۔6 نومبر کو امریکہ میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات کے نتائج تادم تحریر مکمل نہیں ہوئے۔ ریاست فلوریڈا سے سینیٹ کی نشست پر ری پبلکن کو 1.2فیصد ووٹوں کی برتری حاصل ہے، جبکہ ریاست ایریزونا (Arizona) میں ڈیموکریٹک امیدوار کرسٹن سائینیما (Kyrsten Sinema) نے اپنی ری پبلکن حریف محترمہ مارتھا مک سیلی(Martha McSally) سے 0.5فیصد ووٹ زیادہ لیے ہیں۔ ان دونوں جگہ دوبارہ گنتی اور اعتراضات کی وجہ سے نتائج کا اعلان نہیں ہوا۔ ریاست مسسی سپی (Mississippi) سے سینیٹ کی نشست پر کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ نہیں لے سکا، لہٰذا یہاں پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار اگلے ماہ براہِ راست مقابلہ کریں گے۔ دوسرے مرحلے کے ان انتخابات کو Run-offکہا جاتا ہے۔ ریاست جارجیا کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا ہوا ہے جہاں سیاہ فام خاتون رہنما اسٹیسی ابرام ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے گورنری کی خواہشمند ہیں۔ اس دنگل میں گنتی مکمل ہونے پر ری پبلکن امیدوار کے ووٹ اسٹیسی ابرام کے مقابلے میں 1.6 فیصد زیادہ ہیں۔ بے ضابطگیوں کی شکایت کی بنا پر ڈیموکریٹک پارٹی نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں، اور محترمہ ابرام نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا عندیہ دیا ہے۔
وسط مدتی انتخابات دراصل قانون ساز اداروں کے یا پارلیمانی انتخابات ہیں۔ امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کی مدت 2 سال اور صدر کی مدت 4 سال ہے، لہٰذا یہ انتخابات ایک بار صدارتی انتخابات کے ساتھ ہوتے ہیں اور دوسری بار صدارتی مدت کے درمیان۔ اسی بنا پر انھیں وسط مدتی انتخاب کہا جاتا ہے۔ امریکی سینیٹ کی مدت 6 سال ہے اور پاکستان کی طرح یہاں بھی ہر دو سال بعد ایک تہائی امیدواروں کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ امریکہ میں ماہِ نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والا منگل انتخابات کے لیے مختص ہے۔
ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے ارکان کی کُل تعداد 435 ہے۔ سینیٹ میں تمام 50 اکائیوں کی نمائندگی برابر ہے، چنانچہ ہر ریاست سے 2 ارکان منتخب کیے جاتے ہیں، یعنی امریکی سینیٹ 100 ارکان پر مشتمل ہے۔ 6 نومبر کو ایوان نمائندگان کے علاوہ سینیٹ کی 35 نشستوں پر انتخابات ہوئے۔ اسی کے ساتھ ریاستی (صوبائی) اسمبلیوں اور 39 ریاستوں میں گورنرکے لیے میدان سجے۔ عام انتخابات کے موقع پر امریکہ میں اہم معاملات پر عوام کی رائے بھی معلوم کی جاتی ہے جسے Propositionsکہتے ہیں۔ 4 ریاستوں میں بھنگ اور چرس کو قانونی تحفظ دیئے جانے کے لیے عوام کی رائے معلوم کی گئی۔ کیلی فورنیا کے لوگوں کو موسمِ بہار میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کردینے پر سخت اعتراض ہے، چنانچہ ان سے پوچھا گیا کہ گھڑیاں آگے کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے یا نہیں؟ کچھ ریاستوں میں سزا یافتہ افراد کو ووٹ ڈالنے کے حق پر رائے لی گئی۔
امریکہ میں صدارتی نظام رائج ہے اس لیے وسط مدتی انتخابات کے نتائج سے صدر ٹرمپ کی صدارت پر براہِ راست کوئی اثر نہیں پڑے گا کہ پارلیمانی نظام کے وزیراعظم کی طرح صدر کو ایوان نمائندگان یا سینیٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت نہیں۔ امریکی صدر کو عوام نے براہِ راست منتخب کیا ہے۔ تاہم جج، جرنیل، سفیر، کابینہ کے ارکان اور دوسری اہم تقرریوں کے لیے سینیٹ کی منظوری ضروری ہے۔ اسی طرح بجٹ سمیت تمام اخراجات کانگریس منظور کرتی ہے، لہٰذا صدر کو تمام اہم فیصلوں کے لیے کانگریس کی حمایت درکار ہے، یعنی مقننہ اگر ’’شرارت‘‘ پر اتر آئے تو وہ صدر کی زندگی مشکل کرسکتی ہے۔
