محمد کلیم اکبر صدیقی
۔103 سال کی عمر پاکر مولانا محمد افضل بدرؔ16اگست 2018ء کو اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے، جن کا اعزاز صرف یہی نہ تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے ابتدائی ارکان میں سے تھے یا طویل عرصہ ضلع مظفر گڑھ کے امیر رہے، کچھ عرصہ جماعت اسلامی پنجاب کے نائب امیر رہے اور مولانا مودودیؒ کے دور سے لے کر قاضی حسین احمدؒ کے دور تک مرکزی مجلس شوریٰ اور عاملہ کے رکن رہے، بلکہوہ 1938-39ء سے مولانا مودودیؒ سے رابطے میں تھے جبکہ جماعت اسلامی توکیا دارالاسلام ٹرسٹ بھی قائم نہ ہوا تھا۔ جب مولاناؒ پٹھان کوٹ چھوڑ کر اسلامیہ پارک لاہور مقیم ہوگئے تو اکثر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ گمان غالب ہے کہ اب وہ آخری فرد تھے جن کو قدیم ترین رکن اور جماعت کے قیام سے پہلے مولانا مودودیؒ سے تعلق کا اعزاز حاصل تھا۔
سید مودودیؒ سے تعارف اور ملاقات کی بابت بدر صاحب مرحوم بیان کرتے تھے کہ میرے ایک دوست محمد نواز اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، ایک شام وہ اور مَیں پیدل لاہور کی سیر کررہے تھے کہ ایک بک اسٹال پر رُکے۔ نواز صاحب کتابیں دیکھ رہے تھے کہ میری نظر ایک رسالے پر پڑی، نام تھا ’ترجمان القرآن‘۔ میں نے اٹھاکر دیکھا اور گمان کیا کہ کسی روایتی مولوی کا رسالہ ہوگا، اس میں فقہی مسائل کا تذکرہ ہوگا اور اپنے مسلک کی برتری کا ذکر ہوگا۔ لیکن میں حیران ہوا کہ ابتدائی صفحات خالی ہیں اور نوٹ لکھا ہوا تھا کہ رسالے کا اداریہ حکومت نے سنسر کردیا ہے۔ یہ نوٹ پڑھ کر مجھے خیال ہوا کہ رسالے کا مدیر کوئی روایتی مولوی نہیں بلکہ کوئی مجاہد ہے، جس کے خیالات سے خوفزدہ ہوکر حکومت نے تحریر سنسر کردی ۔
نواز صاحب نے مجھے مشتاق دیکھ کر کہا کہ اگر آپ رسالے کے مدیر سے ملنا چاہتے ہیں تو میں لاہور ہی میں آپ کی ملاقات کرا سکتا ہوں۔ میں نے کہا: کیوں نہیں؟ چند روز بعد وہ مجھے لے کر اسلامیہ پارک چوبرجی لاہور گئے۔ مکان کے دروازے پر دستک دی تو جن صاحب نے دروازہ کھولا وہ کہیں سے مولوی نہیں لگتے تھے۔ سفید کرتا پاجامہ، چھوٹی داڑھی اور ننگے سر۔ نواز صاحب نے بتایا کہ یہی مولانا مودودی ہیں۔ جب تعارف کے بعد گفتگو ہوئی تو اندازہ ہوا کہ اسلام کا مطلوبہ عالم ایسا ہی ہوتا ہے۔
اس طرح بدر صاحب کا مولانا مودودیؒ سے 1938ء سے تعلق بن گیا۔ اکثر و بیشتر بدر صاحب مولانا کے پاس حاضر ہونے لگے، کیونکہ وہ اُن دنوں لاہور میں تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے۔
