۔12 ربیع الاول کا پیغام

در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است
آبروئے ما زنام مصطفی است

(ایک مسلمان کا دل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام گاہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ہی ہمارے لیے عزت و آبرو کا سرمایہ ہے۔)
خاتم الانبیاء، سرورِعالم، محسنِ انسانیت، سرکارِ دوجہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔
ہر سال ماہِ ربیع الاوّل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن آتا ہے اور امت کو یاد ہے کہ وہ وارثِ نبیؐ ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور امتِ مسلمہ آخری امت ہے۔ ملتِ اسلامیہ کو اقوام عالم میں جو منفرد حیثیت حاصل ہے، اس کی بنیاد ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت ہے۔ اس کا فرض ہے کہ اللہ کے آخری نبیؐ کی وارث ہونے کی حیثیت سے اس کردار کو انجام دے جس کے لیے محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی تمام قوتوں کو بیک وقت چیلنج کیا اور تمام دنیاوی خداؤں کا انکار کرکے ایک اور واحد رب الناس، ملک الناس اور الہ الناس کی بندگی کی دعوت دی، اور اعلان کیا کہ اللہ کے سوا کسی کو انسانوں کا حکمراں، آقا اور خدا بننے کا حق حاصل نہیں ہے۔ روئے ارض ظلم، فساد اور خوں ریزی سے اسی لیے بھر گئی ہے کہ انسانوں نے خدا کی بندگی کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی کو اختیار کرلیا ہے۔ اعلانِ توحید کے انقلابی کلمے نے سب سے پہلے انھی لوگوں کو اپنا دشمن بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاہنے والے ہی آپؐ کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ انہوں نے جبر و ظلم اور تعذیب و تشدد کے ہر حربے کو آزمایا جس کا تصور کرکے آج بھی انسان پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ کلمۂ توحید کی دعو ت کو چھوڑ دینے کے لیے اُس وقت کے ظالمانہ اور استحصالی نظام کے اربابِ اقتدار نے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خونیں رشتہ بھی تھا، اقتدار کی پیش کش بھی کی، مال ودولت کا لالچ بھی دیا، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور اسوۂ حسنہ کا کلیدی پیغام یہ ہے کہ کفر اور ظلم سے کسی بھی صورت میں مفاہمت نہیں کی جاسکتی۔ آپؐ نے صاف اعلان کیا اور اپنے محبوب چچا کے واسطے سے کھلا پیغام دیا کہ اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں اس کام سے باز آجاؤں تو ایسا ممکن ہی نہیں۔ تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں آؤں گا، یا تو خدا اس کام کو پورا کرے گا یا میں خود اس پر نثار ہوجاؤں گا۔
جبر و تشدد کے ان تیرہ برسوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو حق سے موڑنے اور اسلام کی انقلابی دعوت سے باز رکھنے کے لیے ظلم و ستم کا ہرحربہ آزمایا گیا، جسمانی تشدد کیا گیا، معاشی و سماجی مقاطعہ کیا گیا، گھروں سے نکالا گیا، گالیوں اور طنز و طعنوں کے تیروں سے چھلنی کیا گیا، کوشش یہ کی گئی کہ کہیں بھی کوئی جائے پناہ میسر نہ آئے، اور کوئی جائے پناہ ملے بھی تو وہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا جائے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ اللہ کے راستے میں جتنی اذیت مجھے دی گئی ہے اتنی کسی اور کو نہیں دی گئی۔ ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک چھوٹی سی حکومت قائم ہوئی تو اس کو مٹانے کے لیے تمام طاقتوں نے مل کر مسلسل فوجی اور عسکری چڑھائی کر ڈالی، لیکن اللہ کا وعدہ پورا ہوا، اس نے اپنے نبی کی مدد کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح نصیب ہوئی اور انسانی تاریخ کا وہ دور آیا جس سے بہتر دور آج تک نیلے آسمان نے نہیں دیکھا۔ یہ فتح ایمان باللہ، صبر و استقامت اور جہاد و شہادت کے نتیجے میں نصرتِ الٰہی کی صورت میں عطا ہوئی۔
