تخلیقی عمل 

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب
نام کتاب: تخلیقی عمل
مصنف: وزیر آغا
صفحات: 184…  قیمت: 300روپے
ناشر: ڈاکٹر تحسین فراقی، ناظم مجلسِ ترقیِ ادب۔
2کلب روڈ، لاہور
ویب سائٹ: www.mtalahore.com
ای میل: aglista2014@gmail.com
ڈاکٹر وزیر آغا اردو ادب کے بڑے ناموں میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے تحقیقی اور تخلیقی میدانوں میں نمایاں آثار چھوڑے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کتاب بھی ہے۔ اس کے آٹھ ایڈیشن پہلے چھپ چکے تھے اور اب دوسرا ایڈیشن مجلس ترقی ادب سے شائع ہوا ہے۔ جناب شاہد شیدائی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’تخلیقی عمل وزیر آغا کی اہم ترین تعقّلاتی (conceptual) تصنیف ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اِستخراجی انداز اپنانے کے بجائے استقرائی عمل کی مدد سے موضوع کو سمجھنے اور سمجھانے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ 1970ء میں تصنیف شدہ اس کتاب پر نظرثانی کرتے ہوئے، وزیر آغا نے اس میں ایک نئے مقالے ’’تیس سال بعد‘‘ کا اضافہ اُس وقت کیا تھا جب 2003ء میں اس کا چھٹا ایڈیشن شائع ہوا تھا۔ اب جبکہ اس کا آٹھواں ایڈیشن چھپنے کو ہے، انھوں نے اس میں ایک اور مقالے بعنوان ’’تخلیقی عمل… تکوینِ کائنات کے حوالے سے‘‘ کا اضافہ کیا ہے جس کی ضرورت انھیں اس لیے پیش آئی کہ کتاب کی تصنیف کے وقت انھوں نے تخلیقی عمل کی تھیوری حیاتیات، تہذیب و تمدن، اساطیر اور تاریخ کے مطالعے سے مرتب کی تھی اور پھر اُس کا اطلاق فنونِ لطیفہ (رقص، موسیقی، مصوری، شاعری) پر کیا تھا۔ دراصل 1970ء تک طبیعیات میں ایسی پیش رفت نہیں ہوئی تھی کہ اس موضوع پر تکوینِ کائنات کے حوالے سے بحث کی جاسکتی جس سے کائنات کے رموز اور اس کی پراسراریت کو کسی حد تک سمجھا جاسکتا۔ بعد میں (خصوصاً اگلی صدی کے آخری عشرے سے لے کر اب تک) طبیعیات میں اس قدر کام ہوا اور سائنس دانوں کے ایسے ایسے معرکہ خیز تعقلات سامنے آئے کہ انسانی عقل دنگ رہ گئی۔ وزیر آغا چونکہ علوم سے گہرا شغف رکھتے ہیں، اس لیے انھوں نے طبیعیات میں ہونے والی اب تک کی پیش رفت سے آگاہ ہونے کے سبب نہایت ضروری سمجھا کہ اپنی اس کتاب میں تکوینِ کائنات کے حوالے سے بھی بحث کریں تاکہ قارئین بھی تخلیقی عمل کے ہر پہلو سے واقفیت حاصل کرسکیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ وزیر آغا نے اس کتاب میں تخلیقی عمل کے جن مدارج کو نشان زد کیا تھا اُن کی توثیق طبیعیات کی تازہ ترین پیش رفت سے ممکن ہوگئی ہے… یہ بے حد مشکل کام تھا جسے انھوں نے ایک توانا تخلیقی عمل سے انجام دیا ہے۔
’’تخلیقی عمل‘‘ کے تمام ابواب اپنی الگ الگ حیثیت میں کہانیوں کی سی دلچسپی رکھتے ہیں اور آپس میں یوں مربوط ہیں کہ آخری باب کے ختم ہوتے ہی اس پر ناول کا گماں ہونے لگتا ہے۔ گویا وزیر آغا نے نظری بحث میں اردو ادب (فکشن) کی اس مقبول ترین صنف کی تکنیک استعمال کی ہے، اور یہ کمال وزیر آغا ہی کو حاصل ہے کہ انھوں نے تنقید جیسی خشک اور ادق صنف کو اس قدر سادہ اور پُرلطف بنادیا ہے کہ قاری زبان کی باریکیوں کے ساتھ ساتھ شگفتہ اسلوب سے گزرتے ہوئے علوم و فنون کے تمام تر خزانوں سے بھی فیض یاب ہوتا چلا جاتا ہے۔
وزیر آغا نے ہمیشہ تخلیقی تنقید لکھی ہے۔ اُن کے کام کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ مغربی علوم اور تنقیدی تھیوریوں میں سے گزرتے ضرور ہیں مگر جہاں کہیں انھیں کسی مصنف کی کہی ہوئی بات میں کوئی جھول نظر آتا ہے، ایسے موقع پر اس سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار ضرور کرتے ہیں… اس سے یہ بات کھلتی ہے کہ وہ تنقید میں اندھی تقلید کے قائل ہرگز نہیں ہیں، اس کے بجائے وہ دوسروں کے خیالات کی تہ تک پہنچتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر سے قارئین کو محظوظ کرتے ہیں۔
وزیر آغا نے کتاب کے ہر باب میں تخلیقی عمل کی ساخت کو بھرپور طریقے سے نمایاں کیا ہے۔ وہ تخلیقی عمل کو حیاتیات، دیومالا، تاریخ و تہذیب اور فنونِ لطیفہ میں سے گزارتے ہوئے، آخر میں طبیعیات تک پہنچے ہیں، اور یوں انھوں نے تخلیقی عمل کے ہر پہلو پر مدلل گفتگو کی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے تخلیقی عمل کے مدارج کو پیش کرتے ہوئے بعض ایسے درجوں کی بھی نشان دہی کی ہے جو گم شدہ کڑیاں (missing links) کہلاتے ہیں۔ لہٰذا ’’تخلیقی عمل‘‘ کو اس نکتے کے حوالے سے پڑھنا بہت ضروری ہے تاکہ اذہان پر اس کتاب کی اصل اہمیت کا احساس پوری طرح مرتسم ہوسکے۔‘‘
ڈاکٹر وزیر آغا تحریر فرماتے ہیں:
’’تخلیقی عمل کیا ہے؟… اصلاً یہ وہ عمل ہے جس کی مدد سے انسان اپنے ہی وجود کی بامشقت قید سے رہائی پاتا ہے… بالکل ایسے، جیسے کوئی شے کسی مدار میں مسلسل گھومتے چلے جانے کے بعد معاً لپک کر ایک نئے اور کشادہ تر مدار میں چلی جائے… جسم، معاشرے، اَسطور، تاریخ اور فن ہی میں نہیں، کائنات کے محیط و بسیط نظام میں بھی اس کا یہی اصول کارفرما ہے۔ خود حقیقتِ اولیٰ بھی، جو وحدت کی علَم بردار اور نام روپ سے بے نیاز ہے، اپنے تخلیقی عمل میں دو واضح سطحوں کا احساس دلاتی ہے: ایک خود فراموشی کی سطح جو سکون اور ٹھیرائو سے عبارت ہے، اور دوسری ایک جہدِ مسلسل کی سطح، جو بے قراری اور کلبلاہٹ کی مظہر ہے، اور جو لازمی طور پر پہلی سطح  کے بطون سے نمودار ہوتی ہے، مگر اس طور کہ اس کا اچانک ظہور تجلیات کے ایک نئے سلسلے کا نقطۂ آغاز قرار پاتا ہے۔
اگر یوں ہے تو قدرتی طور پر یہ سوال سر اٹھائے گا کہ ان دونوں سطحوں کا باہمی رشتہ کیا پہلے ہی سے مقرر اور متعین ہے، یا کسی مقام پر قدر و اختیار کا مظاہرہ بھی کرتا ہے… جبر اور قدر کا یہ مسئلہ نہایت قدیم ہے اور صدیوں تک جبریہ اور قدریہ کے مابین بحث وتمحیص کا موضوع بنا رہا ہے۔ پہلی جماعت کا خیال ہے کہ ہر شے کی باگ ڈور غیب کے ہاتھ میں ہے، دوسری کا مؤقف یہ ہے کہ ہر شے مختار ہے اور اپنا مستقبل خود تراشتی ہے۔ اس ضمن میں بہترین نظریہ، حدیث شریف میں ملتا ہے۔‘‘
ابواب کے عنوانات درج ذیل ہیں:
’’تخلیقی عمل کا حیاتیاتی پہلو… دائرہ اور خط مستقیم‘‘، ’’تخلیقی عمل… دیومالا کی بنت‘‘، ’’تاریخ کا تخلیقی عمل‘‘، ’’تخلیقی عمل… فنونِ طیفہ میں‘‘، ’’تخلیقی عمل‘‘، ’’تخلیقی عمل… تکوین کائنات کے حوالے سے‘‘۔
کتاب سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی ہے، مجلّد ہے۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اس منفرد کتاب میں سیرت کو قرآن کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ نزولِ قرآن، سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، توحید، آخرت اور کشمکشِ حق و باطل اس کتاب کے کلیدی موضوعات ہیں۔ ان موضوعات کو مصنف نے دس جلدوں میں سمیٹنے کا عزم کیا ہے، جس میں وہ کامیابی سے چھٹی جلد تک پہنچ گئے ہیں۔ اس کتاب کو پیش کرنے پر وہ اس بات کے متمنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس کوشش کو قبول فرمائے اور امتِ مسلمہ کو اپنی جانب پلٹ آنے کی توفیق دے اور ذلت و نکبت کی دلدل سے ان کو نکال دے، اور دینِ حق کو دنیا میں غالب کردے جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے۔ ختم نبوت ہوچکی اور کارِِ نبوت باقی ہے جس کے لیے مصنف نے اس قابلِ قدر منصوبے کی داغ بیل ڈالی ہے۔
عرضِ مولف کے ضمن میں اللہ کا شکر بجالاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ جلد ششم تک پہنچنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کو قرآن مجید کے نزول کے ساتھ بیان کرنے کی توفیق و سعادت کو یہاں تک جاری رکھا کہ وہؐ غارِ حرا سے اتر کر، گالیاں کھاکے، دعائیں دیتے ہوئے اور پتھر کھاکھاکر مسکراتے ہوئے اس وقت اور مرحلے تک پہنچ گیا ہے جہاں اللہ اور اپنے رفیق خاص کے ساتھ غارِ ثور سے ہوتے ہوئے یثرب پہنچنے والا ہے، اور پھر یثرب ہمیشہ کے لیے مدینۃ النبیؐ بن جائے گا۔ زیر تبصرہ جلد ششم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کے آخری دور پر روشنی ڈالتی ہے جس میں نبوت کے بارہویں اور تیرہویں برسوں میں پیش آنے والے واقعات اور اس دوران نازل ہونے والی آیات ِ قرآنی کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور بقول مصنف یہ وہ ماہ و سال تھے جب تاریخ ایک نیا موڑ کاٹنے کو تھی، کیونکہ اہلِ مکہ نے دینِ اسلام کی دعوت کو ٹھکرا دیا تھا۔ وہ اپنے آباو اجداد کے طرزِ کہن پر اڑے ہوئے تھے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نازل کردہ دین کے پھلنے پھولنے کے لیے مکہ کے بجائے یثرب جس کو مدینۃ النبیؐ کے نام سے مشہور ہونا تھا، کا انتخاب کررکھا تھا، جہاں سے رشد و ہدایت کا چراغ ساری انسانیت کے لیے روشن ہونا تھا۔
مصنف کہتے ہیں کہ پورا قرآن سیرت کی داستان بیان کرتا ہے۔ تمام آیاتِ قرآنی کی شانِ نزول اپنے نزول کے وقت کی حکمت عملی بیان کرتی ہیں اورخاص وقت کے حالات، اُس وقت اسلام و کفر کے درمیان برپا کش مکش کی مستند نقشہ کشی کرتی ہیں۔
قرآنی طرزِ تخاطب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے:
جب قل کہہ کر آپؐ سے کچھ کہلوایا جاتا ہے تو وہ آپؐ کا تاریخی بیان ہوتا ہے جو اس موقع پر جاری کیا گیا، اور جب اہلِ ایمان یا منکرین سے خطاب کیا جاتا ہے تو ان کی ضرورت، خیالات و گمان کا پتا چلتا ہے۔ جب واقعات پر تبصرہ ہوتا ہے تو وہ اس دور کی تاریخ کی تدوین ہے۔ جب دیگر انبیا اور قوموں کے تذکرے ہوتے ہیں تو وہ بھی اس خاص دور میں جاری کش مکش کے دوران ویسی ہی صورتِ حال میں انبیا اور قوموں کے طرزِعمل کے ہو بہو عکاس ہوتے ہیں، اور آج کے دور میں ہمارے لیے دورِِ نبوت کی تاریخ ہوتے ہیں۔ کتاب میں اس دور کا ذکر ہے جس میں قریش اسلام کی انقلابی دعوت سے سراسیمہ ہیں، چنانچہ چراغِ مصطفوی سے چراغِ بولہبی ستیزہ کار ہے اور اس زمانے میں قریش سے کشمکش اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے، کیونکہ مشرکینِ مکہ اپنے ہاتھوں سے قیادت و سیادت دینِ توحید کے علَم برداروں کو جاتے دیکھ رہے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے:
اے برادرانِ قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔
یہ دعوت وہی دعوتِ توحید تھی جو سارے نبیوں کی دعوت تھی۔ مصنف، دعوتِ توحید کے باب میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دعوت کا نقطہ آغاز انسانوں کو معبودانِ باطل سے بیزار اور منقطع کرکے ایک اللہ کی بندگی میں داخل کرنا ہوتا ہے۔ قوموں میں اصلاح کے بعد جب بھی گمراہی پھیلتی ہے تو وہ توحید سے ہی انحراف کا نتیجہ ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ متنبہ کرتے ہیں کہ جب بگاڑ کے اس منبع (توحید) کو چھوڑ کر دوسرے مفاسد کی اصلاح کرنے کی کوشش کی گئی ہے بگاڑ میں اضافہ ہوا ہے۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بشیر و نذیر بناکر بھیجے جانے والے قرآنی حکم:
’’اے محمدؐ! ہم نے تمہاری قوم کے لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب بھیجی ہے، جس میں ہمارے پیغام کی تفصیل علمِ قطعی کی بنیاد پر ہے، اور جو ایمان لانے والوں کے لیے (ان کی سیرت میں ہدایت اور رحمت بنی نظر آرہی ہے) اس قرآنی ہدایت اور رہنمائی میں جو انسان سازی ہوئی اس نے ان لوگوں کو جو زیادہ سے زیادہ اپنے قبیلے کا سردار ہونے کا خواب دیکھ سکتے تھے، دنیا کے وسیع رقبے کا مالک بنادیا۔
بعثت ِنبویؐ کی اہم ترین وجہ انسانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا تھا کہ یہ کائنات اور اس میں موجود سب کچھ کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، لہٰذا کائنات میں حکم بھی اللہ کا ہی چلے گا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے والوں کو بشارت، اور اس دعوت سے منہ موڑنے والے باغیوں کو دنیا اور آخرت کے عذاب سے ڈرانا تھا۔
کیونکہ اللہ رحیم و کریم ہے، لہٰذا اس نے کائنات کی تخلیق کے بعد انسان کو بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑدیا، بلکہ ان کی ہدات کے لیے انبیا و رسل کا سلسلہ قائم کیا اور ان پر اپنا کلام صحائفِ آسمانی کی شکل میں نازل کیا جس میں قرآن وہ آخری کتاب ہے جس کے ذریعے انسانیت نے فلاح کی راہ دیکھی۔ کتاب میں دعوت و تبلیغ کے مختلف مرحلوں اور طریقوں کے ذکر میں کہا گیا ہے کہ قرآن نے گمراہی پر ڈٹے رہنے والے اہلِ مکہ کو مختلف طریقوں سے سمجھانے کی کوشش کی اور انفس و آفاق کی نشانیاں بیان کیں۔ شرک سے باز آنے کے لیے کہا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرکے اللہ واحد کی بندگی قبول کرنے کے لیے آمادہ کیا، ان کو ہر طرح سمجھایا کہ نبی کی دعوت کو قبول کرکے وہ عرب و عجم کے مالک بن جائیں گے۔ مگر ماسوائے کچھ سعید روح رکھنے والوں کے، وہ شرک و بت پرستی سے باز نہ آئے۔ متلاشیانِ حق کو ان کی حق پرستی اور استقامت کا جب پھل ملا جب کہ اہلِ مدینہ نے اُن کو پورے جوش و خروش سے خوش آمدید کہا۔
مصنف توجہ دلاتے ہیں کہ انبیا کی تحریکاتِ توحید سے قوم کے سربرآوردہ لوگ سہم جاتے ہیں، ان کو اپنے قدموں سے زمین کھسکتی نظر آتی ہے، لہٰذا وہ وقت کے انبیا کی دعوت پر مخالفت پر کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت نوحؒ، حضرت صالح ؒ، حضرت لوطؒ، حضرت شعیبؒ کے دعوتی مشن کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جب قومیں عصیان و طغیان میں حد سے بڑھ گئیں تو ان پر کیسے سخت غذاب آئے۔ اہلِ مکہ کو برباد ہونے والی قوموں کے حوالے سے متنبہ کیا گیا کہ نبی کی آمد کے بعد قوم کے لوگوں کو کبھی ڈھیل دے کر آزمایا جاتا ہے اور کبھی سختی کی جاتی ہے تاکہ لوگ وقت کے نبی پر ایمان لے آئیں، مگر برادرانِ قوم سرکشی اور تکبر میں مبتلا رہتے ہیں جو اللہ کے غضب کو بھڑکا دیتا ہے اور نتیجۃً ان کے وجود کو مٹادیا جاتا ہے۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد اللہ نے دعوت کی راہ کشادہ کردی اور مکہ میں جو مشکلات تھیں وہ دور کردیں۔
مدینہ میں اوس و خزرج کی آپس کی ناچاقی اور یہودیوں کی سازشی سرشت جس نے ماحول کو آلودہ کررکھا تھا، دعوتِ توحید کو نہایت پُرکشش بنادیا تھا، جس نے اسلام کی تبلیغ میں آڑے آنے والے قریش اور ان کی جاہلی تہذیب کو مغلوب کرکے ان کی قیادت و سیادت پر کاری ضرب لگادی۔ نبوت کے گیارہویں سال کے آخر دو ماہ میں یثرب سے آئے ہوئے جن چھے افراد نے اسلام قبول کرلیا تھا انہوں نے اسلام کا پھریرا مدینہ میں لہرایا، جہاں ایک اسلامی ریاست کی بنیاد اس ٹیم کے ذریعے رکھی گئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی براہِ راست نگرانی میں گیارہ سال کی شب و روز محنت کے بعد تیار کی تھی، اور جو اللہ کا پیغام پھیلانے والے ایسے بہترین انسانوں پر مشتمل تھی کہ ایسا گروہِ انسانی روئے زمین پر نہ اس سے پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ مصنف نے قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی ممالک میں پھیلی گمراہی پر بھی نظر ڈالی ہے کہ اب دین کو بھی نفع و نقصان کے پیمانوں سے ناپا جاتا ہے کیونکہ صورت حال یہ ہے کہ
پڑھتے نہیں بھول کے اللہ کی کتاب
ہوتے نہیں چشمۂ زمزم سے فیضیاب
قرآن سے دور کرنے پر مسلم ممالک کی روش پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قرآن کے مقابلے میں ایران و توران کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں اور راگ رنگ کے ماحول میں قرآن کی تلاوت اور قرآنی افکار پر طبع آزمائی کی جاتی ہے۔ انفس و آفاق کے دلائل اور دنیا میں عذابِ الٰہی اور آخرت میں نارِ جہنم کی بات کم کم سننے میں آتی ہے۔ مغربی تہذیب کے پھیلائے ہوئے مغالطوں کی بھی خبر لی گئی ہے کہ اس سے:
پھیلا ہوا ملتِ بیضا میں انتشار
بے جا تصورات کی ہر قوم ہے شکار
ان گمراہ کن تصورات میں ایک کم لباسی بھی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے: لباس اللہ تعالیٰ کا نوعِ انسانی پر وہ منفرد احسان ہے جس سے دنیا کی کسی اور مخلوق کو نہیں نوازا گیا۔ جبکہ مغربی تہذیب کا انسانوں سے خصوصاً خواتین سے ممکنہ حد تک بے لباس ہوکر مہذب بن جانے کا مطالبہ ہے اور اسی شیطانی ایجنڈے کو مسلمان ممالک میں رواج دیا جارہا ہے، اور اس سے قطع نظر کیا جارہا ہے کہ جسم کے کچھ حصے چھپانے کے لیے ہیں جس کے لیے انسان کی فطرت میں عریانیت سے اجتناب اور جھجک پیدا کی گئی ہے۔
مسلمانوں کی پستی کا واحد علاج سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنانے اور زندگی کے تمام معاملات میں اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے، مگر افسوس کہ اب تو حالت یہ ہے:
مغرب کے میکدوں کے چڑھائے ہوئے شراب
اس درجہ ہوچکے ہیں مسلمان اب خراب
کہ سڑکوں پہ ناچتی ہیں کنیزیں بتولؓ کی
اور تالیاں بجاتی ہے امت رسولؐ کی
امت کی نماز سے غفلت پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نماز کی وجہ سے مقام محمود پر فائز ہوئے، مگر جب سے امت کی قیادت بے نمازیوں کے ہاتھ آئی ہے نیل کے ساحل سے تابخاکِ کاشغر مسلمان ذلت و نکبت کا شکار ہیں۔ ان کو اس گراں خوابی سے جگانے کے لیے مصنف نے    سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام گوشے وا کیے ہیں۔ درحقیقت مصنف نے کتاب قرآن و سنت کی روشنی میں ڈوب کر لکھی ہے اور موجودہ دور میں مسلمانوں کی دینِ متین اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری کا سدباب کرنے کی سعی کی ہے۔ امید ہے مصنف کی یہ کاوش رنگ لائے گی اور یہ کتاب ان کو چشم ِبینا عطا کرے گی۔