آصف علی زرداری نے ایک نئی سیاسی چال چلتے ہوئے حکومت کو مفاہمت کا واضح پیغام دیا ہے۔ اُن کے بقول ہم اپنے اختلافات کے باوجود حکومت کے ساتھ پانچ برس مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں، موجودہ حالات کا مقابلہ کوئی بھی حکومت تنِ تنہا نہیں کرسکتی، اس کے لیے تمام قوتوں کو یکجا ہونا ہوگا اور ماضی کی سیاسی تلخیوں کو بھلا کر سر جوڑتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
آصف علی زرداری کی پارلیمنٹ میں تقریر اور حکومت کو سرپرائز مفاہمت کی پانچ سالہ پیشکش خود حکومت کے لیے بھی یقینی طور پر حیران کن ثابت ہوئی ہوگی۔ کیونکہ حکومت تو برملا کہہ رہی ہے کہ وہ آصف علی زرداری اور اُن کے کرپٹ ٹولے کے خلاف احتساب کے عمل کو آگے بڑھائے گی اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ ایسے میں آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کی اسمبلی فلور پر مفاہمت پر مبنی تقریر اور حکومت کو دعوت دینا کہ مل کر کام کیا جائے، اس پر سیاسی پنڈت حیران بھی ہیں اور پریشان بھی۔
ابھی چند دن قبل تک وہ وزیراعظم عمران خان کے مینڈیٹ کو ہی نہ صرف قبول کرنے لیے تیار نہیں تھے بلکہ عمران اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کو سیاست، جمہوریت اور ملک کے خلاف ایک بڑی سازش قرار دیتے تھے۔ کچھ دن قبل انہوں نے کہا تھا کہ ہمارا بڑا جرم 18ویں ترمیم ہے اور اسی کو بنیاد بناکر اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے خلاف چال چلی ہے۔ احتساب کے عمل کو بھی وہ سیاسی انتقام کہتے ہیں۔ مفاہمت کی سیاست یقینی طور پر جمہوریت کی مضبوطی کی کلید سمجھی اور جانی جاتی ہے، کیونکہ جمہوری سیاست میں محاذ آرائی، الزام تراشی اور ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو قبول نہ کرنے کی روش نے عملاً جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ سیاسی مفاہمت کی اس نئی پیش کش کے بعد آصف زرداری کو سب سے پہلے پی ٹی آئی کے سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنا ہوگا، اور یہ کہنے سے گریز کرنا ہوگا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے”سلیکٹڈ“وزیراعظم ہیں۔کیونکہ ایک طرف مفاہمت اور دوسری جانب جعلی مینڈیٹ کی طعنہ بازی کا عمل مل کر نہیں چل سکتا، اور یہ پہلے سے موجود بداعتمادی کو مزید بڑھائے گا۔ وزیراعظم عمران خان اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ ان کو عوام سے جو مینڈیٹ ملا ہے وہ اسی بنیاد پر ملا ہے کہ دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کرپٹ ہے۔ عمران خان کہتے تھے کہ وہ ان افراد کو قانون کے شکنجے میں لائیں گے اور ان کے خلاف بے رحمانہ احتساب ہوگا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری کو وفاقی حکومت سے موجودہ صورتِ حال میں سیاسی مفاہمت کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے، اورکیوں وہ اس مفاہمت کو ناگزیر سمجھتے ہیں؟ اوّل: سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ پیپلزپارٹی کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت کے تعاون کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس لیے پیپلز پارٹی کا وفاق سے تعاون حقیقی نظر آتا ہے۔ دوئم: پیپلز پارٹی اور بالخصوص آصف علی زرداری، ان کی بہن اور قریبی ساتھی احتساب کے شکنجے میں ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ ان کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے اور ان کو لگتا ہے کہ محاذآرائی کی سیاست سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ جائیں گے۔ سوئم: آصف علی زرداری سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان کو سیاسی طور پر نوازشریف کا مقابلہ کرنا ہے تو انہیں حزبِ اختلاف کی ایک بڑی جماعت کا تعاون درکار ہے، اور اس کی مدد کے بغیر وہ نوازشریف کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ آصف علی زرداری کو سیاسی چالوں کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے، اسی تناظر میں بڑے سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری نے سیاسی مفاہمت کی جو پیش کش حکومت کو کی ہے وہ بہت سوچ سمجھ کر کی ہے اور اس کے پیچھے ان کی ایک بڑی سیاسی چال ہے، جس کا مقصد حکومت کو گھیرے میں لانا ہے تاکہ وہ اپنی سیاست کو محفوظ کرسکیں۔
