدی کردار ادا کیا، جنہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے بل بوتے پر قوموں کو ارتقاء کی جانب گامزن کیا۔
باب اوّل: مقالۂ ہذا کا پہلا باب ’’خارجہ پالیسی کے اغراض و مقاصد‘‘ پر مشتمل ہے، جس کے ذیل میں مختلف فصول ذکر کی گئی ہیں۔
فصل اوّل: خارجہ پالیسی کا آغاز و ارتقاء۔ اس فصل اوّل میں انسانی معاشرے کے اغراض سے لے کر ریاست کے قیام تک، خارجہ پالیسی ریاست کے لیے کتنی اہم ہے اور کیا ریاست خارجہ پالیسی کے بغیر اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے، جیسی مختلف ابحاث سے بحث کی گئی ہے۔
فصل دوم: خارجہ پالیسی کی تعریف و تعارف۔ یہ بات انتہائی اہم اور ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کسی بھی لفظ کی پہچان و تعارف میں مسائل پیش آنے لگتے ہیں تو ماہرینِ فن نے خارجہ پالیسی کی تعریف کا تعین کیا ہے کہ خارجی پالیسی کی تعریف کیا ہے، اس کا مفہوم کیا ہے۔
فصل سوم: خارجہ پالیسی کی اہمیت و ضرورت سے متعلق ہے۔ خارجہ پالیسی ہر ملک و حکومت کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کو داخلی طور پر محفوظ بنانے کے بعد خارجی تحفظ بھی انتہائی اہم ہوتا ہے، اس لیے ہر ملک خارجہ پالیسی سوچ و فکر، نظریہ اور مفادات کی بنیاد پر تشکیل دیتا ہے اور ماہرینِ فن نے بھی خارجہ پالیسی کی اہمیت پر بحث کی ہے۔
فصل چہارم: خارجہ پالیسی کے اغراض و مقاصد۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ہر ملک کے کچھ خاص اغراض و مقاصد ہوتے ہیں، اسی طرح ہر ملک کو چند مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کا تعین آسان کام نہیں ہوتا، اس ضمن میں چند عناصر کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے، جن میں سرفہرست طاقتوں کا اشتراک یا اختلاف سرفہرست ہوتا ہے۔ ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی اس تناظر میں بناتا ہے کہ اس کے قومی مفادات متعین ہوں، کسی دوسری ریاست کے ماتحت نہ ہوں۔
بابِ دوم: اس باب میں قبل از نبوت خارجہ تعلقات اور خارجہ پالیسی کے قرآنی اصول زیر بحث ہیں، یہ باب دو فصول پر مشتمل ہے۔
فصل اوّل میں قبل ازنبوت معروف ریاستوں کے سیاسی و خارجہ تعلقات سے بحث کی گئی ہے، جن میں روم، فارس، مصر، چین اور عرب وغیرہ کے تعلقات سرفہرست ہیں۔
فصل دوم: خارجہ پالیسی کے قرآنی اصول۔ اس فصل میں خارجہ پالیسی سے متعلق قرآن حکیم میں بیان کیے گئے اصولوں کو ذکر کیا گیا ہے۔
باب سوم: اس باب میں سیاستِ خارجہ اور اسوۂ نبوی کو زیر بحث لایا گیا ہے، جس میں مندرجہ ذیل فصول قابلِ ذکر ہیں:
فصل اول: عہدِ نبوی کی خارجہ پالیسی کے اصول۔ قرآن حکیم کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کے خارجہ تعلقات کے اصول اور ان کا دائرۂ کار وضع کیا۔
فصل دوم: عہدِ نبوی کی سیاستِ خارجہ اور شعبہ جات۔ اس فصل میں عہدِ نبوی کی سلطنتِ مدینہ کے خارجہ اُمور کے شعبہ جات اور طریقہ کار کا جائزہ پیش کیا گیا ہے، جن میں پہلا شعبہ سفارت کاری کا تھا۔ سفارت کاری کے تناظر میں لفظ ’’سفیر‘‘ کی اہمیت، سفیر کی خصوصیات، قبل از اسلام سفارت کاری کا تصور، عہدِ نبوی کی سفارتی سرگرمیاں، سفرائے اسلام اور عہدِ نبوی کی سفارت کاری کے سیاسی و خارجہ اثرات جیسے اہم عنوانات زیر بحث ہیں۔ عہدِ نبوی کی سفارت کاری کا دوسرا شعبہ مکتوبات کا ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط لکھنے والے، مہرِ نبوت، خطوط، اور ان خطوط کے سیاسی و خارجہ اثرات، دینِ اسلام کی نشر و اشاعت میں ان کے کردار وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔ کامیاب خارجہ پالیسی کے تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا، ان وفود میں خارجہ پالیسی کی کامیابی نے باہم تعلقات کو بہتر بنانے میں قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کئی وفود آئے، لیکن مقالۂ ہذا میں دربارِ نبوی میں پیش ہونے والے اہم وفود کا ذکر کیا گیا ہے۔
بابِ چہارم: اس باب میں ’’ریاست مدینہ اور بین الاقوامی معاہدات‘‘ سے بحث کی گئی ہے، اس باب کو بھی دو فصول میں تقسیم کیا گیا ہے۔
فصل اوّل: ’’عہدِ نبوی اور بین الاقوامی سیاسی و خارجہ تعلقات‘‘ اس فصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ریاستِ مدینہ کے بحیثیت سربراہ مختلف اقوام و ممالک کے ساتھ بین الاقوامی خارجہ تعلقات کو بیان کیا گیا ہے۔
فصل دوم: ’’عہدِ نبوی اور بین الاقوامی خارجہ تعلقات و معاہدات‘‘۔ اس فصل میں قرآن و سنت کی روشنی میں معاہدات کی سیاسی اہمیت اور ان معاہدات کے سیاسی و خارجہ اثرات بین الاقوامی تناظر میں بیان کیے گئے ہیں۔
باب پنجم: اس باب میں عہدِ نبوی کی خارجہ پالیسی، سفارت کاری اور عصرِ حاضر میں ممالک و اقوام کے لیے تعلیماتِ نبوی سے رہنمائی پر بحث کی گئی ہے، یہ باب بھی دو فصول پر مشتمل ہے۔
فصل اوّل: عصرِ حاضر میں خارجہ پالیسی اور نبوی اقدامات سے رہنمائی سے بحث کی گئی ہے کہ عصرِ حاضر میں ممالک و اقوام کے لیے خارجہ تعلقات کے تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے خارجہ تعلقات قائم کرنے کے کیا اصول و ضوابط ہونے چاہئیں، جس میں اقوام و ممالک کے لیے بہترین تعلیمات موجود ہیں اور مشعلِ راہ بھی ہیں۔
فصل دوم: عہدِ نبوی کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری پر معروف سیرت نگاروں کا تبصرہ۔ اس فصل میں عہدِ نبوی کی کامیاب خارجہ پالیسی پر معروف سیرت نگاروں کا تبصرہ پیش کیا گیا ہے، جن میں مسلم و غیر مسلم تجزیہ نگار شامل ہیں، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامیاب خارجہ پالیسی کی تشکیل پر زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا ہے‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر خوبصورت طبع کی گئی ہے۔ مجلّد ہے اور رنگین سرورق سے مزین ہے۔