علامہ اقبال اور افغانستان

ڈاکٹر عبدالمغنی
دیگر نظموں میں چند خاص نصیحتیں بھی احوالِ زمانہ اور حقائقِ حیات کے پیش نظر دی گئی ہیں۔

نگاہ وہ نہیں جو سرخ و زرد پہچانے
نگاہ وہ ہے جو مہر و ماہ پہچانے
فرنگ سے بہت آگے ہے منزلِ مومن
قدم اٹھا یہ مقام انتہائے راہ نہیں
…………
بے جرأتِ رندانہ ہر عشق ہے روباہی
بازو ہے قوی جس کا وہ عشقِ یداللّٰہی

اب یہ دیکھیے کہ اقبال اپنی خداداد بصیرت کی بدولت جانتے ہیں کہ افغانستان کس طرح اپنی جغرافیائی اہمیت کے سبب ’’رقابتِ اقوام‘‘ کا نشانہ رہا ہے اور رہے گا، اور اسی وجہ سے اسے زمانے کا زخم بھی لگتا رہا ہے اور لگتا رہے گا، اور یہ کہ زخم کا علاج کیا ہے۔

حقیقتِ ازلی ہے رقابتِ اقوام
نگاہِ پیرِ فلک میں نہ میں عزیز نہ تُو
خودی میں ڈوب زمانے سے ناامید نہ ہو
کہ اس کا زخم ہے درپردہ اہتمامِ رفو
رہے گا تُو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا
اتر گیا جو ترے دل میں لاالٰہ الاّ ہو

اقبال کی دوربین نگاہیں مستقبل کی تبدیلیوں کو بھی دیکھتی ہیں اور افغانیوں کو ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے اشارے کرتی ہیں:

مجھ کو تو یہ دنیا نظر آتی ہے دگرگوں
معلوم نہیں دیکھتی ہے تیری نظر کیا
ہر سینے میں اک صبحِ قیامت ہے نمودار
افکار جوانوں کے ہوئے زیر و زبر کیا
کر سکتی ہے بے معرکہ جینے کی تلافی
اے پیرِ حرم تیری مناجاتِ سحر کیا
ممکن نہیں تخلیقِ خودی خانقہوں میں
اس شعلۂ نم خوردہ سے ٹوٹے گا شرر کیا

توقعات
یہ مشورے اقبالؔ نے افغانیوں کو اس لیے دیے کہ وہ مستقبل میں اُن سے ایک تاریخی رول ادا کرنے کی توقع رکھتے ہیں:

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندئہ صحرائی یا مردِ کہستانی
دنیا میں محاسب ہے تہذیبِ فسوں گر پر
ہے اس کی فقیری میں سرمایۂ سلطانی

بہرحال اقبال افغانستان کے قبائل کی اصل کمزوری سے واقف ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے اس کو دور کرلیں تا کہ آنے والے سخت تر حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوسکیں:

یہ نکتہ خوب کہا شاہ سوری نے
کہ امتیازِ قبائل تمام تر خواری
عزیز ہے انہیں نام وزیری و محسود
ابھی یہ خلعتِ افغانیت سے ہیں عاری
ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی
کہ ہر قبیلہ ہے اپنے بتوں کا زناری
وہی حرم ہے وہی اعتبارِ لات و منات
خدا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری

یہ پیغامِ اتحاد و تنظیم تو محراب گل افغاں کی زبانی ہوا۔ پشتو شاعر خوش حال خٹک نے بھی بلند نگاہی اور اولوالعرمی کے ساتھ ملّی اتفاق و یگانگت کا یہ پیغام افغانیوں کو دیا تھا:

قبائل ہوں وحدت کی ملّت میں گم
کہ ہو نام افغانیوں کا بلند
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

