ڈیجیٹل آمریت کا عہد

فلسفۂ جدیدیت نے انسان کی ’ترقی‘ تباہ کن بنادی ہے۔ ربِّ کائنات کا انکار، اور صدیوں کی من مانیوں اور نافرمانیوں سے روئے زمین خیر کے لیے بے حد تنگ کردی ہے۔ اکیسویں صدی میں صورتِ حال بدترین ہوچکی ہے۔ معاملاتِ انسانی خدائی کی سطح سے بھی گرچکے ہیں۔ فریبِ ’آزادی‘ نے ’غلامی‘ کی ڈیجیٹل صورت اختیار کرلی ہے۔ ڈیجیٹل ڈکٹیٹرشپ کا عہد ہے۔ بات ہوش، حواس و احساس والے انسان کے ہاتھوں سے نکل کر بے حس ڈیجیٹل کی مٹھی میں آچکی ہے۔ عالمی غلامی کا یہ جدید ترین منظرنامہ ہے جو انسانی تہذیب کے لیے ہولناک ہے۔
انسان کی صلاحیتیں بتدریج مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی نذر ہورہی ہیں۔ خاص طور پر جسمانی سرگرمیاں ختم ہورہی ہیں۔ دل و دماغ کی توانائیاں زائل ہورہی ہیں۔ وقت کا زیاں بے حساب ہے۔ یادداشت کی مشق بہت کم ہوچکی ہے۔ ایک کلک پر درست یا غلط معلومات دستیاب ہیں۔ دماغ پر زور دینے کا موقع ہی میسر نہیں۔ انفو ٹیکنالوجی پر انحصار نے ذہنی بیماریوں اور جسمانی معذوری کی وہ حالتیں پیدا کی ہیں کہ علاج تو دور کی بات، تشخیص ہی میڈیکل سائنس کے لیے دردِ سر ہے۔ سائنس دانوں نے خبردارکیا ہے کہ اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کی شعاعیں دو سے بارہ سال کی عمر تک کے بچوں کی دماغی صحت کے لیے تباہ کن ہیں۔ امریکہ کی سان ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے کہا ہے کہ اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کی شعاعیں بچوں میں دماغی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں۔ اسمارٹ فون کی اسکرین پر یومیہ ایک گھنٹہ نظر ڈالنا دماغی نشوونما کے لیے نقصان دہ ہے۔ امریکہ کی سرکاری ہیلتھ ایجنسی کے National Toxicology Program کی تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ اسمارٹ فون ریڈی ایشن سے چوہوں میں کینسرکی واضح علامات پائی گئیں۔ یہ ریڈیائی لہریں انسانوں کے لیے بھی یقیناً خطرہ ہیں۔ تحقیق کہتی ہے کہ چار چوہوں میں ریڈیو فریکوئنسی اور ٹیومرز لنک واضح طور پر دیکھا گیا ہے۔ یہ تو محض وہ طبی نقصانات ہیں جو سامنے آرہے ہیں، اور جنہیں نقصان دہ سمجھا جارہا ہے۔ مگر وہ نقصانات جنہیں ’ترقی‘ سمجھا جارہا ہے، وہ نسبتاً بہت زیادہ مہیب اور مؤثرہیں۔
17 دسمبر 2016ء کو معروف عالمی جریدے دی اکانومسٹ نے China’s digital dictatorship کے عنوان سے رپورٹ شائع کی جس میں بیجنگ حکومت کے ذریعے قومی ڈیٹا کی ذخیرہ اندوزی اور مکمل معاشرتی کنٹرول نمایاں کیا گیا ہے۔ کمیونسٹ چین کی گھٹن زدہ ڈیجیٹل آمریت کا خوب چرچا کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ سمیت جدید دنیا میں عوامی زندگی پر نگرانی کی صورتِ حال زیادہ دہشت ناک ہے۔ سوشل ویب سائٹس پر لوگوں کا پرائیوٹ ڈیٹا مغربی تھنک ٹینکس کا تجزیاتی مواد بن چکا ہے۔ صارفین کے نظریات سے جذبات تک سب کچھ کھلا راز بن چکا ہے۔ اپریل 2018ء میں خبر گرم ہوئی کہ فیس بک نے برطانوی تجزیاتی فرم کیمبرج انالٹیکا کے ساتھ 8کروڑ 70لاکھ صارفین کا ڈیٹا غیر قانونی طور پر شیئر کیا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ ڈیٹا کی زد میں ہیں، بینک اکاؤنٹ سے لے کر عزتِ نفس تک سب کچھ خطرے میں ہے۔ اب آپ خود سے چھپ جائیں یا احباب کی نگاہوں میں نہ آئیں، لیکن ایمیزون، علی بابا اور آن لائن سیکرٹ پولیس آپ پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔
غرض لبرل کہانی بہت بڑے ڈیٹا میں کہیں گم ہوچکی ہے۔ فرد کی آزادی کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اب ڈیٹا کلیکشن کی جنگ جاری ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر، اور دیگر سوشل ویب سائٹس زیادہ سے زیادہ انسانوں کا ڈیٹا ذخیرہ کررہے ہیں۔ کوئی سرحد، کوئی قانون رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ البتہ چین کی اپنی بنائی ہوئی سوشل ویب سائٹس ہیں، جو چینی شہریوں کا ڈیجیٹل نیٹ ورک ہے۔ وہ بیرونی دنیا کی مداخلت اور اثر سے نسبتاً بہت زیادہ محفوظ ہیں۔
اس کے علاوہ وہ نامعلوم قومی اور بین الاقوامی ڈیٹا ریکارڈز ہیں، جن تک کسی بھی طاقتور ظالم استعمارکی رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر فلسطین کے مقبوضہ علاقے مغربی کنارے (غالباً غزہ کے ساتھ یہ معاملہ نہیں) کا سارا ڈیٹا اسرائیل کی گرفت میں ہے۔ جب یہاں سے کوئی فون کال ملاتا ہے، یا سوشل میڈیا پرکچھ پوسٹ کرتا ہے تو اسرائیلی مائیکروفونز، اسپائی سوفٹ ویئر اور ڈرونزکی گرفت میں آجاتا ہے، اور اسے Big Data میں چیک کیا جاتا ہے۔ یہی وہ انفوٹیک ہے کہ تھوڑے سے اسرائیلی فوجی بغیر جانی نقصان کے پچیس لاکھ فلسطینیوں پرقابو رکھتے ہیں۔
یہ حقیقت جلد از جلد سمجھ لینی چاہیے کہ اب اس دنیا میں وہی فرد آزاد ہوگا جوڈیٹا کی زد سے آزاد ہوگا، آف لائن دنیا میں زندگی گزار رہا ہوگا۔ مگریہ محال ہے۔ اس لیے ضروری ہوگا کہ اپنے محفوظ سوشل نیٹ ورکس بنائے جائیں، جنہیں ڈیٹا کی ذخیرہ اندوزی کے بجائے علم اور معلومات کی ترسیل اور دُور کے روابط کے لیے ڈیزائن کیا جائے۔ اس کے علاوہ وہی کامیاب راہِ عمل اپنا سکیں گے جو اپنی ہر جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ زمینی حقیقتوں میں ڈھال سکیں گے۔ ایسی حکمت عملی جو مکمل طور پر فول پروف ہو، قابلِ ترجیح ہوگی۔ انگریزی زبان کا ضرورت کے تحت استعمال اور ملکی یا مقامی زبانوں کا باقاعدہ استعمال مفید ہوگا۔ چین، ترکی، اور اسرائیل کی مثالیں سامنے ہیں۔ ان ممالک کے آن لائن نیٹ ورکس چینی، عبرانی، اور ترک زبانوں کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں، انگریزی ضرورت کے تحت ہی استعمال کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں باپردہ مسلم خواتین کا پروفائل اور محفوظ اسلامی طرزِ زندگی بھی حکمت و افادیت ظاہرکرتے ہیں۔
مخلوق اور تخلیق کی ہرصورت سے بہرحال آزادی، اور خالقِ کائنات کی بندگی ہی ہر انسان کی واحد ’آزادی‘ ہے۔ یہ آزادی تبھی ممکن ہے جب انسان انسان کے شر سے نجات حاصل کرلے، خواہ یہ شرکتنا ہی ہائی ٹیک ہو، سائنٹفک ہو، یا بائیوٹیک ہو۔ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈیجیٹل دنیا سے زیادہ سے زیادہ محتاط رہا جائے، ضروریاتِ زندگی کے لیے نان ڈیجیٹل ذرائع اپنائے جائیں، زندگی کے انسانی ذرائع اور تعلقات پر زیادہ سے زیادہ انحصار کیا جائے۔ آف لائن دنیا میں زیادہ وقت گزارا جائے۔ آن لائن دنیا کی آمریت سے ممکنہ حد تک محفوظ رہا جائے۔