انسان یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں دس سال اس حیثیت میں زندگی بسر کی ہے کہ لوگوں سے یہ کہہ دیا گیا تھا کہ تمہارے لیے بہترین نمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:
(ترجمہ) ’’تمہارے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
یہ تو کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ ایک معاشرے میں اور ایک پورے ملک میں لوگوں سے یہ بات کہہ دی جائے کہ یہ شخص تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی کو کھلی کتاب کی طرح لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا۔ آپؐ کی کوئی چیز پرائیویٹ نہیں تھی۔ سب کچھ پبلک تھا۔ لوگوں کو ہر وقت اس بات کی اجازت تھی کہ وہ نہ صرف یہ کہ خود آپؐ کی زندگی کو دیکھیں، آپؐ کے اقوال کو سنیں اور لوگوں تک پہنچائیں۔ آپؐ کے افعال کو دیکھیں اور لوگوں پہنچائیں، بلکہ ان کو یہ بھی اجازت تھی کہ وہ ازواجِ مطہراتؓ سے آپؐ کی نجی زندگی کے متعلق بھی معلومات حاصل کریں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک ہستی پورے دس سال تک اس طرح عوام کے سامنے ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی پہلو بھی ان سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے سوا کوئی انسان اس آزمائش (Test) پر پورا نہیں اتر سکتا۔ یہ ایک ایسی کسوٹی ہے کہ کوئی انسان اپنے آپ کو اس آزمائش کے لیے پیش نہیں کرسکتا کہ ہر وقت ہر پہلو سے اس کا جائزہ لے کر دیکھا جائے، اور پھر کسی پہلو سے اس کے اندر کوئی عیب، کوئی نقص، کوئی خامی اور کوئی کمزوری نہ پائی جائے۔ نہ صرف یہ کہ کہیں نقص نہ ہو، بلکہ یہ کہ اُسے جس پہلو سے بھی دیکھا جائے وہ اس پہلو سے کامل درجے کا آدمی ہو۔ اور اس کے متعلق فی الواقع لوگ اس بات کو تسلیم کرلیں کہ ہاں یہی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ یہ مقام پوری انسانی تاریخ میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گھر کی زندگی کو دیکھیے تو بہترین شوہر اور بہترین باپ ہیں۔ باہر کی زندگی کو دیکھیے تو بہترین دوست اور بہترین ہمسائے ہیں۔ معاملات میں جس کو بھی آپؐ سے معاملہ پیش آیا ہے، اُس نے آپؐ کو کھرا پایا ہے۔ عدالت کی کرسی پر بیٹھے ہیں تو بے لاگ انصاف کیا ہے۔ غم بھی پیش آیا ہے، خوشی بھی دیکھی ہے۔ غصہ بھی آیا ہے اور محبت بھی کی ہے، لیکن کسی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے کسی شخص نے کوئی کلمہ حق کے خلاف کبھی نہیں سنا۔ دس سال تک لوگ ہر وقت اور ہر آن آپؐ کی باتیں سنتے رہے اور دنیا کے سامنے انہیں پہنچاتے رہے، لیکن آپؐ کی زبان سے کبھی کوئی بات حق کے خلاف نقل نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ غصے میں بھی کسی کے لیے بُرے الفاظ زبان پر نہ آئے۔ یہ شان کسی معمولی انسان کی نہیں ہوسکتی۔
(تفہیمات، حصہ چہارم، صفحہ 278)
بیابہ مجلسِ اقبال
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر، فقر ہے شاہوں کا شاہ
علم کا مقصود ہے پاکیِ عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفتِ قلب و نگاہ
علم فقیہ و حکیم، فقر مسیحؑ و کلیمؑ
علم ہے جویائے راہ، فقر ہے دانائے راہ
فقر مقامِ نظر، علم مقامِ خبر
فقر میں مستی ثواب، علم میں مستی گناہ!
علم کا، موجود، اور، فقر کا، موجود، اور
اشہد ان لا الٰہ ، اشد ان لا الٰہ
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پر تیغِ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ!
دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو
تیری نگہ توڑ دے آئینہ مہر و ماہ
-1تاج، تخت اور سپاہ فقر کے کرشمے ہیں۔ فقر سرداروں کا سردار اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔
-2علم کا مقصود یہ ہے کہ عقل و خرد میں پاکیزگی اور جِلا پیدا ہوجائے۔ فقر دل اور نگاہ کو پاک کرنا چاہتا ہے۔
-3علم عالم اور فلسفی کی متاع ہے۔ فقر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی متاع ہے۔ علم راستہ ڈھونڈتا رہتا ہے۔ فقر راستہ جانتا ہے۔
-4فقر انسان کو اس مقام پر پہنچاتا ہے، جہاں وہ سب کچھ اپنی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ علم کچھ دکھا نہیں سکتا، صرف بتا سکتا ہے۔ فقر میں مست و بے خود ہونا ثواب کا باعث ہے، علم میں مست و بے خود ہونا گناہ ہے۔
-5علم کے نزدیک ’’موجود‘‘کا تصور اور ہے، فقر کے نزدیک اور۔ اگرچہ دونوں اشہد ان لا الٰہ پڑھتے ہیں، یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود، لیکن دونوں کا مطلب و مفہوم الگ الگ ہوتا ہے۔
-6جب خودی کی تلوار فقر کی سان پر چڑھ کر تیز ہوجاتی ہے تو ایک سپاہی کی ضرب پورے لشکر کا کام انجام دیتی ہے۔
-7تیرے خاکی جسم میں اگر زندہ و بیدار دل موجود ہو تو تیری نظر سورج اور چاند کے آئینے توڑ کر رکھ دے۔
(’’مطالب کلام اقبال‘‘… مولانا غلام رسول مہرؔ)