میں عنقریب سعودی عرب میں اپنے کام پر لوٹ آؤں گا: صلاح جمال خاشقجی

Akhbar Nama اخبار نامہ
Akhbar Nama اخبار نامہ

سعودی عرب کے مقتول صحافی جمال خاشقجی کے بیٹے صلاح نے انکشاف کیا ہے کہ وہ عنقریب جدہ واپس جاکر بینکاری سیکٹر میں اپنے کام سے منسلک ہوجائیں گے ۔
صحافی جمال خاشقجی کے بیٹوں صلاح اور عبداللہ نے امریکی ٹی وی چینل ’’سی این این‘‘کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ہم اپنے والد کے قتل کے معاملے کو سیاسی رنگ دلوانے کی تمام کوششوں کو مسترد کرتے ہیں۔ خاشقجی کے قتل کے بعد ان کے بیٹوں کا امریکی ٹی وی چینل کو یہ اپنی نوعیت کا پہلا انٹرویو ہے ۔ صلاح کے مطابق ’’ہم ان لوگوں کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے جو ہمارے رجحان کا غیر حقیقی تجزیہ کرنے کے بعد ایسے مطالبات کررہے ہیں جن سے ہم متفق نہیں‘‘۔
صلاح نے واضح کیا کہ ان کے والد ایک دن کے لیے بھی اپوزیشن کے کیمپ میں نہیں رہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ جمال خاشقجی سعودی عرب کی قیادت اور ملک میں جاری اصلاحات پر پورا یقین رکھتے تھے۔

