ماسکو میں افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے گیارہ ملکوں کی ایک ایسی کانفرنس میں بھارتی وفدکی شرکت کہ جس میں طالبان بھی موجود تھے، مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کے لیے ٹوئٹ کا اچھا موقع تھا، سو انہوں نے یہ موقع ضائع کیے بغیر کہا کہ اگر بھارت طالبان کے ساتھ غیر سرکاری سطح پر مذاکرات میں شامل ہوسکتا ہے تو اسی اصول کے تحت کشمیر میں حریت پسندوں کے ساتھ ’’غیر سرکاری‘‘ مذاکرات کیوں نہیں کیے جا سکتے؟
عمر عبداللہ جب وزیراعلیٰ تھے تو انہیں کشمیر کامیڈیا ’’ٹوئٹرکنگ‘‘کہتا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ٹوئٹر کے ذریعے ہی حکومت چلاتے رہے ہیں۔ اس ٹوئٹ کے جواب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان نے اپنا روایتی ردعمل ظاہر کیا جس کے چند جملے یوں تھے کہ بھارت نے کسی بھی سطح پر طالبان سے مذاکرات نہیں کیے۔کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور یہاں لڑنے والے پاکستان کے ایما پر لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عمرعبداللہ عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی،بلکہ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کو بھی ایک تقریب میں یہ کہنا پڑا کہ کشمیر میں انتہا پسندوں (حریت پسندوں) سے براہِ راست مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔ کسی ملک کا سربراہ خود دہشت گردوں سے بات چیت نہیں کرتا۔ حکومت نے کشمیر کے لیے مذاکرات کار کا تعین کردیا ہے، اور مذاکرات کار دینشور شرما کے دروازے ہر اُس گروہ اور شخص کے لیے کھلے ہیں جو مذاکرات کا خواہاں ہو۔ کشمیر میں بالواسطہ مذاکرات کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ عسکریت پسندوں کو ہتھیار چھوڑ کر اس مذاکراتی عمل کا حصہ بننا چاہیے۔
بھارتی آرمی چیف کا یہ طویل بیان عمر عبداللہ کے ٹوئٹ کا ہی جواب تھا، کیونکہ موجودہ حالات میں کشمیری حریت پسندوں اور بھارتی حکومت کے درمیان مذاکرات کا دور دور تک امکان نظر نہیں آرہا۔ بھارت میں اگلے سال انتخابات تک تمام مثبت اور اہم فیصلے رک گئے ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت بھی مذاکرات کی بات کرتے اور دعوت دیتے دیتے اچانک رک گئی ہے، اور اس کی وجہ بھی بھارتی انتخابات کو قرار دیا گیا ہے۔ کشمیر میں ایک خوں ریز تحریک چل رہی ہے اور وہاں بھارت کا سیاسی نظام بھی عملی طور پر معطل ہے اور معاملات گورنر راج کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔ اس ماحول میں بھارتی آرمی چیف کا حریت پسندوں سے براہِ راست مذاکرات سے انکار ایک ناقابلِ فہم معاملہ ہے۔ ایک بات اہم ہے کہ جس طرح افغانستان میں داعش کے خطرے نے روس کو اس مسئلے سے اپنی لاتعلقی ختم کرکے امن کی متوازی کوششوں کے آغاز پر مجبور کیا، اسی طرح کشمیر میں بھی داعش کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔ سیاہ جھنڈوں اور کچھ بیانات کی حد تک داعش وادی کے اُبلتے ہوئے ماحول میں پہنچ چکی ہے، مگر اس کی عملی حقیقت کیا ہے؟ اس کا کھوج لگانا باقی ہے۔ بھارت کا میڈیا کبھی کبھار کشمیر میں داعش کی موجودگی کی خبر دیتا ہے اور پھر خود بھارت کی فوجی قیادت اس کی تردید بھی کرتی ہے۔ جس خطرے کے باعث افغانستان میں نئے کھلاڑی متحرک ہوکر طالبان اور افغان حکومت کو ہی نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کو ایک بڑی میز اور وسیع چھت تلے مجتمع کرسکتے ہیں اپنے پہلو میں اس خطرے کی موجودگی کا احساس کشمیر میں بھی کسی دیدہ ونادیدہ کھلاڑی کے ظہور اور غیر معمولی سرگرمی اور دلچسپی کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔
موجودہ حالات میں کشمیری حریت پسندوں، اور نہ ہی پاکستان نے بھارت سے براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ کیا۔ یہ معاملہ اگر محض ایک ٹوئٹ کا ہوتا تو بی جے پی کے ترجمان کے جواب کے بعد اسے ختم ہوجانا چاہیے تھا، مگر آرمی چیف کی طرف سے اس معاملے پر سنجیدہ اور طویل لیکچر اور بالاصرار اور تکرار وضاحت کئی سوالات کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہے۔ طالبان کے ساتھ حجابوں میں ہی سہی، ایک میز اور چھت کی شراکت داری ایک ایسا معاملہ ہے جو تادیر بھارتی حکمرانوںکا پیچھا کرتا رہے گا، کیونکہ سترہ برس میں بھارت نے اس حوالے سے سخت مؤقف اپنائے رکھا۔ یہ دوعملی اور تضاد اب کشمیر میں بھارت کا پیچھا کرے گا۔ بہتر تو یہی تھا کہ نئے خطرات اور نئے کھلاڑیوں کی آمد کا انتظار کرنے کے بجائے بھارت کشمیر کے زمینی حقائق کا اعتراف کرکے قابلِ قبول اور قابلِ عمل حل پر آمادہ ہوتا، جس کی جانب ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے ایک بار پھر متوجہ کیا ہے۔ مسٹر دولت نے ایک بار پھر جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کی حمایت میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فارمولا مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر اس فارمولے کے تحت جس پر من موہن سنگھ اور پرویزمشرف کے دور میں خاصی پیش رفت ہوئی تھی، مسئلے کا عبوری حل نکالا گیا ہوتا تو کشمیر میں پندرہ برس کے لیے امن قائم ہوگیا ہوتا، اور بھارت اور پاکستان کے درمیان دہائیوں سے جاری منافرت، سرحدی ٹکرائو اور سفارتی تضادات کم ہوچکے ہوتے۔