ماہِ مبارک اور امتِ مسلمہ!

اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر ربیع الاوّل کا مبارک مہینہ امتِ مسلمہ پر طلوع فرمایا ہے۔ اسی مہینے میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے، اور اسی میں رفیقِ اعلیٰ نے انھیں اپنے پاس بلا لیا۔ اگرچہ امتِ مسلمہ جشن تو مناتی ہے مگر سیرتِ نبویؐ کے سنہری ابواب اور ایمان افروز دروس پر عمل کرنے میں کوتاہی کرتی ہے۔ سعادت مندی یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو پوری روح کے ساتھ سمجھا جائے اور اسے حرزِ جاں بنایا جائے۔ آپؐ اپنے صحابہؓ خصوصاً نوجوانوں سے بڑی محبت کرتے تھے اور ان کی تربیت کرکے انھیں ہیرے موتی بنا دیتے تھے۔ نوجوان، قوموں کا اثاثہ اور حقیقی سرمایہ ہوتے ہیں۔ آج شیطان امتِ مسلمہ پر حملہ آور ہے اور بالخصوص ہمارے اس سرمائے پر ڈاکا ڈالنے کے پورے جتن کررہا ہے۔ اصلاحی تحریکوں کے نتیجے میں مسلم نوجوانوں کی ایک معقول تعداد اپنے دین اور اپنی اساس کی طرف رجوع کررہی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ کئی نوجوان واقعی گہرے غوروفکر سے قرآن و سنت کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ان سے کبھی مکالمہ اور سوال و جواب ہو تو قلبی و روحانی مسرت ہوتی ہے۔ ان نوجوانوں کو کئی امور میں بڑا اشکال محسوس ہوتا ہے۔ وہ اسلام کی عظمت اور اپنے اسلاف کی شوکت کو کتابوں میں دیکھتے ہیں اور پھر آج امت کی زبوں حالی کا منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو انھیں عجیب تضاد محسوس ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تضاد کیوں ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ اس موضوع پر سیرتِ رسولؐ کی روشنی میں غورو فکر کیا جائے۔ اگر ہم صحیح تناظر میں ماضی و حال کا تجزیہ کریں اور جذباتیت سے بالاتر ہوکر حقائق و بصائر کا انطباق کرتے ہوئے معروضی حالات کا مطالعہ کریں تو ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے اور ہر گرہ کا سرا ہاتھ آجاتا ہے۔
بلاشبہ اہلِ ایمان سے اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ غلبہ ان کا مقدر ہوگا اور اللہ کی نصرت ان کے شاملِ حال ہوگی۔ ان کے دشمن ان کے سامنے مغلوب رہیں گے۔ مگر اس کے لیے صرف ایمان کا دعویٰ ہی کافی نہیں، ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنا اور وہ جوہر اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے، جس کی بدولت نبیِ رحمتؐ اور ان کے جاں نثار صحابہؓ ان بشارتوں کے مستحق و مصداق بنے تھے۔ گویا یہ مدد یقینی ہے، لیکن مشروط! اس میں شرط تعداد اور سازوسامان کی کثرت و فراوانی نہیں، بلکہ ایمان و عقیدے کی پختگی اور عمل کا اخلاص و مداومت ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ سعید میں اہلِ ایمان پر سخت ترین آزمائشیں آئیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی انتہائی جاں گسل مرحلوں سے گزرے۔ اس سب کچھ کے باوجود ان لوگوں کے حوصلے ہمیشہ بلند رہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو سخت نامساعد حالات میں بھی بشارتیں سنائیں۔ صادق الایمان صحابہ کرامؓ ہمیشہ بشارتوں کو سچ جانتے تھے۔ ایک مرتبہ مکی دور میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت خبابؓ بن ارت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ اس وقت کعبے کی دیوار کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ حضرت خبابؓ کو آگ کے انگاروں پر لٹایا جاتا تھا کہ وہ ایمان سے برگشتہ ہوجائیں، مگر وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔ بہرحال ان حالات میں پریشانی فطری امر تھا۔ پریشانی کی اس کیفیت میں انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’یارسول اللہؐ! آپؐ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے کہ اللہ ہمیں ان سختیوں سے نجات دے دے‘‘۔ یہ بات سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا۔ آپؐ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا: ’’تم سے پہلے جو اہلِ ایمان گزرے ہیں، ان پر اس سے بھی زیادہ سختیاں کی گئیں۔ ان میں سے بعض کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور ان کے سر پر آرا چلا کر اس کے دو ٹکڑے کردیے جاتے۔ کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے۔ خدا کی قسم! یہ کام پورا ہوکر رہے گا یہاں تک کہ ایک شخص (یا ایک عورت) صنعا سے حضرموت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہوگا، جس سے وہ خوف کھائے‘‘۔ (بخاری، کتاب الاکرہ، باب اختارالضرب والقتل والہوان علی الکفر)
اللہ کا ارشاد ہے: ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تمھی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘ (آلِ عمران3:139)۔ دوسرے مقام پر ارشادِ ربانی ہے ’’اور ہم نے تم سے پہلے رسولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے۔ پھر جنھوں نے جرم کیا، ان سے ہم نے انتقام لیا، اور ہم پر یہ حق ہے کہ ہم مومنوں کی مدد کریں‘‘(سورۃ الروم، آیت نمبر47)۔ اسی مضمون کی مزید تشریح سورۃ المومن میں ملتی ہے، جہاں ارشاد فرمایا: ’’یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد، اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں، اور اُس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘ (آیت نمبر51)
رب رحیم و کریم کا وعدۂ نصرت صرف اس دنیا کی زندگی تک محدود نہیں، بلکہ روزِ حشر جب سب مادی امیدیں ٹوٹ چکی ہوں گی اور ظاہری سہارے چھوٹ چکے ہوںگے تو بھی وہ اپنے بندوںکا دوست ہوگا۔ارشادِ ربانی ہے ’’ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا و آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے، جو چاہے کرے‘‘ (سورۂ ابراہیم، آیت نمبر 72)۔ قرآنِ مجید کی یہ بشارتیں پوری امت کے لیے ہیں، جس قلبِ مصفّٰی پر نازل ہوئیں، اس کا بڑا عظیم مرتبہ اور اعلیٰ مقام ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان بشارتوں کی مجسم تفسیر تھے اور آپؐ نے اپنے گرد جن لوگوں کو اکٹھا کیا تھا، شمعِ رسالتؐ کے وہ سبھی پروانے ان بشارتوں کے نور سے مالامال اور حلاوتِ ایمان سے سرشار تھے۔ امت جیسے جیسے اس نور سے محروم اور اس حلاوت سے بے گانہ ہوتی چلی گئی، اللہ کی رحمتیں بھی روٹھ گئیں اور نصرتِ الٰہی سے محرومیاں ہمارا مقدر بن گئیں۔ ذرا غور کیجیے کہ صحابہ کرامؓ نے جو کلمہ پڑھا تھا، وہی کلمہ آج ہم بھی پڑھتے ہیں۔ جس قرآن نے ان کی زندگیاں بدل ڈالی تھیں، وہی قرآن انھی الفاظ میں آج بھی پڑھا جاتا ہے، لیکن بنیادی فرق یہ ہے کہ ہم نہ اس کلمے کی قدروقیمت کو پہچانتے ہیں، نہ قرآن کے انقلابی پیغام کو لے کر اٹھتے ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے جو بات کہتے، ظاہری حالات کی مکمل ناموافقت کے باوجود، انھیں اس کے برحق ہونے کا کامل یقین ہوتا تھا۔ ان کا ایمان کبھی متزلزل ہوا نہ ان کے قدم کبھی ڈگمگائے۔ 5 ہجری میں جب غزوۂ خندق کا مشکل مرحلہ پیش آیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کے ساتھ مل کر مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے خندق کھودی تو اس عمل کے دوران بھی کئی معجزات رونما ہوئے۔ مؤرخ ابن اسحاق کی ایک روایت سیرت نگار ابن ہشام نے اپنی سیرتِ نبویؐ میں نقل کی ہے۔ اس کے راوی حضرت سلمان فارسی ؓہیں۔
حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں: ’’خندق کی کھدائی کے دوران ایک سخت چٹان آگئی۔ میں نے اسے توڑنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے قریب ہی کھدائی میں مصروف تھے۔ جب آپؐ نے صورتِ حال دیکھی تو میری مدد کو تشریف لائے اور کدال پکڑ لی۔ آپؐ نے پتھر پر ضرب لگائی تو کدال کے نیچے سے بجلی کا شعلہ نکلا۔ پھر دوسری ضرب سے ایسا ہی شعلہ نکلا۔ تیسری ضرب لگی تو بھی بجلی کی سی چمک پیدا ہوئی اور چٹان ٹوٹ گئی۔
میں نے عرض کیا:’’میرے ماں باپ آپؐ پر قربان، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپؐ ضرب لگا رہے تھے تو کدال کے نیچے، میں نے شعلے اٹھتے ہوئے دیکھے۔ یہ شعلے کیسے تھے‘‘؟
آپؐ نے فرمایا:’’سلمان! کیا واقعی تم نے یہ شعلے دیکھے ہیں‘‘؟
میں نے اثبات میں جواب دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’پہلی ضرب پر جو شعلہ نکلا تو اس سے اللہ تعالیٰ نے یمن پر مجھے فتح عطا کی۔ دوسرے شعلے پر میرے لیے اللہ تعالیٰ نے شام کی فتح کا راستہ ہموار کردیا۔ اور تیسرے شعلے پر اللہ تعالیٰ نے مشرق کے ممالک کی فتح میرے لیے مقدر فرما دی‘‘۔
ابن اسحاق مزید بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ثقہ راویوں کی زبانی حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت سنی ہے کہ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں ہونے والی ہر فتح پر وہ کہا کرتے تھے: ’’جتنے علاقے بھی چاہو فتح کرتے چلے جائو۔ خدا یہ فتوحات مبارک کرے۔ مدینہ سے لے کر اقصائے عالم تک اور آج کے دن سے یومِ قیامت تک جتنے علاقوں پر بھی تم فتوحات کے پرچم لہرائو گے ان سب کا حال اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبؐ کو بتادیا تھا۔ مالکِ ارض و سماء نے ان علاقوں کی چابیاںاپنے نبی کو عطا فرما دی تھیں‘‘۔ ( معجزات سرور عالم، صفحہ 79۔80)
برادرانِ اسلام! صحابہ کے اندر ایمان اور عمل، ظاہر اور باطن، عبادت اور معاملات غرض ہر پہلو سے یک رنگی تھی۔ انھوں نے جو کہا، وہی کیا، جو مانا اسے ہی حق جانا اور جدوجہد سے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ آج ہم محض گفتار ہیں، کردار نہیں۔ یہی کمی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہی خالق آج بھی اپنے انعامات سے نوازنے میں کیوں دیر کرے گا!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو بشارتیں بھی سنائیں اور آنے والے ادوار میں پیش آمدہ خطرات کی نشان دہی بھی کی۔ بلاشبہ یہ خطرات بیرونی بھی ہوتے ہیں لیکن اندرونی ضعف وکمزوری بھی ان خطرات کو دعوت دینے کا سبب بنتی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ان خطرات سے متنبہ کیا تاکہ وہ بیدار رہے اور ایسے مہلک خطرات کا تدارک کرسکے۔ ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ سے خطاب فرما رہے تھے، جس میں آپؐ نے کہا: ’’ایک دور آئے گا، جب دنیا کی قومیں تمھارے اوپر یوں چڑھ دوڑیں گی، جس طرح بھوکے لوگ دسترخوان کی طرف ہجوم کرتے ہیں۔‘‘ صحابہ میں سے کسی نے پوچھا: ’’کیا ہماری قلتِ تعداد کی وجہ سے یہ بُرا دن آئے گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ تعداد میں تم بہت زیادہ ہوگے مگر تم یوں بے وزن ہوجاؤ گے، جیسے سیلاب کا جھاگ، اور اللہ تمھارے دشمنوں کے دلوں سے تمھاری ہیبت اور رعب ختم کردے گا اور اللہ تمھارے دلوں میں (تمھاری بدعملیوں کی وجہ سے) وہن (ضعف) پیدا کردے گا۔‘‘ صحابہؓ میں سے کسی نے پوچھا: ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہن کیا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’حب الدنیا وکراھیۃ الموت۔ وہن یہ ہے کہ آدمی دنیا سے محبت کرنے لگے اور موت سے کراہت اور خوف محسوس کرے۔‘‘ (سنن ابوداؤد عن ثوبان، حدیث نمبر4297، ج4)