آج جب کہ ہم ایک بار پھر ولادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن منارہے ہیں ،آج کے حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اکیسویں صدی میں امتِ مسلمہ کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد ہوچکی ہے۔ عالمِ اسلام 50 سے زائد آزاد مملکتوں پر مشتمل ہے۔ روئے ارض کا کلیدی خطہ (Heart Land) عالم اسلام پر مشتمل ہے۔ عالمِ اسلام موسمی اعتبار سے دنیا کا سب سے بہترین قابلِ رہائش خطہ ہے، زرعی اور معدنی وسائل سے مالامال ہے۔ تمام تجارتی زمینی اور آبی گزرگاہیں اور شاہراہیں عالم اسلام سے گزرتی ہیں، انسانی وسائل کے اعتبار سے بہترین حصہ عالم اسلام کا سرمایہ ہے، لیکن امتِ مسلمہ کی حقیقی صورتِ حال مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق ہوچکی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے لیے مستقبل کے فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب اہلِ کفر مسلمانوں پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گے جس طرح بھوکے دستر خوان پر ٹوٹتے ہیں اور اُس وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہوگی جتنی ریگستان میں ریت کے ذرے یا سمندر میں پانی۔ مسلمانوں کی موجودہ کمزوری کی وجہ مادی اور عسکری کمزوری نہیں بلکہ ان کے حکمرانوں اور ذہنی و فکری قیادت کا ایمان، اخلاقی افلاس اور بزدلی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی بزدلی کی وجہ سے اہلِِ کفر متحد ہوکر عالمِ اسلام پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ ان کا دین، ایمان، تہذیب، ثقافت، معاشرتی اقدار، تعلیمی نظام سب خطرے میں ہیں، بلکہ صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ مسلم حکمران جس میں پاکستان کے حکمراں بھی شامل ہیں، کفر کی تثلیث یعنی یہود و ہنود ونصاریٰ کے آلہ کار بن کر اسلام اور دین مصطفیؐ کا نام و نشان مٹادینے پر تل گئے ہیں۔ توہینِ رسالت کے مسئلے پر سیاسی اور غیر سیاسی قیادت نے جس طرزعمل کو اختیار کیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ امتِ مصطفیؐ کے دشمنوں کے آلہ کار بننے کے لیے کس پستی تک اتر سکتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی موجودہ روش کے بہت سارے اسباب ہیں، لیکن دو اسباب کلیدی اہمیت رکھتے ہیں: ایک دولت و اقتدار کی ہوس اور دوسرا بزدلی۔ ہوسِ دولت و اقتدار نے طبقۂ حکمراں کو رذائلِ اخلاق میں لتھیڑ کر رکھ دیاہے۔ اب ہر جگہ اور ہر مقام پر مسلم حکمراں ہتھیار ڈالتے چلے جارہے ہیں۔ اسوۂ حسنہ کا پیغام تو یہ ہے کہ اگر تم حق پر ہو تو تمہارے مخالف کتنے ہی طاقتور ہوں، ظلم و جبر کی طاقتوں سے مفاہمت سے انکار کردو، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرو تو تمہارا مددگار وہ ربِ کائنات ہے جو دنیا کے نظام کو چلارہا ہے۔ جاں نثارانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ تعداد اور فوجی اور عسکری طاقت کے بل پر آدھی دنیا فتح نہیں کی تھی، بلکہ حق کے لیے جان قربان کردینے کا عزم تھا جس نے بڑی بڑی طاقتوں کو لرزا کر رکھ دیا تھا۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی بزدلی اور پسپائی نے خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو بھی عذاب میں تبدیل کردیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں، جرنیلوں، سیاست دانوں، جاگیرداروں، وڈیروں، سرمایہ داروں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیغام کو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل دارالامتحان ہے، ان سب کو بالآخر اللہ کے سامنے حساب کے لیے حاضر ہونا ہے۔ اس دور کی سپر طاقتوں سے ڈرنے والوں کو جاننا چاہیے کہ بالآخر انہیں خدائے جبار و قہار کی عدالت کا سامنا کرنا ہوگا۔ وہاں نہ رشوت اور سفارش کام آئے گی، نہ دھوکا دہی، فریب کاری اور پروپیگنڈا۔