اسی تناظر میں آصف علی زرداری نے کمالِ ہوشیاری کے ساتھ اپنا کارڈ حکومت اور حزبِ اختلاف کی سیاست میں بیک وقت کھیلا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے ان کو مثبت جواب نہیں ملے گا تو حزب اختلاف کی سیاست کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں، اور وہ مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی کے ساتھ مل کر حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لاسکتے ہیں۔ بنیادی طور پر آصف علی زرداری کی مفاہمت کا اہم نکتہ مستقبل کی سیاست ہے، اور وہ حکومت کو اس نکتہ پر لانا چاہتے ہیں کہ ماضی کے معاملات پر مٹی ڈال کر آگے بڑھا جائے اور احتساب جیسے اقدامات سے گریز کرکے یا اسے بھول کر مفاہمت کے نئے راستے تلاش کیے جائیں۔ ہمارے بعض اہلِ دانش بھی حکومت کو یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ محاذ آرائی سے بچنے کے لیے احتساب کے عمل کو بھول جائے۔ کیونکہ اہلِ دانش کا یہ طبقہ بھی یا تو اپنے مفادات کے لیے بڑی جماعتوں کی قیادت سے سمجھوتا کیے ہوئے ہے، یا ان کو خود بھی اس بات کا ڈر ہے کہ اگر واقعی اس ملک میں احتساب کا عمل آگے بڑھتا ہے تو اس کا دائرہ محدود نہیں رہے گا، اور اس میں وہ خود بھی جکڑے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ دانش کا ایک مخصوص طبقہ بھی جان بوجھ کر احتساب کے عمل کو متنازع بنانے کے کھیل میں حصے دار ہے۔بہت سے سیاسی پنڈت آصف علی زرداری کی نئی سیاسی مفاہتی پیش کش کو احتساب کے عمل سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں، جبکہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں اس بنیادی نکتہ کو بنیاد بناکر اپنا بیانیہ پیش کررہی ہیں کہ اس حکومت کا احتساب مخالفین کے لیے سیاسی انتقام سے زیادہ نہیں۔ نوازشریف اور شہبازشریف کی تقریریں اسی نکتہ کے گرد گھومتی ہیں کہ عمران خان کی حکومت احتساب کو بطور ہتھیار ان کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اب آصف علی زرداری نے خود ہی یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ ان کو حکومت گرفتارکرنا چاہتی ہے، لیکن وہ جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ حالانکہ مسئلہ جیل جانے کا نہیں بلکہ احتساب کے اُس خوف کا ہے جو ان پر سوار ہے کہ اس کا منطقی انجام کیا ہوگا۔
مسئلہ یہ ہے کہ احتساب اوّل تو اس ملک میں کبھی ہوا ہی نہیں، اور فوجی یا سیاسی حکومتوں نے احتساب کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہمارا جمہوری اور سیاسی نظام اس حد تک کمزور ہے کہ اگر اس میں شفافیت اور احتساب کی بات کی جائے تو اس نظام کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ جب لوگ کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست کا شکار ہوتے ہیں اُس وقت ان کو کیوں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ عملی طور پر سیاسی اور معاشی نظام سمیت جوابدہی کے نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اگر واقعی ہمارے بہت سے لوگوں نے خود سے کوئی کرپشن اور بدعنوانی نہیں کی تو ان پر احتساب کے نام سے خوف کیوں طاری ہوجاتا ہے؟ کیوں وہ نیب سمیت دیگر اداروں میں پیش ہوکر اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں سیاسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں؟
اگر یہ بات مان لی جائے کہ ہماری سیاسی قوتوں سمیت دیگر اداروں نے کوئی کرپشن نہیں کی اور سب شفافیت پر مبنی سیاست کے اصولوں پر قائم رہے ہیں، تو پھر سوال یہ ہے کہ کرپشن اور لوٹ مار کی سیاست کس نے کی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں احتساب کے عمل کو آگے بڑھانے اورکرپٹ لوگوں کو پکڑنے میں ناکام رہی ہیں؟کیوں ان دونوں جماعتوں نے کرپٹ لوگوں کو اپنی سیاسی جماعتوں اور حکومتوں میں تحفظ دیا؟ یہی دونوں جماعتیں جو آج نیب پر سخت تنقید کررہی ہیں نیب کو ختم کرکے احتساب کا کوئی شفاف ادارہ نہیں بنا سکیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں کی اپنی سابقہ حکومتوں میں احتساب کا عمل بہت زیادہ کمزور اور مشکوک رہا، بلکہ یہ مجرموں کو تحفظ دینے کا حصہ بنیں۔ اور خود ان کی اپنی کرپشن کی کہانی بھی سب کے سامنے ہے، اور یہی خوف کی سیاست اس وقت آصف زرداری پر غالب ہے۔