حمد و تسبیح سے مراد

رشد و ہدایت
رشد و ہدایت

’’پس اے نبیؐ! جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے ،اور رات کے وقت پھر اس کی تسبیح کرو اور سجدہ ریزیوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی۔‘‘(ق 50:39)
رب کی حمد اور اس کی تسبیح سے مراد یہاں نماز ہے، اور جس مقام پر بھی قرآن میں حمد و تسبیح کو خاص اوقات کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے وہاں اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ ’طلوع آفتاب سے پہلے‘ فجر کی نماز۔ ’غروبِ آفتاب سے پہلے‘ دو نمازیں ہیں، ایک ظہر، دوسری عصر۔ ’رات کے وقت‘ مغرب اور عشا کی نمازیں ہیں، اور تیسری تہجد بھی رات کی تسبیح میں شامل ہے۔ رہی وہ تسبیح جو سجود سے فارغ ہونے کے بعد کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے تو اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ بھی ہوسکتا ہے اور فرض کے بعد نفل ادا کرنا بھی۔ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت حسنؓ بن علیؓ، حضرت ابوہریرہؓ، ابن عباسؓ، شعبیؒ، مجاہدؒ، عکرمہؒ، حسن بصریؒ، قتادۃؒ، ابراہیم نخعیؒ اور اوزاعیؒ اس سے مراد نمازِ مغرب کے بعد کی دو رکعتیں لیتے ہیں۔ حضرت عبداللہ عمرو بن العاصؓ اور ایک روایت کے بموجب حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا بھی یہ خیال ہے کہ اس سے مراد ذکر بعد الصلوٰۃ ہے۔ اور ابن زید کہتے ہیں کہ ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ فرائض کے بعد بھی نوافل ادا کیے جائیں۔
صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ غریب مہاجرین نے حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مال دار لوگ تو بڑے درجے لوٹ لے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ہوا؟، انھوں نے عرض کیا: وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں، مگر وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم نہیں کرسکتے، وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم نہیں کرسکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ بتائوں جسے اگر تم کرو تو تم دوسرے لوگوں سے بازی لے جائو گے بجز اُن کے جو وہی عمل کریں جو تم کرو گے؟ وہ عمل یہ ہے کہ تم ہر نماز کے بعد 33،33مرتبہ سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کہا کرو۔ کچھ مدت کے بعد اُن لوگوں نے عرض کیا کہ ہمارے مال دار بھائیوں نے بھی یہ بات سن لی ہے اور وہ بھی یہی عمل کرنے لگے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآء(المائدۃ:5:54)۔ایک روایت میں ان کلمات کی تعداد 33،33کے بجائے دس دس بھی منقول ہوئی ہے۔
حضرت زید بن ثابتؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ہدایت فرمائی تھی کہ ہم نماز کے بعد 33،33 مرتبہ سبحان اللہ اور الحمدللہ کہا کریں اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ بعد میں ایک انصاری نے عرض کیا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کوئی کہتا ہے کہ تم 25،25مرتبہ یہ تین کلمے کہو اور پھر 25 مرتبہ لآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہو تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اسی طرح کرو ۔ (احمد، نسائی، دارمی)
حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر جب پلٹتے تھے تو میں نے آپؐ کو یہ الفاظ کہتے سنا ہے: سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون، وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العٰلمین (الصّٰفّٰت37: 180۔182) (احکام القرآن للجصاص)
اس کے علاوہ بھی ذکر بعد الصلوٰۃ کی متعدد صورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہوئی ہیں۔ جو حضرات قرآن مجید کی اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیں وہ مشکوٰۃ، باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں سے کوئی ذکر جو اُن کے دل کو سب سے زیادہ لگے، چھانٹ کر یاد کرلیں اور اس کا التزام کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بتائے ہوئے ذکر سے بہتر اور کون سا ذکر ہوسکتا ہے۔ مگر یہ خیال رکھیں کہ ذکر سے اصل مقصود چند مخصوص الفاظ کو زبان سے گزار دینا نہیں ہے بلکہ ان کے معانی کو ذہن میں تازہ اور مستحکم کرنا ہے جو ان الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس لیے جو ذکر بھی کیا جائے اس کے معنی اچھی طرح سمجھ لینے چاہئیں او رپھر معنی کے استحضار کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے۔
(تفہیم القرآن، پنجم، ص 125۔126، ق،حاشیہ 51)