شہرِ ابلاغ میں لکڑ ہارے

شاعر نے کہا تھا :

جانے کن جنگلوں سے در آئے
شہرِ تنقید میں لکڑہارے

یہ کسی نقاد پر شاعر کی برہمی کا اظہار تھا۔ شعر غالباً رسا چغتائی مرحوم کا ہے۔ تنقید تو کم کم لوگ پڑھتے اور ان سے کم سمجھتے ہیں، لیکن ذرائع ابلاغ ٹی وی چینلز اور اخبارات تو ہر اُس شخص کی دست رس میں ہیں جو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتا ہے، گو کہ یہ تعداد بھی کم ہوتی جارہی ہے کہ حالاتِ حاضرہ آج بھی وہی ہیں جو 50 سال پہلے تھے۔ ذرائع ابلاغ، ابلاغ کے بجائے زبان کا بیڑا غرق کررہے ہیں۔ داغؔ نے تو کہا تھا کہ

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

لیکن اب یوں ہے کہ

’’اردو تھا جس کا نام کوئی جانتا نہیں‘‘

شہر ابلاغ میں بھی لکڑہارے گھس آئے ہیں۔ کوئی سا ٹی وی چینل کھول لو، زبان و بیان کے نادر نمونے سامنے آتے ہیں۔
چینل کا نام کیا لینا، لیکن خبر پڑھنے والے صاحب، جن کو ’نیوز ریڈر‘ کہا جاتا ہے، فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے اتنی رقم گنوا دی۔ اور گنوا دی کو وہ ’’گِن وا دی‘‘ کہہ رہے تھے۔ ’گنوا دینا‘ میں ن غنہ ہے جس کا اعلان نہیں ہوتا۔ ایسی غلطی تو کسی ناخواندہ سے بھی متوقع نہیں جیسی ایک بالکل نیو چینل کے نیوز ریڈر کررہے تھے۔ ’گنوانا‘ بروزن منانا کا مطلب ہے ضائع کرنا، برباد کرنا، کھونا۔ جیسے وقت گنوانا، روپیہ گنوانا۔ اس میں ’گ‘ پر زبر ہے۔ جب کہ گنوانا (گن۔وانا) میں ’گ‘ بالکسر ہے اور ’ن‘ پر جزم ہے۔ کل کو کوئی ’گنوار‘ کو بھی گن وار پڑھ دے گا اور اپنے گنوار پن کا ثبوت دے گا۔ ایسے لوگوں کو گنوار کا لٹھ کہا جاتا ہے۔
کیا واقعی اب اردو بے زبان ہوگئی ہے؟ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اب ذرائع ابلاغ میں درآنے والوں کے لیے کوئی معیار ہی نہیں رہا۔ ٹی وی چینلوں کو تو زیادہ محتاط رہنا چاہیے کہ ان سے نشر ہونے والے غلط الفاظ نئی نسل کے لیے سند بن سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک بڑے اشتہاری اخبار کی لیڈ یا شہ سرخی میں ’’استفادہ حاصل کرنا‘‘ شائع ہوا ہے جس سے واضح ہے کہ نیوز ایڈیٹر بھی اس کو صحیح سمجھتا ہوگا۔ پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ استفادہ میں حاصل کرنے کا مفہوم شامل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام اردو اخبارات میں ’’ایڈیٹنگ‘‘یا خبر کی تصحیح کا نظام ہی نہیں رہا۔ پہلے کبھی کسی ایک خبر میں سہو ہونے پر ایڈیٹر بازپرس کرتا تھا، اب کس کس بات پر پوچھ گچھ کرے!
یہ پوچھ گچھ بھی خوب ہے۔ لاہور سے جناب افتخار مجاز نے پوچھ گچھ کی تھی کہ ’گچھ‘ کے ’گ‘ پر زبر ہے، پیش ہے یا نیچے زیر ہے؟ انہوں نے کسی ٹی وی پر گُچھ (بالضم) سنا ہے۔ ہمارے خیال میں ’گ‘ پر زبر ہے، لغت میں اس کی وضاحت نہیں لیکن کئی متبادل دے دیے ہیں مثلاً پوچھ پاچھ، پوچھا پاچھی۔ پوچھ گچھ ہندی کا لفظ اور مونث ہے۔ پرسش، آئو بھگت، قدر و منزلت وغیرہ۔ تسلیم کا شعر ہے:

رنگ اغیار نے کچھ ایسا جما رکھا ہے
پوچھ گچھ محفلِ جاناں میں ہماری نہ ہوئی

یہاں قدر و منزلت کے معنوں میں ہے۔ اور تحقیقات کے معنوں میں جلال کا شعر ہے :

ہمارا آپ کا جھگڑا چکے گا حشر میں کیا
کہ پوچھ گچھ تو بہت انفصال کچھ بھی نہیں

(انفصال: فیصلہ ، جدا ہونا)
’چارا‘ اور’ چارہ‘ کے استعمال میں عموماً گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ ’چارا‘ ہندی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے: گھاس، چری وغیرہ، جو چوپایوں کو دی جاتی ہے۔ کسی دل جلے نے کہا تھا:

شاعری چارا سمجھ کر سب گدھے چرنے لگے

چارا برخلاف دانہ ہے۔ وہ چیز بھی چارا کہلاتی ہے جو مچھلی کے شکاری کانٹے میں لگا دیتے ہیں۔ سنا ہے آج کل بڑی مچھلیاں پکڑنے کی تیاری ہے، لیکن بڑی مچھلیاں تو کانٹا بھی کھینچ لے جاتی ہیں۔
اور ’چارہ‘ کہتے ہیں علاج، تدبیر، مدد وغیرہ کو۔ اسی سے چارہ جوئی (فارسی) ہے۔ یعنی فریاد، نالش، استغاثہ وغیرہ۔ اور چارہ ساز کا مطلب ہے کام بنانے والا، کام درست کرنے والا (خدا تعالیٰ)، معالج وغیرہ۔ مرزا غالب کا مصرع ہے:

کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

چارہ گر یعنی طبیب، معالج۔ اس پر ایک شعر ہوجائے:

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ مجھے جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے

یہ کسی پاکستانی کا شکوہ معلوم ہوتا ہے کہ چارہ گروں کی بہتات ہے مگر سب بے چارے ہیں۔ اور حکیم مومن خان مومنؔ نے شکوہ یوں کیا تھا کہ:

چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا

نوائے وقت کے ایک کالم نگار کا مضمون 13نومبر کو شائع ہوا ہے جس کی سرخی ہے ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی‘‘۔ اگر وہ یا صفحے کے نگران ’’ذرخیز‘‘ کو ’زرخیز‘ کردیتے تو اچھا تھا، ورنہ کیا ہمارے نوجوان جو پہلے ہی ’’بے زبان‘‘ ہیں، ’’ذرخیز‘‘ ہی کو صحیح نہیں سمجھ لیں گے؟ اب اتنا تو معلوم ہی ہوگا کہ ’زر‘ سونے کو کہتے ہیں، اور اس مصرع کا مطلب ہے کہ پاکستان کی مٹی سونا اگل سکتی ہے جیسا کہ اس ترانے میں ہے ’’میرے دیس کی مٹی سونا اگلے‘‘۔ جسارت کے ایک کالم نگار ’زر‘ کو مسلسل مونث بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کئی بار لکھ چکے ہیں ’’زرِتلافی دی گئی‘‘۔ ان کو گمان ہے کہ چونکہ تلافی مونث ہے اس لیے اس کی وجہ سے زر بھی مونث ہوگیا۔ ذرا اس کو اُلٹ کر تو دیکھیے، ’’تلافی کی زر‘‘
لغت میں دیکھ رہے تھے کہ شاید ذرخیز یا ذر بھی کوئی لفظ ہو، لیکن ’ذخّار‘ (’ذ‘ بالفتح) پر نظر پڑ گئی۔ لغت میں وضاحت ہے کہ اس کا صحیح املا ’زخّار‘ ہے۔ ہم بھی ذال ہی سے لکھتے رہے ہیں، قارئین کی بھی اصلاح ہوجائے گی۔ یہ عربی کا لفظ ہے۔ عربی میں ’زخر‘ کا مطلب ہے دریا کا پانی سے پُر ہونا۔ ذخّار صفت ہے یعنی موجیں مارنے والا جیسے دریائے زخار، بحر زخار وغیرہ۔ اور ’ذ‘ سے ذخیرہ بچوں کے قاعدے میں بھی ہے جس کا مطلب ہے وہ چیز جو کسی اور وقت کام آنے کے لیے رکھ چھوڑی جائے۔ ہم لوگ تو ذخیرہ الفاظ کو بھی رکھ چھوڑتے ہیں اور ایسا وقت ہی نہیں آنے دیتے کہ کام میں لائیں۔ الفاظ کا یہ ذخیرہ لغات ہی میں بند رکھتے اور وقت گنواتے ہیں۔ جمع اس کی ذخائر ہے۔ پاکستان میں بے شمار معدنی ذخائر ہیں، وہ بھی ہم نے رکھ چھوڑے ہیں کہ کہیں مٹی زرخیز نہ ہوجائے۔
لفظ آسیہ کے بارے میں کسی نے تحقیق بھیجی ہے کہ یہ یونانی، سریانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے چکی کے پاٹ۔ آسیہ کا ایک مطلب حزیں، شدید غمگین بھی ہے، اور مواسیہ کہتے ہیں بہت خیال رکھنے والی، غم گسار کو۔ ایشیا کو بھی آسیا اس لیے کہتے ہیں کہ یہ چکی کے دو پاٹوں کی طرح ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بھی ایشیا کے لیے آسیا استعمال کیا ہے۔
گزشتہ دنوں محترم مفتی منیب الرحمن نے اپنے کالم میں بیوٹی پارلر کا بہت عمدہ ترجمہ ’’صالون التجمیل‘‘ کیا ہے۔ صالون کا لفظ عربوں میں عام ہے۔ نائی کی دکان کو بھی صالون الحلاقہ کہتے ہیں خواہ وہاں حلق کے بجائے قصر کروایا جائے۔ گھر کے ڈرائنگ روم کو بھی صالون کہتے ہیں۔ انگریزی میں یہ لفظ سیلون (Saloon)ہے۔ اب معلوم نہیں کہ یہ انگریزی سے عربی میں آیا، یا عربی سے انگریزی میں گیا۔ کیونکہ ایسے کئی الفاظ ہیں جو عربی سے یورپی زبانوں میں گئے۔ برطانوی انگریزی میں سیلون کا مطلب ہے بڑا کمرہ، ہال، ایوان، خصوصاً کسی ہوٹل یا عوامی عمارت میں۔ کسی خاص کام یا ضرورت کے لیے مخصوص کیا ہوا کمرہ جیسے بلئرڈ سیلون، شوٹنگ سیلون۔ امریکہ میں شراب خانے کو بھی سیلون کہتے ہیں۔ ایک سیلون ریل گاڑیوں میں لگا ہوا ہوتا ہے جس میں بڑے لوگ ہی سفر کرسکتے ہیں۔ ویسے پاکستان میں نائی کی دکانیں بھی سیلون کہلاتی ہیں۔ ہمیں یاد نہیں رہا لیکن غالباً بیوٹی باکس کا ترجمہ ڈبہ التجمیل ہے۔