پاکستان کی سیاست میں تشدد کا عمل بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستانی معاشرہ مسلسل ہیجانی کیفیت میںمبتلاہے۔ ہمارے اہلِ دانش اگرچہ اس کی مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں، مگر اس کا علاج ممکن نہیں ہوسکا۔ بہت سے لوگ پُرتشدد رجحانات کو محض مذہبی نکتہ نگاہ سے دیکھ کر تنقید کرتے ہیں، مگر جب ہم مجموعی طور پر سیاسی اور سماجی نظام کا جائزہ لیتے ہیں تو پُرتشدد مزاج کے محرکات اور عوامل کو زیادہ باریک بینی سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ہم بعض اوقات معاملات کو بہت زیادہ سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں، اور اپنی مرضی کا تجزیہ کرکے اپنی مرضی کا نتیجہ سامنے لانا چاہتے ہیں۔ یہ عمل بعض اوقات شعوری یا لاشعوری طور پر سچ کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور ایک ایسے سچ کو سامنے لاتا ہے جو مخصوص افراد یا اداروں کے مفادات سے عملی طور پر جڑا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے اپنے روزمرہ کے معاملات کو دیکھیں تو ہمیں اپنے رویوں اور طرزِعمل میں غصہ، بغاوت، نفرت اور بیگانگی کا احساس غالب نظر آتا ہے۔ معاشرہ مجموعی طور پر ردعمل کی سیاست کا شکار نظر آتا ہے۔ ہم جس انداز میں سوال سنتے ہیں اسی شدت سے جواب دینا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بزرگوں کا ایک معروف قول ہے کہ غصے اور نفرت کا جواب محبت سے دینا چاہیے تاکہ دوسرے کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ اپنے رویّے میں تبدیلی لائے۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہم غصے اور نفرت کا جواب بھی اسی انداز میں دے کر عملی طور پر اچھے اور برے کے درمیان جو فرق ہوتا ہے اُسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔اس سے یہ کہنا مقصود نہیں کہ پورا معاشرہ پُرتشدد بن چکا ہے، لیکن تشدد کی سیاست اور اس کی ذہنیتنے عملی طور پر معاشرے کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔
یہ جو ہمارے مزاج میں پُرتشدد رجحانات جنم لے رہے ہیں، یا پہلے سے موجود رویوں میں مزید شدت آرہی ہے اس کی مختلف وجوہات کو ہمارے سیاسی اور سماجی ماہرین کو باریک بینی سے سمجھنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ اگر کوئی شخص یا ادارہ پُرتشدد مزاج کی طرف جاتا ہے تو اس کے پیچھے یقینی طور پر کچھ محرکات ہوتے ہیں۔ اصولی طور پر ہمارا سیاسی، سماجی، معاشی اور بالخصوص انصاف کا نظام اپنے اندر ایسے بہت سے تضادات اور تفریق کے پہلو رکھتا ہے جو لوگوں میں غصہ پیدا کرتے ہیں۔ بالخصوص وہ طبقہ جو عملاً محرومی اور عدم انصاف کا شکار ہے اُس کے مزاج میں ابتدا میں تلخی یا ناراضی پیدا ہوتی ہے، اور آگے جاکر اس کا نتیجہ پُرتشدد عمل کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ کیونکہ جب لوگوں میں محرومی کا احساس ابھرے گا تو یقینی طور پر اس کا منفی اثر ہوگا اور لوگ اپنا ردعمل دیں گے۔ اس لیے مسئلہ پورے معاشرتی نظام کا بھی ہے جس میں بڑے پیمانے پر سرجری کی ضرورت ہے۔
پہلا بنیادی مسئلہ اہلِ دانش کی سطح پر یہ موجود ہے کہ کیا واقعی پُرتشدد رجحانات کا بڑھتا ہوا عمل ایک حقیقی مسئلہ ہے؟ کیونکہ بعض لوگ اسے مسئلہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اُن کے بقول ہم معاشرے میں اس عمل کو بلاوجہ بہت زیادہ بڑھا چڑھاکر پیش کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم بعض اوقات اُن عوامل کو دیکھتے ہیں جو ہمیں کسی ردعمل کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ لیکن جس انداز سے یہ معاملات آہستہ آہستہ ہمارے رویوں میں پختہ ہورہے ہوتے ہیں اس کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ پُرتشدد رجحان کو کسی بڑے سیاسی اور مذہبی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ اپنے اردگرد لوگوں کے روزمرہ کے معاملات اور معمولات کو دیکھیں تو لوگ ایک دوسرے سے الجھے ہوئے اور غصے میں نظر آتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے مسائل بغیر غصہ یا تشدد کے حل نہیں کر پا رہے، اور حل کا راستہ تشدد کی صورت میں دیکھتے ہیں!
ایک زمانے میں ہم یہ دلیل دیتے تھے کہ جب تک لوگ تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے وہ اپنے اندر کی انتہا پسندی کو ختم نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ تعلیم انسان کے اندر نئی سوچ، فکر اور روشنی پیدا کرتی ہے۔ لیکن آج ہمیں معاشرے میں پُرتشدد رجحانات میں تعلیم یافتہ یا پڑھا لکھا طبقہ بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا مجموعی تعلیمی نظام تربیت کے حوالے سے ایک بڑے علمی اور فکری بحران کا شکار ہے۔ ڈگریوں پر مبنی تعلیم اخلاقی، سیاسی اور سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی لانے میں ناکام ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک مغالطہ مدارس تک محدود تھا۔ دلیل دی جاتی تھی کہ مدارس کے بچے زیادہ پُرتشدد رجحانات کا شکار ہیں۔ لیکن اب تو ہمارے رسمی تعلیمی اداروں میں یہ بحران دیکھنے کو تواتر سے مل رہا ہے۔ کئی برسوں سے جو واقعات سامنے آرہے ہیں ان سے اندازہ ہورہا ہے کہ ہمارے رسمی تعلیمی اداروں کے طالب علم بھی انتہاپسندی کا شکار ہورہے ہیں۔ ہمارے طاقت کے مراکز میں یہ بحث موجود ہے کہ نئی نسل میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے کیسے نمٹا جائے، اور انہیں کیسے ایسی سرگرمیوں کا حصہ بنایا جائے کہ اُن میں مثبت اور تعمیری سرگرمیاں پروان چڑھیں!
ہمیں پانچ بنیادوں پر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے:
(1) ہمیں اپنے سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ یہ جو سیاسی، سماجی اور معاشی تفریق ہے، یا امیر اور غریب میں جو فرق بڑھ رہا ہے، یا لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم طبقاتی حکمرانی کا شکار ہیں اس کو بدلنا ہوگا، اور اس کے لیے ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ یہ عمل روایتی حکمرانی کے نظام میں ممکن نہیں۔ کیونکہ روایتی حکمرانی نے لوگوں کو تقسیم کیا ہے، اور اس میں عام، کمزور یا محروم طبقہ اپنے حقوق سے محروم رہ جاتا ہے۔
(2) جب تک انصاف کے نظام کو نیچے کی سطح تک منصفانہ اور شفاف نہیں بنایا جائے گا اور ہر ایک کی وہاں تک دسترس نہیں ہوگی، لوگوں میں بغاوت پیدا ہونا فطری بات ہے۔ لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لے کر خود انصاف کرنا چاہتے ہیں تو اس کی وجہ بھی لوگوں کا اداروں، ریاست اور حکمرانی کے نظام پر عدم اعتماد ہے۔
(3) ہمیں اپنے رسمی اور غیر رسمی تعلیمی نظام میں بڑے پیمانے پر نصاب اور پڑھانے کے معاملات پر کچھ نئی سوچ، نئی فکر یا نئے زاویوں کی مدد سے آگے بڑھنا ہوگا۔ نوجوان نسل کو بنیاد بناکر اس مسئلے کے حل کے لیے ایک بڑی علمی اور فکری جنگ لڑنی ہوگی۔ اس جنگ میں مدارس کے نظام کو بھی حصہ دار بنانا ہوگا اور یہ سمجھنا ہوگا کہ انتہاپسندی اور پُرتشدد رجحانات کا مقابلہ محض طاقت کے استعمال سے ممکن نہیں، بلکہ اس کے لیے فکری طور پر لوگوں کے مائنڈسیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا جو تعلیمی اداروں اور مدارس کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ بعض اوقات مسئلہ طالب علم سے زیادہ استادوں کا ہوتا ہے جو خود اپنے مزاج میں تشدد کے حامل ہوتے ہیں اور یہی فکر وہ اپنے طالب علموں میں منتقل کرتے ہیں۔ اسی طرح تربیت کا مسئلہ محض استاد یا تعلیمی ادارے تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ اس نظام کو خاندانی نظام یا گھر کی تربیت کے نظام سے بھی جڑنا چاہیے۔ ہمارے والدین بچوں کے معاملات سے لاتعلق ہوتے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ان کے بچوں کے مٖزاج میں کیا نئے رجحانات جنم لے رہے ہیں۔
(4) چوتھا ذرائع ابلاغ کا محاذ ہے جس میں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا شامل ہیں۔ ہم نے مجموعی طور پر میڈیا کے کردار کو معاشرے کی تشکیل کے لیے استعمال ہی نہیں کیا ہے۔ ہمارے میڈیا کا ایک بڑا حصہ بدقسمتی سے خود اپنے عمل سے معاشرے کے مجموعی مزاج میں تشدد کے رجحان کو ابھارتا ہے۔ ہمارے ٹاک شوز کی زبان، لب ولہجہ اور اس میں موجود تلخی کا کھیل لوگوں کو پُرتشدد بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔ ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور ٹاک شوز کامثبت استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ جو معاشرہ آرٹ، کلچر اور تہذیب و تمدن سے عاری ہو اور جہاں آرٹ کو عریانی سے جوڑا جائے وہاں پُرتشدد مزاج کا ابھرنا فطری بات ہے۔ ہمارے شاعر، ادیب، دانشور، مصنف اور اہلِ دانش کا ایک بڑا طبقہ سب کچھ کہتا ہے، لیکن اس بڑھتے ہوئے پُرتشدد مزاج کے خلاف ایک بڑی تحریک پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ہمارے یہاں ایسا لٹریچر باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے جو لوگوں کو جوڑنے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کو ہم سماج کی تشکیل کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت سے فی الحال محروم ہیں۔
(5) یہ جو معاشرے میں طاقت کا استعمال اور اپنی بات کو دوسروں پر مسلط کرنا، اور اپنے ہی سچ کو مکمل سچ سمجھنا… یہ کھیل ایسے ہی نہیں ہوگیا، ہمارا بالادست طبقہ اس کا ذمے دار ہے۔ کیونکہ مجموعی طور پر قومی نصاب کچھ ایسا ہی بنایا جارہا ہے جو یہ نتیجہ دیتا ہے کہ آپ کی کامیابی ہی طاقت اور دوسروں پر اپنی بات کو مسلط کرنے سے جڑی ہے۔ اس میں ہمارے استاد، علمائے کرام اور اہلِ دانش اپنی ذمے داری ادا کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ یہ جو ایک متبادل بیانیہ کی تلاش کا عمل ہے یہ کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں، اس میں سب فریقین کو اپنی اپنی ذمے داری کا احساس کرنا ہوگا کہ ہم کیسے معاشرے کو ایک دوسرے کے لیے قابلِ قبول بنا سکتے ہیں۔ خاص طور پر اچھے اور پڑھے لکھے علمائے کرام اور دینی جماعتیں اس میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں۔ یہ جو ہماری ریاست ایک نئے بیانیہ کی تلاش میں ہے، اس بیانیہ کو پیدا کرنے اور اس کو ایک طاقت دینے میں معاشرے کے تمام فریقین کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ یہ جنگ سیاسی تنہائی میں نہیں لڑی جائے گی، سب کو مل کر اس جنگ کا حصہ بننا ہوگا، تاکہ اس معاشرے کو ایک مہذب معاشرے میں تبدیل کیا جاسکے۔