(خوشحال خاں کی وصیت۔ ’’بال جبریل‘‘)
وسعتِ نظر
ان باتوں کے علاوہ اقبال کی نظر مرکزی ایشیا اور اس کے قرب و جوار کی سیاست پر اتنی گہری تھی کہ پیامِ مشرق کی ایک غزل میں انہوں نے روس کے اشتراکی سامراج کی ہلاکت خیز جارحیت کا اندیشہ بھی ظاہر کردیا:
از خاک سمرقندے ترسم کہ دگر خیزد
آشوب ہلاکوے، ہنگامۂ چنگیزے
’’خاکِ سمرقند‘‘ سے ایک ہلاکو اور ایک چنگیز کی پُرآشوب ہنگامہ خیزی کی یہ پیش گوئی اس وقت پوری ہوچکی ہے اور اشتراکی روس چنگیز و ہلاکوئے وقت بن کر اپنے ایشیائی مقبوضات سمرقند و بخارا وغیرہ سے افغانستان پر اپنی تمام ہلاکت سامانیوں کے ساتھ حملہ آور ہوچکا ہے۔ یہ عبرت انگیز واقعہ تاریخ کی ستم ظریفیوں میں سے ایک ہے کہ جس جمال الدین افغانیؒ سے اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں ’’پیغام یا ملت روسیہ‘‘ دلوایا تھا اسی افغانی کے وطن پر روسیوں نے ہوسِ ملک گیری میں حملہ کردیا تھا۔ افغانی نے اشتراکی روس کو خاص کر تین مشورے دیے تھے:
-1 ملوکیت یعنی سامراج کی طرف رُخ نہ کرے۔
-2 اپنی تقدیر کو مغرب کے بجائے مشرق سے وابستہ کرے۔
-3 لَا سے اِلّا کی جانب سفر کرکے قرآنی نظام حیات کو اختیار کرلے۔
لیکن روس ابھی تک لَا کے دلدل میں گرفتار ہے اور اس سے منفی اشتراکیت کے تخریبی مضمرات کو بروئے کار لاکر اسے ایک ہولناک سامراجی طاقت بنادیا ہے۔ جبکہ اخلاقی لحاظ سے اس کا پورا سماج مغربی سماج کی طرح سڑ چکا ہے۔ اس لیے کہ طاقت کے نشے اور تعصب کے جنون میں مشرق اور اس کی فکری و تہذیبی قدروں سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے اس نے عصرِ حاضر میں اپنے آپ کو مغرب کی ایک نوآبادیاتی، قوم پرست اور علاقہ پرست حکومت کی حیثیت سے پیش کیا ہے، اور اسی سامراجی حیثیت سے مرکزی ایشیا کے بیشتر علاقے کو اپنی مقبوضہ نوآبادی بناکر اور وہاں کے باشندوں کی تہذیبی نسل کُشی کردینے کے بعد اب وہ مرکزی ایشیا کے واحد آزاد ملک افغانستان پر بھی قبضہ جما کر اپنے سامراجی قدم مغربی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی طرف بڑھانا چاہتا ہے۔
اشتراکی غلطی
بہرحال وقت یہ بتائے گا کہ جمال الدین افغانی کے ذریعے اقبال نے روس کو ایک محکم اساس پر اپنی نئی نظریاتی ملّت کی تشکیل کا جو پیغام دیا تھا اُس کی خلاف ورزی کرکے اشتراکی طاقت نے سخت غلطی کی ہے، جس کا خمیازہ اُس کو بہت جلد بھگتنا پڑے گا۔ سوویت روس نے اپنے مشرق کے پڑوسیوں کے ساتھ وہی رویہ جاری رکھا ہے جو زار شاہی نے اختیار کررکھا تھا۔ بلکہ دغا بازی، فتنہ پردازی اور خوں ریزی میں اشتراکی روس شہنشاہی روس سے بھی بہت آگے ہے۔ اس نے اپنی فرعونیت سے مرکزی ایشیا کی اس عظیم الشان تہذیب کو کچل کر رکھ دیا ہے جو اس کے لیے ایک زبردست اثاثہ ہوسکتی تھی اگر وہ اس تہذیب کی قدروں کو قبول کرلیتا یا کم از کم انہیں پھلنے پھولنے کا آزادانہ موقع دیتا، لیکن اس نے تاریخ کا وہ موقع کھودیا جس کی اہمیت کی طرف اقبال نے اس کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت پورے مرکزی ایشیا میں اشتراکی روس کے خلاف آگ لگی ہوئی ہے جو اس کے ایشیائی مقبوضات میں تو سلگ رہی ہے، جبکہ افغانستان میں خود اُس نے اس آگ کو بھڑکا دیا ہے۔ حالانکہ افغانستان پر حملے سے اس کا خاص مقصد ایران سے پاکستان تک کی سرحدوں سے ملے ہوئے اپنے ایشیائی مقبوضات کی سلگتی آگ کو ٹھنڈا کرنا تھا، اس لیے کہ اسے خوف ہے کہ اس کے دیار میں ترکی سے پاکستان تک جو اسلام کے شعلے بھڑک اُٹھے ہیں وہ روس کے غصب کردہ مسلم ایشیا کی خاکستر میں تڑپتی ہوئی چنگاریوں کو آتشِ فروزاں نہ بنادیں۔
ممکنہ تباہیاں
شاید وقت آگیا ہے کہ روس کا خوف ایک حقیقت بن کر سامنے آجائے۔ لیکن ایک خوف زدہ ایٹمی طاقت بدحواسی میں کیا تباہیاں مچا سکتی ہے اس کا تصور ہی دنیا کے لیے لرزہ خیز ہے۔ بہرحال کسی ’’سمرقند‘‘ سے ’’ایک ہلاکو‘‘ اور ’’ایک چنگیز‘‘ کا نمودار ہونا، جیسا کہ اقبالؔ نے پیام مشرق کے محولہ بالا شعر میں پیشن گوئی کی ہے، تاریخِ انسانی کے اس خطرناک اور پُرہول لمحے کی طرف اشارہ کرتا ہے جب یاجوج ماجوج ذوالقرنین کی کھڑی کی ہوئی دیوار توڑ کر یا اس کے ٹوٹ جانے پر ’’ہر سطح مرتفع سے دوڑ رہے ہوں گے‘‘ (قرآن)۔ قرآن نے حدب کا لفظ استعمال کیا ہے جو آج کی اصطلاح میں سطح مرتفع ہے، اور یہ اس خطے کی جغرافیائی خصوصیت ہے جو چینی ترکستان سے روسی ترکستان تک پھیلا ہوا ہے، اور سمرقند اس خطے کا مرکزی مقام ہے۔ کیا وقت کے ہلاکو و چنگیز سے اقبال کا اشارہ دجال کی طرف ہے؟ اگر ایسا ہے تو سوویت روس کے اندر آشوبِ قیامت سے قریب تر، سب سے ہنگامہ خیز باطل طاقت کی ساری صفات پہلے ہی پائی جاتی ہیں۔
غیر معمولی شغف
بہرحال یہ افغانستان کے ساتھ اقبال کے غیر معمولی شغف کا نتیجہ تھا کہ 1933ء میں سرراس مسعود اور علامہ سید سلیمان ندوی کے ساتھ والیِ افغانستان نادر شاہ کی دعوت پر وہاں کا نظام تعلیم مرتب کرنے کے لیے افغانستان تشریف لے گئے اور بادشاہ، امرائے سلطنت اور عوام کو اسلام کا پیغام دینے کے ساتھ ساتھ بزرگانِ ملک جو مشاہیر عالم ہیں، کے مزارات پر حاضر ہوئے۔ محمود غزنوی، بابر، حکیم سنائی اور احمد شاہ درانی و ابدالی جیسی شخصیتوں کے متعلق اظہارِ خیال کرکے اقبال نے افغانیوں کے سامنے ان کی تاریخ کے زریں اوراق رکھ دیے، تاکہ وہ اپنی عظمتِ رفتہ سے روشنی حاصل کرکے موجودہ تاریکیوں کو دور کرنے کا عزم و حوصلہ پیدا کریں اور آنے والے دور کے لیے خود ایک روشنی بن جائیں۔
آرنلڈ ٹوائن بی کا خیال ہے کہ عالم انسانی کے اتحاد و انقلاب کی تحریک عصرِ حاضر میں مرکزی ایشیا خاص کر اس علاقے سے اُٹھے گی جو دیارِ افغان ہے۔ اقبال کو نادر شاہ سے توقع تھی کہ وہ ملتِ افغان کو مستقبل کے انقلابی رول کے لیے تیار کررہے ہیں، اور یہ حقیقت ہے کہ 1933ء میں افغان سے یہ توقع کی جاسکتی تھی۔ اس سلسلے میں اقبال کے خیالات ان
کی مثنوی ’’مسافر‘‘ (فارسی) میں بروئے اظہار آئے ہیں جو پہلے الگ سے اور بعد میں ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کے ساتھ شائع ہوئی۔ ’’مسافر‘‘ کا ایک باب ہے ’’خطاب بہ اقوام سرحد‘‘۔ اس کے چند اشعار جو مناسبِ موقع ہیں، یہ ہیں:

بندئہ حق وارثِ پیغمبراں
اونگنجد در جہانِ دیگراں
تا جہانے دیگرے پیدا کند
ایں جہان کہنہ را برہم زند
فطرتِ او را کشاد از ملت ست
چشم او روشن سواد از ملت ست
اند کے گم شو بقرآن و خبر
بازا ای ناداں بخویش اندر نگر
در جہاں آوارئہ بے چارۂ
وحدتے گم کردئہ صد پارۂ
بند غیر اللہ اندر پائے ست
وا غم از داغے کہ در سیمائے ست

’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کا پیغام وہی ہے جو ضربِ کلیم کی نظم ’’جمعیت اقوام مشرق‘‘ میں اس طرح ہے:

پانی بھی مسخر ہے، ہوا بھی ہے مسخر
کیا ہو جو نگاہِ فلکِ پیر بدل جائے
دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے
طہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرئہ ارض کی تقدیر بدل جائے

مسئلہ افغانستان کے موجودہ پس منظر میں طہران اور کابل کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ جنیوا لیگ آف نیشنز کا ہیڈ کوارٹر تھا جس کا جانشین اب نیویارک میںیونائٹیڈ نیشنز ہے۔ ایران کے موجودہ انقلاب نے طہران کو عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز بنادیا ہے جبکہ کابل کے دروازے پر انقلاب دستک دے رہا ہے۔