پاکستان علامہ اقبال کا خواب

پاکستان اقبال کا خواب ہے۔ اس خواب کی عظمت یہ ہے کہ محمد علی جناح نے اس خواب کو تعبیر دی اور محمد علی جناح سے قائداعظم بن گئے۔ لیکن قائداعظم کے بعد سے جنرل پرویزمشرف تک جو لوگ اقتدار میں آئے انھوں نے شعوری یا لاشعوری طور پر اقبال کے خواب کو ’’خواب و خیال‘‘ بنانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ کون سی لایعنی بحث ہے جو پاکستان میں نہیں اٹھی؟ اور سب سے فضول بحث تو پاکستان کی بنیاد کے بارے میں ہے۔ کسی کو تحریکِ پاکستان کی پشت پر صرف اقتصادی محرکات نظر آتے ہیں، کسی کو محض سیاسی عوامل دکھائی دیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما چودھری اعتزاز احسن کی کتاب ’’سندھ ساگا‘‘ پڑھ کر خیال آتا ہے کہ پاکستان کی اصل حقیقت تو محض ایک جغرافیہ ہے۔ ایسا جغرافیہ جس کی ایک جداگانہ تاریخ ہے۔ اس تصور میں ثقافت کا تعین بھی جغرافیے سے ہوتا ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ کوئی اس سلسلے میں یہ تک دیکھنے کی زحمت نہیں کرتا کہ خود اقبال نے پاکستان کے بارے میں کیا کہا ہے؟ اس سلسلے میں شہادتوں کی کمی نہیں، مگر اس حوالے سے بھی یہ تاثر عام ہے کہ اقبال نے خطبۂ الٰہ آباد دیا اور اس کے بعد وہ تصورِ پاکستان کے افق سے غائب ہوگئے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
برصغیر کے ممتاز عالم ِدین مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی تصنیف ’’نقوشِ اقبال‘‘ میں علامہ سے 1937ء میں ہونے والی ایک ملاقات کا احوال لکھا ہے جو زیر بحث موضوع کے حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں اقبال نے قیام پاکستان سے دس سال قبل پاکستان کے بارے میں کیا فرمایا۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’ہندوستان میں اسلام کی تجدید و احیاء کی بات نکلی تو شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، محی الدین اورنگ زیب عالم گیر کی (علامہ نے) بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر ان کا وجود اور ان کی جدوجہد نہ ہوتی تو ہندوستانی تہذیب اور فلسفہ اسلام کو نگل جاتا… پاکستان کے بارے میں فرمایا کہ جو قوم اپنا ملک نہیں رکھتی وہ اپنے مذہب و تہذیب کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتی۔ دین و تہذیب حکومت و شوکت ہی سے زندہ رہتے ہیں۔ اس لیے پاکستان ہی مسلم مسائل کا واحد حل ہے اور یہی اقتصادی مشکلات کا حل بھی ہے۔ انھوں نے اسلام کے نظام زکوٰۃ اور بیت المال کا بھی ذکر کیا۔‘‘
(نقوش اقبال۔ صفحہ 35 اور 36)
اقبال کی اس گفتگو سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ تصورِ پاکستان کے خالق کے ذہن میں بھی پاکستان کے قیام کا مقصد اسلام اور اسلامی تہذیب کی بقا اور فروغ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اقبال کو اپنے عہد کے کسی بھی شخص سے زیادہ اس بات کا شعور تھا کہ اسلام کے بعض تقاضے حکومت و ریاست کے بغیر پورے نہیں ہوتے۔ اقبال نے اپنی ایک نظم میں مولانا رومؒ کا ایک شعر حوالے کے طور پر استعمال کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے دین کی مصلحت غار و کوہ یعنی ترکِ دنیا ہے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی مصلحت جہاد اور شوکت ہے۔
اقبال کا اسلام ٹنگوز اور پنگوز کی طرح مجرّد اسلام نہیں تھا جسے اپنی تہذیب پیدا کرنے سے دلچسپی نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اپنی گفتگو میں دین و تہذیب کے الفاظ ایک ساتھ استعمال کیے ہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ اقبال کی نظر میں پاکستان کی حیثیت اسلامی تجربہ گاہ کی تھی، جسے ساری دنیا کے لیے ’’نمونہ‘‘ بننا تھا۔
