یہ محض سوئے اتفاق ہے یا اس میں بھی کوئی پیغام ہے کہ تب بھی تاریخ 31 اکتوبر ہی تھی جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ مبارک میں گستاخانہ کتاب شائع کرنے والے بدبخت پبلشر راج پال کو واصلِ جہنم کرنے کے جرم میں غازی علم الدین شہید کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا۔ اور آج جب شانِ رسالت مآبؐ میں گستاخی کی مرتکب ملعونہ آسیہ بی بی کو جیل سے رہا کیا گیا تو تاریخ پھر 31 اکتوبر ہی تھی۔۔۔ دونوں واقعات میں اگرچہ نوّے برس کا فاصلہ ہے اور فرق یہ بھی نمایاں ہے کہ تب حکمران غیر ملکی اور کافر تھے، جب کہ آج حکمران بھی مسلمان ہیں اور جج بھی مسلمان، مگر حالات کم و بیش ایک ہی جیسے ہیں۔ عملاً آج بھی ہم کفار ہی کی حکمرانی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
آئین، قانون اور رواداری وغیرہ کے سبق پڑھانے والے ہمارے سیکولر دانشوروں کو یاد ہونا چاہیے کہ غازی علم الدین شہید کی وکالت کے لیے اس خطہ کے سب سے بڑے قانون دان قائداعظم محمد علی جناح خود عدالت میں حاضر ہوتے رہے، اور اُس وقت کے سب سے بڑے دانشور شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے غازی علم الدین کی شہادت پر ان الفاظ میں تاسف کا اظہار کیا اور علم الدین شہید کو خراجِ تحسین پیش کیا کہ ہم نے ساری عمر علم و دانش کی باتیں کرتے اور فلسفہ پڑھتے پڑھاتے گزار دی، جب کہ ترکھانوں (بڑھئیوں) کا ایک لڑکا عشقِ رسولؐ میں ہم سب پر بازی لے گیا۔ یہ دونوں عظیم رہنما قائداعظم محمد علی جناح اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال غازی علم الدین شہید کے جنازے میں صفِ اوّل میں موجود تھے اور جسدِ خاکی کو لحد میں اتارنے والوں میں سب سے آگے تھے۔ آج جب مسلمانانِ عالم غازی علم الدین شہید کی برسی منا رہے تھے تو ملعونہ آسیہ کی رہائی کا بم امتِ مسلمہ پر گرا کر کیا مسلمان نوجوانوں کو یہ پیغام نہیں دیا گیا کہ اسے خواہ انتہا پسندی کہا جائے یا کچھ اور، زمینی حقیقت یہی ہے کہ شاتمانِ رسول کو قانون اور نظام عدل کے سپرد کرنے کے بجائے موقع پر ہی کیفر کردار کو پہنچا دینا بہترین علاج ہے۔ توہینِ رسالت کے قوانین کی موجودگی کے باوجود آج بھی غازی علم الدین شہید اور ممتاز قادری کا راستہ ہی قابلِ عمل راستہ ہے۔۔۔ کیونکہ آسیہ کی رہائی کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل بھی اس جرم کے تمام مرتکبین کو جیلوں سے رہا کرکے فوری طور پر بیرونِ ملک روانہ کردیا جاتا رہا ہے۔
مغرب کے غلام حکمرانوں نے برقی اور ورقی ذرائع ابلاغ پر آسیہ کی رہائی کی خبر نشر کرنے پر اسی طرح سخت پابندی عائد کردی تھی جس طرح ممتاز قادری کو پھانسی دیتے وقت سخت ترین سنسر عائد کرکے اپنی دانست میں یہ سمجھا تھا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔ مگر خبر تب رکی تھی نہ اب۔۔۔ آسیہ کی رہائی کا فیصلہ جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں احتجاج کی ایسی لہر اٹھی کہ حکمران فوری طور پر دفعہ 144 کا نفاذ کرنے اور رینجرز بلانے پر مجبور ہوگئے۔ مگر یہ ان کی بھول ہے کہ ایسے اقدامات سے احتجاج کو روکا جا سکتا ہے۔ حکمرانوں کے ایسے اقدام جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں، جو 31 اکتوبر کو بھی کیا اور احتجاج جو پہلے بڑے شہروں کی بڑی سڑکوں تک محدود تھا، دور دراز علاقوں، دیہات و قصبات اور گلی محلوں تک پھیل چکا ہے۔ جماعت اسلامی اور ایم ایم اے کی جماعتوں سے لے کر سنی تحریک اور تحریک لبیک تک سڑکوں پر نکل چکی ہیں اور ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک رکھی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
