۔’’افغانستان کے سماجی، ثقافتی، سیاسی اور معاشی حقائق کے تناظر میں ذمے دارانہ سیاسی حل ہی سے افغانستان میں دیرپا امن بحال کیا جا سکتا ہے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار پاکستانی وفد کے سربراہ نے گزشتہ دنوں افغانستان میں امن کے فروغ سے متعلق ماسکو فارمیٹ مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پاکستانی وفد نے افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے منعقدہ اس اہم کانفرنس میں ایڈیشنل سیکریٹری برائے افغانستان کی قیادت میں شرکت کی۔ پاکستانی وفد کا کہنا تھا کہ افغان تنازعے کا حل صرف بات چیت ہی سے ممکن ہے، پاکستان امن عمل کے لیے ہر ممکن کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ پاکستانی وفد کا کہنا تھا کہ پاکستان کئی برسوں سے افغانیوں کی قیادت میں افغان امن عمل کا حامی ہے اور اب افغانستان میں امن ومفاہمت پر پیش رفت کے لیے بین الاقوامی رہنما اصولوں پر مبنی اجتماعی راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ ماسکو فارمیٹ میں افغان حکومت کا کوئی اعلیٰ سطحی اہلکار تو شریک نہیں ہوا البتہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے اس کانفرنس میں افغان اعلیٰ امن کونسل کے نمائندوں کے علاوہ افغان طالبان نے بھی ایک پانچ رکنی اعلیٰ سطحی وفد کی صورت میں قطر دفتر کے سربراہ مولوی شیر محمد عباس ستانکزئی کی قیادت میں شرکت کی ہے، جسے افغان امور کے ماہرین ایک بڑے سیاسی بریک تھرو سے تعبیر کررہے ہیں۔ اس اجلاس کی ایک اور خاص بات اس میں امریکہ اور بھارت کے مبصرین کی شرکت کو بھی قرار دیا جارہا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کی براہِ راست میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس میں افغان طالبان اور افغان ہائی پیس کونسل کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ امریکہ، پاکستان، چین، ایران، بھارت، وسطی ایشیائی ریاستوں تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان، ازبکستان اور کرغیزستان پر مشتمل بارہ ممالک کے وفود نے شرکت کی۔
طالبان وفد نے افغان حکومت سے براہِ راست مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان امریکہ سے براہِ راست مذاکرات کریں گے۔ اس سلسلے میں افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ اُس وقت تک مذاکرات نہیں کریں گے جب تک امریکہ طالبان سے براہِ راست مذاکرات کرکے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا کوئی واضح شیڈول نہیں دے دیتا۔ ذبیح اللہ مجاہدکا کہنا تھا کہ ماسکو اجلاس میں شرکت سے امارتِ اسلامی کی بین الاقوامی ساکھ مزید مضبوط ہوگی اور اس اجلاس میں طالبان کے وفد کی شرکت امارتِ اسلامی کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حیثیت کی مظہر ہے۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ افغان طالبان نے کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی ہے جس سے افغانستان کے تنازعے کے سیاسی حل کی امید روشن ہوگئی ہے۔
اس کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا کہنا تھا کہ روس افغانستان میں امن کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور امید ہے کہ ماسکو اجلاس میں افغانستان امن عمل سے متعلق سنجیدہ اور تعمیراتی بات چیت ہوگی۔ روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ روس افغانستان میں گزشتہ 17 برسوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے فریقین کے درمیان مذاکرات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ سرگئی لاروف نے کہا کہ مذاکرات میں حکومت اور طالبان کی موجودگی براہِ راست مذاکرات میں معاون ثابت ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ داعش کے بیرونی سرپرست افغانستان کو دہشت گردوں کا گڑھ بنانا چاہتے ہیں۔
روس کی وزارتِ خارجہ نے اس کانفرنس کا رسمی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن سے متعلق اس اجلاس میں شریک افراد نے اس لائحہ عمل کے تحت مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
