ایسا کیوں ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوتے ہی اپوزیشن کی جانب سے غیر معمولی عدم اعتماد کا اظہار اور بیوروکریسی متحرک نظر آرہی ہے؟ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ تحریک انصاف کی قیادت نے حالات جانچے اور حقیقی تجزیہ کیے بغیر ہی بڑے دعوے کرکے عوام کی توقعات بڑھا دی تھیں، دوسری وجہ یہ کہ عمل کی دنیا میں خود تحریک انصاف کی قیادت ناکام نظر آئی، کابینہ میں وزراء اور مشیروں میں دوستوں کا بڑا حصہ خود تحریک انصاف کے اندر سوالات اٹھا رہا ہے۔ تحریک انصاف بطور اپوزیشن جماعت صرف عوامی توقعات کو ابھار رہی تھی اور اسے اپنی کامیابی بھی سمجھ بیٹھی۔ اب پارلیمنٹ میں حکومت میں آکر اسے ایک تجربہ کار اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اور تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ جس سیڑھی کے ذریعے وہ اقتدار تک پہنچی، اب وہ آہستہ آہستہ سرک رہی ہے، بیوروکریسی پر عدم اعتماد کرکے تحریک انصاف مشکل میں پڑی ہوئی ہے اور اس کے مقابلے میں ملک کو گرے لسٹ سمیت بہت سے مسائل نے گھیر رکھا ہے۔ حکومت تنہا ان مسائل سے نمٹ نہیں سکتی، اسے پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن کا تعاون حاصل کرنا ہوگا، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ملکی معیشت کی دگرگوں صورتِ حال ایک الگ مسئلہ ہے جسے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس خطے میں نومبر میں ایک نیا بحران سر اٹھانے والا ہے جب امریکہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کرے گا، اس کے اثرات بھی پاکستان پر ضرور پڑیں گے۔ ابھی تو ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے، جن کا براہِ راست اثر ہماری معیشت پر پڑا ہے جس نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ماضی کی طرح اِس حکومت کو بھی کچھ مسائل ورثے میں ملے ہیں جو جنرل پرویزمشرف چھوڑ کر گئے ہیں، نائن الیون کے بعد جب جنرل پرویزمشرف نے امریکیوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی تو امریکی ہماری نصف سے زائد فضائی حدود اور اپنے زیر استعمال زمینی راستوں پر عملاً قابض تھے۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوئی اور پاکستان نے امریکہ سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا، اب مزید کچھ نہیں ہوگا۔ نائن الیون کے بعد ان دس برسوں میں پاکستان کا جو معاشی نقصان ہوا آج تک اسے پورا نہیں کیا جاسکا۔ جنرل پرویزمشرف کے بچھائے ہوئے نظام نے فیڈریشن کو بھی کمزور کیا اور امریکہ، برطانیہ کو بھی مداخلت کا راستہ دیا، جس کے نتیجے میں این آر او لانا پڑا۔ اب وزیراعظم عمران خان متعدد بار یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ ان کی حکومت کسی کے لیے این آر او نہیں لائے گی۔ حکومت کو ایسا دعویٰ کرنے سے قبل یہ بتانا ہوگا کہ این آر او کیا ہے؟ کیوں لایا گیا؟ ماضی میں کسے ملا اور اب کون مانگ رہا ہے؟
این آر او کی تاریخ یہ ہے کہ جنرل پرویزمشرف نے 5 اکتوبر 2007ء کو اسے نافذ کیا۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے صدرپرویزمشرف نے قانون میں ترمیم کی اور یکم جنوری 1986ء سے لے کر 12 اکتوبر 1999ء کے درمیان جو مقدمات ’سیاسی بنیادوں‘ پر درج کیے گئے تھے، انہیں ختم کردیا۔ اس آرڈیننس کے بعد آٹھ ہزار سے زائد افراد کے خلاف بدعنوانی اور دیگر سنگین جرائم جن میں قتل، اقدام قتل اور بلوے کے مقدمات شامل تھے، بیک جنبش قلم ختم کردیے گئے۔ شہبازشریف اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ گئے تھے۔ اس قانون کے نفاذ کے دو سال بعد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اسے مفادِ عامہ اور آئین کے منافی قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا۔ یہ قانون بنیادی طور پر صرف پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے لیے تھا تاکہ ان کی وطن واپسی ممکن ہوسکے۔ جب سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دیا تو آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات بھی کھل گئے، تاہم انہیں صدارتی استثنیٰ حاصل رہا۔ این آر او سے حاکم علی زرداری، الطاف حسین، سابق گورنر عشرت العباد، فاروق ستار، رحمان ملک، حسین حقانی، سلمان فاروقی سمیت بہت سے افراد مستفید ہوئے۔ سپریم کورٹ نے جب یہ قانون خلافِ قانون قرار دیا تو اُس وقت بے نظیر بھٹو اس دنیا میں نہیں تھیں اور آصف زرداری صدرِ مملکت تھے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے جو لوگ اس کی زد میں آنے تھے انہیں اتحادی ہونے کے باعث پیپلز پارٹی کی حکومت نے گرفتار نہیں ہونے دیا۔
تحریک انصاف کی حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح ایک روایتی سیاسی حکومت ہے یہ حکومت این آر او کرے گی اور لازمی کرے گی، لیکن اس کی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ سیاسی رہنمائوں کے خلاف مقدمات میں سرکار بھرپور اور مؤثر پیروی نہ کرے۔ یہ حکومت کا بہت بڑا یوٹرن ہوگا۔لیکن یہ نظام ہمیشہ نہیں چلے گا۔ حکومت کو ان تمام دعووں کو پورا کرنا ہوگا جو وہ اب تک کرتی چلی آئی ہے۔ منشاء بموںکو اپنے ساتھ بٹھا کر کیوں دھاڑا جارہا ہے! اگر قوم احتساب مانگ رہی ہے اور حکومت بھی یہی چاہتی ہے تو پھر ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں یہ عندیہ کیوں مل رہا ہے کہ نیب حتمی بیان ریکارڈ کرانے سے گریز کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کرسکتا ہے؟ اس ماحول میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ خواہش ہے کہ احتساب کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ احتساب کے ادارے کسی حکومت کے تابع نہیں ہیں، آصف زرداری بھی جانتے ہیں کہ حکومت کا کسی پر کوئی زور نہیں۔ انہوں نے یہ بات کرکے اپنی حکومت کی جان چھڑانے اور ملبہ کسی اور کے سر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن وزیرخارجہ اور حکومت کو بہت سے سنجیدہ سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ ہر الزام کو ’’فیک نیوز‘‘ قرار دے کر جان نہیں چھوٹے گی۔ آئی جی پنجاب کے تبادلے کے بعد حکومت نے وہی غلطی وفاقی وزیر اعظم سواتی کی فرمائش پر آئی جی اسلام آباد کے تبادلے کے وقت کی ہے، لیکن حکومت کو کوئی پروا نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ حکم بھی معطل کردیا اور خاصی رعایت دی گئی ہے۔
بیڈ گورننس کی صورتِ حال پنجاب میں بھی بڑھ رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار فی الحال بیک سیٹ پر ہیں، جبکہ گورنر پنجاب چودھری سرور، اسپیکر چودھری پرویزالٰہی اور سینئر وزیر علیم خان فرنٹ سیٹ پر ہیں۔ عمران خان کے پولیس کو سیاست سے پاک کرنے کے وعدے کے باوجود سابق آئی جی خیبر پختون خوا ناصر درانی نے آئی جی پنجاب کے اچانک تبادلے کے خلاف استعفیٰ دے دیا۔ نئے آئی جی پنجاب کو گورنر پنجاب کا قریبی مانا جاتا ہے جو اس وقت صوبے میں طاقتور شخصیت ہیں۔ اپنے ساتھیوں کے دبائو کے پیش نظر عمران خان نے ناصر درانی کا تاحال کوئی متبادل نہیں دیا ہے اور پولیس ریفارمز ٹاسک فورس غیر فعال ہوکر رہ گئی ہے، ابھی حال ہی میں یہ ہوا کہ وزیراعظم عمران خان پہلے سعودی عرب پہنچے، اس کے بعد سعودی وفد پاکستان آیا۔ بدلے میں جو تقاضے کیے گئے وہ پاکستان کے اسٹرے ٹیجک اور علاقائی مفادات سے لگّا نہیں کھاتے تھے۔ مالیاتی بحران کا سونامی آیا تو سعودی صحافی کا خون کام آیا۔ ریگستان میں عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ہماری تنگ دستی میں کمی لانے کا سبب بنی۔ 3 ارب ڈالر زرمبادلہ کے اکائونٹ کے لیے، اور تین سال کے لیے 3 ارب ڈالر سالانہ کے مساوی تیل اُدھار دینے کا وعدہ ملتے ہی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ کوئی کرپٹ بچ کر نہیں جائے گا۔ یہ بہت اچھا اعلان ہے، کیا عمران خان کا اکیلا چنا ہی سارا بھاڑ جلائے گا؟ وزیراعظم کے دستِ راست وزیر خزانہ اسد عمر حقائق جانتے ہیں اور ابھی حال ہی میں اس بات کی تصدیق بھی کرچکے ہیں کہ بیرون ملک پڑے ہوئے دو سو ارب ڈالر ملک میں لانا ممکن نہیں ہے، بلکہ یہ اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ وہ بیان محض مذاق تھا۔ تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو یہ واویلا کیا کہ ماضی کی حکومت ملک پر 30 ارب ڈالر کا قرض چڑھا گئی ہے۔ لیکن جو قرض لیا جارہا ہے اس کے بعد تو قرض کا بوجھ 120 ارب ڈالر تک جاپہنچے گا۔ مشہور امریکی محاورہ ہے کہ ’لنچ فری نہیں ہوتا‘۔ پوری دنیا میں ذاتی، معاشی، کارپوریٹ اور سیاسی حوالوں کے لیے یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے، مگر اس محاورے کا سب سے درست اطلاق خارجہ پالیسی اور اس سے جڑے معاشی معاملات پر ہوتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی ریاست کے حکمران اگر کسی ملک سے ملنے والی بھاری امداد کے بارے میں یہ دعویٰ کریں کہ یہ امداد محض پیار، محبت یا خیرسگالی کے جذبے کے تحت دی گئی ہے تو اس کے دو ہی مطلب نکل سکتے ہیں، یا تو یہ بات کرنے والے حکمران خارجہ پالیسی کی الف، ب بھی نہیں جانتے، یا پھر اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ ریاض سے حال ہی میں ملنے والی امداد پر حکمران یہی مؤقف اختیار کررہے ہیں کہ اس امداد کے بدلے سعودی عرب نے ہم سے کچھ نہیں مانگا۔ تاہم ہر ملک کسی ملک کو امداد دیتے ہوئے اپنے مفادات کو ہی ترجیح دیتا ہے۔ سعودی شاہی خاندان میں اندرونی اختلافات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ یمن کی جنگ، شام میں سعودی کردار، ایران کا بڑھتا ہوا اثر، سعودی عرب اور اس کی حامی خلیجی ریاستوں میں جمہوری تحریکوں کا خطرہ… یہ سب کچھ سعودی عرب کی مشکلات میں اضافہ کررہا ہے۔ امریکہ میں شیل گیس کا انقلاب آنے کے بعد عرب تیل پر امریکی انحصار میں بہت جلدکمی واقع ہوجائے گی، اس لیے صرف تیل کی خاطر امریکہ سعودی عرب کے نازنخرے برداشت نہیں کرے گا۔ یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ اب مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کو اپنے اثررسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ اب سعودی شاہی خاندان روس، چین اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنارہا ہے۔ ان حالات میں یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مضبوط حلیف پاکستان سے رجوع نہ کرے!پاکستانی حکمران طبقات کا تعلق چونکہ ہمیشہ سے تن آسان اشرافیہ سے رہا ہے، اس لیے ان حکمرانوں نے اپنے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے، معیشت کو مستحکم کرنے، جدید معاشی، زرعی اصلاحات کرنے کے بجائے شروع سے ہی عالمی حالات اور اپنی اہم جغرافیائی پوزیشن کا سہارا لے کر بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کیا۔ اب بھی یہی فیصلہ ہے کہ اپنے وسائل خود پیدا کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ امداد پر ہی انحصار کیا جائے۔ اس حکومت کی طرح ہر حکومت کے ماہرینِ معاشیات کا اس امر پر اتفاق ہے کہ قرضوں، گرانٹس، ڈونیشن، یا آئی ایم ایف کی قسطوں سے کسی ملک کی معیشت بہتر نہیں ہوسکتی، لیکن یہی ماہرین پاکستان کو آئی ایم ایف کی دہلیز پر لے جاتے رہے ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف 1996ء سے مسلسل یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ پاکستان میں امیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، رئیل اسٹیٹ کا کام کرنے والے ارب پتیوں پر صحیح طرح سے ٹیکس وصول کرنے کے لیے اصلاحات متعارف کروائی جائیں، لیکن جب فیصلے ہورہے ہیں تو تحریک انصاف کی اشرافیہ ہی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ابھی حال ہی میں کابینہ کے ایک اجلاس میں وزیراعظم نے تنبیہ کی ہے کہ انہیں متعدد وزراء کی کرپشن کے بارے میں نشاندہی کی گئی ہے۔ انہوں نے نام لیے بغیر وزراء سے کہا کہ وہ خود ہی درست ہوجائیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے پہلے ستّر دنوں میں وزراء کے چال چلن دیکھ کر انہیں وارننگ دی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وفاقی اداروں میں کرپشن ختم کرنے سے قبل حکومت کو اپنے وزراء کو دیانت داری کے کھونٹے سے باندھنا ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان کی مشاورتی ٹیم
