ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
علامہ اقبال ۱۹۳۳ء میں نادر شاہ کی دعوت پر افغانستان گئے۔ اس سفر میں سیّد راس مسعود اور سیّد سلیمان ندوی بھی ان کے ہم رکاب تھے۔ موٹر کار کے ذریعے پشاور،جلال آباد کے راستے کابل پہنچے تھے مگر واپسی پر غزنی، قندھار اور چمن کوئٹہ کا راستہ اختیار کیا۔ پورے سفر کی رُوداد ”سیرِافغانستان“ کے نام سے سیّد سلیمان ندوی نے قلم بند کی تھی۔
چمن سے کوئٹہ آتے ہوئے علامہ سے ان کی جو گفتگو ہوئی، اس کے ذکر میں سیّد صاحب لکھتے ہیں: ’’ڈاکٹر صاحب نے اپنے آغازِ زندگی اور طالب علمانہ عہد کا ذکر چھیڑا، پھر اپنے والد مرحوم کا تذکرہ کیا کہ وہ خود ایک صاحبِ دل صوفی تھے اور دین دار علما کی صحبت میں رہتے تھے۔ اس ضمن میں یہ معلوم ہوا کہ ہمارے جلیل القدر اسلامی شاعر کے حسّیاتِ خفتہ کے تاروں میں جس مضراب نے حرکت پیدا کی، وہ خود ان کے والد ماجد کی ذاتِ بابرکات تھی۔
’’اثنائے گفتگو میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے طالب علمی کے عہد کے ایک قصے میں اپنے والد مرحوم کا ایک ایسا فقرہ سنایا جس نے میرے دل پر بے حد اثر کیا۔ فرمایا کہ اپنے وطن سیالکوٹ میں صبح کی نماز کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتا تھا۔ [خیال رہے کہ مسلم گھرانوں میں، صدیوں سے علی الصبح تلاوتِ قرآن کی روایت چلی آرہی ہے۔ علامہ کے زمانے تک یہ روایت باقی تھی، اور اب بھی بعض گھرانوں میں موجود ہے، چنانچہ اپنے لڑکپن میں، اقبال نماز فجر کے بعد معمولاً تلاوت کیا کرتے تھے]۔ ایک صبح کو نماز کے بعد حسب دستورِ مَیں تلاوت میں مصروف تھا کہ والدِ مرحوم ادھر آئے اور دریافت کیا کہ کیا کرتے ہو؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ مَیں اس وقت تلاوت کرتا ہوں۔ فرمایا: ’’جب تک تم یہ نہ سمجھو کہ قرآن تمھارے قلب پر بھی اسی طرح اترا ہے جیسے محمد ؐ کے قلبِ اقدس پر نازل ہوا تھا، تلاوت کا مزا نہیں‘‘۔ یعنی اپنے اندر احساس پیدا کرو کہ گویا قرآن تم پر نازل ہو اہے۔ علامہ اقبال نے بہت بعد میں اپنے شعر میں اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے:
ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف
(بالِ جبریل، ص ۷۸)
اقبال نے والد کی یہ نصیحت پلے باندھ لی اور قرآن حکیم کے ساتھ ایسی وابستگی پیدا کرلی کہ بقول سیّد مودودیؒ : ’’دنیا نے دیکھا کہ [وہ] قرآن حکیم میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا‘‘۔ اقبال کی انقلاب انگیز شاعری اور ان کے افکار وتصورات اس پر گواہی دے رہے ہیں۔
اقبال اوائلِ عمر ہی سے تلاوتِ قرآن پاک کے عادی تھے۔ تلاوت بہت خوش الحانی سے کرتے۔ کبھی کبھی وہ رات کو اپنے دوست مرزا جلال الدین کے ہاں ہی ٹھیر جاتے۔ مرزا صاحب، ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب جب رات میرے پاس گزارتے تھے تو صبح اُٹھ کر نماز پڑھتے اور اس کے بعد بڑی خوش الحانی سے دیر تک قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے۔ ان کی تلاوت سن کر بڑا لطف آتا تھا اور ایک کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ پھر چائے پی کر وہ اپنے دفتر یا گھر چلے جایا کرتے تھے۔