تمام ذرائع ابلاغ پر اس اہم ترین خبر کے بلیک آؤٹ کے باعث نہ تو عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ سامنے آ سکا ہے اور نہ ہی احتجاج کی خبریں عوام تک پہنچ رہی ہیں۔ حکومت اس قدر خوفزدہ ہے کہ موبائل فون سروس تک بند کردی گئی ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود حقائق چھپانا حکومت کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ اور دیگر ذرائع کے مطابق عدالتِ عظمیٰ نے ملعونہ آسیہ جسے ٹرائل کورٹ نے نومبر 2010ء میں آئین کی دفعہ 295 سی کے تحت توہینِ رسالتؐ کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی اور عدالتِ عالیہ نے بھی اس سزا کو برقرار رکھا تھا۔۔۔ اسی کیس میں اُس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے جیل میں جاکر ملعونہ آسیہ سے ملاقات کی تھی اور وہاں اس کے ساتھ بیٹھ کر باقاعدہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس مجرمہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ گورنر کے اقدام پر پوری قوم نے شدید احتجاج کیا تھا اور سلمان تاثیر کے اس ناروا طرزعمل پر مشتعل ہوکر اس کے ایک سرکاری گارڈ ممتاز قادری نے اسے قتل کردیا تھا۔ ممتاز کو بعد ازاں پھانسی دے دی گئی، جب کہ آسیہ کا معاملہ ابھی تک زیر التوا چلا آرہا تھا۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق عدالتِ عظمیٰ نے آسیہ کی بریت کا جو فیصلہ جاری کیا ہے وہ 56 صفحات پر مشتمل ہے۔ غیر مصدقہ ذرائع ہی کے مطابق جج آصف سعید کھوسہ نے آسیہ کی بے گناہی کے لیے دلیل یہ دی ہے کہ چونکہ ایک مسلمان عورت نے آسیہ کے برتن میں پانی پینے سے انکار کیا تھا اس کے ردعمل میں مشتعل ہوکر آسیہ ملعونہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی اور گالیاں دیں، اس لیے آسیہ قابلِ معافی ہے۔ شاید یہ توہینِ عدالت قرار پائے مگر ہم کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ کتنی بوگس ہے یہ دلیل جو جج صاحب نے سزائے موت کی ایک مجرمہ کو رہا کرنے کے لیے پیش کی ہے۔۔۔ اور اگر اس دلیل کو درست تسلیم کرلیا جائے تو ہماری جیلوں میں قید اکثر قیدی رہائی کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ممتاز قادری گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرتے وقت ردعمل اور اشتعال کی اسی کیفیت کا شکار نہیں تھا؟ پھر آخر اسے سزا کیوں سنائی گئی اور اس پر عمل کیوں کیا گیا؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس وقت ملک بھر کی جیلوں میں بند قتل اور دوسرے خطرناک جرائم کے ملزموں کی اکثریت نے یہ جرائم کسی نہ کسی ردعمل اور اشتعال کا شکار ہوکر ہی کیے تھے۔ جج صاحب اپنے اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے ان سب کی رہائی کے احکام کیوں جاری نہیں کردیتے۔۔۔؟ یہ انوکھا اصول توہینِ رسالت کی مرتکب ایک مسیحی ملعونہ تک ہی محدود کیوں رکھا جارہا ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ دہشت گردی کے جرم میں سزا پانے والے کم و بیش تمام افراد امریکہ کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے دوران اپنے اہلِ خانہ پر بلاوجہ ظلم و جبر اور بمباری کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کے باعث ردعمل اور انتقام کے جذبے کے تحت ہی دہشت گردی کے راستے پر گامزن ہوئے۔۔۔ کیا معزز عدالتِ عظمیٰ ان سب کو بے گناہ قرار دینے کی ہمت کرے گی؟
