حرمت رسول پر حملہﷺقومی ردِعمل اورعمران خان کا ’’فاشزم‘‘

ڈارون کہتا ہے کہ انسان بندر سے انسان بنا۔ کوئی ماہرِ نفسیات یا کوئی ماہرِ عمرانیات عمران خان کے ارتقا کو بیان کرے گا تو یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ وہ زندگی کے ایک دائرے میں ’’فحش ازم‘‘ سے ’’فاشزم‘‘ تک پہنچے، اور زندگی کے دوسرے دور میں انہوں نے ’’پلے بوائے‘‘ سے ’’کائو بوائے‘‘ تک کا سفر طے کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ڈارون کا بندر عمران خان سے بہتر تھا۔ وہ کم از کم حیوان سے انسان تو بن گیا۔ عمران خان تو اپنے ارتقاء میں صرف اپنے عیب بدل رہے ہیں۔ سلیم احمد نے کہا تھا ؎

مجھ کو قدروں کے بدلنے سے یہ ہو گا فائدہ
میرے جتنے عیب ہیں سارے ہنر ہو جائیں گے

بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست میں جتنے اہم لوگ ہیں اور پاکستان کی تاریخ میں جتنے لوگ حکمران بنے ہیں ان کی ترقی کا ’’راز‘‘ ان کا کوئی ’’ہنر‘‘ نہیں، کوئی نہ کوئی عیب تھا۔ جنرل ایوب کا یہی قصہ ہے، جنرل یحییٰ کی یہی کہانی ہے، جنرل ضیا الحق کا یہی افسانہ ہے، جنرل پرویزمشرف کی یہی داستان ہے، ذوالفقار علی بھٹوکا یہی قصہ ہے، بے نظیر بھٹو کا یہی معاملہ ہے، میاں نوازشریف کا یہی سلسلہ ہے، آصف علی زرداری کا یہی چکر ہے، عمران خان کا یہی ماجرا ہے۔ لیکن ان باتوں میں سے کچھ نکات کی وضاحت ضروری ہے۔
عمران خان کی ابتدائی زندگی کھلی کتاب کی طرح ہے۔ اس میں کرکٹ اور مزید کرکٹ، اور اسکینڈلز اور مزید اسکینڈلز کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن پاکستانی قوم کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ اس نے ہمیشہ عمران کی کرکٹ پر نظر رکھی اور ان کے اسکینڈلز سے صرفِ نظر کیا۔ ایسا نہ ہوتا تو ’’فحش ازم‘‘ عمران خان کا دائمی اور غالب تعارف ہوتا۔ عمران سیاست میں آئے تو انہوں نے اپنے ماضی پر شرمندگی کا اظہار کیا اور کبھی اس کا دفاع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اسلام عیوب کی پردہ پوشی پر اصرار کرتا ہے، چنانچہ عمران کی غیر اخلاقی اسکینڈلز سے پُر زندگی کا ذکر اُن کے سیاسی حریف میاں نوازشریف نے ضرور کیا، مگر قوم کی اکثریت نے عمران کی شخصیت کے اس رخ پر گفتگو سے گریز ہی کیا۔ لیکن حضرت عمرؓ کی سیرت کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب نے آپؓ کی جناب میں آکر کسی شخص کی برائی کی۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: وہ شخص عام آدمی ہے یا کسی منصب پر فائز ہے؟ ان صاحب نے کہا کہ وہ منصب دار ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ شخص عام آدمی ہوتا تو خاموش رہنا بہتر تھا، مگر وہ منصب دار ہے تو وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا نگراں ہے۔ اس کے بارے میں خاموش رہنا ٹھیک نہیں۔
بدقسمتی سے عمران خان کی شخصیت پر معاشرے کی کشادہ نظری کا کوئی اثر نہیں ہے۔ وہ جس طرح وزارتِ عظمیٰ کو ’’انجوائے‘‘ کررہے ہیں اسی طرح انہوں نے حرمتِ رسولؐ کی پامالی کے مقدمے کے فیصلے کے حوالے سے سامنے آنے والے ردِعمل پر شرمناک تبصرے کو ’’انجوائے‘‘ کرکے دکھا دیا ہے۔ یہ عمران خان کی سیاسی تاریخ کا وہ مرحلہ ہے جہاں عمران اور اُن کی جماعت کا فاشزم پوری طرح آشکار ہوگیا ہے۔
تحریک لبیک کے دھرنوں کے حوالے سے قوم کی سمع خراشی کرتے ہوئے عمران خان ’’جنرل عمران خان‘‘ نظر آئے۔ عمران خان نے کسی فاشسٹ، کسی آمر، کسی بادشاہ کی طرح دھمکی دی کہ توہینِ رسالتؐ کے مقدمے کے فیصلے پر جو لوگ احتجاج کررہے ہیں وہ ’’ریاست‘‘ کو مجبور نہ کریں کہ وہ ’’ایکشن‘‘ لے۔ انہوں نے فرمایا کہ ریاست اس سلسلے میں اپنی ذمے داری پوری کرے گی۔ عمران خان کے اس فاشزم کو اُن کے نفسِ امارہ اور اطلاعات کے وفاقی وزیر فواد چودھری کے فاشزم کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو ’’عمرانی فاشزم‘‘ کی تصویر مکمل ہوجاتی ہے۔ جیو نیوز کے یکم نومبر 2018ء کے بلیٹن کے مطابق فواد چودھری نے دھرنوں اور احتجاج کے حوالے سے کہا کہ کوئی اس دھوکے میں نہ رہے کہ ریاست کمزور ہے۔ آپ ریاست کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ آپ کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے فواد چودھری جنرل پرویزمشرف نظر آرہے تھے۔ جنرل پرویز نے نواب اکبر بگٹی کو قتل کرنے سے قبل کہا تھا کہ تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا کہ کس چیز نے تمہیں کہاں سے آکر Hit کیا ہے۔
ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو پوری امتِ مسلمہ کی زندگی رسولؐ مرکز ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے بقول ہم نے خدا کو پہچانا تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے، ہمیں قرآن ملا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے۔ نماز سب سے افضل عبادت اور دین کا ستون ہے، آپ نماز میں سب پڑھ لیں مگر درود نہ پڑھیں تو نماز قبول نہ ہوگی۔ ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔ مسلمانوں کے لیے دنیا کی کامیابی بھی آپؐ کے اسوۂ حسنہ پر چلنے میں ہے اور آخرت کی کامیابی بھی آپؐ کے نمونے کی پیروی میں۔ مسلمانوں کی تہذیب ہو یا تاریخ، ہر چیز کا مرکز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی مسلمان، کوئی مسلمان معاشرہ،مسلمان حکومت اورمسلمان ریاست رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کا دفاع بھی نہ کرسکے تو اس پر لعنت۔ مسلمان جتنے ناقص العمل ہیں وہ ظاہر ہے، مگر کمزور سے کمزور مسلمان بھی جذباتی سطح پر آپؐ سے اس طرح وابستہ ہے کہ وہ آپؐ کی حرمت کے تحفظ کے لیے جان دے بھی سکتا ہے اور جان لے بھی سکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو توہینِ رسالت یا اس کے کسی مبینہ مجرم کی رہائی پر جو ردعمل سامنے آتا ہے وہ فطری، برجستہ اور قابلِ فہم ہوتا ہے۔ ملعونہ آسیہ کی رہائی کی خبر کے حوالے سے بھی یہی ہوا۔ ملعونہ آسیہ کو ملک کی ایک نہیں دو عدالتوں سے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ سیشن کورٹ نے اسے سزائے موت دی، اور لاہور ہائی کورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا۔ چنانچہ سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے محض تین گھنٹے کی سماعت کے بعد ملعونہ آسیہ کو رہا کیا تو پاکستانی قوم کی عظیم اکثریت کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی منطق سمجھ میں نہ آئی اور لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ جو سڑکوں پر دھرنا نہ دے سکے انہوں نے احتجاج کیا۔ ملعونہ آسیہ کا مقدمہ عام مقدمہ نہ تھا۔ اس مقدمے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے تکریمی کا تصور وابستہ تھا، چنانچہ حکمرانوں، اسٹیبلشمنٹ اور ذرائع ابلاغ کو عوامی ردعمل کا احترام کرنا چاہیے تھا۔ ہمیں یاد ہے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پورا کراچی بدترین صورتِ حال کی زد میں آگیا، درجنوں افراد ہلاک ہوگئے، ہزاروں زخمی ہوئے، سیکڑوں گاڑیوں کو نذرِ آتش کردیا گیا، متعدد بینک لوٹ لیے گئے، کارخانوں کو آگ لگا دی گئی۔ پورا کراچی جنگ زدہ شہر نظر آنے لگا۔ بے نظیر بھٹو کا قتل افسوس ناک تھا۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، مگر بے نظیر ایک معمولی انسان تھیں۔ اس کے مقابلے پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر حملہ کرنے والے مجرم کی اچانک ناقابلِ فہم رہائی بہت ہی بڑا سانحہ ہے۔ اصولاً تو ملک میں کروڑوں لوگوں کو سڑکوں پر آجانا چاہیے تھا اور اسٹیبلشمنٹ، عمران خان اور سپریم کورٹ کے متعلقہ ججوں سے سوال کرنا چاہیے تھا کہ تم کیا کھیل کھیل رہے ہو؟ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور ملک کے چند شہروں میں چند ہزار لوگ دھرنے کے لیے دستیاب ہوسکے۔ مگر اتنے معمولی سے ردعمل کو بھی بڑھا چڑھاکر پیش کیا گیا۔ وہ حکومت، وہ ریاست اور وہ ذرائع ابلاغ جو بے نظیر کے قتل کے خلاف ردعمل کا اعشاریہ ایک فیصد بھی نہ روک سکے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کی پاسداری میں ہونے والے احتجاج کو بھی ہضم نہ کرسکے۔ ہمیں یاد ہے الطاف حسین اور اُن کی ایم کیو ایم نے ایک سال میں 52 پُرتشدد ہڑتالیں کرائیں، مگر اسٹیبلشمنٹ بھی تماشائی بنی رہی اور حکومت بھی۔ جہاں تک ذرائع ابلاغ کا تعلق ہے تو ایم کیو ایم کی 35 سالہ پُرتشدد سیاست کے حوالے سے روزنامہ جسارت اور ہفت روزہ تکبیر کے سوا پاکستان کے تمام اخبارات، رسائل، جرائد اور ٹیلی وژن چینلز ’’ابلاغی زنخوں‘‘ کا کردار ادا کرتے رہے۔ وہ قوم کو 35 سال تک یہ بھی نہ بتا سکے کہ کراچی میں قتل و غارت گری کون کرتا ہے؟ پُرتشدد ہڑتالیں کون کراتا ہے؟ بوری بند لاشوں کا کلچر کس نے متعارف کرایا ہے؟ ہڑتالوں سے اربوں نہیں کھربوں کے نقصان کا ذمے دار کون ہے؟ ’’ابلاغی زنخوں‘‘ کے بقول یہ سارے کام ’’نامعلوم افراد‘‘ کرتے رہے۔ مگر اب کراچی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے نام پر صرف تین دن کا دھرنا ہوگیا تو تمام ابلاغی زنخے اچانک ’’مرد‘‘ بن گئے۔ ہر اخبار اور ہر چینل بتا رہا تھا کہ راستے بند ہیں، لوگوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے، بندرگاہوں پر کام ٹھپ ہے، برآمدات میں کمی ہورہی ہے۔ تسلیم کہ دھرنا دینے والے ’’اچھے لوگ‘‘ نہیں ہوں گے، مگر حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور ابلاغی زنخے کم از کم اس موضوع، اس ہستی ہی کے احترام میں خاموش رہ لیتے جس کی وجہ سے دھرنے ہورہے تھے۔ مگر ’’ابلاغی زنخے‘‘ بھی میدان میں آگئے اور ’’فحش ازم‘‘ کے علَم بردار عمران خان نے بھی اچانک اپنی جیب سے ’’فاشزم‘‘ نکال کر قوم پر اچھال دیا۔
پاکستان کے سول اور فوجی حکمرانوں کی نفسیات اور تاریخ عجیب ہے۔ یہ لوگ دشمن کے آگے ہتھیار ڈالتے ہیں۔ لڑے بغیر آدھا پاکستان بھارت کو پیش کردیتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فونک دھمکی پر پورا پاکستان امریکہ کے حوالے کردیتے ہیں، مگر قوم کا کوئی طبقہ انہیں چیلنج کرے تو یہ کم ظرف اپنی قوم پر شیر کی طرح دھاڑتے ہیں، اسے بتاتے ہیں کہ ریاست بڑی طاقت ور ہے، وہ تمہارا حشر نشر کردے گی۔ مگر یہ بات کہنے والے ’’طاقت ور‘‘ ہیں تو وہ بھارت کے آگے ہتھیار کیوں ڈال دیتے ہیں؟ وہ آگے بڑھ کر اپنی ’’بے مثال طاقت‘‘ کے ذریعے بھارت سے کشمیر کیوں نہیں چھین لیتے؟ بھارت نے پاکستان توڑا ہے، یہ طاقت ور حکمران اپنی طاقت سے بھارت کے ٹکڑے کیوں نہیں کرتے؟ یہ حکمران امریکہ اور یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیوں نہیں کرتے؟ یہ اپنی طاقت سے 70 سال میں بھی ملک و قوم کی تقدیر کیوں نہیں بدل پاتے؟ یہ کیوں بھکاریوں کی طرح دردر بھیک مانگتے پھرتے ہیں اور پوری بے شرمی کے ساتھ بھیک کو “Package” کا نام کیوں دیتے ہیں؟ ارے قوم تو بیچاری نہتی ہے۔ تمہارے پاس طیارے ہیں، ٹینک ہیں، توپیں ہیں، اسلحہ ہے، فوج ہے، پولیس ہے۔ اس کے باوجود حکمران قوم کے سرمائے سے حاصل کیے ہوئے اسلحہ کو قوم پر تانتے ہیں، اسے ڈراتے ہیں کہ ہم تمہاری ایسی کی تیسی کردیں گے۔ بزدلو! تم اتنے ہی بہادر ہو تو قوم کو بھی طیارے، ٹینک، توپیں، فوج اور پولیس دے کر پھر قوم کو للکارو۔ پھر دیکھو تمہارا کیا حال ہوتا ہے۔ بے شرمو، بے حیائو! حکمران قوم کے لیے باپ کی طرح ہوتے ہیں، اور کوئی باپ اپنی اولاد کو اپنی فوج، اپنے طیاروں، اپنے ٹینکوں، اپنی بندوقوں کی طاقت سے نہیں ڈراتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تم قوم کے باپ نہیں ہو، تم صرف جرائم پیشہ ہو۔ تمہاری ذہنیت میں ہمیشہ جرم کلبلاتا رہتا ہے۔ معروف صحافی کاشف عباسی اور رئوف کلاسرا ایک ٹی وی پروگرام میں شکایت کررہے تھے کہ اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان صحافیوں کی مجلس میں آتے تھے تو فرداً فرداً سب سے ہاتھ ملاتے تھے اور فواد چودھری ’’کاشف بھائی‘‘ کہہ کر کاشف عباسی کو مخاطب کیا کرتے تھے، مگر جب سے وہ وزیر اطلاعات و نشریات بنے ہیں ’’ہیلو کاشف‘‘ کہتے نظر آتے ہیں۔ کم ظرف لوگ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ اصول ہے: جیسی روح ویسے فرشتے۔ جیسا عمران خان ویسے اس کے سرپرست۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک المیہ یہ ہے کہ لوگ ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف، الطاف حسین اور عمران خان کو دیکھتے ہیں اور ان کی شکایت کرتے ہیں، مگر وہ ان ’’عظیم رہنمائوں‘‘ کو تخلیق کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو نہیں دیکھتے۔ بھئی Productبری ہے تو ’’کارخانے‘‘ میں بھی تو کوئی بڑا عیب ہوگا۔ آخر اس کی ہر Productعیب دار کیوں ہوتی ہے؟ لیکن ہمیں زیر بحث موضوع سے دور نہیں جانا چاہیے۔
عمران خان نے فرمایا ہے کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہے اور ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا، اور ملعونہ آسیہ کا فیصلہ آئین کے تحت کیا گیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ فیصلہ آئینِ پاکستان کے تحت نہیں بلکہ امریکہ اور یورپ کی خواہش اور دبائو کے تحت ہوا ہے۔ گزشتہ کالم میں یہ بات ثابت کردی گئی تھی۔ اس سلسلے کی تازہ ترین شہادت روزنامہ جنگ کراچی کے صفحۂ اوّل پر دو کالمی سرخی کے ساتھ شائع ہونے والی یہ خبر ہے:
’’آسیہ کی رہائی کے فیصلے کا امریکہ، اقوام متحدہ اور برطانوی وزیراعظم نے خیرمقدم کیا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کے پاکستانی رکن سجاد کریم نے آسیہ بی بی کی رہائی کے اقدام کو پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات کے لیے انتہائی احسن قرار دیا ہے، جبکہ امریکی کمیشن نے کہا ہے کہ آسیہ کی طرح کے دیگر ملزموں کو بھی رہا کیا جائے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق آسیہ کی رہائی کا ذکر برطانوی پارلیمنٹ میں بھی ہوا اور ایک برطانوی رکن پارلیمنٹ نے برطانوی وزیراعظم تھریسامے سے پوچھا کہ کیا وہ آسیہ کی سزا کو کالعدم قرار دینے کے حوالے سے عمران خان اور جسٹس ثاقب نثار کی جرأت و بہادری اور مذہبی آزادی کے پیغام کی تعریف کریں گی؟‘‘
(روزنامہ جنگ، کراچی۔2نومبر 2018ء۔ صفحۂ اوّل اور صفحہ 12)
آپ اس خبر کو گزشتہ ہفتے فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہونے والے ہمارے کالم کے مواد کے ساتھ ملا کر پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ گزشتہ کالم میں جو کچھ کہا گیا تھا وہی اصل بات ہے۔ کیا ایک ارب 60کروڑ مسلمانوں میں سے کسی معقول شخص نے کبھی امریکہ، یورپ اور اقوام متحدہ کو کسی ایسی اطلاع کی تعریف کرتے ہوئے دیکھا ہے جو اسلام، مسلمانوں یا کسی مسلم ملک کے مفاد میں ہو؟ امریکہ اور یورپ جمہوریت جمہوریت کرتے ہیں، مگر مسلم دنیا میں کوئی اسلامی تحریک جمہوریت کے ذریعے اقتدار میں آجائے تو انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے اور وہ اسلامی تحریک کے جمہوری اقتدار کے خلاف سازشیں کرنے لگتے ہیں۔ جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور میں عیسائی آزادی کی جدوجہد کریں تو دو ڈھائی سال میں امریکہ، یورپ اور اقوام متحدہ انہیں آزادی دلا دیتے ہیں، مگر کشمیر اور فلسطین کے مسلمان بھارت اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد کریں تو انہیں 70سال کے بعد بھی آزادی میسر نہیں آپاتی، جبکہ امریکہ، یورپ اور اقوام متحدہ کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے سرگرم حماس اور حزب المجاہدین کو دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں ۔
مغرب سے ملعونہ آسیہ کے مقدمے کا کیا تعلق ہے، اس کی تصدیق کے لیے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والی یہ خبر ہی کافی ہے۔ روزنامہ جنگ کی صفحۂ اوّل پر شائع ہونے والی خبر کے مطابق:
’’آسیہ بی بی کے شوہر نے امریکی صدر سے مدد اور پناہ مانگ لی ہے۔ ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ پاکستان سے رخصتی میں ہماری مدد کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں برطانیہ کی وزیراعظم اور کینیڈا کے وزیراعظم سے بھی یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہماری مدد کریں۔ آسیہ کے شوہر عاشق مسیح نے ایک انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ انہیں اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی سلامتی کے بارے میں تشویش ہے۔‘‘
(روزنامہ جنگ کراچی، 5نومبر 2018ء)
یہ خبر بتا رہی ہے کہ ملعونہ آسیہ کو ’’میرٹ‘‘ پر نہیں، مغرب کے سیاسی و معاشی دبائو پر رہا کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ملعونہ آسیہ ’’میرٹ‘‘ پر رہا ہوئی ہے تو وہ جنرل باجوہ، عمران خان اور جسٹس ثاقب نثار سے تحفظ کی اپیل کیوں نہیں کررہی؟ اس کا شوہر امریکہ کے صدر اور برطانیہ کی وزیراعظم کے آگے دستِ سوال کیوں دراز کررہا ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ جب صرف ’’مٹھی بھر انتہا پسند‘‘ ملعونہ آسیہ کے دشمن ہیں تو اسے جنرل باجوہ، سول جنرل عمران خان اور جسٹس ثاقب نثار جیسے لبرل پاکستانیوں کے سمندر میں عدم تحفظ کیوں لاحق ہے؟ آخر مٹھی بھر انتہا پسند ملعونہ آسیہ کا کیا بگاڑ لیں گے؟
تجزیہ کیا جائے تو عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں پاکستان کے اسلامی آئین کو حکمرانوں کی ہر خرابی کی آڑ بنادیا ہے۔ ارے جناب! اسلامی آئین کی صرف موجودگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریاست اور معاشرہ اسلامی ہوگیا۔ عمران خان گزشتہ چالیس سال سے کوئی ایسی مثال لاکر دکھائیں جس سے یہ ثابت ہو کہ پاکستان کے اسلامی آئین نے ریاست اور معاشرے کو حقیقی معنوں میں اسلامی بنایا ہے۔ ریاست ہو یا سیاست، عدلیہ ہو یا ذرائع ابلاغ، معیشت ہو یا تعلیم، آرٹ ہو یا کلچر، بین الاقوامی تعلقات ہوں یا صوبائی تعلقات… کسی بھی شعبے پر پاکستان کے اسلامی آئین کا کوئی اثر نہیں۔ چنانچہ عمران خان نے یہ کہہ کر سفید جھوٹ بولا کہ ملعونہ آسیہ کی رہائی کا فیصلہ اسلام یا اسلامی آئین کے مطابق ہے۔
عمران خان نے اپنے خطاب میں دھرنے والوں سے یہ بھی فرمایا کہ ریاست اپنی ذمے داری پوری کرے گی۔ عمران خان ذرا بتائیں تو ریاست نے گزشتہ 71سال میں کون کون سی ذمے داری پوری کی ہے؟ ملک کو آزاد ہوئے 71سال ہوگئے مگر ملک کی 60 فیصد آبادی ابھی تک ناخواندہ ہے۔ ملک کو آزاد ہوئے 71سال ہوگئے مگر ملک کی 70فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ملک کو آزاد ہوئے 71سال ہوگئے مگر ملک کی 70 فیصد آبادی بیمار پڑے تو اسے علاج کی مناسب سہولت میسر نہیں۔ ملک کو آزاد ہوئے 71سال ہوگئے اور ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے کھڑی ہے۔ ملک کو آزاد ہوئے 71سال ہوگئے اور ہم ملک بننے کے صرف 24سال بعد آدھے ملک سے محروم ہوگئے۔ ملک کو آزاد ہوئے 71سال ہوگئے اور آج تک ہم ’’ایک قوم‘‘ نہیں بن سکے۔ یہ ہے پاکستان کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کی ’’ذمے داری‘‘ کا حال۔ کراچی ملک کا سب سے جدید، سب سے بڑا، سب سے اہم شہر ہے اور وہ ملک کو وسائل کا 60 سے 70فیصد فراہم کرتا ہے، مگر کراچی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، کراچی کی بیشتر سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں، جگہ جگہ گٹر ابل رہے ہیں، شہر سے اب بھی 45 فیصد کچرا اٹھایا نہیں جارہا۔ کیا یہ ہے پاکستان کے بے حیا حکمران طبقے کی’’ذمے داری‘‘؟ توہینِ رسالتؐ کے مقدمے پر چند لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو اچانک عمران خان کو ’’ریاست کی ذمے داری‘‘ یاد آگئی! کیا ریاست کی ذمے داری صرف اتنی ہی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو گولی مارتی رہے، انہیں کچلتی رہے، انہیں دباتی رہے، انہیں خوف زدہ کرتی رہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ عمران خان چاہ رہا ہے کہ لوگوں کو ریاست کی ’’واحد ذمے داری‘‘ دیکھ کر ریاست سے بھی نفرت ہوجائے؟ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے جوتے چاٹیں، مگر وہ لوگوں کو ریاست پاکستان کے خلاف بھڑکانے کا غلیظ کام تو نہ کریں۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کی نفسیات کی وجہ سے آدھا ملک کھو چکے ہیں، بلوچستان ہمارے ہاتھ سے نکلتے نکلتے بچا ہے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران مولانا نورانی اور پروفیسر غفور جیسے رہنما کہہ رہے تھے کہ دیہی سندھ میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا ہورہے ہیں۔ کراچی 1990ء کی دہائی میں ہمارے ہاتھ سے پھسلتے پھسلتے بچا ہے۔ لوگ سمجھتے نہیں ہیں فحش ازم جنسی شہوت کا نام ہے اور فاشزم طاقت کی شہوت کا۔ ان میں اصولی اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ عمران خدا سے ڈریں، اور ایک شہوت کو دوسری شہوت سے تبدیل نہ کریں۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ عمران خان، آصف زرداری، نوازشریف، سپریم کورٹ اور اسٹیبلشمنٹ میں کئی طرح کی محاذ آرائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج نوازشریف کو گاڈ فادر اور مافیا کہتے ہیں۔ نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کو خلائی مخلوق کہہ کرپکارتے ہیں۔ میاں شہبازشریف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنا چاہتے ہیں۔ عمران خان آصف زرداری اور نوازشریف کو ڈاکو کہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو نوازشریف اور آصف علی زرداری ایک آنکھ نہیں بھاتے مگر ملعونہ آسیہ کی رہائی پر ان کے حوالے سے پانچ قالب ایک جان کا منظر طلوع ہوا۔ امریکہ اور یورپ کے حوالے سے یہ شعر یاد آکر رہ گیا:
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو ’’سبھی‘‘ ایک ہوئے
ملعونہ آسیہ کی رہائی کا فیصلہ آیا تو دھرنے شروع ہوئے، اور عمران خان اور ان کے نفسِ امارہ فواد چودھری نے فاشزم کا مظاہرہ کیا تو نواز لیگ نے صاف کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ ہے، اور جس طرح عمران نے مفاد پرستی کی سیاست کی، وہ اس مسئلے پر سیاست نہیں کرے گی۔ آصف زرداری نے جیو کے حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ حکومتِ وقت اور اداروں کی حمایت کی بلکہ انہوں نے اس مسئلے کو دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی نام نہاد جنگ سے جوڑ دیا اور کہا کہ ہم اس حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کی حمایت کریں گے۔ جیو والے، عمران خان پر ’’ڈونکی کنگ‘‘ کے عنوان سے توہین آمیز فلم بناچکے ہیں مگر ملعونہ آسیہ کی رہائی کے حوالے سے انہوں نے عمران خان اور ’’اداروں‘‘ کی مکمل تائید کی۔ اس سے کئی حقائق آشکار ہوتے ہیں۔ اس سے ایک حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی بالادستی کسی کو مطلوب نہیں اور اس حوالے سے
’’اصل میں سارے ایک ہیں‘‘
اس صورتِ حال سے دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ کسی کو امریکہ اور یورپ کا پاکستان چاہیے، کسی کو اسٹیبلشمنٹ کا اسلام۔ اقبال اور قائداعظم کا ’’اوریجنل پاکستان‘‘ کسی کی ضرورت نہیں، الّا یہ کہ اسلام کو Expliotکرکے کوئی فائدہ اٹھانا ہو۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ پاکستان میں اسلام یتیم و یسیر ہے۔ اس صورتِ حال سے یہ امر بھی عیاں ہوتا ہے کہ جو لوگ اسٹیبلشمنٹ، عمران خان، میاں نوازشریف یا آصف علی زرداری کے اتحادی ہیں ان کا ایمان خطرے میں ہے۔
تحریک لبیک کے بعض رہنمائوں نے جنرل باجوہ کے حوالے سے جو زبان استعمال کی اُس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جنرل باجوہ اور عمران خان کے حوالے سے کسی نہ کسی سطح پر اسٹیبلشمنٹ میں کوئی دھڑے بندی ہے۔ اس کی بنیاد میاں نوازشریف ہیں یا کوئی اور معاملہ اس کا سبب ہے، اس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہوجائے گا۔ ممکن ہے یہ محض ایک قیاس آرائی ہی ثابت ہو، مگر پاکستانی تاریخ بتاتی ہے کہ وطنِ عزیز میں انہونی بھی ہونی بن جاتی ہے۔
