عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے6 سے 7 ارب ڈالر قرضہ دینے کے لیے پاکستان کو سخت شرائط پیش کردی ہیں اور کہا ہے کہ سب مطالبات فوری ماننا ہوں گے ورنہ قرضے کا وعدہ نہیں کرسکتے۔آئی ایم ایف کی شرائط:پہلی شرط: ایف بی آر ٹیکس وصولیوں کی کمی پر قابو پائے اور مستقبل میں 4100 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف پورا کرنے کا طریقہ کار بتایا جائے۔دوسری شرط: ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کنٹرول نہ کی جائے، اس کا تعین مارکیٹ کو کرنے دیا جائے۔تیسری شرط: پاکستان اپنا مالی خسارہ کم کرنے کے اقدامات واضح کرے اور پہلے4 ماہ میں 150ارب روپے سے زیادہ کا خسارہ پورا کرنے کا طریقہ کار بتایا جائے۔چوتھی شرط: توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ ختم کیا جائے اور مستقبل میں یہ قرضہ نہ بنے۔وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق ہفتے کو ہونے والے مذاکرات میں آئی ایم ایف کی ٹیم نے پاکستانی حکام کی اس یقین دہانی کو مسترد کردیا کہ بہتر گورننس اور مالی نظم و ضبط کے ذریعے مالی خسارہ دور اور ریونیو وصولی کا ہدف پورا کرلیا جائے گا۔
پاکستان آئی ایم ایف کا رکن ہونے کی حیثیت سے 14 ارب 60کروڑ ڈالر قرض لے سکتا ہے جس میں سے6 ارب ڈالر کا قرض پاکستان پہلے ہی حاصل کرچکا ہے اور اب اس کے کوٹے کا 8 ارب 60 کروڑ ڈالر باقی ہے۔ (روزنامہ جنگ،17،نومبر2018ء)
روس طالبان مذاکرات اور بھارت
روس کی پہل پر طالبان کے ساتھ ماسکو میں بارہ ملکوں کی ایک میٹنگ ہوئی ہے۔ اس میٹنگ میں افغانستان کے آس پاس کے ممالک اور ان کے ساتھ امریکہ، روس، چین اور بھارت نے بھی شرکت کی ہے۔ بھارت نے اپنے دو ریٹائرڈ سفیروں کو ماسکو بھیجا جو میری رائے میں لائقِ تعریف قدم تھا، لیکن بھارت سرکار اتنا اچھا قدم اٹھا کر بھی دبو پن کا مظاہرہ کیوں کررہی تھی؟ وزارتِ خارجہ کا ترجمان بار بار کہہ رہا تھا کہ اس میٹنگ میں سرکار شرکت نہیں کررہی، غیر سرکاری لوگ حصہ لے رہے ہیں۔ بھارت سرکار طالبان سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ کیوں نہیں کرنا چاہتی؟1991ء میں جب ہمارے طیارے کو اغوا کیا تھا، تب وزیراعظم اٹل جی نے مجھے فون کیا اور اُس وقت میں لندن میں تھا۔ وہاں سے میں نے قندھار کے طالبان لیڈروں سے سیدھا رابطہ کیا۔ وزیر خارجہ جسونت سنگھ قندھار گئے اور ہمارا جہاز بحفاظت واپس آگیا۔ گزشتہ تیس برسوں میں جب جب میں قندھار اور ہرات میں رہا ہوں، طالبان لیڈر اور سابق وزیر چھپ کر یا سرعام بھی مجھ سے ملتے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جو پچاس برس پہلے میرے ساتھ کابل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کررہے تھے۔ میں نے ہمیشہ پایا کہ ان کی مخالفت بھارت سے بالکل نہیں تھی۔ وہ روس کے خلاف تھے۔ وہ بھارت کی مخالفت اس لیے کرتے تھے کہ بھارت روس کا دوست تھا۔ وہ پاکستان کے حامی ضرور تھے، لیکن یہ ان کی مجبوری تھی۔ وہ پاکستان کیا، دنیا کے کسی بھی طاقتور ملک کی غلامی برداشت نہیں کرسکتے۔ وہ کٹّر وطن پرست ہیں۔ وہ ببرک کارمل کی سرکار کو روس کا غلام کہتے تھے اور حامد کرزئی اور اشرف غنی کی سرکار کو امریکہ کا غلام کہتے ہیں۔ جس روس کے ہزاروں فوجیوں کو مجاہدین اور طالبان نے موت کے گھاٹ اتار دیا، ان سے روس بات کررہا ہے، اور آپ ان سے بات کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ اگر ہندوستان کے لیڈروں اور افسروں کو افغان معاملات کی ٹھیک سمجھ ہوتی تو یہ بیٹھک ماسکو نہیں دلّی میں ہوتی۔ خیر دیر آید درست آید۔ اب بھارت سرکار کو یہ بھی ڈر لگ رہا ہے کہ کشمیری شدت پسندوں سے بات چیت کرنے کی آواز بھی اٹھے گی۔ جب روس طالبان سے بات کررہا ہے اور آپ اس میں شامل ہورہے ہیں، تو پھر اپنے ہی کشمیریوں سے آپ پرہیز کیوں کررہے ہیں؟ ان کے لیے لات تو چل رہی ہے، بات بھی کیوں نہیں چل سکتی؟
(ڈاکٹر وید پرتاب ویدک۔ دنیا، 18نومبر،2018ء)
قائد اعظم اور علامہ اقبال کی فکری ہم آہنگی
جس روز محمد علی جناح نے بندے ماترم کو کافرانہ ترانہ قرار دیا اُس روز بقول نذیر نیازی علامہ بہت خوش ہوئے۔ پنجاب مسلم لیگ کے حوالے سے بھی علامہ اقبال محمد علی جناح کو مسلسل آگاہ کرتے رہے، اور پھر دونوں میں ذہنی ہم آہنگی اتنی پختہ ہوگئی کہ علامہ اقبال نے محمد علی جناح کو فکری راہنمائی مہیا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی سلسلے کی فیصلہ کن کڑی وہ خطوط تھے جو علامہ اقبال نے 1936-1937-1938کے دوران قائداعظم محمد علی جناح کو لکھے۔ یہ خطوط کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ بہت سے شواہد سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف دو واقعات کا حوالہ دے رہا ہوں جن سے احساس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال محمد علی جناح کو مسلمانوں کا واحد لیڈر سمجھتے تھے اور ان کے کردار سے حد درجہ متاثر تھے۔ یہی ان کی باہمی عقیدت اور محبت کی بنیاد تھی۔ 1936ء میں ایک روز علامہ اقبال کے ہاں محمد علی جناح کی دیانت، امانت اور قابلیت کا ذکر ہورہا تھا تو علامہ نے فرمایا ’’مسٹر جناح کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو آج ہندوستان کے کسی مسلمان میں مجھے نظر نہیں آتی۔ حاضرین میں سے کسی نے پوچھا تو علامہ نے انگریزی میں کہا:
He is incorruptable and unpurchaseable.
(بحوالہ اقبال کے خطوط جناح کے نام۔ مرتبہ محمد جہانگیر عالم۔ ص24) پھر 21جون 1937ء کے خط بنام جناح میں لکھا ’’اس وقت جو طوفان شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والا ہے اس میں صرف آپ کی ذاتِ گرامی ہی قوم کی راہنمائی کا حق رکھتی ہے‘‘۔
علامہ اقبال کے خطوط بنام محمد علی جناح پڑھیں تو احساس ہوتا ہے کہ کس طرح علامہ اقبال نے قائداعظم کی فکری راہنمائی کی اور انہیں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ اورآزاد وطن کے قیام کا مطالبہ کرنے پر آمادہ کیا۔ تاریخ کا ذرا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ خود قائداعظم بھی اس حقیقت کے قائل تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل ایک آزاد وطن کے قیام میں مضمر ہے۔
(ڈاکٹر صفدر محمود جنگ ،9نومبر 2018ء)