حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدہ

پاکستان کے آئین میں یہ بات درج ہے کہ یہاںقرآن و سنت کے منافی قانون سازی نہیں ہوسکتی، ہر شہری کو اس کے مذہب کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا حق حاصل ہوگا۔ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے، اور یہاں کے رہنے والے ہر شہری کو اُس کے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل حق آئینی ضمانت کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کیا وجہ ہے کہ یورپ اور اس کے زیراثر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور مالیاتی اداروں نے اپنے مخصوص ایجنڈے کے لیے پاکستان کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ بھارت میں گائے کا گوشت کھانے کے الزام میں سیکڑوں مسلمانوں کو جان سے مار دیا گیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج سیاسی حق مانگنے والے کشمیری عوام پر بدترین ظلم ڈھا رہی ہے اور اقوام عالم گونگی، بہری اور اندھی بنی ہوئی ہیں۔ یہ سوال اور صورتِ حال بہت تلخ ہے کہ پاکستان کے آئین میں اقلیتوں کے جان و مال کے تحفظ کی مکمل ضمانت فراہم کرنے کے باوجود کیوں عالمی برادری انتہا پسند معاشرے کے طور پر پاکستان کا چہرہ دکھانے کی کوشش کررہی ہے، اور ہمیں ہر بار قرض کے لیے کسی نہ کسی شکل میں ڈومور پر سرجھکانا پڑتا ہے۔ کیا آسیہ کیس بھی ڈومور کی ایک شکل ہے؟اس سوال کا جواب ملکی پارلیمنٹ کے ذمے ہے۔ منتخب پارلیمنٹ یہ بھی بتائے کہ ڈومور کی ایسی گردان اورسخت شرائط سے ہماری جان کب چھوٹے گی؟ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت تقسیم ہیں، وہ ملکی نظریاتی اساس کی حفاظت کے لیے یکسو نہیں۔ سیاسی جماعتیں لبرل لباس میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہی لبرل ازم سیاسی جماعتوں کو مغرب کے قریب لے جاتا ہے۔ ہماری قومی سیاسی قیادت میں گہرائی نہیں پائی جاتی جس کے باعث کوئی سیاسی جماعت عالمی دبائو کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی،برسراقتدار سیاسی قیادت مقامی وسائل پر انحصار کرنے کے بجائے بیرونی امداد کی عادی ہوچکی ہے اور مغرب کی نظروں میں سرخروئی چاہتی ہے، اسی لیے ہمارا ملک دبائو میں رہتا ہے۔ ملک میں اقلیتوں کے تحفظ کے اقدامات ہوں، یا عالمی این جی اوز کا معاملہ… ہماری کسی بھی حکومت نے اپنا کیس عالمی برادری کے سامنے نظریاتی اساس کی بنیاد پر نہیں لڑا اور ہمیشہ دفاعی پوزیشن اختیار کی۔ یہ بھی المیہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کام نہیں کرتیں، ان کا زیادہ تر انحصار بیوروکریسی پر رہتا ہے۔ دفترِ خارجہ کا بابو اور افسر شاہی جو بھی مشورہ دے، اسے قبول کرلیا جاتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری اس کمزوری سے واقف ہیں، انہوں نے بھی چند بااثر پارلیمنٹرین اور بیوروکریٹ اپنی مٹھی میں رکھے ہوئے ہیں۔ انہی کے باعث ہر حکومت قرض کی مے سے ملک کی معیشت چلا رہی ہے۔ یہاں ہمیشہ یہ بات کی جاتی ہے کہ میثاقِ جمہوریت کی طرح سیاسی جماعتیں میثاقِ معیشت بھی کریں۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے لیکن کبھی نہیں کہا گیاکہ ملک کی پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں میثاقِ خودانحصاری اور میثاقِ اسلامی معیشت کریں۔ جب بھی سود سے پاک معیشت کی بات ہوتی ہے پارلیمنٹ اور بیوروکریسی کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
