مولانا عبدالمالک
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے ایک درجہ تواضع کرے اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ اُونچا کرتے ہیں، اور اس کو اتنا اُونچا کرتے ہیں کہ وہ علیین تک پہنچ جاتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تکبر کرے، اللہ تعالیٰ اسے اسفل السافلین تک پہنچا رہے ہیں۔ (مسند احمد)
اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا، اس کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرلینا عزت و رفعت کا سامان ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہم وہ قوم ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بدولت عزت دی ہے، جب ہم اسلام کے سوا کسی اور چیز سے عزت طلب کریں گے تو اللہ ہمیں ذلیل کردے گا۔ آج مسلمان اللہ تعالیٰ کے دین کو چھوڑ کر پستی میں گر چکے ہیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
دین کو چھوڑنا اور لادینی نظاموں کو قبول کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بڑا بننا ہے، جو اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’عظمت پر آزاری ہے اور بڑائی میری چادر ہے، جس نے میرے ساتھ ان کے معاملے میں کش مکش کی میں اسے ذلیل کروں گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے دین کے تابع کردے تاکہ ہماری ساری ذلتیں اور پستیاں ختم ہوجائیں اور ہم اس دنیا میں بھی سربلند اور آخرت میں بھی سرخرو اور کامیاب ہوجائیں۔
…………
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ احسان کیا جائے تو وہ اس کا بدلہ دے۔ اگر بدلہ نہ دے سکے تو اس کا تذکرہ کرے۔ جس نے اس کا تذکرہ فرمایا تو اس نے اس کی شکرگزاری کردی۔ اور جو آدمی اپنے آپ کو سیر ظاہر کرے درآنحالیکہ وہ بھوکا ہو، اس کے پاس وہ چیز نہ ہو جسے وہ اپنے پاس ظاہر کررہا ہے تو وہ جھوٹا لباس پہننے والے کی طرح ہے۔(مسند احمد)
بہت سے لوگ بھوکے ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو سیر ظاہر کرتے ہیں، جاہل ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو عالم ظاہر کرتے ہیں، سیرت و کردار کے خام ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو متقی و پرہیزگار ظاہر کرتے ہیں۔ یہ دراصل نفاق میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کے ظاہر و باطن میں اختلاف ہے، اور جس کے ظاہروباطن میں اختلاف ہو وہ منافق ہوتا ہے، یہ جھوٹا لباس ہے۔ اپنے آپ کو متقی اور پرہیزگار ظاہر کرنا درآنحالیکہ اس میں تقویٰ نہ ہو، ایسی بیماری ہے کہ اس کا جلداز جلد علاج کیا جائے، ورنہ نفاق کی بیماری بڑھ گئی تو وہ کینسر بھی بن سکتی ہے، جو لاعلاج بیماری ہے۔
حضرت عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مریض کی عیادت کرنے جاؤ تو اُس سے اپنے لیے دعا کراؤ۔ اُس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے۔ (ابن ماجہ)
بیماری مسلمان کو گناہوں سے پاک وصاف کردیتی ہے۔ اگر ایک مسلمان شعوری طور پر مسلمان ہو اور دین پر عمل پیرا ہو تو بیماری اُس کے لیے تزکیہ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور وہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح فرشتے گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں۔ اس لیے اُس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبولیتِ دعا کا ایک دروازہ بیمار مسلمان سے دعا کرانے کا بتلا دیا ہے۔ بیمار کی عیادت کرنا، اُس کے لیے دعا کرنا بھی سنت ہے اور اُس سے دعا کرانا بھی سنت ہے۔ بیمار سے دعا کرانے کی سنت کو بھی عام کرنا چاہیے جن سے لوگوں کی مشکلات اور مصائب حل ہوں۔
حضرت عیاض بن حمار مجاشعیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ۔ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ (مسلم، مشکوٰۃ، باب المفاخرہ والعصبیت)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو پیش نظر رکھا جائے تو معاشرے میں انس و محبت کا دور دورہ ہوجائے۔ جب ہر کوئی دوسرے سے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے اور کسی پر فخر نہ کرے اور کسی کے ساتھ زیادتی سے بھی پیش نہ آئے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپس میں متصادم اور برسرِپیکار ہوں۔ اس کے برعکس ہر ایک دوسرے کا ہمدرد و غم گسار ہوگا اور دوسرے کی مصیبت میں اُس کے کام آنے والا ہوگا، جس کے نتیجے میں باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ آج معاشرے کو اس ہدایت کی سخت ضرورت ہے۔
حضرت ابودرداءؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیزکے لیے ایک حقیقت ہے، ایمان کے لیے بھی ایک حقیقت ہے۔ اور کوئی شخص ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک یہ عقیدہ نہ رکھے کہ جو آرام اور تکلیف اسے پہنچی ہے، وہ پہنچ کر رہنی تھی، اور جو آرام اور تکلیف اسے نہیں پہنچی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔ (مسند احمد)
انسان زندگی کے جن مراحل سے گزرتا ہے وہ اس کی تقدیر میں لکھ دیے گئے ہیں۔ وہ ان مراحل سے گزر کر ہی آگے بڑھتا ہے۔ اس لیے وہ جس حال میں بھی ہو اسے صبروشکر کو اپنا وظیفہ بنا کر حوصلے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہے، اور کبھی بھی بے حوصلہ ہوکر مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ مومن جرأت مند اور حوصلہ مند شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؐ نے ہمارے سامنے یہی نمونہ پیش کیا ہے۔ اس کو اپنانا کامیابی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انقلاب اور صحابہ کرامؓ کی خلافتِ راشدہ اسی کی تصویر ہے۔ آج بھی اسے دہرایا جاسکتا ہے۔