کراچی پریس کلب پر یلغاراور صحافی نصراللہ خان چودھری کا اغوا

منیر عقیل انصاری
سیاست کے بعد پاکستان کی صحافت نشانے پر ہے۔ صحافی اور صحافت خطرے میں ہیں۔ پاکستان کا شمار بھی صحافیوں کے لیے خطرناک ترین تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ ماضی میں درجنوں صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھاتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔
کراچی پریس کلب پر مخصوص ادارے کی یلغار اور نصراللہ چودھری کا اغوا، اور پھر بھرپور احتجاج کے بعد پراسرار انداز میں عدالت میں من گھڑت الزامات لگاکر گرفتاری ظاہر کرنا ایک شرمناک عمل ہے، اور یہ آزادیٔ اظہار پر قدغن لگانے کے گھنائونے کھیل کا تسلسل ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ کراچی پریس کلب میں جمعرات 8 نومبر 2018ء کی رات ساڑھے دس بجے خفیہ ایجنسی اور سی ٹی ڈی کے 10 سے 15 مسلح اہلکار کلب کے چوکیدار کو دھمکاتے ہوئے زبردستی پریس کلب میں داخل ہوگئے۔ مسلح افراد کلب کے کانفرنس روم، اسپورٹس کمپلیکس اور دیگر جگہوں کی تلاشی لیتے ہوئے کلب کی چھت تک پہنچ گئے جہاں اُس وقت ’’جشن آزادی فیسٹول و فیملی گالا 2018‘‘ میں کام کرنے والے رضاکاروں کے اعزاز میں استقبالیہ پروگرام جاری تھا، جس میں سو سے زائد اراکینِ کراچی پریس کلب موجود تھے۔ مسلح افراد نے کراچی پریس کلب کے مختلف حصوں کی وڈیو بھی بنائی۔ کلب انتظامیہ اور موقع پر موجود صحافیوں نے جب ان مسلح افراد کو اس حرکت سے روکا اور ان کی شناخت معلوم کرنا چاہی تو انہوں نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ انہوں نے خود کو سرکاری اہلکار ظاہر کیا۔ سادہ لباس مسلح افراد کے ساتھ دو ویگو گاڑیاں، لینڈ کروزر اور پولیس موبائل بھی موجود تھی۔ ان نامعلوم مشکوک افراد کو سیڑھیوں پر دیکھ کر پریس کلب کی گورننگ باڈی اور ویجی لینس کمیٹی کے ذمے داران نے ان کی شناخت جاننا چاہی تو یہ تمام افراد پریشانی کی حالت میںکلب سے نکلنا شروع ہوگئے، اور جاتے جاتے یہ بولتے رہے کہ ہم کسی عمران سے ملنے آئے تھے، اب اس سے رابطہ نہیں ہو پارہا ہے۔ ان مسلح افراد کے پیچھے پیچھے کلب کے ذمے داران باہر مین روڈ تک گئے لیکن وہ اپنی 4 سے 5 ڈبل کیبن اور پراڈو گاڑیوں میں بیٹھ کر فرار ہوگئے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی صحافیوں کی بڑی تعداد کراچی پریس کلب پہنچ گئی۔ اس واقعے کے بعد کراچی پریس کلب کی انتظامیہ اور ویجی لینس کمیٹی نے پولیس، رینجرز اور اعلیٰ حکومتی شخصیات سے رابطہ کیا اور کلب کی صورت حال سامنے رکھی۔ رینجرز اور پولیس کے اعلیٰ حکام پریس کلب پہنچے، جبکہ ایڈیشنل آئی جی کراچی فون پر رابطے میں رہے۔ اُس وقت سب کی جانب سے یہی وضاحتیں دی جاتی رہیں کہ قومی سلامتی کے ادارے عمران نامی شخص کے موبائل کو لوکیٹ کرتے ہوئے غلطی سے کلب میں داخل ہوئے اور بعد میں اس شخص کو پریس کلب کے برابر والے پلاٹ سے گرفتار کرلیا، اور ہم سب اس عمل پر کلب انتظامیہ سے معذرت کرتے ہیں۔ اس واقعے کے بارے میں فوری طور پر ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ کوآگاہ کیا گیا، جس پر انہوں نے واقعہ کی فوری تحقیقات کرانے کا وعدہ کیا۔