غیر مصدقہ ہی سہی مگر اطلاعات یہ بھی ہیں کہ رہائی کے بعد ماضی کے اسی طرح کے مجرموں کی طرح ملعونہ آسیہ بی بی کو بھی فوری طور پر بیرون ملک روانہ کردیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ اقدام بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ مجرمہ آسیہ کم و بیش دس برس سے جیل میں بند ہے۔ جس علاقے اور پس منظر سے وہ تعلق رکھتی ہے اس کے پیش نظر گمان غالب تو یہی ہے کہ اس نے جیل جانے سے پہلے پاسپورٹ بنوایا ہی نہیں ہوگا، اور اگر بالفرضِ محال یہ مان لیا جائے کہ اس کا پاسپورٹ پہلے سے بنا ہوا تھا تو بھی یہ گزشتہ دس برس کی جیل کے دوران زائد المیعاد اور بیکار ہوچکا ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ جیل میں رہتے ہوئے اس کا نیا پاسپورٹ کس نے اور کیسے بنوایا؟ اور سزا یافتہ مجرمہ ہونے کے باوجود یہ کیوں کر بن گیا؟ پھر جیل میں موجود ایک مجرمہ کے لیے بیرونی ویزے کی درخواست کس نے دی؟ اور اس مجرمہ کی بریت کے فیصلے کے اعلان سے بھی پہلے جیل ہی میں اسے یہ ویزہ کیسے اور کیوں جاری کردیا گیا؟ کیا ایک عام پاکستانی یہ ویزہ اس قدر آسانی اور سہولت کے ساتھ حاصل کرسکتا ہے؟
مسلمانوں کو عموماً انتہا پسند، بنیاد پرست اور غیر روادار کے القابات سے نوازا جاتا رہتا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کبھی کسی مسلمان نے بھی حضرت عیسیٰ ؑ ، حضرت موسیٰؑ یا کسی دوسرے محترم و مکرم پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ہے؟
جب کہ مغربی دنیا اور مسلمان ممالک میں آباد عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کا یہ وتیرہ بن چکا ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر اتر آتے ہیں۔ آخر ان لوگوں کو رواداری کا درس کیوں نہیں دیا جاتا؟ ان کے لیے انتہا پسند وغیرہ کے القابات استعمال کیوں نہیں کیے جاتے؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا آج تک کسی مسلمان ملک نے حضرت عیسیٰؑ کے کسی گستاخ کو اپنے یہاں پناہ دی ہے؟ جب کہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین اور ان جیسے بہت سے دوسرے گستاخانِ رسول آج بھی مغرب کی پناہ ہی میں نہیں ہیں بلکہ ان کے یہاں ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ تو دور کی بات ہے ’’پوپ‘‘ کی شان میں گستاخی کرنے والے کسی فرد کو بھی اگر کوئی مسلمان ملک پناہ دے تو کیا مغرب برداشت کرلے گا؟
نہایت سنجیدگی سے غور طلب سوال یہ بھی ہے کہ مسلمان ممالک میں عیسائیوں اور قادیانیوں وغیرہ کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی وبا، اگر تیزی سے پھیل رہی ہے تو اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اس طرزعمل کے نتیجے میں وہ مغرب میں ہیرو قرار پاتے ہیں اور اس حیثیت میں انہیں نہ صرف بلا روک ٹوک ویزہ مل جاتا ہے بلکہ مغرب میں پہنچ کر آرام و آسائش کی زندگی بھی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ چنانچہ پاکستانی اور دیگر مسلمان ممالک کی اقلیتیں مغرب کی اس روش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کا خیال اور احترام کرنے کے بجائے ان جذبات کو پامال کرکے مغرب کی ہمدردیاں اور اپنے لیے آرام و آسائش کی زندگی کا آسان سامان کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