ڈاکٹر عبدالمغنی
افغانستان برطانوی سامراج کے وقت سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے، خاص کر برصغیر ہندوستان اور مرکزی و مغربی ایشیا کے لیے تو اس کی حیثیت کلیدی رہی ہے۔ جب ایشیا و افریقا پر یورپ خاص کر برطانیہ کا نوآبادیاتی سامراج مسلط ہوچکا تھا تو یہ افغانستان اور اس کے قرب و جوار کے غیور و جری مسلم قبائل تھے جو مشرق کی آزادی اور آبرو کا تحفظ اپنی سرحد پر کررہے تھے، اور ایک طرف سے برطانیہ اور دوسری طرف سے روس کی جابر شہنشاہیتیں مل کر بھی اس چھوٹے سے اور دنیوی و مادی لحاظ سے کمزور و مفلس علاقے پر قابو پانے سے عاجز آچکی تھیں۔ اس وقت افغانستان ہندوستان اور پورے ایشیا و افریقا کی تحریکاتِ آزادی کے لیے نہ صرف ایک مینارِ اُمید بلکہ مجاہدینِ آزادی کی سب سے بڑی پناہ گاہ تھا۔
سامراجی سازشیں
چنانچہ مغرب کے سامراجیوں کی سازشیں پورے مشرق کے ساتھ افغانستان میں بھی زوروں پر تھیں اور وہاں طرح طرح کے فتنے اٹھائے جارہے تھے، جن کا واحد نشانہ یہ تھا کہ سماج پر مذہب اسلام کی گرفت ڈھیلی کردی جائے، یا مطلقاً و عموماً لوگوں کو مذہب سے بیگانہ کردیا جائے۔ اس لیے کہ یورپ کے عیار مدبرین بہت غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ دراصل مذہب کی قوت ہے جو مشرق کی کمزور قوموں کو مغرب کی طاقتور قوموں کے مقابلے میں مدافعت و مزاحمت اور حریت کے لیے اُکساتی، سنبھالتی اور آگے بڑھاتی ہے۔ اقبال مغربی منصوبے کے اس راز کو پاگئے تھے۔ اقبال کے لفظوں میں یہ
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اقبال کے نزدیک یہ ایک ابلیسی سازش تھی۔ چنانچہ ضربِ کلیم کی ایک نظم ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ میں اس سازش کا پول اس فکر انگیز انداز میں کھولا گیا ہے:
لا کر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں
زنّاریوں کو دیر کہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
ایشیا و افریقا کے ممالک بشمول ہندوستان کی سیاسی آزادی سے پہلے مشرق کی یہ وہ صورت حال تھی جس میں اقبال کی پُرامید نگاہیں افغانستان اور اس کے قریبی علاقے پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ مغربی سامراج کو اس کی بے پناہ مادی قوت کے پیش نظر اگر شکست دی جاسکتی ہے تو ایک کوہستانی علاقے ہی میں اور ان جفاکش لوگوں کے ذریعے ہی، جن کی پرورش ایک آزاد فضا میں محنت و مشقت اور غیرت و خودداری کے ساتھ ہوئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے شاہیںٖ کو جو ایک مثالی جواں مرد کی علامت بنایا وہ افغانستان اور سرحد کے علاقے ہی کا ایک مشہور و معروف پرندہ ہے۔ اقبال کے خیال میں اگر ایمان کی جرأت ہو تو بڑی سے بڑی طاقت کے ساتھ ٹکر لی جاسکتی ہے اور اس مقابلے میں تائیدِ ایزدی بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ جرأتِ ایمانی دورِ غلامی کے برصغیر اور مرکزی و مغربی ایشیا میں اقبال کو صرف افغانستان اور سرحد کے آزاد خطے میں نظر آتی تھی۔ ارمغانِ حجاز میں ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ ایک نہایت ولولہ انگیز نظم ہے جس سے آج کے ایران و افغانستان دونوں کے تازہ ترین حالات پر ایک بصیرت افروز روشنی پڑتی ہے:
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشہ کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص
کرتا نہیں جو صحبتِ ساحل سے کنارا
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر اُمم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
اخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!
معرکہ روح و بدن
فلسطین ہو، ایران ہو یا افغانستان۔۔۔ ہر جگہ دنیا کو ’’معرکہ روح و بدن پیش‘‘ ہے۔ ایک طرف مادیت کا پورا سازو سامان اور اسلحہ و آلات ہیں، جبکہ دوسری طرف ایمان کی اخلاقی و روحانی طاقت اور مغربی تہذیب، خواہ وہ امریکی سرمایہ داری کی ہو یا اسرائیلی صہیونیت کی، یا کمیونزم کی، اپنے تمام درندوں کو ابھار لائی ہے اور توپ و تفنگ سے بم اور گیس تک ہلاکت کے سارے ذرائع و وسائل کمزور اور معصوم انسانوں کے خلاف بے دریغ استعمال کررہی ہے۔ تہذیبِ حاضر کی ابلیسی طاقتوں کو ’’یورپ کی مشینوں کا سہارا‘‘ ہے اور ان کے مقابلے میں اللہ کی تائید و نصرت صرف ’’پامردیِ مومن‘‘ پر مبنی ہے۔ حزب اللہ اور حزب الشیطان کے اس تاریخی معرکے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ’’تقدیر امم کیا ہے؟‘‘ خدا کی مشیت کیا چاہتی ہے؟ ایسے بظاہر نابرابری کے معرکے کا انجام کیا ہوگا؟ لیکن سارے سوالات اور شبہات اسی صورت میں اُٹھتے ہیں جب نظر محض مادی وسائل و ظاہری اسباب پر مرکوز ہو، برخلاف اس کے
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
یہ فقط خوش عقیدگی اور خوش فہمی کا معاملہ نہیں ہے، اور نہ ایسا ہے کہ کارِ دنیا میں اسباب و وسائل کی اہمیت نہیں ہے۔ جرأتِ ایمانی کے ساتھ فراستِ ایمانی کی بات بھی ہے۔ معمولی دنیوی تدبر اور مادی بصیرت اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتی کہ کسی بھی معرکے میں آخری فیصلہ ہتھیاروں سے نہیں، کرداروں سے ہوتا ہے۔ اور یہ انسان ہوتا ہے کہ معمولی سے معمولی وسائل سے بڑے سے بڑے کام لے لیتا ہے۔ اس لیے کسی فوج کی اخلاقی حالت ہی اسے اس دلیری اور پامردی پر آمادہ کرتی ہے جو ہر جنگ میں فتح کی کنجی ہے۔ لہٰذا مومن کی فراست کے لیے یہ اشارہ کافی ہے کہ حق و باطل اور کفر و ایمان کے معرکے میں آخری فتح ایمان اور حق کی ہوگی۔
’’جان لو کہ اللہ کی پارٹی ہی غالب آنے والی ہے۔ اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔ اللہ نے تم میں سے اُن لوگوں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے عملِ صالح کیا، یہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین کی خلافت اسی طرح عطا کرے گا جس طرح اُن سے پہلے کے لوگوں کو کرچکا ہے، اور ان کے لیے ان کے اس دین کو جو اس کا پسندیدہ ہے، غالب کردے گا، اور ان کی حالتِ خوف کو حالتِ امن سے بدل دے گا۔‘‘ (قرآن)
لہٰذا ہمیں اپنے بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئے ’’اخلاصِ عمل‘‘ کی طلب کرنی چاہیے۔ ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے، عقیدے کی کامیابی کے لیے کوشش بھی درکار ہے، لیکن ہر عمل اور ہر کوشش کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے ’’اخلاص‘‘ شرط ضروری ہے۔
اب دیکھنا چاہیے کہ فراستِ مومن کا ’’اشارا‘‘ عصر حاضر کے آئندہ حالات کی طرف بھی ہے۔ اس حقیقت کو مومن کی بصیرت ہی سمجھ سکتی ہے کہ آج کی دنیا کے تمام لادینی نظریات ناکام ہوچکے ہیں، جب کہ قدیم ادیان پہلے ہی ازکارِ رفتہ ہیں۔ پھر ان نظریات کی علَم بردار قومیں اخلاقی لحاظ سے بالکل کھوکھلی ہیں۔ عیاشی ان کے سماج کو گھن کی طرح چاٹ چکی ہے۔ بدکرداری نے ان کے قُوائے عمل کو مفلوج کردیا ہے۔ ان کی سیاست دھوکا بازی، ان کی معیشت بوالہوسی اور ان کی معاشرت گندگی ہے۔ لہٰذا زوال ان کا مقدر بن چکا ہے اور مستقبل ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے، اور اسلام ایک بار پھر پرانی جاہلیت و ظلمت کی طرح نئی جاہلیت و ظلمت کو بھی دور کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ آنے والا دور اس کا ہی ہے۔
فقر جنگاہ میں بے ساز و براق آتا ہے
ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلبِ سلیم
اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم
اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھا گئی روحِ فرنگی کو ہوائے زر و سیم
(فقر و ملوکیت۔ ضربِ کلیم)
فرنگی سے مراد مغرب ہے جس میں امریکہ، یورپ اور روس سب شامل ہیں، اور روح فرنگی ہر اُس جگہ ہے جہاں ’’زروسیم‘‘ کی پرستش ہوتی ہو۔ ’’فقر غیور‘‘ کا مطلب اقبال ہی سے سنیے:
لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیّور
(اسلام۔ ضرب کلیم)
پیغام انقلاب:
انہی خیالات کے تحت اقبالؔ نے ضربِ کلیم کے آخر میں ’’محراب گل افغاں کے افکار‘‘ شامل کیے اور ان کے ذریعے افغانیوں کو ایک پیغامِ انقلاب دیا۔
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کہستاں! اپنی خودی پہچان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ
اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
نصب العین:
یہ پیغام اندرونی انقلاب کا ہے تاکہ ان بے علم افغانوں کے درمیان سے جنہوں نے ’’بے علموں کی لاج رکھ لی‘‘ ہے جب کہ ’’عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان‘‘ جہالت اور افلاس نیز کاہلی دور ہو، وہ اپنی ہستی اور اس کے عظیم امکانات کو پہچانیں اور آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ایک انقلاب کا جھنڈا لے کر اٹھیں اور اپنی اندرونی قوتوں کو پوری طرح بروئے عمل لاکر حالات کا نقشہ بدل دیں۔ یہ ایک نظم کا خلاصہ ہے جو اوپر درج کی گئی، جبکہ دوسری نظم میں اس انقلاب کا نعرہ و نصب العین یوں دیا گیا ہے:
افغان باقی کہسار باقی
الحکم للہ! الملکُ للہ
اس پیغامِ انقلاب کے ساتھ ایک اور نظم میں افغانیوں کی انقلابی قوتوں کو ابھارا گیا ہے
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہو کاری
اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری
عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز
کہ نیستاں کے لیے بس ہے ایک چنگاری
خدا نے اس کو دیا ہے شکوہِ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری
نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہے سرمایۂ کلہ داری
(جاری ہے)
افغانستان برطانوی سامراج کے وقت سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے، خاص کر برصغیر ہندوستان اور مرکزی و مغربی ایشیا کے لیے تو اس کی حیثیت کلیدی رہی ہے۔ جب ایشیا و افریقا پر یورپ خاص کر برطانیہ کا نوآبادیاتی سامراج مسلط ہوچکا تھا تو یہ افغانستان اور اس کے قرب و جوار کے غیور و جری مسلم قبائل تھے جو مشرق کی آزادی اور آبرو کا تحفظ اپنی سرحد پر کررہے تھے، اور ایک طرف سے برطانیہ اور دوسری طرف سے روس کی جابر شہنشاہیتیں مل کر بھی اس چھوٹے سے اور دنیوی و مادی لحاظ سے کمزور و مفلس علاقے پر قابو پانے سے عاجز آچکی تھیں۔ اس وقت افغانستان ہندوستان اور پورے ایشیا و افریقا کی تحریکاتِ آزادی کے لیے نہ صرف ایک مینارِ اُمید بلکہ مجاہدینِ آزادی کی سب سے بڑی پناہ گاہ تھا۔
سامراجی سازشیں
چنانچہ مغرب کے سامراجیوں کی سازشیں پورے مشرق کے ساتھ افغانستان میں بھی زوروں پر تھیں اور وہاں طرح طرح کے فتنے اٹھائے جارہے تھے، جن کا واحد نشانہ یہ تھا کہ سماج پر مذہب اسلام کی گرفت ڈھیلی کردی جائے، یا مطلقاً و عموماً لوگوں کو مذہب سے بیگانہ کردیا جائے۔ اس لیے کہ یورپ کے عیار مدبرین بہت غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ دراصل مذہب کی قوت ہے جو مشرق کی کمزور قوموں کو مغرب کی طاقتور قوموں کے مقابلے میں مدافعت و مزاحمت اور حریت کے لیے اُکساتی، سنبھالتی اور آگے بڑھاتی ہے۔ اقبال مغربی منصوبے کے اس راز کو پاگئے تھے۔ اقبال کے لفظوں میں یہ
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
اقبال کے نزدیک یہ ایک ابلیسی سازش تھی۔ چنانچہ ضربِ کلیم کی ایک نظم ’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ میں اس سازش کا پول اس فکر انگیز انداز میں کھولا گیا ہے:
لا کر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں
زنّاریوں کو دیر کہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش جو موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہلِ حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو
ایشیا و افریقا کے ممالک بشمول ہندوستان کی سیاسی آزادی سے پہلے مشرق کی یہ وہ صورت حال تھی جس میں اقبال کی پُرامید نگاہیں افغانستان اور اس کے قریبی علاقے پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ مغربی سامراج کو اس کی بے پناہ مادی قوت کے پیش نظر اگر شکست دی جاسکتی ہے تو ایک کوہستانی علاقے ہی میں اور ان جفاکش لوگوں کے ذریعے ہی، جن کی پرورش ایک آزاد فضا میں محنت و مشقت اور غیرت و خودداری کے ساتھ ہوئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے شاہیںٖ کو جو ایک مثالی جواں مرد کی علامت بنایا وہ افغانستان اور سرحد کے علاقے ہی کا ایک مشہور و معروف پرندہ ہے۔ اقبال کے خیال میں اگر ایمان کی جرأت ہو تو بڑی سے بڑی طاقت کے ساتھ ٹکر لی جاسکتی ہے اور اس مقابلے میں تائیدِ ایزدی بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ یہ جرأتِ ایمانی دورِ غلامی کے برصغیر اور مرکزی و مغربی ایشیا میں اقبال کو صرف افغانستان اور سرحد کے آزاد خطے میں نظر آتی تھی۔ ارمغانِ حجاز میں ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ ایک نہایت ولولہ انگیز نظم ہے جس سے آج کے ایران و افغانستان دونوں کے تازہ ترین حالات پر ایک بصیرت افروز روشنی پڑتی ہے:
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشہ کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص
کرتا نہیں جو صحبتِ ساحل سے کنارا
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسہ
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر اُمم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
اخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!
معرکہ روح و بدن
فلسطین ہو، ایران ہو یا افغانستان۔۔۔ ہر جگہ دنیا کو ’’معرکہ روح و بدن پیش‘‘ ہے۔ ایک طرف مادیت کا پورا سازو سامان اور اسلحہ و آلات ہیں، جبکہ دوسری طرف ایمان کی اخلاقی و روحانی طاقت اور مغربی تہذیب، خواہ وہ امریکی سرمایہ داری کی ہو یا اسرائیلی صہیونیت کی، یا کمیونزم کی، اپنے تمام درندوں کو ابھار لائی ہے اور توپ و تفنگ سے بم اور گیس تک ہلاکت کے سارے ذرائع و وسائل کمزور اور معصوم انسانوں کے خلاف بے دریغ استعمال کررہی ہے۔ تہذیبِ حاضر کی ابلیسی طاقتوں کو ’’یورپ کی مشینوں کا سہارا‘‘ ہے اور ان کے مقابلے میں اللہ کی تائید و نصرت صرف ’’پامردیِ مومن‘‘ پر مبنی ہے۔ حزب اللہ اور حزب الشیطان کے اس تاریخی معرکے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ’’تقدیر امم کیا ہے؟‘‘ خدا کی مشیت کیا چاہتی ہے؟ ایسے بظاہر نابرابری کے معرکے کا انجام کیا ہوگا؟ لیکن سارے سوالات اور شبہات اسی صورت میں اُٹھتے ہیں جب نظر محض مادی وسائل و ظاہری اسباب پر مرکوز ہو، برخلاف اس کے
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
یہ فقط خوش عقیدگی اور خوش فہمی کا معاملہ نہیں ہے، اور نہ ایسا ہے کہ کارِ دنیا میں اسباب و وسائل کی اہمیت نہیں ہے۔ جرأتِ ایمانی کے ساتھ فراستِ ایمانی کی بات بھی ہے۔ معمولی دنیوی تدبر اور مادی بصیرت اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتی کہ کسی بھی معرکے میں آخری فیصلہ ہتھیاروں سے نہیں، کرداروں سے ہوتا ہے۔ اور یہ انسان ہوتا ہے کہ معمولی سے معمولی وسائل سے بڑے سے بڑے کام لے لیتا ہے۔ اس لیے کسی فوج کی اخلاقی حالت ہی اسے اس دلیری اور پامردی پر آمادہ کرتی ہے جو ہر جنگ میں فتح کی کنجی ہے۔ لہٰذا مومن کی فراست کے لیے یہ اشارہ کافی ہے کہ حق و باطل اور کفر و ایمان کے معرکے میں آخری فتح ایمان اور حق کی ہوگی۔
’’جان لو کہ اللہ کی پارٹی ہی غالب آنے والی ہے۔ اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔ اللہ نے تم میں سے اُن لوگوں سے جو ایمان لائے اور جنہوں نے عملِ صالح کیا، یہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین کی خلافت اسی طرح عطا کرے گا جس طرح اُن سے پہلے کے لوگوں کو کرچکا ہے، اور ان کے لیے ان کے اس دین کو جو اس کا پسندیدہ ہے، غالب کردے گا، اور ان کی حالتِ خوف کو حالتِ امن سے بدل دے گا۔‘‘ (قرآن)
لہٰذا ہمیں اپنے بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئے ’’اخلاصِ عمل‘‘ کی طلب کرنی چاہیے۔ ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے، عقیدے کی کامیابی کے لیے کوشش بھی درکار ہے، لیکن ہر عمل اور ہر کوشش کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے ’’اخلاص‘‘ شرط ضروری ہے۔
اب دیکھنا چاہیے کہ فراستِ مومن کا ’’اشارا‘‘ عصر حاضر کے آئندہ حالات کی طرف بھی ہے۔ اس حقیقت کو مومن کی بصیرت ہی سمجھ سکتی ہے کہ آج کی دنیا کے تمام لادینی نظریات ناکام ہوچکے ہیں، جب کہ قدیم ادیان پہلے ہی ازکارِ رفتہ ہیں۔ پھر ان نظریات کی علَم بردار قومیں اخلاقی لحاظ سے بالکل کھوکھلی ہیں۔ عیاشی ان کے سماج کو گھن کی طرح چاٹ چکی ہے۔ بدکرداری نے ان کے قُوائے عمل کو مفلوج کردیا ہے۔ ان کی سیاست دھوکا بازی، ان کی معیشت بوالہوسی اور ان کی معاشرت گندگی ہے۔ لہٰذا زوال ان کا مقدر بن چکا ہے اور مستقبل ان کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے، اور اسلام ایک بار پھر پرانی جاہلیت و ظلمت کی طرح نئی جاہلیت و ظلمت کو بھی دور کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔ آنے والا دور اس کا ہی ہے۔
فقر جنگاہ میں بے ساز و براق آتا ہے
ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلبِ سلیم
اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصۂ فرعون و کلیم
اب ترا دور بھی آنے کو ہے اے فقرِ غیور
کھا گئی روحِ فرنگی کو ہوائے زر و سیم
(فقر و ملوکیت۔ ضربِ کلیم)
فرنگی سے مراد مغرب ہے جس میں امریکہ، یورپ اور روس سب شامل ہیں، اور روح فرنگی ہر اُس جگہ ہے جہاں ’’زروسیم‘‘ کی پرستش ہوتی ہو۔ ’’فقر غیور‘‘ کا مطلب اقبال ہی سے سنیے:
لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیّور
(اسلام۔ ضرب کلیم)
پیغام انقلاب:
انہی خیالات کے تحت اقبالؔ نے ضربِ کلیم کے آخر میں ’’محراب گل افغاں کے افکار‘‘ شامل کیے اور ان کے ذریعے افغانیوں کو ایک پیغامِ انقلاب دیا۔
رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کہستاں! اپنی خودی پہچان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز
جس نے اپنا کھیت نہ سینچا وہ کیسا دہقان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ
اس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
تیری بے علمی نے رکھ لی بے علموں کی لاج
عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان
نصب العین:
یہ پیغام اندرونی انقلاب کا ہے تاکہ ان بے علم افغانوں کے درمیان سے جنہوں نے ’’بے علموں کی لاج رکھ لی‘‘ ہے جب کہ ’’عالم فاضل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان‘‘ جہالت اور افلاس نیز کاہلی دور ہو، وہ اپنی ہستی اور اس کے عظیم امکانات کو پہچانیں اور آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ایک انقلاب کا جھنڈا لے کر اٹھیں اور اپنی اندرونی قوتوں کو پوری طرح بروئے عمل لاکر حالات کا نقشہ بدل دیں۔ یہ ایک نظم کا خلاصہ ہے جو اوپر درج کی گئی، جبکہ دوسری نظم میں اس انقلاب کا نعرہ و نصب العین یوں دیا گیا ہے:
افغان باقی کہسار باقی
الحکم للہ! الملکُ للہ
اس پیغامِ انقلاب کے ساتھ ایک اور نظم میں افغانیوں کی انقلابی قوتوں کو ابھارا گیا ہے
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ ضرب ہو کاری
اگر ہو جنگ تو شیران غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صلح تو رعنا غزالِ تاتاری
عجب نہیں ہے اگر اس کا سوز ہے ہمہ سوز
کہ نیستاں کے لیے بس ہے ایک چنگاری
خدا نے اس کو دیا ہے شکوہِ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری
نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہے سرمایۂ کلہ داری
(جاری ہے)