واصف علی واصف
جس اسلام نے ملک بنایا، اب اسی اسلام سے ہی اس کی بقا قائم ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں اور سچ ہی توکہتے ہیں کہ قیام پاکستان جمہوریت کے لیے تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے ملک بنایا… بجا… درست۔ یہ اکثریت، ہندو اکثریت میں اقلیت تھی یعنی اقلیت کے اکثریتی فیصلے سے ملک بنا… عجب بات ہے، اقلیت کا اکثریتی فیصلہ… بڑا طاقتور ہوتا ہے… خدا نہ کرے آئندہ بھی ایسا ہو… ممکن ہے ایسا ہی ہو! بہرحال کرب کا عالم ہے۔ صاحبانِ فکر بڑے کرب میں ہیں کہ جمہوریت کے داعی حکومت میں بھی ہیں اور جمہوریت کے پرستار سڑکوں پر بھی ہیں…! اصل جمہوریت کے طالب کون ہیں؟ جمہوریت ہی جمہوریت ہے۔ کرب ہی کرب ہے۔ اللہ خیر کرے۔ اندیشے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
ہمیں ہر طرف سے خطرہ ہے۔ آخر کیوں ہے؟ ہمارا کیا قصور ہے؟ ہم ڈر رہے ہیں، ہم کیوں ڈر رہے ہیں؟ ہمیں ڈر سے نجات دلانے کے داعی خود تو نہیں ڈر رہے؟ نہیں نہیں، ایسے نہیں ہوسکتا… ممکن ہے ایسا ہی ہو۔ خدا کرے ایسے نہ ہو!! لیکن… لیکن کچھ نہیں…!!
ہم نے کامیابی کا معیار ہی غلط بنا رکھا ہے۔ ہم طاقت، شہرت، دولت، مرتبے کو کامیابی کہتے ہیں۔ کامیابی یہ تو نہیں۔ کیا ہم نے آخرت پر ایمان چھوڑ دیا…؟ ممکن ہے ایسے ہی ہو… کامیابی مغرب کی تقلید میں نہیں… کامیابی تو اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرب میں ہے۔ ہم بھول گئے۔ شاید ہم خدا پر بھروسا کرنے کے بجائے ووٹ پر بھروسا کرتے ہیں۔ ووٹ گنتی کا نام ہے، وزن کرنے اور تولنے کا نام نہیں۔ جھوٹے لوگوں کے ووٹ سے سچا انسان کیسے آگے آسکتا ہے! اور یہ بھی سچ ہے کہ ووٹ کے بغیر سچا آدمی کیسے سامنے آسکتا ہے! صداقتیں شہید ہوتی رہتی ہیں… اب یہ سلسلہ ختم ہوجانا چاہیے۔ صداقت کے سرفراز ہونے کا وقت کب آئے گا…؟ آئے گا… ضرور آئے گا… لیکن… کچھ نہیں، خاموشی سے کرب برداشت کرتے چلو… بولنے سے بات الجھ جاتی ہے۔ بات کو الجھنا نہیں چاہیے، لہٰذا کرب بہتر ہے۔ اسے اپنا نصیب سمجھ کر قبول کرلیا جائے… کیسے کریں؟ کرب ناک بات ہے۔ اللہ زمین اور آسمانوں کا مالک ہے۔ اُس کی مسجد کے لیے چندہ چاہیے؟ کلمۂ کفر ہے… لیکن ہے… خدا ہمیں ہمارے شر سے محفوظ کرے۔ خدا ہمارے دل میں پیدا ہونے والے شبہات کو غرق کرے۔ کوئی ایسا سیلاب جو ہمارے اندیشوں کو بہا لے جائے… لیکن سیلاب… خدا کرے سیلاب نہ آئے۔ سیلاب بری شے ہے، اندیشوں کے ساتھ ہی گزر کریں گے… آخر ہم عادی ہوچکے ہیں۔ ہم اندیشوں کی چادر بنائیں گے اور پھر اس چادر کو تان کر سوجائیں گے۔ ہم خواب اور خیال کے پرستار ہیں۔ اے اللہ! ہمیں اچھے اچھے خواب دکھا… ہم حقیقت اور حقائق دیکھنے اور سوچنے کے کرب سے نجات چاہتے ہیں۔ یااللہ! ہمیں نجات دے!!
(’’قطرہ قطرہ قلرم‘‘… واصف علی واصف)
اے روحِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر!
اب تُو ہی بتا، تیرا مسلمان کدھر جائے!
وہ لذتِ آشوب نہیں بحرِ عرب میں
پوشیدہ ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے!
ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ و بیاباں سے حدی خوان کدھر جائے!
اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدؐ!
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے!
ملتِ مرحوم: لفظی معنی وہ قوم جس پر رحم کیا گیا ہو، ملتِ اسلامیہ۔ شیرازہ: وہ رشتہ جس سے کتابوں کی جلد بندی کی جاتی ہے۔ مراد ہے نظم و انتظام سے۔ آشوب: طوفان، شورش، ہنگامہ۔ راحلہ: سواری۔ زاد: توشہ، سفر کا سامان۔ حدی خوان: حدی اس نغمے کو کہتے ہیں جو ساربان اونٹوں کو تیز چلانے کے لیے گاتے ہیں۔ حدی خوان: حدی گانے والا۔
1۔ ملت ِاسلامیہ کا نظام ابتر ہوگیا۔ اے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ پاک تُو ہی بتا کہ اب مسلمان کس کا دامن پکڑے، کدھر جائے اور کیا کرے؟
2۔ عرب کے سمندر میں طوفان، جوش اور ہنگامے کی کوئی لذت باقی نہ رہی۔ میرے دل میں جو طوفان چھپا ہوا ہے وہ کہاں بپا ہو؟ کس سمندر کا رخ کرے؟
3۔ عرب کے پہاڑوں اور بیابانوں میں جو حدی خواں بیٹھے ہیں اگرچہ ان کے قافلے نہیں رہے، سواریاں بھی غائب ہوگئیں، سفر کا سامان بھی ان کے پاس نظر نہیں آتا، لیکن وہ ان پہاڑوں اور بیابانوں کو چھوڑ کر کہاں جائیں؟
مطلب یہ کہ نہ ان میں کوئی قومی تنظیم باقی رہی جیسی کہ قافلے میں ہوتی ہے۔ نہ ان کے پاس زندگی کا وہ سروسامان نظر آتا ہے جو دوسری قوموں کو حاصل ہے۔ آخر وہ کیا کریں؟
4۔ اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ پاک! میں تیرے سوا یہ راز کس سے پوچھوں کہ مسلمان جو خدا کی آیات کا نگہبان اور محافظ ہے، پریشانی کی اس حالت میں کس کے پاس جائے؟
مطالب ضربِ کلیم/مولانا غلام رسول مہر