دو عورتوں کی لڑائی؟

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 125ممالک کی خوراک کے معیار، مقدار اور استطاعت کے حساب سے فہرست جاری کی ہے اس میں 27 ملک پاکستان سے نیچے ہیں جن میں بھارت بھی شامل ہے۔ کیا کسی سیکولر، لبرل اور اسلام دشمن دانشور اور صحافی نے کہا کہ یہ لوگ ہر سال کروڑوں کی تعداد میں ہردوار، بنارس اور کنبھ جاتے ہیں! یہ کیسے ہندو ہیں، کیا ان کا بھگوان انہیں یہ سکھاتا ہے؟ جو 27 ملک پاکستان سے نیچے ہیں ان میں سے صرف ایک ملک بنگلہ دیش مسلمان ہے، باقی سب عیسائی اکثریت رکھتے ہیں۔ کوئی سیکولر، لبرل بولاکہ یہ جو کروڑوں لوگ ہر سال ویٹی کن سٹی میں پوپ کی زیارت کو جاتے ہیں یہ سب ملاوٹ کی بنیادی وجہ ہیں۔ یہی نہیں، خوراک کے معیار، مقدار اور استطاعت کے اعتبار سے جو ملک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ان میں لاتعداد مسلم ممالک کویت، ملائشیا، سعودی عرب، ایران، تیونس اور مراکش شامل ہیں۔ لیکن ان دانشوروں کے منہ سے ایک لفظ تعریف کا برآمد نہ ہوا، البتہ اگر یہ کوئی برائی دیکھیں گے تو فوراً ان کے قلم حرکت میں آجائیں گے اور ان کی زبانیں قینچی کی طرح چلنا شروع ہوجائیں گی۔ آسیہ مسیح کے فیصلے کے بعد جب اس ملک میں احتجاج شروع ہوا تو یہی لوگ ہیں جو پرویزمشرف کے زمانے سے اس لت کا شکار ہوچکے ہیں کہ ریاست کو بھڑکا کر لال مسجد گروا دو۔ ہر مذہبی آدمی کو مشکوک کرکے لاپتا کروا دو، اور ریاست کے ڈنڈے سے اپنی مکروہ عصبیت اور بغض کو نافذ کروائو۔ یہی ہتھیار انہوں نے عمران خان کے لیے استعمال کیا اور محترم وزیراعظم نے وہ تقریر کردی جیسی تقریر دنیا بھر میں سربراہانِ مملکت اُس وقت کرتے ہیں جب ملک میں انارکی اس درجے پر پہنچ جائے کہ حالات کسی اور صورت کنٹرول نہ ہوسکیں۔ جیسے ہی عمران خان کی یہ تقریر نشر ہوئی وہ دانشور، کالم نگار، اینکر پرسن جو گزشتہ دس برسوں سے عمران خان کو گالیاں دے رہے تھے ایک دم ان کے مداح ہوگئے۔ جنہوں نے گزشتہ کئی برسوں سے عدلیہ اور ججوں کو بدنام کرنے، انہیں جانب دار ثابت کرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا، ان سب کی نظروں میں سپریم کورٹ ہیرو ہوگئی۔ اس دوران ایک فقرہ بہت زیادہ پھیلایا گیا کہ ’’یہ دو عورتوں کی لڑائی تھی جس نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ہم کیسی قوم ہیں‘‘۔ یہ فقرہ جو مجھے سنایا جاتا ہے وہ یورپی یونین کے 29ممالک کو کوئی کیوں نہیں سناتا کہ جنہوں نے اِس سال جنوری میں یہ اعلان کیا تھا کہ ہم پاکستانی مصنوعات خریدنے کے لیے جی ایس پی (Generalized system of preferences) نہیں دیں گے اگر دو عورتوں کی لڑائی میں آسیہ بی بی کے کیس میں کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوئی۔ یورپی کمیشن کے صدر نے 6 مئی 2014ء کو جان فجل کو ’’بیرون از یورپی یونین مذہبی آزادی کی ترویج‘‘ (Promotion of Freedom for Religion outside EU) کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا۔ وہ جنوری 2018ء میں پاکستان آیا اور اس نے کہا کہ وہ یورپی یونین کی طرف سے صرف ایک نکاتی ایجنڈا لے کر آیا ہے کہ تمہاری تجارت آسیہ کی رہائی سے مشروط ہے۔ ان دو عورتوں کی لڑائی نے جمہوریت کی ماں برطانوی پارلیمنٹ کو کیسے یرغمال بنا لیا کہ برطانیہ کی وزیراعظم نے دنیا بھر کے اُن افراد کا شکریہ ادا کیا جو آسیہ کی رہائی کے لیے تحریک چلا رہے تھے۔ فرانس کے شہر پیرس میں ایفل ٹاور سے تھوڑے فاصلے پر ان کے میئر کا دفتر ہے۔ وہاں گزشتہ سات برسوں سے ایک قدآدم پوسٹر آویزاں ہے جو رات کی روشنی میں بھی چمکتا ہے جس پر آسیہ بی بی کی رہائی کا مطالبہ ہے۔ ان دو عورتوں کی لڑائی نے کیسے کیسے سیکولر، لبرل، مہذب اور ترقی یافتہ ممالک کا بھی دماغ خراب کیا ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر اس لڑائی میں شریک ہیں۔ میرے ملک کے یہ دانشور ان کو جاکر کیوں نہیں سمجھاتے کہ پاگل ہوگئے ہو، دو عورتوں کی لڑائی ہے اور خوامخواہ بین الاقوامی تعلقات بھی خراب کردیے اور اپنا وقت بھی ضائع کررہے ہو۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گالی صرف مسلمان، اسلام اور پاکستان کو دینی ہوتی ہے اور اسی سے بہت ساروں کے کلیجے میں ٹھنڈک پڑتی ہے اور دل کو سکون ملتا ہے۔ اسلام، مسلمان اور پاکستان کو بدنام کرنے کا ٹھیکہ لیے ہوئے ان دانشوروں کے سامنے اس فیصلے سے تین دن قبل مذہبی تعصب کی بنیاد پر دہشت گردی کا ایک واقعہ آیا۔ 27 اکتوبر کو ایک متعصب عیسائی رابرٹ گریگوری بورز(Robert Gregory Bowers) نے یہودیوں کی عبادت گاہ پٹس برگ امریکہ میں گھس کر فائرنگ کی اور گیارہ یہودیوں کو ہلاک اور باقیوں کو زخمی کردیا۔ وہ اس دن یوم سبت کی عبادت کررہے تھے۔ نہ یورپ کے کسی ملک میں پرچم سرنگوں ہوا اور نہ بگ بین اور ایفل ٹاور پر یک جہتی کے لیے خاص روشنیاں جلائی گئیں، اور نہ ہی کوئی دانشور چیخا کہ امریکی ریاست کی رٹ کہاں ہے! حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ سب قتل و غارت میڈیا کی لگائی گئی آگ کی وجہ سے ہورہی ہے۔ جس آگ میں ڈونلڈ ٹرمپ نہیں کودا میرے ملک کا یہ طبقہ اس میں عمران خان کو کودنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ کیا یہ معاملہ اتنا سادہ ہے؟ کیا یہ صرف دو عورتوں کی لڑائی ہے؟ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ جس پاکستان کو عمران خان اپنی پوری خواہش، میڈیا سپورٹ اور پُراثر شخصیت کے باوجود جام کرنے کا خواب پورا نہ کرسکے، صرف ایک فیصلے کے اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر بغیر کسی اعلان، بغیر کسی میڈیا سپورٹ پورا ملک جام ہوگیا تھا۔ کیا صرف دو عورتوں کی لڑائی اس کی وجہ تھی؟ خان صاحب معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، سنبھل کے۔ جو لوگ آج آپ کو اکسا رہے ہیں کل یہی آپ پر انگلیاں اٹھائیں گے۔
(اوریا مقبول جان، روزنامہ92، پیر 5 نومبر 2018ء)