اقبال کی اس گفتگو سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کو برصغیر کے عظیم مجددین کی فکر اور جدوجہد کے تناظر میں دیکھتے تھے اور انہیں ہندو تہذیب کی جاذبیت اور قوت کا بخوبی اندازہ تھا۔ پاکستان میں بھارت کی اندھی دشمنی میں ہندو تہذیب کے بارے میں ایک طرح کا ذہنی اور نفسیاتی لفنگا پن پیدا ہوا جس میں معنی تو کبھی بھی نہیں تھے البتہ ایک ایسی تحقیر ضرور تھی جو انسان اور حقیقت کے درمیان پردہ بن جاتی ہے۔ لیکن اقبال سے زیادہ کون جانتا تھا کہ جو تہذیب مسلمانوں کے دورِ حکومت اور سیاسی غلبے کے عہد میں اکبر سے ’’دینِ الٰہی‘‘ ایجاد کرا سکتی تھی اس صورت میں کیا نہیں کرا سکتی تھی جب کہ اسے بلا شرکت غیرے پورے برصغیر پر سیاسی تسلط حاصل ہوجاتا۔ انگریزوں کی ممکنہ رخصتی سے یہ خطرہ مزید نمایاں ہورہا تھا۔ پاکستان کے قیام کا حقیقی سیاق و سباق یہی ہے۔ اقبال کی شاعری اس سیاق و سباق کی بے مثال تفصیل فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے بحیثیتِ مجموعی اقبال کے ان تصورات سے انحراف نہیں، ’’غداری‘‘ کی ہے۔ لیکن اس مسئلے کا بنیادی اور مرکزی تجزیہ کیا ہے؟
پاکستان اسلام اور اسلامی تہذیب کی بقا اور فروغ کے لیے وجود میں آیا تھا، اور ہماری انفرادی اور اجتماعی نشوونما کو ’’ایک اصول‘‘ کے تابع ہونا تھا۔
اسلام کی تو بات ہی اور ہے، جدید مغربی تہذیب کے فلسفی، مفکرین اور ماہرینِ نفسیات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فرد اور قوم کی صحت مند نشوونما کے لیے شخصیت کو ایک اصول کے تابع ہونا چاہیے، اس پر انسان کے اندر عمل کے ایک سے زائد متوازی محرکات یا مراکز ہوں گے تو ان سے بڑے بڑے نفسیاتی، ذہنی اور جذباتی امراض پیدا ہوں گے۔ مثلاً Schizophrenia جس میں شخصیت دو نیم ہو جاتی ہے۔ یعنی دو ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے اور ان دو ٹکڑوں میں کوئی باہمی ربط نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ایک ٹکڑے کا اصولِ نمو کچھ اور ہے اور دوسرے کا کچھ اور۔ ہمارے حکمرانوں نے افراد کو نہیں پوری قوم کو شقاق دماغی کے مرض یعنی Schizophrenia میں مبتلا کر دیا۔ آپ نے کہیں سنا ہے کہ مرض بھی پالیسی بن گیا؟ لیکن پاکستان میں شیزوفرینیا کو شعوری طور پر پاکستان کی پالیسی بنا دیا گیا۔
اس کا لبِ لباب یہ ہے قول میں اسلام، عمل میں مغرب۔آدھی زندگی ایک اصول کے تحت، مزید آدھی زندگی دوسرے اصول کے تحت۔ اس پالیسی نے ہماری خارجہ اور داخلہ حکمت عملی ہی کو نہیں ہماری سیاست، معاشرت، اخلاق، کردار، ثقافت غرضیکہ ہر چیز کو تباہ و برباد کردیا۔ بظاہر یہ ’’ماڈل‘‘ ذہانت کی دلیل سمجھا جاتا ہے، اس لیے کہ اس میں ’’رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی‘‘ کا اہتمام ہے۔ لیکن دینی کیا، دنیاوی معنوں میں بھی یہ پالیسی حماقت کی انتہا ہے اس لیے کہ یہ پالیسی جہاں ہوگی ذہنی مرض پیدا کرے گی، نفسیاتی عارضے کو جنم دے گی، فتنہ و فساد کو ہوا دے گی، فرد اور قوم کی وحدت کو پارہ پارہ کرے گی اور رفتہ رفتہ پوری قوم کو ہر اعتبار سے بنجرکردے گی۔ ہماری تاریخ کی نصف صدی اب اس امر پر گواہ ہے۔ بعض لوگوں کو اگر لفظ Schizophrenia سے کوئی ذہنی صدمہ پہنچا ہو تو ہم معذرت چاہتے ہیں، حالانکہ اس لفظ کے استعمال کا مقصد لوگوں کو کم صدمے سے دوچار کرنا ہے، اس لیے کہ ہماری فکریات میں اس صورتِ حال کی وضاحت کے لیے جو لفظ ہے وہ ’’نفاق‘‘ ہے، اس کے آگے Schizophrenia کی وحشت اور ذلت کچھ بھی نہیں۔ کمال ہے، اقبال کا ملک ہے، اقبال کی قوم ہے اور National Schizophrenia کا مسئلہ درپیش ہے! جس ملک کو پورے عالم اسلام کیا، پوری مسلم دنیا کے لیے ماڈل بننا تھا اسے حکمرانوں نے ایک بڑے نفسیاتی اسپتال میں تبدیل کردیا ہے۔ ایسا اسپتال جہاں کمانڈر ڈاکٹر بن بیٹھے ہیں۔ لیکن اس مسئلے کا کوئی حل بھی ہے؟ کیا یہ اقبال کی آواز نہیں ہے:

کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا