راولپنڈی میں اپنی رہائش گاہ پر بے دردی سے چھریوں کے وار کرکے شہید کیے جانے والے جمعیت علمائے اسلام (س)کے سربراہ اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا سمیع الحق کو دارالعلوم حقانیہ کے قبرستان میں اپنے والد شیخ الحدیث مولانا عبدالحق کے پہلو میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپردِ خاک کردیا گیا۔ مولانا شہید کی نمازِ جنازہ گورنمنٹ خوشحال خان ڈگری کالج اکوڑہ خٹک میں ادا کی گئی جس میں اعلیٰ حکومتی حکام بشمول گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان، اور وزیراعلیٰ محمود خان کے علاوہ تمام مکاتبِ فکر کے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ نمازِ جنازہ مولانا سمیع الحق کے بڑے صاحبزادے مولانا حامدالحق نے پڑھائی۔ اس موقع مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجا ظفرالحق، سابق گورنر خیبر پختون خوا اقبال ظفر جھگڑا، انجینئر امیر مقام، مخدوم جاوید ہاشمی، جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق، لیاقت بلوچ، سینیٹر مشتاق احمد خان، جے یو آئی (ف)کے مولانا گل نصیب خان، کالعدم جماعت الدعوہ کے امیر پروفیسر حافظ سعید، حرکت الانصار کے مولانا فضل الرحمان خلیل، اشاعت التوحید کے مولانا محمد طیب، پیر عزیز الرحمان ہزاروی، مولانا الیاس گھمن، اے این پی کے مرکزی راہنما حاجی غلام احمد بلور بھی موجود تھے۔ نمازِ جنازہ کے بعد مولانا کا جسدِ خاکی دارالعلوم حقانیہ لایا گیا جہاں واقع خصوصی قبرستان میں انہیں اپنے والد مولانا عبدالحق کے پہلو میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ نمازِ جنازہ سے قبل دارالعلوم حقانیہ کے ترجمان مولانا یوسف شاہ نے اعلان کیا کہ دارالعلوم کی مجلس شوریٰ نے مولانا سمیع الحق کے چھوٹے بھائی مولانا انورالحق کو ان کی جگہ دارالعلوم حقانیہ کا مہتمم مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ مولانا حامد الحق مدرسے کے نائب مہتمم اور جمعیت(س) کے عبوری طور پر سربراہ ہوں گے۔ اس موقع پر ان دونوں جانشینوں کی دستاربندی بھی کی گئی۔
دوسری جانب یہ اطلاعات حیران کن ہیں کہ راولپنڈی پولیس نے مولانا سمیع الحق کے سفاکانہ قتل میں دہشت گردی کے عنصر کو مسترد کرتے ہوئے مقدمے کے اندراج میں دہشت گردی کی دفعات کے بجائے قتل اور گھر میں زبردستی گھسنے کی دفعات شامل کی ہیں، جبکہ ہومیسائیڈ انوسٹی گیشن یونٹ (HIU) نے موقع سے تمام شواہد اکٹھے کرکے ہر پہلو سے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ سب انسپکٹر جمیل کی سربراہی میں ایچ آئی یوکی تفتیشی ٹیم نے جائے وقوعہ سے خون کے نمونے، کنگھی، ٹوتھ برش، شیشہ، انسانی بال، خون آلود چادر، کمبل، تکیہ، مولانا کی عینک اور تولیے سمیت دیگر اشیاء قبضے میں لے کر شواہد سائنسی تجزیے کے لیے پنجاب فرانزک لیب ٹھوکر نیاز بیگ بھجوا دیئے ہیں، جبکہ حملہ آوروںکے فنگر پرنٹ بھی نادرا کو بھجوا دیئے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق معاملہ بظاہر دشمنی یا دیرینہ عداوت کا نتیجہ لگتا ہے، تاہم فی الوقت کوئی بات حتمی نہیں ہے۔ ابتدائی تحقیقات کرنے والوں کا خیال ہے کہ قاتل کا گھر میں آنا جانا تھا۔ گارڈ اور ملازمین گھر سے باہر جاتے ہوئے دروازہ بند کرکے گئے تھے، ایسے میں حملہ آور رہائش گاہ میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوا اور مولانا پرچھریوں کے پے درپے وار کیے۔ ذرائع کے مطابق مولانا سمیع الحق نے 6 بج کر 40 منٹ پر زخمی حالت میں خود سوسائٹی کی سیکورٹی کو فون کیا تھا، جس کے بعد ایمبولینس گھر پہنچائی گئی تھی اور گھر سے اسپتال منتقلی تک مولانا سمیع الحق زندہ تھے۔ ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ مولانا سمیع الحق نے ایمبولینس کے عملہ کو قاتلوں کے متعلق آگاہ کیا تھا جس پر پولیس نے ایمبولینس کے عملہ کو بھی شاملِ تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر پولیس کے مطابق پاکستان کی ایک بڑی مذہبی شخصیت کا گھر میں اکیلے قتل ہوجانا اور گھر کے باہر کوئی سیکورٹی گارڈ نہ ہونا انتہائی معنی خیز ہے۔ پولیس ذرائع اس بات کی جانب بھی اشارہ کررہے ہیں کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں آتشیں اسلحہ کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن مولانا سمیع الحق پر چھریوں سے وار کیے گئے۔ اس پہلو کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے کہ حملہ آور چھریوں کے ہمراہ مولانا سمیع الحق کے گھر میں داخل ہوئے یا چھری بھی اسی گھر کی استعمال کی گئی۔ مولانا سمیع الحق کے سفاکانہ قتل کے بعد عمومی تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ملک کی اتنی بڑی مذہبی شخصیت کا قتل اتنی خاموشی سے کیسے ممکن ہوا! پولیس کے مطابق مولانا سمیع الحق کا قتل پراسرار ہے، اب تک سامنے آنے والے بیانات میں تضاد ہے، ملازمین نے کہا کہ قاتل جاننے والے تھے، پہلے بھی آتے رہے، ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ حملہ آور دیوار پھلانگ کر آئے، قاتل اندر بطور مہمان بیٹھے تھے تو ملازمین کا دروازہ بندکرکے چلے جانا مشکوک لگتا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مولانا اکیلے تھے۔
خیبرپختون خوا کے گورنر شاہ فرمان نے نمازِ جنازہ کے بعد مولانا سمیع الحق کی المناک شہادت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان جیسی اہم اور بڑی شخصیت کا یوں بے دردی سے قتل یقیناً سیکورٹی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور اس حوالے سے اسلام آباد اور راولپنڈی انتظامیہ سے ضرور بازپرس ہوگی اور ذمے دار عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ گورنر نے مولانا سمیع الحق کو ایک مدبر دینی رہنما قرار دیا اور کہا کہ ان کی وفات سے اسلامیانِ پاکستان ایک دوراندیش ا ور معتدل مزاج سیاسی رہنما سے محروم ہوگئے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق سے ان کے والد کی وفات پر فون پر اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کی ناگہانی وفات سے ہم ایک جید عالم سے محروم ہوگئے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور خاندان کو صبرِ جمیل عطا کرے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختون خوا محمود خان نے مولانا سمیع الحق کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سمیع الحق ایک عظیم مذہبی اسکالر اور محب وطن پاکستانی تھے، اور آپ کی مذہبی، سیاسی اور ملک کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ محمود خان نے مولانا سمیع الحق کی شہادت پر غمزدہ خاندان سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ مصیبت کی اس گھڑی میں مرحوم کے اہلِ خانہ کے ساتھ ہیں۔ وزیراعلیٰ نے مرحوم کے درجات کی بلندی اور غمزدہ لواحقین کے لیے صبر واستقامت کی دعا بھی کی۔
افغان طالبان نے مولانا سمیع الحق کی شہادت کو المناک قرار دیتے ہوئے عالمِ اسلام کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ طالبان نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان مولانا سمیع الحق کی شہادت کو تمام عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے مسلمان عوام کے لیے عظیم اور ناقابلِ تلافی نقصان سمجھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے شہید کے لیے جنت الفردوس، اقربا، متعلقین، دینی طبقات، پاکستانی عوام اور مسلم امہ کے لیے صبرِ جمیل کی التجا ہے۔ شہید مولانا سمیع الحق نے تمام زندگی تعلیمی اور سیاسی شعبے میں دین کی خدمت کے لیے وقف کررکھی تھی اور اسی راہ میں جام شہادت نوش فرما گئے۔ انہوں نے سوویت یونین کی جارحیت اور امریکی قبضے کے خلاف افغان مظلوم ملّت کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیتے ہوئے ان کا ساتھ دیا، ہمیشہ حق بات کی اور افغان عوام کی مظلومیت کی صدا کو بلند کیا۔ امارتِ اسلامیہ افغان مسلمان عوام کی نمائندگی سے شہید مولانا سمیع الحق کی شہادت پر افسوس اور ان کے قاتلوں کے لیے رسوائی کی التجا کرتی ہے۔
دریں اثناء مولانا سمیع الحق کے قتل کا مقدمہ راولپنڈی کے تھانہ ائرپورٹ میں ان کے بیٹے مولانا حامدالحق کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ بعد ازاں پولیس نے مولانا سمیع الحق کے دوملازمین سے 3 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی، تاہم دونوں ملازمین کو مولانا حامدالحق کے کہنے پر تدفین میں شرکت کی اجازت دی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان دونوں ملازمین کو تفتیش کے لیے دوبارہ بھی طلب کیا جائے گا۔ مولانا حامدالحق کے مطابق جمعہ کی شام 6 بج کر35 منٹ پر ان کے ملازم سید احمد شاہ نے انہیں فون پر اطلاع دی کہ مولانا پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا ہے اور وہ شدید زخمی حالت میں اپنے کمرے میں پڑے ہیں۔ میں نے اپنے رشتے دار عاصم محمود ساکن گلی نمبر 12بحریہ ٹائون کو بتایا اور تھوڑی دیر میں وہ اور میں خود سفاری اسپتال پہنچ گئے، وہاں پر مولانا زخموں سے چور ایمرجنسی میں تھے۔ مولانا کی چھاتی، منہ، پیٹ کے اوپر دل پر، ماتھے، کان، کندھے اور بائیں گال پر 10 سے 12 زخم موجود تھے جن سے شدید خون نکلا ہوا تھا۔ مولانا حامدالحق نے اپنے والد کا پوسٹ مارٹم نہ کروانے کا دفاع کرتے ہوئے بتایاکہ یہ ہمارا شرعی حق ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم ناجائز ہے۔ مولانا حامدالحق کے مطابق حملہ آوروں نے گھر میں استعمال ہونے والی چھری سے 12 وار کیے، خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے مولانا دم توڑ گئے۔ پولیس کے مطابق مولانا سمیع الحق کے موبائل فون کا ریکارڈ بھی حاصل کرنے کے ساتھ علاقے کی جیو فینسنگ اور فرانزک ماہرین کی مدد بھی حاصل کی گئی ہے۔ قتل کی تحقیقات کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے سپرد کردی گئی ہے، تاہم تادم تحریرکوئی اہم گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ہے۔
اسی اثناء جامعہ دارالعلوم حقانیہ، جمعیت علمائے اسلام (س) کی مجلس شوریٰ اور خاندان حقانی نے مولانا سمیع الحق کی شہادت کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ حضرت مولانا سمیع الحق ایک بین الاقوامی اور عالمگیر شخصیت تھے، وہ نہ صرف ایک بہت بڑے تعلیمی ادارے کے مہتمم اور سیاسی جماعت کے امیر تھے بلکہ اس وقت ساری دنیا میں اسلامی بیداری اور انقلابی تحاریک کے سرپرست اور پشتی بان تھے، جہادِ افغانستان کے تمام ادوار اور خصوصاً مجاہدین لیڈروں کی آپس کی چپقلش مٹانے اور صلح جوئی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اسی طرح تحریک طالبان افغانستان کے سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے پُرزور حامی رہے۔ انہوں نے تمام عمر قیام امن، صلح اور افغانستان کے متحارب گروپوں کے درمیان مذاکرات کی بھرپور کوشش کی۔ اس عظیم سانحے کے فوراً بعد پورے عالم اسلام میں دکھ اور غم کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن افغانستان کے اکثر و بیشتر چینل اور خصوصاً سوشل میڈیا پر مولانا سمیع الحق کے خلاف غلیظ پروپیگنڈہ کیا گیا اور ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی جس پر ہم سب انتہائی غمزدہ اور دکھی ہیں۔ مولانا سمیع الحق شہید کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی اور عناد نہیں تھا، مدرسہ حقانیہ سے لے کر جمعیت علمائے اسلام تک، دفاعِ پاکستان کونسل سے لے کر دیگر اسلامی تحریکوں تک، خاندان سے لے کر اہلِ علاقہ تک سب سے ان کے دوستانہ مراسم تھے۔ ہمیں انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ملک کے کچھ عناصر اور حلقوں کی جانب سے اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے کچھ متضاد قسم کے بیانات جاری کیے جارہے ہیں جو حقائق کے منافی اور بے بنیاد ہیں۔ جب تک تمام ادارے تحقیق کے بعد کسی نتیجے تک نہ پہنچیں اُس وقت تک بے بنیاد بیانات دینے سے گریز کیا جائے، مولانا کی شہادت کو گروہی یا ذاتی تنازعے کا نام دینا انتہائی بے بنیاد ہے۔ ہزاروں لوگ، ان کی جماعت اور دارالعلوم حقانیہ سمیت خاندان حقانی اس پر شاہد ہے کہ ان کی شہادت کوئی اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ افغانستان، انڈیا و بیرونی عناصر کی سازشیں اس میں بہت حد تک شامل ہیں۔
اسی دوران جامعہ حقانیہ میں مولانا سمیع الحق شہید کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر نے کہا کہ مولانا سمیع الحق تمام امتِ مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ تھے، ان کی کمی کبھی پوری نہیں ہوسکتی، حکومت ہر ممکن طریقے سے قاتلوں کو پکڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ مولانا سمیع الحق جید عالم اورہمیشہ امن کے داعی رہے۔ وفاقی وزیر دفاع پرویز خان خٹک نے کہا کہ ہم جید عالم، بزرگ سیاست دان اور امن کے داعی سے محروم ہوگئے ہیں، جن لوگوں نے بھی یہ کام کیا ہے وہ قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکیں گے۔ ان شاء اللہ بہت جلد مولانا سمیع الحق کے قاتلوںکو گرفتار کرلیا جائے گا۔ سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور سابق چیف آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل(ر) احسان الحق نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کے جانے سے ساری امتِ مسلمہ اور پاکستان کا نقصان ہوا ہے۔ امتِ مسلمہ مولانا سمیع الحق کی کمی ہمیشہ محسوس کرتی رہے گی۔ خطے اور افغانستان میں امن کے لیے ان کی عملی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ مولانا سمیع الحق جیسے عالم کا قتل پاکستان کے امن پر وار ہے، انہوں نے ہمیشہ پاکستان اور خطے کے امن کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپائو نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کی شہادت پوری امتِ مسلمہ کے لیے بڑا سانحہ ہے، امن اور دوستی کا پیغام دینے والے کو بے دردی سے شہید کیا گیا ہے، غمزدہ خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں، سانحہ کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے، مولانا نے پاک افغان تعلقات کی بہتری کے لیے کام کیا۔ ریفرنس سے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب، ممتازصحافی رحیم اللہ یوسف زئی، مولانا احمد لدھیانوی، مولانا محمد طیب طاہری، مولانا انوارالحق، ڈپٹی اسپیکر صوبائی اسمبلی محمود جان، مولانا مفتی محمد قاسم بجلی گھر، مولانا عبدالقیوم حقانی، مولانا یوسف شاہ، مولانا عرفان الحق، مولانا حامدالحق، امیر مولانا عبدالمنان، سیینٹر الیاس بلور نے بھی خطاب کیا۔ چائنا کی مشہور بیجنگ یونیورسٹی کے پروفیسر لی شی گوانگ نے مولانا سمیع الحق کی یاد میں منعقدہ تعزیتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا سمیع الحق پاک چین دوستی کے ہمیشہ حامی رہے۔ چین اور مولانا سمیع الحق کی دوستی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مولانا سمیع الحق مرحوم چینی ثقافت کے مداح تھے۔ لی شی گوانگ نے کہا کہ چین ہمیشہ مولانا سمیع الحق شہید کی دوستی کو یاد رکھے گا۔ میں چینی حکومت کی جانب سے تعزیتی ریفرنس میں شریک ہوا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ مولانا سمیع الحق نے تیس سال قبل دورۂ چین کے موقع پر چینی مسلمانوںسے بھی ملاقات کی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ مولانا سمیع الحق سے ملاقاتیں کیں اور دارالعلوم حقانیہ اور چینی یونیورسٹیوں کے مابین تعلیمی وفود کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔
واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (س) کی مجلس شوریٰ نے مولانا حامدالحق حقانی کو مولانا سمیع الحق شہید کا سیاسی جانشین مقررکرتے ہوئے متفقہ طور پر قائم مقام مرکزی امیر نامزد کردیا ہے۔ پارٹی کے منشور کے مطابق باقی تمام عہدے بدستور برقرار رہیں گے۔ یہ اجلاس دارالعلوم حقانیہ دارالحدیث میں منعقد ہوا جس میں چاروں صوبوں کے ارکانِ مجلس عاملہ نے شرکت کی۔ اجلاس کی تفصیلات میڈیا کو بیان کرتے ہوئے جے یوآئی(س) کے مرکزی سینئر نائب امیر مولانا بشیر احمد شاد نے کہا کہ شوریٰ کے اجلاس میں متفقہ طور پر مولانا سمیع الحق شہید کے صاحبزادے حامدالحق حقانی کو قائم مقام امیر مقرر کردیا گیا ہے۔ مولانا حامدالحق کی قیادت میں مولانا سمیع الحق شہید کا مشن جاری رکھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ مولانا سمیع الحق نے 11 اور 12 نومبر کو اجلاس طلب کررکھا تھا، اب یہ اجلاس نئے امیر کی صدارت میں منعقد ہوگا۔ مولانا کی شہادت کے عوامل پر تفصیلی فیصلے کریں گے۔ حامدالحق کا کہنا تھا کہ قائدِ جمعیت کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، مولانا کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے، مولانا کے بغیر ہم یتیم ہوچکے ہیں، سب مل کر اسلام کا پرچم ملک میں لہرائیں گے۔ کشمیر، فلسطین کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے، افغانستان کے مسائل حل کریں گے، اسرائیلیت، قادیانیت اور بھارتی دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ حکومتِ وقت سے مطالبہ ہے کہ آسیہ ملعونہ کو فوری پھانسی دے اور جو سزا مل چکی اسے بحال رکھا جائے۔ تمام دینی جماعتوں کو متحد رکھیں گے۔ آسیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ ملزمان کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ مولانا ہر سطح پر پاکستان کو متحد رکھنا چاہتے تھے اور ہم ان کے اس مشن کو ہر قیمت پر جاری رکھیں گے۔
مولانا سمیع الحق کی دینی و ملّی خدمات اور ان کے قد کاٹھ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی شہادت اور بالخصوص جس بہیمانہ طریقے سے انہیں شہید کیا گیا ہے، وہ بلاشبہ حکومتِ وقت کے ساتھ ساتھ تمام متعلقہ خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ حیرت ہے کہ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود اب تک اس قتل کے حوالے سے کسی بھی سطح پرکوئی پیش رفت نظر نہیں آتی، حتیٰ کہ اب تک پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے اس نتیجے پر بھی نہیں پہنچے کہ آیا یہ قتل کس نے کیا ہے، یا پھر اس واردات کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کی سطح کے قومی راہنما کے راولپنڈی جیسے بڑے شہر اور بحریہ ٹائون جیسی جدید بستی میں سرِ شام قتل کو پنجاب پولیس جس روایتی انداز میں ڈیل کررہی ہے اور اب تک ان کے قتل کو جس طرح دہشت گردی یا کسی بین الاقوامی سازش کے بجائے روٹین کا خانگی واقعہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بذاتِ خود پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کی نااہلی کا کھلم کھلا ثبوت ہے جس کی طرف مولانا سمیع الحق کے بیٹے اور ان کے سیاسی جانشین مولانا حامدالحق نے بھی واضح اشارہ کیا ہے۔ مولانا سمیع الحق کی شخصیت، ان کے کردار اور مختلف قومی اور بین الاقوامی امور میں ان کے واضح اور دوٹوک نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی شہادت کے پیچھے جہاں بیرونی ہاتھوں کو بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے وہیں ان کی اس بے سر و سامانی میں شہادت بجائے خود متعلقہ اداروں کی غفلت کے ساتھ ساتھ خود مولانا اور اُن کے اہلِ خانہ اور اُن کی پارٹی کی عدم توجہی کا بھی بیّن ثبوت ہے۔ افغان طالبان کی اٹھان اور سرپرستی، نیز جہادِ کشمیر کی حمایت اور پشتی بانی سمیت دفاعِ پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے سیاسی اور جہادی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی مولانا سمیع الحق کی کوششوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں نہ تو کوئی عام روایتی سیاست دان قراردیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ کوئی عام روایتی مولوی تھے، بلکہ وہ وطنِ عزیز میں پُرامن جمہوری و سیاسی جدوجہد کے ذریعے نفاذِ شریعت کے مدعی تھے، اس کے ساتھ ساتھ خطے میں اسلامی تحریکوں کی سرپرستی اور پشتی بانی کے علاوہ ملکی سلامتی اور وحدت کے حوالے سے ان کی کاوشیں نہ تو کسی سے ڈھکی چھپی ہیں اور نہ ہی کوئی بھی محب وطن ان کی اِن کوششوں اور مثبت طرزعمل سے انکار کی جرأت کرسکتا ہے۔ لہٰذا اس پس منظر اور اس تمام صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ حکومت اور متعلقہ ایجنسیوں کو مولانا سمیع الحق کی المناک شہادت کو نہ صرف انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے، بلکہ ان کی شہادت میں ملوث عناصر کی فی الفور نشاندہی اور گرفتاری کے ساتھ ساتھ انہیں کیفرِکردار تک پہنچانے کے لیے بھی جتنا جلدی ہوسکے، عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