یہ ’عاصیہ‘ کون ہے؟

آجکل توہینِ رسالت کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کا چرچا ہر طرف ہے۔ لیکن ملعونہ کا نام کیا ہے، آسیہ یا عاصیہ؟ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے میں تو اس کی تشریح ’’گناہ گار سے زیادہ گناہ گار‘‘ یعنی عاصی کی مونث قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس صاحب شیکسپیئر کو بھی گھسیٹ لائے ہیں۔ ہمارے معزز جج حضرات چونکہ قانون کی کتابیں انگریزی میں پڑھتے ہیں اس لیے ان کو ’آسیہ‘ اور ’عاصیہ‘ کا فرق معلوم نہیں ہوگا۔ لیکن حیرت تو وہ معاہدہ دیکھ کر ہوئی جو تحریک لبیک اور وفاقی حکومتِ پاکستان و صوبائی حکومتِ پنجاب کے مابین 2 نومبر کو ہوا جس کو ’’معاہدہ برائے اختتام احتجاج و دھرنا‘‘ کا عنوان دیا گیا اور وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اسے آگ بجھانے کا عمل (فائر فائٹنگ) قرار دیا۔ اس معاہدے پر وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری اور تحریک لبیک کی طرف سے پیر افضل قادری اور تحریک کے مرکزی ناظم اعلیٰ محمد وحید نور کے دستخط ہیں۔ صوبائی وزیر قانون پنجاب راجا بشارت بھی جلوہ گر ہیں مگر وہ محض شاملِ باجا ہیں۔ اس معاہدے کے پانچ نکات میں سے چار نکات میں عاصیہ مسیح ہی لکھا گیا ہے۔ تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والوں کی علمیت کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وفاقی وزیر مذہبی امور تو پڑھا لکھا ہوگا۔ وزیر مذہبی امور کی حیثیت سے انہیں عربی پر بھی عبور ہوگا، تو کیا انہیں بھی آسیہ اور عاصیہ کا فرق نظر نہیں آیا؟ مجاہد بک اسٹال کے راشد رحمانی نے توجہ دلاتے ہوئے خیال ظاہر کیا ہے کہ معاہدہ اتنی عجلت میں کیا گیا کہ لگتا ہے دونوں جانب سے کسی نے پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ لیکن یہ جہالت تو اخبارات میں شائع ہو کر سند بن گئی۔ ایف آئی آر میں اگر مجرم کا نام ہی غلط ہو تو اس سے مقدمہ متاثر ہوتا ہے۔ اب یہ ماہرینِ قانون بتائیں کہ معاہدہ عاصیہ مسیح کے بارے میں کیا گیا ہے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ صاحبزادہ ڈاکٹر نورالحق قادری کو معلوم تو ہونا چاہیے کہ آسیہ فرعون کی وہ بی بی تھیں جو حضرت موسیٰؑ پر ایمان لے آئی تھیں اور فرعون کے غضب کا شکار ہوئیں۔ یہ عربی کا لفظ ہے اور فارسی میں ’’آسیا‘‘ ہے جس کا مطلب ہے ’’چکی‘‘۔ ’آسیائے آب‘ پن چکی کو کہتے ہیں اور ’آسیائے باد‘ پون چکی کو۔ پون کو بعض لوگ تین پائو والا پون پڑھ لیتے ہیں جب کہ یہ بروزن چمن ہے، ’پ‘ اور ’و‘ دونوں بالفتح، اور مطلب ہے ’ہوا‘۔ جیسے یہ مصرع ہے:

پتا ٹوٹا ڈال سے لے گئی پون اڑائے
چکی کے معنوں میں یہ شعر دیکھیے:
گردشِ ایام سے جاتی رہی حرص و ہوا
آسیائے آسماں سنگ قناعت ہو گئی

آسیہ کا نام تو 2009ء سے ذرائع ابلاغ میں آرہا تھا، پھر یہ ’عاصیہ‘ کیسے ہوگئی، جو عاصی یا گناہ گار کی مونث ہوسکتی ہے۔ عربی میں کہتے ہیں ’’العصا لمن عصا‘‘۔ یعنی عاصی کے لیے عصا۔
بعض الفاظ غلط ہونے کے باوجود اس کثرت سے استعمال ہورہے ہیں کہ عجب نہیں انہیں جلد ہی فصیح قرار دے دیا جائے۔ منگل 6 نومبر کو ایک ٹی وی چینل پر مسلسل پٹی چل رہی تھی کہ ’’رفاعی اراضی پر قبضے‘‘۔ جانے کیوں ’رفاہی‘ کے لفظ سے چڑ ہے۔
’اداکارہ‘ اور ’گلوکارہ‘ قواعد کے اعتبار سے کتنے ہی غلط ہوں کہ ’کار‘ کی مونث ’کارہ‘ نہیں، لیکن اب یہ غلط العام ہوکر فصیح ہوگئے ہیں۔ اردو کے استاد ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے اپنے ایک تحقیقی مضمون میں لکھا ہے کہ ’اداکار‘ کا لفظ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کے اواسط سے پہلے موجود نہیں تھا۔ اس کے وضع کردہ اور رائج کرنے والے کا نام ہنوز تحقیق طلب ہے۔ زیادہ امکان آغا حشر کاشمیری کا ہے۔ آغا حشر کاشمیری نے کئی ڈرامے لکھے اور اسٹیج بھی کیے۔ بیشتر ڈرامے انگریزی ڈراموں کی نقل تھے لیکن سنیما کے عروج سے پہلے برعظیم پاک و ہند میں اسٹیج ڈراموں کی دھوم تھی اور ڈراما کمپنیوں پر پارسی چھائے ہوئے تھے۔ اداکارہ اور گلوکارہ وغیرہ اردو کا تصرف ہے اور بالکل جائز ہے۔ رئوف پاریکھ نے ایک مثال ’ستم گارہ‘ کی دی ہے یعنی ستم کرنے والی۔ ستم گار کی تانیث۔ لیکن اردو نے اس کو نہیں اپنایا اور زبان پر یہ ستم نہیں ہونے دیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فارسی الفاظ کی اس طرح عربی کے قاعدے سے تانیث بنا لینا غلط ہے۔ رئوف پاریکھ نے لکھا ہے کہ اردو لغت بورڈ نے ’ستم گارہ‘ درج کیا ہے اور ایک سند ’’خاور نامہ‘‘ (1649) کی دی ہے۔ دوسری سند رئوف پاریکھ نے پیش کی ہے مگر ہمیں اب بھی یقین ہے کہ یہ لفظ اردو زبان پر بھاری ہے۔ انشاء اللہ انشا نے تلفظ کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’جاننا چاہیے کہ جو لفظ اردو میں آیا وہ اردو ہوگیا خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو یا سُریانی، پنجابی ہو یا پوربی، اصل کی رو سے غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مستعمل ہے تو بھی صحیح، اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی صحیح، اس کی صحت اور غلطی اس کے اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے، کیونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے وہ غلط ہے گو اصل میں صحیح ہو، اور جو اردو کے موافق ہے وہی صحیح ہے، خواہ اصل میں صحیح نہ بھی ہو‘‘۔ (دریائے لطافت)
ہم اپنے سعودی دوستوں کے اعتراض پر یہی کہا کرتے تھے کہ یہ عربی نہیں، ہماری اردو ہے۔ مثلاً جلوس نکلنا۔ اب اردو ایک مستقل زبان ہے۔ عربی اور فارسی کے جن لفظوں میں حرکات کی تبدیلی ہوئی ہے، وہ یہاں کے لہجے کے تقاضوں کی آئینہ داری کرتی ہے، مثلاً سیّد، جیّد، میت، طیب۔ عربی میں یہ سارے الفاظ بہ کسریائے مشدّد ہیں مگر اردو میں ان کو عام طور پر بہ فتح یائے مشدد بولا جاتا ہے۔ اسی طرح فارسی میں فرشتہ، فریب، بہشت وغیرہ بہ کسر حرف اول ہیں، لیکن اردو میں بہ فتح حرف اول ہیں۔ ایسے ہی ’مقصد‘ عربی میں بہ کسر صاد ہے (ص کے نیچے زیر) لیکن فارسی اور اردو میں بہ فتح صاد مستعمل ہے (ص پر زبر)
عربی کے لفظ ’منصب‘ میں ’ص‘ کے نیچے زیر ہے یعنی ’’منصِب‘‘۔ اب اگر کوئی اردو بولنے والا ’من۔ صِب‘ کہے گا تو لوگ ہنسیں گے۔ عربی، فارسی کے علاوہ ہندی کے الفاظ کا بھی اردو میں آکر تلفظ بدل گیا ہے اور بعض کا املا بدل گیا ہے۔ ایک لفظ ’’غَنڈا‘‘ ہے جو ہندی میں ’گنڈا‘ ہے۔ فارسی میں غنڈ اور غنڈہ۔ مطلب ہے ایک جگہ جمع کیا ہوا، یا وہ گروہ جو ایک جگہ جمع ہو۔ اب کسی محفل میں یا ہوٹل پر جمع لوگوں کو غنڈا یا غنڈہ کہہ کر دیکھیں۔ جہاں تک اس کی اصل ’گنڈا‘ کا تعلق ہے تو بعض لوگ اس کی نسبت سے گنڈا پوری کہلاتے ہیں۔