ملکی اور بین الاقوامی سطح پر صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں اس واقعہ کی مذمت کررہی ہیں۔ صحافی سراپا احتجاج ہیں۔ کراچی پریس کلب کے صدر احمد خان ملک، سیکریٹری مقصود احمد یوسفی، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے سیکریٹری جنرل سہیل افضل خان، اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل شعیب احمد، کراچی یونین آف جرنلسٹس دستور کے صدر طارق ابوالحسن، سیکریٹری حامد الرحمن اعوان اور اراکین مرکزی مجلسِ عاملہ نے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، اور کراچی پریس کلب میں قائم احتجاجی کیمپ میں لوگ اظہارِ یک جہتی بھی کررہے ہیں۔ کراچی پریس کلب اور گورنر ہاؤس کے باہر دھرنے سمیت پورے ملک میں صحافی برادری، سول سوسائٹی، سیاسی و سماجی شخصیات نے کراچی پریس کلب سے اظہارِ یک جہتی کیا۔ سندھ اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان میں بھی اس مسئلے کو اٹھایا گیا اور اسے آزادیٔ صحافت پر حملہ قرار دیا گیا۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل، صوبائی وزیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب اور سینیٹ آف پاکستان میں سینیٹر حاصل بزنجو کی جانب سے توجہ دلائو نوٹس پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قومی سلامتی کے اداروں کے ذرائع وضاحتیں ہی دیتے رہے کہ پریس کلب پر چھاپہ ایک غلط فہمی اور لاعلمی میں مارا گیا اور متعلقہ افراد کو یہ نہیں پتا تھا کہ یہ پریس کلب کی عمارت ہے۔
اس سارے شرمناک واقعہ کے بعد جب ہر جانب سے کراچی پریس کلب پر دھاوے کی مذمت کی جارہی تھی تو اچانک کچھ نامعلوم واٹس ایپ نمبرز اور سوشل میڈیا پر عجیب و غریب پیغامات چلنا شروع ہوگئے جن میں یہ بیان کیا جاتا رہا کہ کراچی پریس کلب پر قومی سلامتی کے اداروں کا چھاپہ بلاجواز نہیں تھا، بلکہ اس چھاپے میں کچھ مذہبی انتہا پسند اور پاک فوج کے خلاف چلنے والا میڈیا سینٹر اور شراب کی بوتلیں پکڑی گئی تھیں، اور اب مزید گرفتاریوں کا امکان ہے۔
کراچی پریس کلب کے تقدس کی پامالی اور آزادیٔ صحافت پر حملے کے خلاف احتجاج کرنے والے صحافیوں کی آواز کو دبانے، میڈیا کو یرغمال بنانے اور بلاجواز چھاپے کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے کراچی پریس کلب کے سینئر ممبر اور گزشتہ 24 برس سے شعبۂ صحافت سے وابستہ، نصف درجن سے زائد اخبارات اور نیوز ایجنسیوں میں کام کرنے والے نصراللہ چودھری کو 9 اور 10نومبر (جمعہ اور ہفتہ) کی درمیانی شب سولجر بازار میں واقع ان کے گھر سے حراست میں لے لیا گیا اور سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے انھیں نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ پولیس کے مطابق وہ ایک طاقتور ایجنسی کی تحویل میں تھے اور ان سے انتہائی حساس معلومات جمع کی جارہی تھیں۔ نصراللہ چودھری کو لاپتا کرنے کے خلاف 10نومبر کو کراچی پریس کلب کے باہر بڑی تعداد میں صحافیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں کہا گیا کہ نصراللہ چودھری کی جھوٹ کی بنیاد پر حراست گزشتہ دنوں پریس کلب پر سرکاری اہلکاروں کے دھاوے کے خلاف ملک گیر احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کڑی ہے۔ دو دن قبل کراچی پریس کلب پر مسلح سرکاری اہلکاروں کے دھاوے اور پریس کلب کے تقدس کو پامال کرنے کے شرمناک واقعہ پر احتجاج کرنے والے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ 11نومبر کو کراچی پریس کلب پر صحافیوں کا احتجاجی کیمپ لگایا گیا جس میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی، تمام صحافی یونینز کے عہدیداران، سیاست دان اور سول سوسائٹی سے وابستہ شخصیات شرکت کررہی ہیں۔