کالم لکھا جاچکا تھا کہ عمران خان کے نفسِ امارہ اور سول لیفٹیننٹ جنرل فواد چودھری کا یہ بیان سامنے آگیا کہ دھرنے میں عدلیہ اور فوجی قیادت کی توہین بغاوت ہے، ریاست اسے بھلا ئے گی نہیں، اور کسی کو معافی نہیں ملے گی۔ سول لیفٹیننٹ جنرل فواد چودھری کے اس بیان سے ایسا لگتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور فوجی اور سول حکمرانوں کا حافظہبہت قوی ہے حالانکہ ان کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ وہ یہ تک بھول گئے ہیں کہ ان کی حماقتوں اور کوششوں سے یہ شاندار ملک 1971ء میں ٹوٹ چکا ہے۔ سقوطِ ڈھاکا مسلمانوں کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے، اس لیے کہ اس کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست آدھی رہ گئی اور ہمارے 90ہزار فوجیوں نے نہایت شرمناک انداز میں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ ہماری فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ کا حافظہ قوی ہوتا تو سقوطِ ڈھاکا ہمارے ہر درجے کے نصاب کا حصہ ہوتا، ہم ہر سال سرکاری سطح پر اس کی یاد مناتے، اس کے اسباب اور محرکات پر ریاست کی سرپرستی میں تحقیق ہوتی تاکہ ہم اس سانحے کے ذمے داروں کا تعین کرتے اور انہیں پوری قوم کے لیے قابلِ نفرت بناتے۔ مگر ہماری فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ نے سقوط ڈھاکا کو قوم کے شعور اور ضمیر سے کھرچنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ جاپان پر دو ایٹمی حملوں سے صرف دو ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے، مگر جاپان 73 سال سے ایٹمی حملوں کو سرکاری سطح پر یاد رکھے ہوئے ہیں۔ خود ہمارے حکمران پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، اس کے حوالے سے اخبارات میں خصوصی صفحات شائع کرائے جاتے ہیں، ٹیلی ویژن پر خصوصی رپورٹیں نشر ہوتی ہیں، اور کیوں نہ ہوں؟ اس روز دہشت گردوں کے حملے میں ہمارے دو سو سے زیادہ بچے شہید ہوئے تھے۔ مگر سقوطِ ڈھاکا کے وقت تو لاکھوں افراد ہلاک ہوئے تھے، ہزاروں بنگالی عورتوں کا Rapeہوا تھا، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ اس اعتبار سے ہمیں سقوطِ ڈھاکا کو یاد رکھنے کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، مگر ہر سال 16دسمبر آتی ہے اور ہر طرف سناٹے کا راج ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فواد چودھری کا یہ دعویٰ درست نہیں کہ ریاست پاکستان کا حافظہ قوی ہے۔ دوسری بات یہ کہ عدلیہ اور فوجی قیادت کی توہین بری بات ضرور ہے مگر اسے بغاوت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ بغاوت تو پاکستان کے نظریے کو پامال کرنا ہے۔ ملک کی وحدت پر حملہ کرنا ہے۔ دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا 70سال کی تاریخ میں کبھی کسی کو ان حوالوں سے سزا دی گئی؟
فواد چودھری نے ایک بیان میں یہ بھی فرمایا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرے گی۔ ضرور کرے، لیکن غالباً حکومت کو یہ خیال اس لیے آیا ہے کہ سوشل میڈیا حکومت کے قابو میں نہیں اور حکمران سوشل میڈیا پر عوامی غیظ و غضب کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ پورا پریس، تمام ٹیلی ویژن چینل اور خود سوشل میڈیا کا ایک بڑا حصہ اسٹیبلشمنٹ کی گرفت میں ہے اور اس دائرے میں آزادیٔ اظہار ایک خواب بنتی جارہی ہے، مگر یہاں فحش ازم اور فاشزم کے ذمے دار اور ان کے سرپرستوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ معاملات کو ریگولیٹ کیا جائے۔ البتہ سوشل میڈیا کی آزادی انہیں خوف زدہ کیے ہوئے ہے۔ لبرل سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے عمران خان کے فحش ازم اور فاشزم کو بھی ریگولیٹ کریں۔ فواد چودھری کی زبان اور ان کے سرپرستوں کے دماغ کو بھی ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
فواد چودھری نے یہ بھی فرمایا ہے کہ فسادیوں اور کچھ سیاست دانوں کو ’’خلا‘‘ میں بھجوائیں گے۔ یہ بہت اچھی بات ہے، مگر جس طرح فسادیوں اور سیاست دانوں کو خلا میں بھیجنے کی ضرورت ہے، اسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور اس کے مہرے عمران خان کو بھی مذہبی، تہذیبی، تاریخی، اخلاقی اور علمی خلا سے واپس بلانا ضروری ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کو مذہبی، تہذیبی، تاریخی، اخلاقی اور علمی خلا میں گئے ہوئے مدتیں ہو چکی ہیں۔

سیف الملوک کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کس نے کیا؟

کچھ عرصے یہ ایک وتیرہ بنا ہوا ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندوں سے جان کے خطرے کا بہانہ بنا کر مغربی ملکوں میں پناہ لی جائے اور یہ طرز عمل بعض اوقات مذہب کی توہین کے کیسوں میں بھی اکثر ملتا ہے پاکستان کی حکومت کواس بات کی مکمل تحقیقات کرنی چاہیے کہ کون سے ایسے عناصر ہیں جو محض مغربی ممالک جانے کے لیے پاکستان کے اندر قانون اور آئینی تحفظ کو بھی سوالیہ نشان بناکر پیش کرتے ہیں اور وہ کون سی عالمی این جی اوز ہیں جو ان کی سرپرست بن جاتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں آسیہ مسیح کے وکیل سیف الملوک نے پاکستان سے ہالینڈ جاکر یہ بیان دیا کہ انہیں جان کا خطرہ تھا اسی لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں لیکن ان کے دعوے کا بھانڈا اقوام متحدہ کے ترجمان نے خود ہی پھوڑ دیا ہے، ہالینڈ میں ان کے کیے گئے دعوے کے جواب میںاقوام متحدہ نے واضح کردیا ہے کہ آسیہ کے وکیل سیف الملوک کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا گیا بلکہ ان کی درخواست پر انہیں تعاون فراہم کیا تھا۔ ایک ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیر پاکستان چھوڑنے پر مجبور نہیں کر سکتی، سیف الملوک نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ انہیں اقوام متحدہ اور یورپی سفیروں نے ان کی خواہش کے خلاف ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ سیف الملوک نے کہا تھاکہ31 اکتوبر کو آسیہ بی بی کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے آدھے گھنٹے بعد ملک بھر میں ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی تھی۔ سڑکیں بند کی جاچکی تھیں اور معمولات زندگی معطل ہوگئے تھے۔ اس کے بعد اقوام متحدہ اور یورپی سفیروں نے مجھے 3 دن تک اپنے پاس رکھا اور پھر میری خواہش کے خلاف زبردستی جہاز میں بٹھا کر بیرون ملک روانہ کردیا۔ میں نے اصرار کیا تھا کہ میں آسیہ بی بی کی جیل سے رہائی سے پہلے ملک نہیں چھوڑنا چاہتا۔سیف الملوک نے انکشاف کیا تھا کہ وہ آسیہ بی بی کو پاکستان سے باہر لے جانے اور کسی ملک میں سیاسی پناہ کی کوششیں کر رہے تھے لیکن اقوام متحدہ کے حکام نے ان سے کہا کہ یہ کام وہ کریں گے۔ جیسے ہی آسیہ بی بی جیل سے باہر آئیں گی، ان کے بیرون ملک جانے کے تمام انتظامات مکمل ہوں گے۔ آسیہ بی بی کے خاندان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انہیں شدید سیکورٹی خدشات لاحق ہیں اس لیے انہوں نے اسپین اور فرانس کو درخواست دی ہے کہ انہیں پناہ دی جائے۔ اب آسیہ بی بی کے شوہر عاشق مسیح کی مغربی میڈیا سے گفتگو بھی سامنے آئی ہے کہ اُن کے خاندان کے لیے پاکستان میں رہنا ناممکن ہے۔عاشق مسیح نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اُن کا خاندان کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو جائے اور اپنی زندگی بہتر طریقے سے گزاریں کیونکہ بقول اُن کے پاکستان میں اُن کا رہنا اب ممکن نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ فرانس اور اسپین میں پناہ کے لیے انہوں نے باقاعدہ درخواست دی ہے اور وہ اُن کے جواب کے منتظر ہیں، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ عاشق مسیح نے اپنے تمام خاندان کے افراد جن میں اس کی حقیقی اور سوتیلی بیٹی، اس کے شوہر اور خاندان کے دیگر افراد شامل کرنے کے لیے بھی بیرون ملک جانے کی درخواست دی ہے۔