دوسری جانب افغان حکومت نے ماسکو کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر طالبان امن عمل میں سنجیدہ ہیں تو حکومت سے براہِ راست مذاکرات کریں۔ افغان میڈیا کے مطابق ترجمان دفترِ خارجہ صبغت اللہ احمدی کا کہنا ہے کہ طالبان دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ’’آزاد‘‘ ہیں، تو پھر انہیں امن مذاکرات کے لیے بلاواسطہ حکومت سے بات کرنا ہوگی۔ ترجمان نے کہا کہ اب افغان فورسز منظم ہوچکی ہیں اور طالبان جنگ جاری رکھتے ہوئے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ واضح رہے کہ افغان حکومت کا یہ ردعمل روس میں افغان امن مذاکرات کے دوران طالبان وفد کی جانب سے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے مکمل انخلا کے مطالبے کے بعد آیا ہے۔ طالبان وفد کے سربراہ نے17سالہ افغان جنگ کے خاتمے کو امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا سے مشروط کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن مذاکرات کا انعقاد خوش آئند ہے لیکن ٹھوس اقدامات کی عملی تعبیر کے بغیر ہر قسم کے بحث و مباحثے ناکام ثابت ہوں گے۔
دریں اثناء روسی صدر پیوٹن کے ایلچی برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے ماسکو میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا شیڈول دینے کی صورت میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے اعتماد سازی کے اقدامات کے طور پر سیاسی قیدیوں کی رہائی اور طالبان کے خلاف 1997ء سے عائد پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ ضمیر کابلوف نے کہا کہ طالبان افغانستان کے بارے میں ماسکو میں ہونے والے آئندہ اجلاس میں شرکت پر بھی آمادہ ہیں۔ وہ اصولی طور پر بات چیت کے لیے تیار ہیں اور افغانستان کے مسئلے کے بات چیت کے ذریعے حل کو پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے پاس 17 سال کی طویل مدت تھی جس میں وہ اپنے بنیادی مقاصد حاصل کرسکتا تھا، 2001ء میں افغانستان میں طالبان کا نام و نشان تک نہ تھا، لیکن اب ملک کا 60 فیصد سے زیادہ رقبہ ان کے کنٹرول میں ہے جو یقیناً افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ روسی مندوب نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کی افغانستان میں اس طویل عرصے تک موجودگی کا کیا فائدہ جب وہ اس مسئلے کو حل نہیں کررہے بلکہ اس کو بڑھا رہے ہیں! روسی مندوب نے کہا کہ افغانستان سے روس اور اس کے اتحادی ممالک کے مفادات وابستہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے دورۂ روس کے دوران طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہِ راست مذاکرات کے آغاز پر بات چیت کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے رواں سال اگست میں کہا تھا کہ افغان مفاہمتی عمل میں شمولیت کے لیے طالبان پر شدید دبائو ہے، افغان سیکورٹی فورسز کی صلاحیتوں میں اضافے پر کام جاری ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ افغان مفاہمتی عمل تمام صورتِ حال میں سب سے اہم ستون ہے، اس کے ذریعے مسائل کا حل ممکن ہے۔ امریکہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
علاوہ ازیں ماسکو کانفرنس کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغانستان میں طالبان نے اپنی جہادی کارروائیاں نہ صرف جاری رکھی ہوئی ہیں بلکہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران ان کارروائیوں میں کئی گنا اضافہ بھی ہوا ہے۔ یاد رہے کہ چند روز قبل اگر ایک جانب افغانستان کے مختلف شمالی صوبوں فراہ، قندوز، غزنی،سمنگان، سرائے پل اور جوزجان سے افغان سیکورٹی فورسز پر طالبان کے شدید ترین حملوں کی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں تو دوسری جانب ان صوبوں کے اکثر علاقوں پر طالبان کے قبضے کے ساتھ ساتھ سرائے پل اور جوزجان صوبوں کے دارالحکومتوں پر اگلے چند ہفتوں کے دوران طالبان کے ممکنہ قبضے کی مصدقہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ واضح رہے کہ طالبان کے ان حالیہ تازہ حملوں میں اب تک افغان سیکورٹی فورسز کے ڈیڑھ سو سے زائد اہلکاروں کی ہلاکتوں کی رپورٹیں منظرعام پر آچکی ہیں، جب کہ بعض صوبوں کے متعلق یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کے دارالحکومتوں کی حفاظت کے لیے اگر اضافی اقدامات نہ کیے گئے تو ان پر طالبان کسی بھی وقت حملہ آور ہوکر قبضہ کرسکتے ہیں۔ تیسری جانب کابل میں گزشتہ روز ہونے والے ایک مبینہ خودکش حملے میں ایک درجن سے زائد افراد کی ہلاکت سے بھی افغانستان میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ماسکو فارمیٹ کے عنوان سے یہ اہم بین الاقوامی کانفرنس ایک ایسے وقت میں منعقد ہوئی ہے جب ایک جانب امریکہ کے خصوصی مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نہ صرف دوماہ قبل کابل اوراسلام آبادکا دورہ کرچکے ہیں بلکہ وہ طالبان کے ساتھ بھی قطر میں ملاقات کے علاوہ عنقریب کابل اور اسلام آباد کا ایک اور دورہ کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان سے مذاکرات کے ایک اور دور میں شرکت کرنے والے ہیں۔ ماسکو کانفرنس کو اس حوالے سے بھی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے کہ اس میں پہلی بار پاکستان، طالبان اور بھارت کے نمائندے ایک ساتھ شریک ہوئے ہیں، جب کہ چین اور افغان اعلیٰ سطحی امن کونسل کی شرکت سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ افغان قضیے کے تمام اسٹیک ہولڈر اس چالیس سالہ بحران کو حل کرنے کے متمنی ہیں،جس کے نتیجے میں پورے خطے کا امن اور استحکام دائو پر لگا ہوا ہے۔ اسی طرح طالبان اس کانفرنس میں شرکت کے ذریعے جہاں اپنی جدوجہد کو بین الاقوامی سطح پر منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں، وہیں اس شرکت کے توسط سے وہ دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں میں نہ صرف آزاد ہیں بلکہ ان میں مذاکرات کی میز پر آنے کی خواہش اور لچک بھی موجود ہے، جسے بلاشبہ ان کی ایک بڑی اخلاقی اور سفارتی کامیابی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب سفارتی حلقوں میں اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد کو عالمی سیاست میں روس کی نئی حیثیت کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے۔ دراصل افغانستان میں قیام امن کے لیے اُس کے پڑوسی ممالک کی دلچسپی خطے میں امن و استحکام کے قیام کو یقینی بنانے کی سنجیدہ کوششوں کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ روس سمیت سب کے لیے یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ عراق و شام سے شکست کے بعد پسپا ہوتے داعش کے جنگجو درمیانی ممالک کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے افغانستان پہنچ گئے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے داعش کے جن بیرونی سرپرستوں کی بات کی ہے اُن سے دنیا بخوبی واقف ہے۔ پاکستان کی ماسکو کانفرنس میں شرکت افغانستان میں قیام امن اور خطے میں استحکام لانے کی دیرینہ خواہشوں سے عبارت ہے۔ افغانستان کے عوام سے صدیوں کے مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی تعلقات کے پیش نظر پاکستان کے عوام افغان بھائیوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد محسوس کرتے ہیں۔ افغان امن کونسل اور طالبان کے نمائندوں کا یکجا ہونا بھی خوش آئند ہے۔ افغان حکومت کے حوالے سے طالبان کا دیرینہ مؤقف ان کا فہمی حق ہے، البتہ اس امر کو مدنظر رکھنا ازبس ضروری ہے کہ انتخابی عمل کے ذریعے اقتدار میں آنے والی افغان حکومتوں کو بہرطور عوام ہی ووٹ دیتے ہیں۔ طالبان کی قیادت جس طرح اپنے سیاسی حقوق اور حکومت سازی کے لیے کردار کو درست سمجھتی ہے اسی طرح اُسے افغان عوام کے اُس حصے کی رائے کا بھی احترام کرنا چاہیے جو اپنی حکومت کے انتخاب میں ووٹ ڈالتا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کی ہر وہ سنجیدہ کوشش لائقِ تحسین ہے جس سے خانہ جنگی کی صورت حال ختم ہو، اور پڑوسی ممالک میں پھیلے ہوئے مہاجرین کی وطن واپسی کا راستہ ہموار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ امید بھی پیدا ہو کہ اس صورت میں افغان سرزمین میں قائم اُن غیر ملکی جنگجوئوں کے محفوظ ٹھکانے بھی ختم ہوں گے جو طالبان کے زیراثر علاقوں سے اپنے ممالک میں کارروائی کرتے ہیں۔ سرد جنگ اور پھر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جنوبی ایشیا کی صورت حال کے حوالے سے روسی قیادت نے پہلی بار اپنی سیاسی ترجیحات کو اُن ممالک کے سامنے رکھا ہے جو افغان تنازعے سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ افغان تنازعے کا حل بندوق اور بے رحم نسل کُشی سے نہیں نکالا جاسکتا، مگر تنازعے کا حل نکالتے وقت افغان عوام کے جمہوریت پسند حلقوں کی رائے اور مستقبل کو بھی سامنے رکھا جانا ضروری ہے۔ افغان تنازعے کے جو اثرات پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان پر مرتب ہوئے ہیں انہیں بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ امید ہے کہ ماسکو افغان امن کانفرنس سے معاملات آگے بڑھیں گے۔
قیام امن اور استحکام کے لیے ایسا پائیدار حل بہرطور تلاش کرلیا جائے گا جس سے افغان عوام کے مختلف الخیال طبقات کے سیاسی، معاشی اور ملّی حقوق کا تحفظ ممکن ہو، اور ایسا تاثر نہ ابھرے کہ کسی ایسے منصوبے کو افغان عوام پر مسلط کیا جارہا ہے جس سے وہ حکومت سازی کے جمہوری حق سے محروم ہوجائیں گے۔ ایک پُرامن، مستحکم اور ترقی کی طرف پیش قدمی کرتا ہوا افغانستان خطے کے تمام ممالک کی ضرورت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ماسکو کانفرنس میں اُن تمام ممالک نے پُرجوش شرکت کی ہے جن کا اپنا استحکام افغانستان کے امن اور ا ستحکام سے جڑا ہوا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ یہ کانفرنس افغان عوام کے ساتھ ساتھ خطے کے تمام ممالک کے لیے امن اور آشتی کا ایک نیا پیغام لے کر آئے گی۔