چین جانے سے قبل وزیراعظم عمران خان کے خطاب اور چین سے واپسی پر وزیر خارجہ کی جی ایس پی کے معاملے پر یورپی یونین کے سفارت کاروں سے ملاقات کی تفصیلات پارلیمنٹ میں لائے جانے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ متحرک نہ ہوئی تو ڈومور ہوتا رہے گا۔
آسیہ کیس کا ہی معاملہ دیکھ لیں، اس میں پراسیکیوشن سے لے کر حتمی فیصلے تک کے تمام مراحل بحث طلب ہیں۔ جب سے یہ کیس شروع ہوا، پورا معاشرہ خاموش رہا۔ واقعے کے رونما ہونے سے حتمی فیصلے تک ملک میں انتخابات کے ذریعے یہ تیسری پارلیمنٹ آچکی ہے، ان برسوں میں پارلیمنٹرین کے بے شمار وفود بیرونِ ملک گئے، مجال ہے کسی نے مغرب کے سامنے یہ کیس رکھا ہو کہ پاکستان نے تو اپنے آئین میں ہر شہری کے انسانی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دے رکھی ہے، کسی شہری کو مذہب کی توہین کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اور نہ کسی وفد نے آسیہ کیس کے حقائق بیان کیے۔ اب فیصلہ ہوگیا ہے تو تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی، اے این پی، اور دیگر جماعتیں ایک صفحے پر آگئی ہیں۔ مطلب ایک اور ڈیل… ایک اور ڈھیل… اور ردعمل کے اظہار کے لیے اٹھنے والے عوام کو ’’چند شرپسند‘‘ قرار دیا جارہا ہے۔ آسیہ کا کیس بھول کر یہ بات ثابت کی جارہی ہے کہ دینی طبقے کا انتہا پسند گروہ ملک کے لیے مسائل پیدا کررہا ہے۔ اگر پارلیمنٹ اور ملک کی قومی سیاسی جماعتیں اسلامی نظریاتی مملکت کی بنیادی اساس کے ساتھ پیش قدمی کرتیں تو ایسی صورتِ حال ہی کیوں پیدا ہوتی! ملکی پارلیمنٹ اور قومی سطح کی سیاسی جماعتوں کی تو ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ مغرب کے قریب رہا جائے، اور سافٹ امیج کے ذریعے اپنا سیاسی مفاد اور مغرب کا اعتماد حاصل کیا جائے۔ اس کوشش میں یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ اسلام سے زیادہ سافٹ امیج کس کا ہوگا؟ تحریکِ انصاف کا تو یہ دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو ریاست مدینہ کے ماڈل پر چلائے گی۔ یہ کیسا ماڈل ہے جس میں آسیہ جیسے کیس کی پراسیکیوشن کی صلاحیت ہی نہیں! وزیراعظم عمران خان کے لیے یہ وقت تھا کہ وہ ایک ہیرو کی طرح یہ کیس عالمی برادری کے سامنے پیش کرتے اور یہ بات منواتے کہ پاکستان میں ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے مگر توہینِ رسالت کا حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ مگر انہوں نے چین جاتے ہوئے ٹی وی پر خطاب کے ذریعے چین میں عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی اور ثابت کیا کہ تحریک انصاف بھی عمل نہیں صرف دعووں کی حد تک کام کررہی ہے، اور خودانحصاری کے بجائے قرضوں اور امداد سے معیشت چلانے کی خواہش مند ہے۔ جبھی تو سرمایہ کاری کے نام پر قرضے لیے جارہے ہیں۔ قرض چاہے مغرب سے لیا جائے یا کسی مسلم ملک سے، اس کی ہمیشہ شرائط طے کی جاتی ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے مجموعی طور پر 53.4 ارب ڈالر کے قرضے لیے ہیں جس میں فوجی اور جمہوری دونوں حکومتیں شامل ہیں۔ اس وقت پاکستان کے مجموعی بیرونی قرضے 95 ارب ڈالر ہیں۔ ہر قرضہ اپنے ساتھ نئی شرائط لایا ہے۔ اِس بار بھی آئی ایم ایف کے تیور اور انداز بدلے نظر آتے ہیں جس کی اہم وجہ آئی ایم ایف کا اہم شیئر ہولڈر اور سرمایہ کار امریکہ ہے جس کے پاس 17.68 فیصد ووٹنگ رائٹس ہیں۔ جاپان اور چین کے حصص محض6.49 فیصد ہیں۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ امریکہ اور بھارت سی پیک منصوبوں کے مخالف ہیں جس کے مکمل ہونے کے بعد چین گوادر کے راستے سے اپنی تیل کی سپلائی کرسکے گا اور مستقبل میں علاقائی تجارت ایک تہائی وقت اور کم قیمت پر کی جاسکے گی۔ اسی پس منظر میں امریکہ نے کہاکہ پاکستان کی معاشی مشکلات چینی قرضوں کی وجہ سے ہیں اور پاکستان کے لیے چینی قرضوں سے نکلنا مشکل ہوگیا ہے، امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض لے کر چینی قرضوں کی ادائیگی کرے۔ جبکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ معیشت پر دبائو 1300 ارب روپے کے گردشی قرضوں اور ایکسٹرنل اکائونٹ خسارے کی وجہ سے ہے، قرضوں کی ادائیگیاں 4 سال بعد شروع ہوں گی۔ وزیر خزانہ اسد عمر بھی امریکی وزارتِ خارجہ کے بیان پر مؤقف دے چکے ہیں کہ آئی ایم ایف نے سی پیک کے مجموعی قرضوں کی تفصیل مانگی ہے، لیکن اگر آئی ایم ایف نے ناقابلِ قبول شرائط رکھیں تو ہم اُس سے معاہدہ نہیں کریں گے۔ امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی عوام کے ٹیکس کے ڈالرز چین کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نہیں دیں گے، جس کے لیے وہ آئی ایم ایف کے پاکستان کو قرضے پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی حکومت کی کھلی دخل اندازی واضح نظر آتی ہے اور امریکہ کی کوشش ہے کہ اِس بار آئی ایم ایف پاکستان کو سخت سے سخت شرائط پر قرضہ دے۔ آئی ایم ایف پاکستان کے این ایف سی ایوارڈ، 18 ویں آئینی ترامیم اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر بھی اپنے تحفظات ظاہر کرچکا ہے جس کے مطابق ان ترامیم کی وجہ سے صوبوں کو زیادہ مالی وسائل منتقل ہوجاتے ہیں اور وفاق کے پاس حکومت چلانے کے لیے فنڈز نہیں بچتے۔ این ایف سی ایوارڈ اور 18 ویں آئینی ترمیم میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے جس کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔
تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ وہ خودانحصاری کی حامی ہے، اور ملکی وسائل سے معیشت چلائے گی۔ وہ حکومت میں آئی ہے تو اسے پانی کی گہرائی کا اندازہ ہوا ہے۔ اب خودانحصاری بھول کر اور کاسہ گدائی گلے میں ڈال کر در در جارہی ہے۔ سعودی عرب سے کچھ ملا ہے تو اب عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی پاکستان کی خراب معاشی صورت حال کے باعث اپنے قرضوں کے پروگرام روک دیئے ہیں۔ حکومت نے ابھی تک کوئی معاشی پلان نہیں دیا، صرف اس بات پر توجہ ہے کہ قرض مل جائے۔ سعودی عرب کے بعد وزیراعظم عمران خان چین پہنچے ہیں اور چین سے 6 ارب ڈالر کے پیکیج کے خواہش مند ہیں جس میں 1.5 ارب ڈالر گرانٹ اور 1.5 ارب ڈالر کا قرضہ شامل ہے۔ حکومت کی مدد کے لیے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ملکی معیشت کے لیے کام کررہے ہیں، جن کی کوشش سے اب چین ٹیکسٹائل سمیت دیگرمصنوعات پر پاکستان کو ڈیوٹی فری مارکیٹ رسائی دینے کے لیے رضامند ہوا ہے۔