انتخابات سے پہلے ایوانِ نمائندگان میں صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کو 42، جبکہ سینیٹ میں 49 کے مقابلے میں 51 نشستوں کی برتری حاصل تھی۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے ارکان کی تعداد تو 47 تھی لیکن 2 آزاد ارکان نے جن میں برنی سینڈرز شامل ہیں، خود کو ڈیموکریٹک پارلیمانی پارٹی یا Caucus سے وابستہ کررکھا ہے۔ 6 نومبر کو سینیٹ کی جن 35 نشستوں پر انتخابات ہوئے ان میں سے 26 نشستیں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹرز کی مدت ختم ہونے پر خالی ہوئی تھیں۔ اس کے مقابلے میں صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کو صرف 9 نشستوں کا دفاع کرنا تھا۔
ان انتخابات کی اہم بات مسلمانوں، ہسپانویوں، رنگ دار اقلیت اور خواتین میں غیر معمولی جوش و خروش تھا۔ ووٹ ڈالنے کے لیے مساجد سے قافلے روانہ ہوئے۔ ایسے ہی مناظر ہسپانوی اور سیاہ فام آبادیوں میں نظر آئے جہاں Uber ڈرائیوروں نے پولنگ اسٹیشنوں تک مفت سواری مہیا کی۔ ان انتخابات میں 11 کروڑ30 لاکھ لوگوں نے حصہ لیا اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 49 فیصد رہا جو امریکہ میں ایک ریکارڈ ہے۔ یہاں وسط مدتی انتخابات میں کبھی بھی 37 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ڈالے گئے۔
جہاں تک انتخابات کے شفاف اور منصفانہ ہونے کا تعلق ہے، تو ایک طرف صدر ٹرمپ شکوہ کررہے ہیں کہ لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن نے ڈیموکریٹک پارٹی کے حق میں جعلی ووٹ ڈالے، دوسری طرف رنگ دار لوگوں کو شکایت ہے کہ انھیں کئی جگہ ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا۔ افریقی امریکیوں کے علاقوں میں پولنگ اسٹیشن بہت دور دور بنائے گئے تھے اور ان کی گنجان آبادیوں کے مراکز پر صرف دو یا تین ووٹنگ مشینیں رکھی گئی تھیں۔ بعض جگہ مشینیں خراب ہوگئیں اور ان کی مرمت کے لیے کئی کئی گھنٹے پولنگ معطل رہی۔ یہ مشاہدہ عام تھا کہ سیاہ فام علاقوں میں ووٹنگ بہت آہستہ ہورہی تھی۔ لوگوں کو رائے دینے کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑا رہنا پڑا اور ہزاروں افراد مایوس ہوکر ووٹ ڈالے بغیر واپس چلے گئے۔
صدر ٹرمپ نے اس مہم میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے مختلف ریاستوں میں انتخابی جلسوں سے خطاب کرتے رہے۔ امریکی صدر نے آخری دو دن اپنی بیٹی ایوانکا کے ہمراہ طوفانی دورہ کرکے مختلف ریاستوں میں 9 جلسہ عام سے خطاب کیا۔ دوسری طرف سابق صدر اوباما بھی ڈیموکریٹک امیدواروں کی نصرت کے لیے سرگرم رہے۔ صدر ٹرمپ کی شعلہ بیانی سے سامعین کے ساتھ خود ان کا گلا بھی بے حد متاثر ہوا۔
صدر ٹرمپ نے اپنی تقاریر میں غیر ملکی تارکین وطن اور رنگ دار لوگوں کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا۔ انھوں نے میکسیکو کی سرحد عبور کرکے غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والوں کو حملہ آور قرار دیتے ہوئے ان پناہ گزینوں کو روکنے کے لیے امریکی فوج کو سرحد پر بھیجنے کا اعلان کیا۔ امریکی صدر نے ڈیموکریٹک پارٹی کی ’کھلی ڈلی‘ امیگریشن پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو ملک سے غیر مخلص ہونے کا طعنہ دیا۔ میڈیا صدر کا خاص ہدف رہا اور وہ انتخابی مہم کے دوران ملکی ابلاغ عامہ کو Fake Media اور ملک دشمن پکارتے رہے۔
وسط مدتی انتخابات کی ایک اور اہم بات خواتین میں غیر معمولی جوش وخروش تھا۔ انتخابات سے پہلے 435 رکنی ایوانِ نمائندگان میں خواتین کی تعداد 84 تھی جبکہ حالیہ انتخابات میں 239 خواتین نے قسمت آزمائی کی، جن میں سے 187 کو ڈیموکریٹک پارٹی نے نامزد کیا تھا ،اور52 کے پاس ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ تھے۔ گورنر، سینیٹ اور دوسرے تمام معرکوں کو شمار کیا جائے تو 278 خواتین میدان میں تھیں جن میں سے حوا کی 214 بیٹیوں کو گدھا پارٹی نے نامزد کیا تھا۔ گدھا ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان ہے اور ری پبلکن پارٹی ہاتھی کے نشان سے پہچانی جاتی ہے۔
ان انتخابات کا سب سے سنسنی خیز مقابلہ کیلی فورنیا میں ہوا جہاں پاکستان اور اسلام مخالف ڈانا رہراباکر ایوان نمائندگان کے حلقے 48 پر اپنی نشست کا دفاع کررہے تھے۔71 سالہ رہراباکر پاکستان کے بدترین سیاسی مخالف ہی نہیں بلکہ مملکت کے بنیادی نظریے پر بھی انھیں شدید تحفظات ہیں۔ وہ بلوچستان کی آزادی کے حامی ہیں۔ انھیں پاکستانی آئین میں ختمِ نبوت کی ترمیم پسند نہیں، اور کانگریس میں احمدیہ کاکس (Caucus)کے یہ سرگرم رکن ناموسِ رسالت قانون کو انسانی حقوق کی خلاف وزری سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے لیے امداد میں کٹوتی کی ہر تحریک انھی کی تحریر کردہ ہے۔ رہراباکر سابق صدر ریگن کے خطبہ نویس تھے۔ وہ گزشتہ 30 سال سے کانگریس کے رکن منتخب ہوتے چلے آئے ہیں اور ہر بار مقابلہ رسمی ہی سا رہا ہے، کہ اس علاقے میں متمول کروڑ پتی لوگوں کی اکثریت ہے۔ تاہم اِس بار مسلمانوں، ہسپانویوں اور افریقی امریکیوں نے ٹرمپ مخالف تحریک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے مخالف مسٹر ہارلی روڈا (Harley Rouda)کے حق میں زبردست مہم چلائی۔ 100 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہوجانے کے بعد مسٹر روڈا کو رہراباکر پر 3000 ووٹوں کی برتری حاصل ہے، لیکن رہراباکر اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور وہ دوبارہ گنتی پر اصرار کررہے ہیں۔
ان انتخابات میں مسلمان امیدواروں کی کارکردگی بے حد اچھی رہی۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے پناہ گزینوں اور غیر ملکی تارکینِ وطن کے خلاف زہریلی مہم کے باوجود مسلم خواتین نے شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ صومالی پناہ گزین محترمہ الحان عمر ریاست منی سوٹا (Minnesota) سے ایوانِ نمائندگان کی رکن منتخب ہوگئیں۔ گزشتہ انتخابات میں وہ اسی حلقے سے ریاستی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ اِس بار مشہور مسلم رہنما کیتھ ایلیسن ریاستی اٹارنی جنرل کا انتخاب لڑرہے تھے اور ان کی خالی کردہ کانگریس کی اس نشست پر 65 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر عمرالحان منتخب ہوگئیں۔ اسی طرح مشی گن(Michigan)کے حلقہ 13 سے فلسطینی نژاد رشیدہ طالب کی کامیابی نے تاریخ رقم کردی۔42 سالہ رشیدہ کے والد بیت المقدس اور والدہ غربِ اردن کی ہیں۔ یہ لوگ مشی گن آکر آباد ہوئے جہاں رشیدہ نے جنم لیا۔ ان کے بھائی بہنوں کی تعداد 14 ہے اور پے درپے مہمانوں کی آمد کی وجہ سے رشیدہ کا بچپن بھائی بہنوں کی نگہداشت میں گزرا۔ قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور2008ء میں مشی گن کی ریاستی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، اور اب انھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرلی۔
انڈیانا (Indiana)کے حلقہ 7 سے مسلم رہنما آندرے کارسن نے اپنی نشست برقرار رکھی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے 44 سالہ رہنما کی یہ مسلسل چھٹی کامیابی ہے۔ جناب کارسن نے 62 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی وائس چیئرمین کیتھ ایلیسن ریاست منی سوٹا کے اٹارنی جنرل منتخب ہوگئے۔ کیتھ ایلیسن کو پہلا مسلم رکنِ کانگریس ہونے کا اعزاز حاصل تھا اور اب وہ پہلے مسلم اٹارنی جنرل ہیں۔
صومالی پناہ گزین محترمہ الحان عمر اور فلسطین میں اپنی ہی زمین سے بے دخل کی گئی رشیدہ طالب کی طرح ریاست نیو ہمپشائر (New Hampshire) سے 27 سالہ افغان پناہ گزین صفیہ وزیر نے ریاستی کانگریس (صوبائی اسمبلی) کا انتخاب جیت لیا۔ دوپیاری سی بچیوں عالیہ اور مہوش کی ماں صفیہ نے اس سے پہلے ڈیموکریٹک کے ٹکٹ کے لیے اپنی ہی پارٹی کے ایک سینئر رہنما ڈک پیٹن (Dick Patten)کو شکست دے کر لوگوں کو حیران کردیا تھا۔ وسط مدتی انتخابات میں انھوں نے ری پبلکن پارٹی کے ڈینس سوسی (Dennis Soucy)کو ہراکر نیو ہمپشائر کی پہلی مسلمان رکن اسمبلی ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
اب تک جاری ہونے والے نتائج کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوانِ نمائندگان سے ری پبلکن پارٹی کی برتری کا خاتمہ کردیا ہے، اور 435 کے ایوان میں 226 نشستوں پر ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوگئے۔ 198 نشستیں ری پبلکن نے جیت لیں، جبکہ 11 نشستوں کے نتائج ابھی آنے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی اپنی 3 نشستوں کا دفاع کرنے میں ناکام رہی۔ یہ نشستیں ان ریاستوں کی ہیں جہاں صدر ٹرمپ کو واضح برتری حاصل ہے۔ فلوریڈا کی نشست پر گنتی جاری ہے اور غیر حتمی نتائج کے مطابق ری پبلکن پارٹی یہاں آگے ہے۔ دوسری طرف ری پبلکن پارٹی اپنی ایک نشست کے دفاع میں ناکام اور ایک اور نشست پر وہ ڈیموکریٹس سے پیچھے ہے۔ خیال ہے نتائج کی تکمیل پر سینیٹ میں 53 ری پبلکن کے مقابلے میں آزاد اتحادیوں کو ملا کر ڈیموکریٹس کی تعداد 47 ہوجائے گی۔
ایوانِ نمائندگان سے برتری کا خاتمہ صدر ٹرمپ کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ حکومتی اخراجات اور بجٹ کے امور پر اب انھیں مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس سے بڑھ کر صدر ٹرمپ کو پریشانی اپنے خلاف تحقیقات کی ہے۔ ایوانِ نمائندگان کو ہر قسم کی تحقیقات کی مکمل آزادی ہے اور متوقع اسپیکر محترمہ نینسی پلوسی کہہ چکی ہیں کہ شفاف طرزِ حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے کانگریس اپنا کردار ادا کرے گی۔ پلوسی صاحبہ نے اپنے بیان کی وضاحت تو نہیں فرمائی لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ کانگریس میں جلد ہی صدر ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں پر سنسنی خیز بحث کا آغاز ہوسکتا ہے۔ میکسیکو کی سرحد پر دیوار کا معاملہ مزید مؤخر ہوسکتا ہے، کہ اس کے لیے فنڈ کا اجرا اب ڈیموکریٹک پارٹی کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔
انتخابات کے دوران مسلمانوں، ہسپانویوں اور افریقی امریکیوں کے درمیان سیاسی مفاہمت بلکہ غیر رسمی سیاسی اتحاد بہت ہی کامیاب رہا، اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما اس قوس قزح اتحاد یا Rainbow Coalition کی اہمیت کا اعتراف کررہے ہیں۔ اس مفاہمت نے ٹیکساس (Texas) میں انتہائی مؤثر کردار ادا کیا۔ یہ ریاست ری پبلکن پارٹی کا مضبوط گڑھ ہے، لیکن اِس بار یہاں سے ایوانِ نمائندگان کی دو اہم نشستیں ڈیموکریٹس نے ری پبلکن سے چھین لیں۔ کیلی فورنیا میں رہراباکر کی شکست رنگ دار اتحاد کی ایک اور بڑی کامیابی ہے۔ مشی گن، پنسلوانیا، ایریزونا، نیواڈا، اوہایو، جارجیا، فلوریڈ، اوسکونسن اور دوسرے بہت سارے مقامات پر رنگ داروں کے اتحاد نے نسل پرستوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 2020ء کے انتخابات کے لیے اس مفاہمت کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