بدر صاحب 1915ء میں یعنی میری پیدائش سے بتیس سال قبل تحصیل کوٹ ادّو کی بستی دائرہ دین پناہ میں پیدا ہوئے۔ گھرانہ دیندار تھا، والد حافظِ قرآن تھے۔ سفید پوشی سے عزت کے ساتھ خاندان کی گزربسر ہورہی تھی۔ آپ کی ذہانت اور حصولِ علم کے شوق کی بنا پر والد نے ابتدائی تعلیم کے بعد عالمِ دین بنانے کا فیصلہ کیا۔ ابتدائی درجات مختلف مدارس میں مکمل کیے اور اعلیٰ درجات اور دورۂ حدیث کے لیے ملتان کے قدیمی مدرسے جامعہ نعمانیہ میں داخل ہوئے اور درس نظامی کی تکمیل کی۔ پھر آپ لاہور آگئے جہاں اورینٹل کالج سے عربی اور فارسی کی جدید تعلیم حاصل کی، اور بعد ازاں وہیں پر کسی اسکول میں تدریس کی ذمے داری سنبھال لی۔ سوال ہوسکتا ہے کہ بتیس سال پہلے والے کے ابتدائی حالات بعد والے کو کیسے معلوم ہوئے؟ تو عرض ہے کہ بدر صاحب عالم و فاضل اور سینئر رہنما ہونے کے باوجود انتہائی خوش مزاج، مشفق اور ہر عمر کے فرد سے گھل مل جانے والے تھے۔ راقم کے ساتھ بہت شفیق اور مہربان تھے۔ بے تکلف گفتگو کرتے۔ ہر سوال کا جواب دیتے اور کبھی مخاطب کو کم حیثیت اور کم علم ہونے کا احساس نہ ہونے دیتے۔ اسی طرح تفصیلات پوچھ کر راقم نے جملہ معلومات حاصل کیں۔
تعلیمِ جدید اور معاشی مصروفیت کی خاطر کئی سال لاہور میں مقیم رہے۔ مولانا مودودیؒ کے پاس حاضری دیتے رہتے۔ لٹریچر کا مطالعہ باقاعدگی سے جاری رکھا، لیکن قیام جماعت کے وقت لاہور میں ہونے کے باوجود تاسیسی اجلاس کی اطلاع سے بے خبر رہے۔ جب چند ماہ بعد تشکیلِ جماعت کا پتا چلا تو بہت افسردہ ہوئے۔ معلوم ہوا کہ سرکاری ملازمت طاغوت کی ہے اس لیے رکنیت کی درخواست نہ کرسکے، لیکن جب مولانا مرحوم سے ذکر کیا اور رُکنیت کی خواہش ظاہر کی تو مولانا نے بتایا کہ تدریس کی ملازمت براہِ راست طاغوت کی نوکری نہیں ہے، تو رُکنیت کی درخواست دے کر اور نوکری کو خیرباد کہہ کر مظفر گڑھ آگئے۔ رُکنیت کی منظوری پر مولانا نے بدر صاحب کو حلقہ ملتان کے قیم مولانا خان محمد ربانی سے رابطے میں رہنے کی ہدایت کی، جو کہ ملتان میں بدر صاحب کے کلاس فیلو تھے۔
بدر صاحب کے رُکن بننے سے پہلے ضلع مظفر گڑھ میں جماعت کا کوئی وجود نہ تھا، اس لیے بدر صاحب کو صفر سے آغاز کرنا پڑا۔ ڈیرہ غازی خان میں ڈاکٹر نذیر شہید مصروفِ جہاد تھے۔ ملتان میں محمد باقرخان مرحوم کی قیادت میں جان دار ٹیم اقامتِ دین کی جدوجہد میں مصروف تھی۔ بدر صاحب کو دونوں پڑوسیوں سے بھی کمک ملتی رہی جس کی وجہ سے چند سال کی جاں گسل جدوجہد کے بعد مظفر گڑھ کی ہر تحصیل اور قابلِ ذکر علاقے میں نہ صرف جماعت اسلامی کا تعارف ہوگیا بلکہ افرادی قوت بھی میسر ہوگئی۔
جماعتی خدمات اور تحریکی جدوجہد کا حق ادا کرکے جو رہنما بھی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے عموماً اُس کی خدمات، قربانیوں، نیکی، تقویٰ، پرہیزگاری اور علم وفضل کا زیادہ ذکر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ ہوتا ہے تو وہ رہنما بنتا ہے۔ اس لیے مرنے کے بعد یہ روایتی ذکر معمول ہے۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی امتیازی خوبی ہوتی ہے جس کی بنا پر اُس کو یاد رکھا جاتا ہے۔ بدر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خصوصی خوبیوں سے نوازا تھا جو بہت کم لوگوں میں ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے بدر صاحب کو یادداشت کا اتنا وافر ذخیرہ عطا کیا جس کو وہ پورے 103 سال استعمال کرتے رہے لیکن ذخیرہ باقی رہا۔ آخری چند سال میں نقاہت اور کمزوری کی وجہ سے ایسا ہوتا کہ وہ غنودگی کی کیفیت میں آجاتے لیکن کچھ دیر بعد سب کچھ نارمل ہوجاتا۔