اقبال کا خادمِ خاص، علی بخش تقریباً ۳۵ برس تک اقبال کے شب وروز اور سفر وحضر کا رفیق رہا۔ اس کی روایت ہے کہ صبح کی نماز اور قرآن خوانی مدت سے ان کا معمول تھا۔ قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے۔ آواز ایسی شیریں تھی کہ ان کی زبان سے قرآن سن کر پتھروں کے دل پانی ہوجاتے تھے۔ بیماری کے زمانے میں قرآن پڑھنا چھوٹ گیا اور عمر بھر کا معمول باقی نہ رہا۔ اس بات کا انھیں شدید قلق تھا:
در نفس سوزِ جگر باقی نماند
لطفِ قرآنِ سحر باقی نماند
(پس چہ باید کرد،ص۵۰)
جب خود تلاوت نہ کرسکتے تو کوشش ہوتی تھی کہ کسی اچھے قاری کی تلاوت سنیں۔ ڈورس احمد بتاتی ہیں: ایک روز ایک عرب، علامہ سے ملنے آیا۔ اس موقعے پر ڈاکٹر صاحب نے مجھے کہا کہ بچوں کو میرے پاس لے آئیے۔ عرب مہمان ابھی قرآنِ پاک کی تلاوت کریں گے۔ اگر آپ بھی تلاوت سننا پسند کریں تو سامعین میں شامل ہوسکتی ہیں۔ ڈورس احمد کہتی ہیں: عرب مہمان نہایت خوش الحان تھے۔ جب تک وہ آیاتِ مقدسہ کی تلاوت کرتے رہے، ڈاکٹر صاحب برابر روتے رہے۔ اگرچہ میں آیات کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھی، لیکن قاری صاحب کے حسنِ قرات نے جو سماں باندھ دیا، میں اس سے بہت متاثر ہوئی۔ بچے مسحور تھے اور ڈاکٹر صاحب تو وجد میں تھے۔
اقبال کو ’ترجمان القرآن‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ علی بخش کا بیان ہے کہ جب شعر کہنے ہوتے تو بیاض اور قلم دان کے ساتھ، قرآن حکیم بھی منگاتے۔ اس طرح عمر بھر وہ قرآن کی تعلیمات و افکار کو اپنی شاعری میں سمو کر پیش کرنے کی سعی کرتے رہے۔ ان کی یہ کاوش ارادی اور شعوری تھی۔ ”رموز بے خودی“ کے آخر میں تو بہت کھل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عرض کیا کہ اگر میرے اشعار میں قرآن حکیم (کے مطالب) کے علاوہ یا خلافِ قرآن کوئی بات ہے تو آپ دنیا کو میرے کانٹے سے پاک کردیجیے اور قیامت کے دن مجھے بوسۂ پا سے محروم کرکے، خوار و رُسوا کیجیے۔ پھر کہا: حقیقتِ حال تو یہ ہے کہ میں نے اپنی شاعری میں قرآن پاک کے موتی پروئے ہیں۔
اقبال کا یہ دعویٰ (کہ میں نے سراسر قرآنِ حکیم کی ترجمانی کی ہے) قرآن حکیم پر پورے شعور کے ساتھ ان کے ایک گہرے ایمان وایقان کا نتیجہ تھا۔ ایک بار ایف سی کالج لاہور کے پرنسپل لوکس نے ان سے پوچھا: تمھارے پیغمبر ؐپر قرآن کا مفہوم نازل ہوا تھا اور انھوں نے اسے عربی میں منتقل کرلیا یا یہ قرآن پاک کی موجودہ عبارت ہی ہوبہو اُتری تھی؟ علامہ نے کہا: یہ اسی طرح اتری تھی۔ پرنسپل لوکس کو کچھ تعجب ہوا کہ یہ ایم اے، پی ایچ ڈی، بیرسٹر ایٹ لا، یورپ کا تعلیم یافتہ فلسفی بھی دقیانوسی باتوں پر یقین رکھتا ہے۔ اقبال نے کہا: میرا تجربہ ہے کہ مجھ پر پورا شعر اترتا ہے، تو پیغمبر پر یہ پوری عبارت کیوں نہ اُتری ہو گی!