12نومبر کو سندھ ہائی کورٹ میں انسدادِ دہشت گردی کی منتظم عدالت میں سینئر صحافی نصراللہ خان سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ سی ٹی ڈی پولیس نے چار روز سے لاپتا سینئر صحافی نصراللہ خان کو عدالت میں پیش کردیا۔ تفتیشی افسر نے عدالت سے ملزم کے دو ہفتے کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی جو عدالت نے مسترد کردی۔ عدالت نے صحافی کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ دیا اور 14 نومبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔ اس سے قبل جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے استفسار کیا کہ کس الزام میں ایک صحافی کو گرفتار کیا ہے؟ کیوں ریمانڈ چاہیے؟ اہلیہ نصراللہ خان نے کہا کہ ان کے شوہر پر بے بنیاد الزام ہے۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ سینئر صحافی نصراللہ خان کے خلاف مبینہ ممنوعہ لٹریچر برآمدگی کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ملزم کے وکیل فاروق ایڈووکیٹ نے کہا کہ صحافی کا کام خبریں اکٹھی کرنا اور لوگوں سے ملاقات کرنا ہے، ایک صحافی پر مواد رکھنے اور ملاقات کرنے کا الزام مذاق کے مترادف ہے، تفتیشی افسر جھوٹ بھی بول رہے ہیں، اور صحافی کو چار روز قبل حراست میں لیا گیا تھا۔
وکیل حیدر امام رضوی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پریس کلب پر چھاپے کے خلاف گورنر ہاؤس پر احتجاج کرنے پر صحافی کے خلاف انسداد دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا گیا، ہم وکلاء بھی اس احتجاج میں نصراللہ خان کے ساتھ شریک تھے، کراچی پریس کلب پر حملے کے خلاف احتجاج پر انہیں نشانہ بنایا گیا ہے، سینئر صحافی کی گرفتاری سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی ہورہی ہے۔
جب14نومبر کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا تو نصراللہ چودھری کے سر پر کپڑا ڈالا ہوا تھا جو بعد میں صحافیوں کے احتجاج پر اتار دیا گیا۔ صحافیوں کا کہنا تھا کہ رائو انوار تو عدالت کے کہنے پر بھی ہتھکڑیاں نہیں لگاتے اور ایک معزز صحافی کو ہتھکڑیاں لگادی گئیں جو قابلِ مذمت ہے۔ اس موقع پر صحافیوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ عدالت میں سی ٹی ڈی کے تفتیشی افسر نے کہا کہ ہمیں کوئی تفتیش نہیں کرنی۔ اس کے بعد عدالت نے نصراللہ چودھری کو عدالتی ریمانڈ میں لے کر جیل کسٹڈی دے دی اور بعد میں چالان پیش کیا جائے گا۔ سی ٹی ڈی کی اچانک اس کیس سے عدم دلچسپی خود کیس میں سب کچھ ’’کالا‘‘ ہے کی کھلی مثال ہے، کیوں کہ ایک روز قبل سی ٹی ڈی نے کئی بے بنیاد الزامات لگائے تھے، اور یہی وجہ ہے کہ صحافی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک منظم اور سوچا سمجھا کھیل ہے جس کا سندھ حکومت بھی حصہ ہے، اور اسی لیے انہوں نے اپنا احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔
احتجاجی کیمپ کے دوران مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کا کہنا تھا کہ لٹریچر کے مقدمے میں صحافی کی گرفتاری انتہائی مضحکہ خیز ہے، صحافی کے گھر سے لٹریچر برآمد نہیں ہوگا تو کیا برآمد ہوگا! کراچی پریس کلب پر حملے سے توجہ ہٹانے کے لیے پہلے صحافی کو رات کی تاریکی میں اٹھا لیا گیا اور اس کے بعد لٹریچر کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ سابق گورنرسندھ اور رہنما پاکستان مسلم لیگ (ن) محمد زبیر نے کراچی پریس کلب کے رکن اور سینئر صحافی نصراللہ چودھری کی گمشدگی، ان کے خلاف جھوٹے مقدمے اور پریس کلب پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ رات کی تاریکی میں صحافی کو گھر سے لاپتا کرنا افسوس ناک ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے پولیس اہلکاروں کے ہمراہ سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں کے پریس کلب پر چھاپے اور کلب کی عمارت اور مختلف حصوں کی وڈیو بناکر فرار ہونے کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تحقیقات کرانے اور چھاپے میں ملوث اہلکاروں اور ذمے داروں کے خلاف فی الفور کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ پریس کلب کے اندر اہلکاروں کی یہ کارروائی سراسر آزادیٔ صحافت پر حملہ اور پریس کلب کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔
جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما علامہ غوث صابری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کراچی پریس کلب اور صحافی کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ موجودہ جمہوری حکومت کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے، کیونکہ ایسا تو آمرانہ دور میں بھی نہیں ہوا کہ رات کی تاریکی میں کسی نے پریس کلب پر حملہ کیا ہو اور صحافیوں کو زدوکوب کیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ صحافی ظالموں اور وقت کے جابروں کے خلاف آوازِ حق بلند کرتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کراچی پریس کلب اور صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔ احتجاج کے دوران سینئر صحافی اے ایچ خانزادہ نے کہا کہ صحافی کے گھر سے قلم، لٹریچر اور کیمرہ ہی برآمد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ جو صحافی لٹریچر کا مطالعہ نہ کرے، اس کے پاس قلم اور کیمرہ نہ ہو وہ صحافی کیسے کہلائے گا! سینئر صحافی عامر لطیف نے کہا کہ ہم صحافی اپنا احتجاج جاری رکھیں گے اور یہ احتجاج نصراللہ چودھری کی رہائی تک نہیں بلکہ پریس کلب پر حملہ آوروں کے معافی مانگنے تک جاری رہے گا۔ کراچی پریس کلب پر حملے اور صحافی نصراللہ چودھری کی گرفتاری کے خلاف وقتاً فوقتاً منعقدہ احتجاجی کیمپ اور اس حوالے سے کراچی پریس کلب کے باہر صحافیوں کے مظاہرے سے سینئر صحافیوں اور مختلف صحافتی تنظیموں کے رہنمائوں نے خطاب کیا۔ تیسرے روز پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی پریس کلب پر حملہ انتہائی تشویش ناک ہے اور سینئر صحافی نصراللہ چودھری کی گرفتاری بھی قابل افسوس ہے، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر اس احتجاج میں شریک ہوئی ہوں۔ نفیسہ شاہ نے کہا کہ جہاں صحافیوں کے حقوق پر حملہ ہو اور غیر آئینی اور غیر قانونی کارروائیاں ہوں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اخبار پڑھنے اور لٹریچر پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی، اس مسئلے پر کراچی پریس کلب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ صحافیوں نے ہمیشہ مشکل حالات میں آواز اٹھائی ہے۔ چیئرپرسن عورت فاؤنڈیشن مہناز رحمان نے کہا کہ پریس کلب پر چھاپہ مارکر صحافت کے مقدس پیشے کی توہین کی گئی ہے، صحافی اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں۔ سینئر صحافی سعید جان بلوچ نے کہا کہ نصراللہ چودھری کو جس طرح عدالت میں پیش کیا گیا وہ توہین آمیز ہے، معزز پیشے والوں کی تذلیل کی جارہی ہے، اس عمل کی مذمت کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک سی بی اے کے سیکریٹری جنرل اور مزدور رہنما لیاقت ساہی نے کہا کہ ہم پریس کلب پر حملے اور صحافی نصراللہ کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ صحافی کو فی الفور رہا کیا جائے۔ سابق صدر پی ایف یو جے ادریس بختیار، سیکریٹری جنرل پی ایف یو جے برنا ایوب جان سرہندی، نمائندہ ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان خضر قاضی نے بھی صحافت پر حملے کی مذمت کی ہے۔ سینئرصحافی فہیم صدیقی نے کہا کہ کراچی پریس کلب پر حملہ اور نصراللہ چودھری کی رات کی تاریکی میں گرفتاری کے خلاف ملک بھر کے صحافی متحد ہیں۔
دوسری جانب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے کراچی پریس کلب کے سینئر ممبر ومعروف صحافی نصراللہ چودھری کو القاعدہ کا سہولت کار قرار دے دیا۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ میں دعویٰ کیا گیا کہ نصراللہ چودھری کے قبضے سے افواج پاکستان اور حکومت پاکستان کے خلاف مواد اور عوام کو جہاد پر اکسانے والا مواد برآمد ہوا ہے۔ سی ڈی ٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے دو اہلکار ان کا تعاقب کرتے ہوئے 8 نومبر کی شب کراچی پریس کلب میں داخل بھی ہوئے۔ دوسری طرف زمینی حقائق، واقعہ کے عینی شاہدین اور خود پریس کلب پر مسلح افراد کے دھاوے کے بعد پریس کلب کے عہدے داروں سے ملاقات کرنے والے اعلیٰ پولیس افسران کے بیانات سی ٹی ڈی کی طر ف سے جاری ہونے والے اعلامیہ کو مشکوک اور حقائق کے برعکس قرار دے رہے ہیں۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا کہ اس کے دو اہلکار کراچی پریس کلب میں داخل ہوئے، جب کہ کراچی پریس کلب میں جمعرات کی شب 12 سے 15 مسلح افراد داخل ہوئے۔ اس کی گواہی کراچی پریس کلب میں اُس وقت موجود سو سے زائد اراکینِ کراچی پریس کلب نے دی۔ پھر سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیاکہ ممکنہ دہشت گرد کی تلاش میں پریس کلب میں داخل ہونے والے اہلکار اس دہشت گرد کو گرفتار نہیں کرسکے، جب کہ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر سی ٹی ڈی کے مطابق نصر اللہ چودھری مطلوب ملزم تھے تو وہ نہ صرف پریس کلب پر مسلح افرادکی چڑھائی کے وقت موجود تھے بلکہ انہوں نے ان افراد سے بات چیت کرنے کی بھی کوشش کی، اگر وہ حقیقت میں مطلوب تھے تو سی ٹی ڈی نے ان کو اُس وقت ہی کیوں گرفتار نہیں کیا؟ جبکہ ایڈیشنل آئی جی کراچی کی جانب سے یہ وضاحت دی جاتی رہی کہ قومی سلامتی کے ادارے عمران نامی شخص کے موبائل کو لوکیٹ کرتے ہوئے غلطی سے کلب میں داخل ہوئے اور بعد میں اس شخص کو پریس کلب کے برابر والے پلاٹ سے گرفتار کرلیا۔ یہ وضاحت ہی سی ٹی ڈی کے الزامات کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے، لیکن یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ذرائع کے مطابق یہ کارروائی سی ٹی ڈی کی جانب سے کی ہی نہیں گئی۔ اس بات کی تصدیق پیر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے دوران اپنے ساتھیوں کے سوال کے جواب میں نصراللہ چودھری نے بھی کی۔ ان کے ساتھی نے ان سے سوال کیا تھاکہ ان کوگزشتہ 3 روز سے کہاں رکھا گیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیاکہ پہلے 2 روز کا تو نہیں پتا، تاہم مجھے گزشتہ شب سی ٹی ڈی کے حوالے کیا گیا ہے۔ صحافتی حلقے کراچی پریس کلب پر حملے، نصراللہ چودھری کی گرفتاری اور ان پر لغو اور بے بنیاد الزامات کو ریاست کے چوتھے ستون کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
کراچی پریس کلب نے انسداد دہشت گردی سیل (سی ٹی ڈی) کے جاری کردہ پریس ریلیز کو مسترد کردیا ہے۔اور کہا ہے کہ سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے غیرقانونی اور غیرآئینی عمل پر پردہ ڈالنے کی ایک اور کوشش ہے،کراچی پریس کلب یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ جعلی اور من گھڑت الزامات پریس کلب پر دھاوے کے خلاف صحافی برادری کو بھرپور احتجاج سے نہیں روک سکتے۔ سی ٹی ڈی نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ کلب میں نصراللہ چودھری کا پیچھاکرتے ہوئے اس کے دواہلکار داخل ہوئے تھے،جبکہ دوسری جانب کراچی پولیس اور سی ٹی ڈی کے اہلکار نہ صرف اس میں اپنے ملوث ہونے سے انکار کرتے رہے بلکہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ اس حملے میں ’’سسٹر اآگنائزیشن ‘‘ ملوث ہے۔ علاوہ ازیں سندھ حکومت اور سیکورٹی ادارے بشمول سندھ رینجرز کے ونگ اور سیکٹر کمانڈرز اور پولیس کے ایس ایس پی پیر محمد شاہ نے جنہوں نے جمعرات کی رات پریس کلب کا دورہ کیا، اس دھاوے کو غلط فہمی قرار دیا تھا۔ کراچی پریس کلب نے واضح طور پر کہا ہے کہ 8 نومبر کا چھاپہ نہ تو کسی غلط فہمی کا نتیجہ تھا اور نہ ہی یہ نصراللہ کو گرفتار کرنے لیے مارا گیا تھا، بلکہ یہ دو درجن سے زائد اسلحہ بردار سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں کا دھاوا اور صحافیوں کے خلاف جاری مہم بشمول ان پر تشدد، ان کے اغوا اورملک بھر میں ان پر مسلح حملوں کی ایک کڑی تھی۔کراچی پریس کلب اور صحافیوں کی دیگر تنظیمیں نصراللہ خان چودھری کی پشت پر کھڑی ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی گھر سے گرفتاری سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے پریس کلب پر دھاوے کے عمل کے خلاف بڑھتے ہوئے ملکی اور بین الاقوامی دبائو کا رخ موڑنے کی ایک کوشش تھی۔کراچی پریس کلب پہلے ہی نصراللہ چودھری کو چھوڑنے کے لیے کلب پر حملے کے خلاف احتجاج کو ختم کرنے کی سیکورٹی ایجنسیوں کی پیشکش کو مسترد کرچکا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کے نام نہاد ترجمان کا بیان پریس کلب پر حملے کے اصل مجرموں کو چھپانے کی کوشش ہے۔
نصر اللہ چودھری سے تفتیش کے لیے 7رکنی جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔سیکریٹری داخلہ عبدالکبیر قاضی کے دستخطوں سے جاری ہو نے والے حکم نامے کے مطابق آئی جی پولیس کی درخواست پرتشکیل دی جانے والی تفتیشی ٹیم کی سربراہی سی ٹی ڈی کے ایس ایس پی انوسٹی گیشن کریں گے۔ اس ٹیم میںایم آئی،آئی ایس آئی اور رینجرز کے کم ازکم میجرکی سطح کے افسران،آئی بی،اسپیشل برانچ اور سی ٹی ڈی کے کم ازکم ایس پی کی سطح کے افسران شامل ہوں گے۔ 15دن میں تفتیش مکمل کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔
صحافی معاشرے کا وہ طبقہ ہے جس نے ہر آمر اور ڈکٹیٹر کے سامنے کلمہ حق بلند کیا ہے، قلم کی حرمت اور آزادیٔ اظہارِ رائے پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا،آج یہ طبقہ مقتدر قوتوں کے نشانے پر ہے لیکن ان کے حوصلے ابھی بھی بلند اور جذبہ جوان ہے۔