سات آٹھ سال پہلے رات کو سوتے ہوئے کومے میں چلے گئے۔ نشتر اسپتال ملتان میں داخل ہوئے، معلوم ہونے پر راقم اسپتال آیا تو مدہوشی جاری تھی۔ تیسرے دن حالت بہتر ہوئی تو نہ صرف پہچانا بلکہ شعر کی صورت میں کیفیت بیان کی، اور بالکل محسوس نہیں ہوتا تھا کہ یہ مریض کومے میں رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحبان بھی جلد صحت یابی پر حیران تھے۔
مذکورہ بیماری کے بعد بدر صاحب کی ایک پوتی کی شادی تھی۔ طویل العمری کی وجہ سے سماعت اور بصارت بہت متاثر ہوچکی تھی۔ خطبۂ نکاح ایک بزرگ نے پڑھا، جبکہ ایجاب و قبول بدر صاحب کو کرانا تھا، خطبہ کے بعد بدر صاحب نے وضاحت کی کہ خطبہ میں فلاں آیت کی تلاوت نہ کی جو کہ خطبۂ مسنونہ میں لازم ہے۔ خطیب نے اپنی بھول تسلیم کی۔ نکاح کے بعد لوگ عقیدت کے ساتھ بدر صاحب سے ملنے لگے۔ ایک ادھیڑ عمر شخص نے یہ سوچ کر کہ شاید مجھے نہ پہچان سکیں، اپنے والد مرحوم کے حوالے سے تعارف کرایا۔ بدر صاحب نے فوراً اُن کا نام لے کر پوچھا: تم فلاں ہی ہو نا؟وہ شخص بہت عرصے بعد ملا تھا، حیران رہ گیا کہ بدر صاحب کو میرا نام اب تک یاد ہے!
جماعت کی ساٹھ سالہ تاریخ کے حافظ تھے۔ کاش کوئی فرد مسلسل نشست کرکے سوالات کے ذریعے بدر صاحب کے جوابات سے جماعتی تاریخ مرتب کرلیتا، لیکن ہماری تاریخ میں صرف ’’کاش‘‘ باقی رہ جاتا ہے۔ اردو زبان اور اُس کے تلفظ پر اتنا عبور تھا کہ آخری عمر میں بھی کسی سے کوئی غلط لفظ سن کر اُس کی اصلاح کرتے۔ شوریٰ میں اگر کوئی لفظ غلط بولتا تو بدر صاحب صدرِ مجلس کو متوجہ کرتے۔ اس لیے میاں طفیل محمد صاحب نے آپ کو باقاعدہ اصلاحِِ زبان کا سرکاری ذمے دار مقرر کیا تھا۔
جماعتی زندگی میں فرد کے لیے امانت، صداقت اور راستی پر قائم رہنا آسان ہوتا ہے اور فرد اِن خوبیوں کی بنا پر خوب نام کماتا ہے۔ اصل امتحان ذاتی معاملات میں ہوتا ہے۔ بدر صاحب نے تدریس کی مصروفیات ترک کرکے صرف جماعتی خدمات کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا، اور معاشی ضروریات کے لیے کتابوں اور اسٹیشنری کی دُکان کھول لی جو کہ کرایہ پر تھی اور ایک مہاجر کو الاٹ ہوئی تھی۔ بدر صاحب عرصے تک کرایہ دار رہے۔ جماعتی تعارف اور ذاتی خوبیوں کی بنا پر سرکاری اسکولوں کے ذمے داران اسکول کی جملہ ضروریات کے لیے بھی آپ سے رجوع کرتے۔ اس طرح آپ جنرل آرڈر سپلائر بھی بن گئے۔ خریدار بھی دیانت پر یقین رکھتے اور سرکاری بلوں کی وصولی میں بھی کمیشن کی روایت سے محفوظ رہے۔ کثیر الاولاد ہونے کی وجہ سے اخراجاتِ زندگی بھی زیادہ درکار تھے، لیکن بدر صاحب نے جماعتی خدمات کو اوّلیت دی اور حلفِ رُکنیت کو ہمیشہ یاد رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے خادمِ دین کو یوں صلہ دیا کہ ساری اولاد تعلیم یافتہ ہوئی، خصوصاً تمام لڑکوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، سرکاری اور پرائیویٹ ملازمتیں کیں۔ کامیاب کاروبار کررہے ہیں۔ اولاد کی اولادوں میں ڈاکٹر، انجینئر اور وکیل ہیں۔ شاید ہی کوئی یونٹ معاشی طور پر کمزور ہو، ورنہ سب خوش حال ہیں، اور خود بدر صاحب کو ستّر کے عشرے میں شہر کے قلب میں پونے دو کنال کا وسیع مکان صرف دو لاکھ میں عطا کردیا جو کہ اب کمرشل علاقہ ہونے کی وجہ سے کروڑوں روپے کا ہے۔
اپنی جگہ مل جانے پر بدر صاحب نے اپنا کاروبار کرایہ کی دُکان سے منتقل کرلیا۔ مذکورہ دکان کا الاٹی نہ جانے کہاں گم ہوگیا۔ مکمل سہولت تھی کہ اُس دکان پر مستقل قبضہ کرلیتے، لیکن اس امتحان میں سرخرو رہے اور دُکان بحق سرکار واپس کردی۔ اسی دیانت داری کی وجہ سے قلیل سرمائے سے منافع بخش کاروبار چلتا رہے۔ بعد ازاں بدر صاحب کا کاروبار ایک صاحبزادے نے سنبھال لیا اور اب تک وسعت کے ساتھ چلا رہے ہیں۔
بدر صاحب مرحوم بھرپور جماعتی خدمات کے باعث مرجع خلائق تھے۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے آپ سے رجوع کرتے۔ آپ پوری توجہ سے جماعتی دفتر سے جو اُنھی کی رہائش گاہ پر تھا، بذریعہ ٹیلی فون متعلقہ محکمے سے رابطہ کرتے اور سائل کے مسئلے سے آگاہ کرتے اور جائز مدد اور توجہ کی سفارش کرتے۔ اپنی دل آویز شخصیت اور صلاحیتوں کی بنا پر ڈپٹی کمشنر سے لے کر تمام اعلیٰ افسران سے تعلق و واسطہ رکھتے اور کسی قسم کی مرعوبیت کا مظاہرہ نہ کرتے۔ اسی بنا پر نظام زکوٰۃ کے قیام پر ڈپٹی کمشنر نے آپ کا نام ضلعی چیئرمین کی حیثیت سے تجویز کیا اور متعلقہ سیکریٹری نے آپ کو پہلا ضلعی چیئرمین مقرر کیا، اور آپ کی کارکردگی کی بنا پر محکمہ زکوٰۃ نے آپ کو قابل اور کامیاب چیئرمین قرار دیا اور اگلی مدت کے لیے بھی منصب قبول کرنے کی استدعا کی، لیکن آپ نے سختی سے انکار کردیا۔
1979-80ء میں جب نظام زکوٰۃ کا آغاز ہوا، راقم ضلع مظفر گڑھ میں تعینات تھا۔ آغاز میں زکوٰۃ کا سارا دفتری کام محکمہ سوشل ویلفیئر کے پاس تھا اور اُسی کے افسر تحصیل اور ضلعی کمیٹیوں کے سیکریٹری ہوتے تھے، اسی لیے تحصیل مظفر گڑھ کی ذمے داری انجام دینا پڑی۔ مقامی کمیٹیوں کی تشکیل مکمل ہوتے ہوتے رمضان کا مہینہ آگیا۔ زکوٰۃ فنڈ قائم نہ ہوا تھا۔ ضیاالحق شہید کی خواہش تھی کہ ہر ضلع میں علامتی تقسیم کا مظاہرہ ہوجائے۔ محکمہ سوشل ویلفیئر نے ضلع کونسل مظفر گڑھ سے بیس ہزار روپے لے کر دس مستحقین میں تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا۔ ڈپٹی کمشنر کو سب امور کی نگرانی کرنی تھی۔ اُس وقت مظفر گڑھ میں امتیاز مسرورڈپٹی کمشنر تھے، جو کہ بعد ازاں پنجاب کے چیف سیکریٹری بنے۔ وہ بدر صاحب کے بڑے قدردان تھے۔ ڈی سی نے طے کیا کہ مستحقین میں چیک بدر صاحب بطور ضلع چیئرمین تقسیم کریں گے۔ اسسٹنٹ کمشنر مظفر گڑھ نے کہا ’’سر چیک آپ تقسیم کریں‘‘، ڈی سی نے کہا ’’جب بدر صاحب موجود ہیں تو وہی چیک تقسیم کریں گے‘‘۔ اے سی نے خوشامد کی خاطر تجویز دی کہ آدھے چیک چیئرمین اور آدھے آپ کردیں، تو ڈی سی صاحب نے سختی سے کہا کہ چیک چیئرمین ہی تقسیم کریں گے۔ اور تقریب میں ڈی سی صاحب بدر صاحب کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے رہے، اور جب بدر صاحب نے کہا کہ امتیاز صاحب میری خواہش پر ایک چیک آپ دیں تو اُنہوں نے بدر صاحب کی خواہش کا احترام کیا۔ یہ مثال جس کا میں عینی شاہد ہوں، ظاہر کرتی ہے کہ ضلعی حاکم بدر صاحب کا اتنا احترام کرتا تھا تو دوسرے افسران کا کیا حال ہوگا۔ بدر صاحب کوئی مالدار، صنعت کار، زمیندار یا برسر اقتدار جماعت کے رہنما نہ تھے۔ جماعت کی ساکھ اور جماعتی کارکنوں کی دیانت، صداقت اور عزیمت کا تاثر تھا کہ جماعت کے کارکن اور رہنما ایک ہی اُصول مدنظر رکھتے ہیں کہ ’’اللہ کے لیے محبت، اللہ ہی کے لیے نفرت‘‘۔ جس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے بدر صاحب کی زندگی ایک مثالی کارکن اور مثالی رہنما کی تصویر نظر آئے گی۔
بدر صاحب نے زندگی کا بڑا حصہ غربت میں گزارا۔ آمدن کم ا ور اخراجات بہت زیادہ… لیکن اس کے باوجود جماعتی تعلق کا حق ادا کیا، جس کا صلہ یہ ملا کہ ساری اولاد صاحبِ روزگار ہوگئی اور بدر صاحب کو آسودگی حاصل ہوئی۔ آخری چند سال سے وہ ہر ملنے والے سے رقت آمیز لہجے میں کہتے تھے کہ میرے رب نے مجھے اتنی نعمتوں اور مالی وسائل سے نوازا جو میری توقع سے بہت زیادہ ہے، میں نے تو انتہائی غربت میں بڑا وقت گزارا ہے، میں اس کا شکر نہیں ادا کرسکتا۔
وفات سے چند سال پہلے بدر صاحب صاحبِ فراش ہوگئے تھے، چلنا پھرنا ممکن نہ تھا، کسی جماعتی پروگرام میں شرکت نہ تھی۔ نئے آنے والوں کو پرانوں نے آگاہ کرنے کا کوئی اہتمام نہ کیا۔ کبھی کبھار مرکزی یا صوبائی قائدین دوروں میں ملاقات کرلیتے تو مقامی رہنمائوں کو بھی ملاقات کا موقع مل جاتا۔ عموماً مدتوں تک یاد نہ رہتا کہ ضلع کا بانی، ذمے دار بستر پر احباب سے ملاقات کا خواہاں رہتا ہے۔
16اگست 2018ء کی صبح نو بجے بدر صاحب نے رب کے حضور حاضری دی۔ خاندان کا بڑا حصہ مظفر گڑھ میں ہے اس لیے کسی کا لمبا انتظار درپیش نہ تھا۔ اُسی روز بعد نماز عصر نمازِ جنازہ تھی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نماز جنازہ کے لیے خصوصی طور پر تشریف لائے۔ حاضری ایک بڑے جنازے کی تھی، لیکن اگر ضلعی نظم بھرپور اطلاعات کا اہتمام کرتا تو حاضری کئی گنا بڑھ سکتی تھی۔ ضلعی نظم نے بعد ازاں کسی تعزیتی ریفرنس کا اہتمام بھی نہ کیا اور نہ ہی کسی معروف رہنما نے ’’یادِ رفتگاں‘‘ میں مضمون لکھا۔ حدیثِ قدسی کے مطابق اللہ کے محبوب اور مقرب بندے گم نامی کے عالم میں دنیائے فانی سے چلے جاتے ہیں۔ اس حدیث کے مطابق امید ہے کہ اللہ تعالیٰ بدر صاحب کی مغفرت فرما کر اپنے ہاں اعلیٰ درجات سے نوازے گا۔ اِن شاء اللہ