”رُموز بے خودی“ کے ایک باب کا عنوان ہے:’’آئینِ ملتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن است‘‘۔ اس میں پہلے وہ افرادِ اُمت سے سوال کرتے ہیں: کیا تم جانتے ہو کہ تمھارا آئین کیا ہے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں:قرآن حکیم۔ فرماتے ہیں:
آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ او لایزال است و قدیم
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
نوعِ انساں را پیامِ آخریں
حاملِ او رحمتہً للعالمیں
(رموز بے خودی ،ص ۱۲۳)
[یہ قرآن حکیم ہے جو ایک زندہ کتاب ہے، جس کی حکمت قدیم بھی ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔ یہ تخلیق حیات کے اسرار ظاہر کرنے والا نسخہ ہے۔ اس کی قوت اور بل بوتے پر کمزور، ثبات و قوت اور پائیداری حاصل کرتے ہیں۔ یہ بنی نوع انسان کے لیے آخری پیغام ہے، جسے رحمتہ للعالمین لائے ہیں۔ قرآن پاک کی برکت سے ایک بے وقعت شخص بھی قدرو منزلت حاصل کرلیتا ہے]۔
اس کے بعد دورِ حاضر کے مسلمان اور بحیثیت مجموعی امتِ مسلمہ سے کہتے ہیں کہ اگر تم پستی و زبوں حالی کی دلدل سے نکلنا چاہتے ہو اور سربلندی و عروج کے راستے پر گامزن ہونا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی راستہ ہے:
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن
(ایضاً)
[اگر مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتے ہو تو قرآن حکیم پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔]
”جاوید نامہ“ میں کہتے ہیں کہ اگر دل کی بات پوچھتے ہو تو قرآن حکیم عام کتابوں کی طرح فقط ایک کتاب نہیں، کچھ اور ہی چیز ہے:
ایں کتابے نیست، چیزے دیگر است
(جاوید نامہ،ص ۸۱)
جب اس کا اثر جان کے اندر داخل ہوتا ہے تو وہ جان بدل جاتی ہے (اس میں انقلاب آجاتا ہے) اور جان بدل جائے تو جہان بد ل جاتا ہے۔
”جاوید نا مہ“ میں وہ ’پیغامِ افغانی با ملّتِ روسیہ‘ کے زیرعنوان قرآنِ حکیم کے ذکر سے بات کا آغاز کرتے ہیں:
منزلِ مقصودِ قرآں دیگر است
رسم و آئین مسلماں دیگر است
(ایضاً،ص ۷۸)
[قرآن پاک کی منزل اور اس کا مقصود اور ہے مگر (آج کل کے) مسلمان کے طور طریقے اور اُصولِ (حیات) مختلف ہیں]۔ پھر فرماتے ہیں: یہ مسلمان قرآن سے فائدہ نہیں اٹھاتا، حالاں کہ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن نے فقر کا جو تصور دیا ہے، وہ فقر ہی اصل شہنشاہی ہے۔ قرآن پاک ظالم آقائوں کے لیے تو موت کا پیغام ہے اور بے سر و ساماں انسانوں کا دستگیر اور بہت بڑا سہارا۔ اس انقلابی کتاب میں مشرق و مغرب کی تقدیریں پنہاں ہیں، لہٰذا اے مسلمان! نورِ قرآن پر غور کرو، زندگی کے نشیب و فراز سے اور تقدیر حیات سے آگاہی، قرآن حکیم سے وابستگی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مسلمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: تم اور طرح کی شرع اور (غیرقرآنی) قوانین اپنا کر کسی اور راستے پر چل پڑے ہو۔ ذرا رُک کر قرآن پاک پر غور کرو۔ پھر علامہ، اُمت مسلمہ کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر تم نے غفلت برتی اور قرآن پاک کو چھوڑ دیا اور اس سے منہ موڑ لیا تو اللہ پاک قرآن پاک کو کسی اور قوم کے سپرد کردیں گے:
حق اگر از پیش ما برداردش
پیشِ قومے دیگرے بگزاردش
(ایضاً،ص ۸۲)
یہ قرآن حکیم کی اس آیت کی ترجمانی ہے :وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِ لْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۰ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْٓا اَمْثَالَكُمْ۳۸ۧ ( محمد ۴۷:۳۸) ’’اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گااور وہ تم جیسے نہ ہوں گے‘‘۔
”جاوید نا مہ“ کے آخری حصے (خطاب بہ جاوید ) کے تحت کہتے ہیں :
سینۂ ہا از گرمیِ قرآں نہی
از چنیں مرداں چہ اُمید بہی
(ایضاً،ص ۲۰۰)
مسلمانوں کے سینے قرآن حکیم کی حرارت سے خالی ہیں تو قرآن سے غافل لوگوں سے اصلاحِ احوال کی کیا اُمید ہو سکتی ہے:
صاحبِ قرآن و بے ذوقِ طلب
العجب، ثم العجب، ثم العجب
(ایضاً،ص ۲۰۱)
تعجب تو یہ ہے اور انتہا درجے کا تعجب ہے کہ قرآن جیسی نعمت میسر ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانے کا خیال ہی نہیں ہے۔ وہی بات کہ جزدان میں لپیٹ کر طاق میں رکھ دیا ہے (ماہرالقادری کی نظم ’قرآن کی فریاد‘ میں اس مفہوم کی بہت عمدہ ترجمانی ملتی ہے۔)
اس غفلت کا ایک سبب مسلمانوں کی فرنگیت زدگی ہے:
ہم مسلمانانِ افرنگی مآب
چشمۂ کوثر بجوئندہ از سراب
(ایضاً،ص ۲۰۶)
یعنی افرنگ زدہ (تہذیب مغرب سے مرعوب) مسلمان، سراب میں سے چشمۂ کوثر ڈھونڈتے ہیں۔ علامہ ایک اور جگہ اظہارِ افسوس کرتے ہیں کہ:
افرنگ زخود بے خبرت کرد وگرنہ
اے بندۂ مومن تو بشیری، تو نذیری
(ضرب کلیم، ص ۱۷۵)
[اے مسلمان! تہذیبِ مغرب نے تمھیں اتنا مدہوش کردیا ہے کہ تمھیں اپنی (اصلیت کی) خبر ہی نہیں، ورنہ دنیا میں تو ہی بشیر ہے اور نذیر بھی۔]
جاوید اقبال سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ: عوام الناس سے کیا شکوہ، خود علما، قرآنِ حکیم کے علم سے لاپروا ہیں (یعنی قرآن حکیم پر خاطر خواہ غور نہیں کرتے، اور تدبّر و تفکّر کرکے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس لیے ان کے وعظ، بے تاثیر وبے نتیجہ ہیں)۔
خیال رہے کہ علامہ اقبال نے اپنی اردو اور فارسی شاعری میں قرآن حکیم کا ذکر بار بار اور مختلف اسالیب وانداز میں کیا ہے۔ پھر ان کے نمایاں افکار و تصورات، یعنی فلسفۂ خودی، تصورِ بے خودی، عقل وعشق، مردِ کامل، فقر، تصوف وغیرہ، اصلاً قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر ہی تشکیل پذیر ہوئے ہیں۔ شعرِ اقبال کے سیکڑوں مضامین براہِ راست قرآن حکیم سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اُردو کلام میں ایک جگہ کہتے ہیں:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
(ایضاً،ص ۱۳۶)