ملکی معیشت کو درپیش یہی دبائو عالمی اداروں کی دہلیز پر لے جاتا ہے۔ اب دو ہی راستے ہیں، یا تو حکمران خوددار بن جائیں اور اپنے فیصلے خود کریں، یا پھر عالمی ساہوکاروں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے آسیہ کیس جیسے ’’مواقع‘‘ تلاش کرتے رہیں۔ حکومت کے رویّے اور ملکی معیشت کے لیے گلے میں لٹکے کاسۂ گدائی نے بہت سے سنجیدہ سوالات ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں۔ آسیہ کیس کے فیصلے پر ردعمل آیا، تحریک لبیک اور دیگر دینی جماعتیں سامنے آئیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا آسیہ کیس صرف دینی جماعتوں کا ہے؟ ملکی پارلیمنٹ اور دیگر قومی سیاسی قیادت کہاں کھڑی ہے؟ کیا پاکستان کا مقدمہ ہمیشہ صرف عوام کو ہی لڑنا ہے؟ منتخب ادارے اور حکومت کس کام کے لیے ہیں؟ ابھی تو ایک کیس کا فیصلہ ہوا ہے، اسی طرح کے 40 مزید مقدمات ملکی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، اور 9 مقدمات تو اعلیٰ عدلیہ کے روبرو پیش ہوچکے ہیں۔ ان مقدمات کے فیصلے ہوں گے تو کیا ہوگا؟ تب ہماری پارلیمنٹ اور قانون سازوں کا رویہ کیا ہوگا؟ اور یہاں دینی جماعتوں سے بھی سوال ہے کہ اتحادِ امت نعرہ تو بہت اچھا ہے لیکن اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ان کی کوششیں کسی ویران صحرا میں کیوں بھٹک رہی ہیں؟ اپنے حق میں انتخابی نتائج کے لیے انہیں اپنی معاشی پالیسی، سفارت کاری کے اصول اور ملک میں عوام کی سماجی زندگی کا نقشہ پیش کرنا ہوگا۔
آسیہ کیس کے فیصلے کے خلاف تحریک لبیک اور دیگر دینی جماعتوں کے کارکنوں نے احتجاج کیا۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کی اپیل پر عام شہریوں نے بھی ردعمل ظاہر کیا اور پُرامن طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ احتجاج میں شامل ہوئے۔ تین دن کے دھرنے اور احتجاج کے بعد حکومت نے دھرنا قیادت کے ساتھ معاہدہ کیا جس میں کچھ شرائط طے ہوئیں۔ وزیر مذہبی امور نورالحق قادری کی سربراہی میں حکومت کے ایک وفد نے دھرنا قیادت سے ملاقات کی تھی۔ اس وفد میں قومی سلامتی کے ادارے کے رکن بھی تھے۔ یہ افسر وزیراعظم کی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے وفد میں شریک ہوئے تھے۔ مذاکرات کے بعد ہونے والے معاہدے کی تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئیں۔ حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان معاہدے میں پانچ نکات تحریر کرکے دستخط کیے گئے۔ معاہدے میں کہا گیا کہ آسیہ مسیح کا نام فوری طور پر ای سی ایل میں شامل کرنے کے لیے قانونی کارروائی کی جائے گی، آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف تحریک میں اگر کوئی شہادتیں ہوئی ہیں تو ان کے بارے میں فوری قانونی چارہ جوئی کی جائے گی، آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف 30 اکتوبر اور اس کے بعد جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں اُن کو فوری رہا کیا جائے گا، اس واقعہ کے دوران جس کسی کی بلا جواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہو تو تحریک لبیک معذرت خواہ ہے۔ جس کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا ہے۔
تحریک لبیک اور حکومت میں طے پانے والے معاہدے پر اِس بار کسی فوجی افسر کے دستخط نہیں ہیں۔ حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری اور پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت کے دستخط ہیں، جبکہ دھرنا قیادت کی طرف سے پیر افضل قادری اور وحید نور نے دستخط ثبت کیے ہیں۔
اب معاہدے کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوئی ہے، اور جن لوگوں نے فوج اور ججوں سے متعلق غیر آئینی اور قابلِ اعتراض گفتگو کی اُن کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا فیصلہ ہوا ہے۔ مولانا خادم حسین رضوی کا ٹوئٹر اکائونٹ بھی بلاک کردیا گیا ہے اور حکومت توڑپھوڑ میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے جارہی ہے۔ اسلام آباد میں کم و بیش سات سو افراد کے خلاف شہر کے مختلف مقامات پر دھرنا دینے اور گھیرائو جلائو کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے اور گرفتاریوں کے لیے کریک ڈائون جاری ہے۔ بلاشبہ ملک کے اسلامی نظریاتی تشخص کی وجہ سے یہ مقدمہ بہت حساس تھا، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب یہ مقدمہ ختم ہوچکا ہے، صرف فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کی حد تک ایک آخری اور محدود گنجائش باقی ہے، لیکن اس کے لیے قانونی راستے ہی اختیار کرنا ہوں گے۔ نظرثانی کی اپیل میں یہ نکات اٹھائے جائیں گے کہ عدالت نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے کن قانونی نکات یا شہادت پر غور نہیں کیا۔ لیکن یہ نکات ٹھوس دلائل کے ساتھ عدالت میں پیش کرنا ہوں گے۔ نظرثانی کی اپیل کا اصل قانونی حق بھی مدعا علیہان کا ہی ہے۔ اب اس میں کوئی نیا فریق شامل نہیں ہوسکتا، اور فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کے لیے سیاسی دبائو بڑھانے کی حکمت عملی بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ عدالتی امور میں مداخلت بھی تصور کی جاسکتی ہے۔
حکومت اور تحریک لبیک کے مابین ہونے والے معاہدے کے بعد پکڑ دھکڑ سے ثابت ہوا کہ معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ اب کارروائی کے بعد سیاسی حیثیت بھی باقی نہیں رہی۔ معاہدے کے بارے میں وزیر اطلاعات فواد چودھری کا بیان قابلِ غور ہے کہ ہمارے پاس دھرنا ختم کرانے کے لیے دو آپشن تھے، فورس استعمال کرتے تو لوگ قتل ہوسکتے تھے، ریاست کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے مذاکرات کی کوشش کی اور مذاکرات میں آپ کچھ حاصل کرتے ہیں اور کچھ چھوڑنا پڑتا ہے، ہم نے جو کچھ کیا وہ صرف فائر فائٹنگ ہے، فی الوقت حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے وہ اس مسئلے کا علاج نہیں ہے، انتہا پسندی اور پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کا مستقل حل ڈھونڈنا ہوگا، آسیہ بی بی کو ملک چھوڑنے کی اجازت دینے یا نہ دینے سے متعلق فیصلہ عدالت کرے گی، حکومت اسے سیکورٹی فراہم کرے گی، ریاست کو چیلنج کرنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے، کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ ریاست کمزور ہے۔
اسی طرح فوجی ترجمان نے بھی کہا تھا کہ ’’حکومت کے پاس فیصلے کرنے کے مختلف آپشن ہوتے ہیں، اور پہلے پولیس، رینجرز اور پھر فوج کے استعمال کا فیصلہ لیا جا سکتا ہے، اور اگر حکومت فوج بلانے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھر فوج کے سربراہ اس پر وزیراعظم کو اپنا مشورہ دیتے ہیں، یا وزیراعظم اپنے حکم کے تحت فوج کو طلب کر سکتے ہیں، البتہ ہماری پوری خواہش ہے کہ قانونی تقاضے پہلے پورے ہونے دیں‘‘۔ میجر جنرل آصف غفور نے افواجِ پاکستان کے خلاف بات کرنے کو نہایت افسوس ناک قرار دیا۔ اُن کے الفاظ تھے کہ ’’فوج دو دہائیوں سے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، اور اب ہم اس جنگ کو جیتنے کے قریب ہیں‘‘۔ چونکہ اس فیصلے نے ملک پر سیاسی اثرات چھوڑے ہیں اسی لیے ردعمل بھی آیا۔ یہ ردعمل توڑ پھوڑ اور قابلِ اعتراض گفتگو کے بغیر ہوتا تو شاید حکومت بھی برداشت کرجاتی۔
اب کچھ ذکر وزیراعظم کے دورۂ چین کا۔
ایک خبر جس نے کچھ پریشان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان نے چین سے پانچ ارب ڈالر مانگے ہیں، لیکن چین نے پاکستان کو فراہم کی جانے والی امداد مزید مذاکرات سے مشروط کردی ہے۔ فیصلہ ہوا ہے کہ پاکستان کو امداد دینے سے پہلے مزید مذاکرات کیے جائیں گے۔ ایک بات طے ہے کہ چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو اپنی زندگی سمجھتا ہے، اسی طرح کا ایک منصوبہ وہ عرب ملکوں کے ساتھ بھی شروع کرنے کا خواہش مند ہے، جس کے لیے چین تین بنیادی ترجیحات پرکام کررہا ہے، ان میں پہلی ترجیح توانائی، تیل اور گیس، دوسری ترجیح انفرا اسٹرکچر، اور تیسری ترجیح باہمی اور مشترکہ مفادات ہیں۔ ان شعبوں میں وہ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اقتصادی شاہراہ منصوبوں کے ذریعے سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ بیجنگ میں عالمی سرمایہ کانفرنس کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا۔ چین کی کوشش ہوگی کہ اس منصوبے پر اس کے ساتھ کام کرنے والے ممالک ’’نزدیکی اقتصادی راہداری پیوستگی‘‘ کے بارے میں اس کے وژن کا حصہ بن جائیں۔ سعودی عرب اور اب بیجنگ میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنسوں میں حکومتِ پاکستان کی شرکت کا مقصد بھی یہی تھا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دیا جائے جن میں اب تک 42 فیصد کمی آچکی ہے اور یہ 8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جو صرف 2 ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا پیکیج دیا گیا تھا۔ یہ امداد کافی نہیں ہے، بحران سے نکلنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑے گا۔ وزیراعظم کے حالیہ دورے کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ چینی حکومت پاکستان کو حالیہ بحران سے نکلنے کے لیے ضروری امداد فراہم کرے گی۔ اس سے پہلے کہ ضروری اقدامات اٹھائے جائیں دونوں اطراف سے مزید مذاکرات کیے جائیں گے۔ سی پیک کے پراجیکٹس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، سی پیک منصوبے کا اسکوپ لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کے حوالے سے بڑھایا جائے گا۔ یہ بات حکومتِ پاکستان کو بھی بتادی گئی ہے کہ چین کسی قیمت پر سی پیک کے منصوبوں میں کمی نہیں چاہتا۔ وزیراعظم کے دورے کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ دورے کے باوجود پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان دیکھا جارہا ہے جس کے باعث سرمایہ کاروں کو اربوں روپے کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ چین کے دوران اب تک کوئی بڑا بریک تھرو نہ ہونے کے باعث سرمایہ کار بھی گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ چین کی جانب سے تاحال پاکستان کے لیے کسی پیکیج کا اعلان نہیں کیا گیا جس کے باعث بے یقینی کی کیفیت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ موجودہ حکومت کے آغاز سے ہی اسٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان برقرار رہا۔ تاہم سعودی عرب سے ملنے والے پیکیج کے باعث مارکیٹ میں بہتری آئی تھی، لیکن اب ایک بار پھر مارکیٹ کو ریورس گیئر لگتا محسوس ہورہا ہے۔