وزیراعظم ہائوس میں ہر روز ایک میٹنگ ہوتی ہے جسے میڈیا ایڈوائزری کا نام دیا جاتا ہے، حکومت کے اہم فیصلے اسی میں طے ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کے میڈیا ایڈوائزر افتخار درانی، نعیم الحق اور وزیر اطلاعات فواد چودھری اس کمیٹی کے اہم ارکان ہیں۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور سینیٹر فیصل جاوید بھی متعدد اہم فیصلوں میں شریک رہے ہیں۔ ان کے علاوہ دو میڈیا پرسن یوسف بیگ مرزا اور طاہر اے خان سے بھی اہم امور پر مشورہ لیا جاتا ہے۔ یہ دونوں نجی ٹی وی چینل چلاتے ہیں۔ یہ ایک میڈیا کمیٹی ہے۔ حکومت نے ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے نیا قانون لانے کا فیصلہ کرلیا ہے، نئے قانون کا مسودہ تیار کرلیا گیا ہے جو جلد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ نئے قانون کے مطابق ایک کمیشن قائم کیا جائے گا اور کوئی بھی شہری اس کمیشن کے سامنے بدعنوانی کی شکایت کرنے کا مجاز ہوگا۔ شکایت کنندہ کی شناخت صیغۂ راز میں رکھی جائے گی۔ کمیشن شکایت کی انکوائری کے بعد نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے سامنے خود شکایت کنندہ بنے گا۔ ملزمان سے بدعنوانی کی رقم کی برآمدگی کی صورت میں شکایت کنندہ کو رقم کا 20فیصد حصہ بطور انعام دیا جائے گا، جبکہ جھوٹی شکایت کرنے والے کو بھی سزا سنائی جائے گی۔ وزیراعظم کی جانب سے عوام کے لیے پورٹل اور ویب سائٹ کا افتتاح اسی مقصد کے لیے کیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ہے۔ آٹھ سو پچاس ایسے پاکستانیوں کا سراغ لگایا گیا ہے جن کی بیرون ملک جائدادیں ہیں۔ 374 افراد نے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے، جب کہ 82 پاکستانیوں نے اپنی بیرون ملک جائدادوں کی ملکیت سے انکار کیا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بیرونی ممالک سے اثاثے وطن واپس لانے کے لیے ایک یونٹ قائم کردیا ہے، چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو حکم دیا کہ کم از کم ایسے 20 لوگ عدالت میں پیش کریں جن سے عدالت یہ پوچھے کہ یہ جائدادیں کس طرح بنائیں۔ ابھی تک حکومت وہی کچھ کررہی ہے جوماضی کی حکومتیں کرتی رہی ہیں، حکومت نے دوسوبلین ڈالر کی بات کی تھی جو بیرون ملک بینکوں میں پڑے تھے۔ اب اسد عمر کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک مذاق تھا۔ لیکن وہ ایک مذاق نہیں تھا بلکہ انہوں نے قوم کو یقین دہانی کروائی تھی کہ پیسہ واپس لایا جائے گا۔ اگر یہی صورت حال رہی تو عمران خان سے جو تھوڑی بہت توقعات ہیں وہ بھی ختم ہوجائیں گی۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے پاکستان میں متعدد بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں (آئی این جی اوز) کو کام سے روکنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں تعینات مغربی ملکوں کے سفیروں کی طرف سے وزیرِاعظم عمران خان کے نام ایک خط لکھا گیا ہے، ان میں امریکہ، کینیڈا، جاپان، آسٹریلیا، ناروے، سوئٹزرلینڈ اور یورپی یونین کے سفیر شامل ہیں۔ خط میں وزیر اعظم سے بین الاقوامی امدادی تنظیموں سے متعلق واضح پالیسی اختیار کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ سفیروں نے ان تنظیموں کی رجسٹریشن کے لیے طریقہ کار پر سوال اٹھائے ہیں۔ خدشہ ہے کہ سول سوسائٹی پر پابندی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے ڈونر کمیونٹی اور کاروباری اداروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔ پاکستان نے ’ایکشن ایڈ‘ سمیت لگ بھگ 27 بین الاقوامی تنظیموں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