قرآن حکیم سے علامہ اقبال کی وابستگی اور رجوع الی القرآن کی تلقین خالی خولی شاعرانہ بات نہ تھی۔ اقبال حتی الوسع خود بھی قرآن حکیم کو راہ نمائے حیات بنانے کی سعی و کاوش کرتے رہے، مثلاً حیاتِ اقبال کی تقریباً ساری کتابوں میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ علامہ کی بہن کریم بی بی، ایک عرصے سے خوش دامن کے نامناسب رویّے کی بنا پر، میکے میں آکر رہ رہی تھیں۔ خوش دامن فوت ہوگئیں تو ان کا خاوند (اقبال کا بہنوئی) انھیں لینے آیا، اقبال کے والدین تو رضامند ہوگئے مگر اقبال، مصالحت پر راضی نہ تھے۔ والدین نے بہت سمجھایا مگر وہ کسی طرح نہ مانے۔ اصرار کرنے لگے کہ بہنوئی اور ان کے ساتھ آنے والوں کو واپس کردیا جائے۔ اب شیخ نور محمد نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں اقبال سے کہا: بیٹے، اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے: وَالصُّلْحُ خَیْر۔ یہ سننا تھا کہ اقبال خاموش ہوگئے، چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا، جیسے کسی نے سلگتی آگ پر برف کی سل رکھ دی ہو۔ کچھ توقف کے بعد والد نے پوچھا: اب کیا کیا جائے؟ اقبال نے کہا: وہی جو قرآن کہتا ہے، چنانچہ مصالحت ہوگئی اور بہن کو رخصت کردیا۔
قرآن حکیم سے اقبال کی وابستگی تادم آخر برقرار رہی۔ تلاوت تو ان کا عمر بھر کا معمول رہا۔ کبھی کبھی تلاوت کرتے وقت ان پر رقت طاری ہوجاتی اور بے اختیار رونے لگتے۔ نوجوانوں کو علی الصبح تلاوت کی تلقین کیا کرتے، مثلاً ایک بار فرمایا: ’’مسلمانوں کے لیے جائے پناہ صرف قرآنِ کریم ہے۔ میں اس گھر کو صد ہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوں جس گھر سے علی الصبح تلاوتِ قرآنِ مجید کی آواز آئے‘‘۔ تلاوت کے ساتھ ساتھ وہ قرآن حکیم کے معانی و مفاہیم پر بھی برابر فکر و تدبر کرتے رہے۔ خواجہ حسن نظامی کے نام ایک خط میں اعتراف کرتے ہیں کہ میرا ابتدائی میلان تصوف کی طرف تھا اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور بھی قوی ہوگیا کہ یورپ کا فلسفہ بحیثیتِ مجموعی وحدت الوجود کی طرف رُخ کرتا ہے، مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے مجھے اپنی غلطی معلوم ہوئی اور میں نے محض قرآن کی خاطر اپنے قدیم خیال کو ترک کردیا۔ قرآنِ پاک کی تفہیم و تعبیر پر کچھ لکھنا بھی چاہتے تھے، مگر خرابیِ صحت نے انھیں اس کا موقع نہیں دیا۔
قرآن سے ان کے دیرینہ تعلق کو مولانا مودودی ؒ نے ایک جگہ بڑے مؤثر الفاظ میں، اس طرح بیان کیا ہے: ’’وہ جو کچھ سوچتا تھا، قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا، قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھی، اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ اس کے دور کے علمائے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امام فلسفہ اور اس ایم اے، پی ایچ ڈی، بارایٹ لا سے لگّا کھاتا ہو۔ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کردیا تھا اور سوائے قرآن کے، اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصلِ علم قرآن ہے۔ اور یہ جس کے ہاتھ آجائے، وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے‘‘۔