آج ہم دنیا کا نقشہ دیکھتے ہیں تو عجیب تصویر سامنے آتی ہے۔ امتِ مسلمہ تعداد کے لحاظ سے سوا ارب سے زائد ہے۔ وسائل کے لحاظ سے مالامال ہے اور کرہ ارض پر پانچ درجن کے لگ بھگ مسلمان ممالک کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ اس سب کچھ کے باوجود امتِ مسلمہ کا کوئی وزن محسوس نہیں ہوتا۔ سبب اس کا واضح ہے۔ امت دنیا کی محبت میں گرفتار اور موت سے خوف اورناگواری اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ حقیقت بھی ہر شخص جانتا ہے کہ دنیا کی یہ لذتیں عارضی ہیں اور موت کو ایک لمحے کے لیے بھی ٹالا نہیں جاسکتا۔ اس مرض کا علاج وہی ہے جو امام حرم نبوی حضرت مالکؒ بن انس نے بیان فرمایا تھا کہ اس امت کا پچھلا حصہ بھی اسی نسخے سے شفا پائے گا، جس سے فیض یاب ہوکر اس کا پہلا حصہ سرخ رُو ہوا تھا۔ وہ ہے رجوع الی اللہ اور اتباع قرآن وسنت۔ اللہ کی نصرت آج بھی منتظر ہے کہ یہ امت خود کو اس کا مستحق بنا لے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد نورِ ہدایت کا منبع ہے۔ آپؐ نے زندگی کے آخری لمحات میں جو نسخۂ کیمیا اور آبِ حیات اس امت کے سپرد کیا، اس کا تذکرہ اکثر ہوتا رہتا ہے، مگر اس کے مطابق امت نہ انفرادی معاملات کو چلارہی ہے، نہ نظامِ اجتماعی میں اس کا کوئی اہتمام کیا جارہا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، تم کبھی گمراہ نہ ہوگے جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رہو گے، جان لو یہ اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے‘‘۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ تمسک استعمال کیا ہے جس کا مفہوم ہماری زبان میں محض تھامنے اور پکڑ لینے کے ترجمے سے پورا نہیں ہوتا، اس کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ آدمی اس چیز سے ہمیشہ وابستہ رہے، اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالے، وہاں سے جو صدا آئے، اس کے مطابق جواب دے اور اس سے سرِموانحراف نہ کرے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دو چیزیں امت کے سپرد کیں وہ اللہ کی کتاب اور آپؐ کی سنتِ مطہرہ ہے۔
امت کی بدنصیبی یہ ہے کہ قرآن کو ایک مقدس کتاب تو سمجھا جاتا ہے مگر اسے غلاف میں لپیٹ کر طاقِ نسیاں پہ رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کے اوامر ونواہی پر عمل کرنا قصۂ پارینہ بن چکاہے۔ جہاں تک سنت کا معاملہ ہے، بدقسمتی سے ایک ایسا منظم گروہ وجود میں آچکا ہے، جو شاطرانہ انداز میں اس کی حجیت کو مشکوک بنانے میں کوشاں ہے۔ گمراہ حکمران قرآن وسنت کی عائد کردہ پابندیوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسے عناصر کی سرپرستی کرتے رہتے ہیں۔ امت جب تک قرآن کی تشریح سنت کی روشنی میں نہ سمجھے گی، اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی۔ اور جب تک ہم اپنا پورا نظام قرآن وسنت کے تابع نہ کرلیں گے، ذلت وپستی سے نکلنے اور گمراہی سے بچنے کی کوئی سبیل پیدا نہ ہوسکے گی۔ آئیے عہد کریں کہ ہم اپنی اصل کی طرف خود بھی لوٹیں اور اپنی نوجوان نسل کو بھی اسی جانب مائل کریں گے۔