موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات

پروفیسر ڈاکٹر معین الدین احمد
مشینی دور سے قبل دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ (Co2) اور آکسیجن کا ایک خاص تناسب برقرار تھا۔ قدرتی آگ، آتش فشانی عمل اور جاندار جو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے تھے، بڑی آسانی سے سبز پودے اس کو جذب کرلیتے تھے اور آکسیجن کی ایک بڑی مقدار کو خارج کرتے تھے، جو نہ صرف انسانوں اور جانوروں کی بقا کے لیے ضروری تھی بلکہ اس سے ماحول بھی صحت مند تھا، اور اوزون گیس کی شکل میں دنیا کے گرد ایک حفاظتی حصار قدرت نے بنا رکھا تھا۔ مگر جیسے جیسے انسانوں نے خود جنگلات کو جلانا شروع کیا… تاکہ زرخیز زمین کو کاشت کاری کے لیے حاصل کیا جاسکے، بستیاں بسائی جاسکیں، یا لکڑی کو تجارتی پیمانے پر استعمال کیا جاسکے… آکسیجن بنانے والی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گیس کو ٹھکانے لگانے والی ان قدرتی فیکٹریوں میں کمی آنے لگی۔ لہٰذا فضا میں صحت اور زندگی بخش گیس کی کمی اور نقصان دہ گیس کی آلودگی بڑھتی گئی۔ مشینی دور نے جہاں انسان کو ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور بنایا، وہیں اس کی اپنی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔ اوزون کے حفاظتی غلاف کی دھجیاں بکھر رہی ہیں۔ خلاء سے آنے والی خطرناک شعاعیں انسانی زندگی پر خطرناک اثرات ڈال رہی ہیں۔ اور جیسے جیسے حفاظتی غلاف کا دائرہ کم ہوتا جائے گا مزید کن اقسام کے نقصانات ہوں گے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دنیا میں ان گرین ہائوس گیسوں کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے برف کی شکل کے آبی ذخائر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور دنیا میں پانی کی کمی کا خطرہ سرپر منڈلا رہا ہے۔ دنیا سوچ رہی ہے کہ اس گلوبل وارمنگ سے ہمارے معاملاتِ زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ہمارے موسم کیسے ہوں گے؟ ہمارے جنگلات، ہمارے زرعی نظام، باغات، چراگاہوں اور فصلوں کا کیا ہوگا؟ ہم کتنے دنوں یہ کھیل، کھیل پائیں گے؟ پسندیدہ پودوں (weeds)اور فصلوں میں تعلق کس قسم کا ہوگا؟ کب فصل بوئیں گے؟ کب کاٹیں گے؟ فی الحال ابھی تک ہم صرف اور صرف اپنے خدشات کا اظہار کررہے ہیں حالانکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ موسم بدل رہے ہیں۔ بارشوں کے اوقات میں تبدیلیاں ہورہی ہیں۔ سیلاب بڑھ گئے ہیں، مگر ابھی تک ہم نے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔ صرف اور صرف مسائل کا ہی تذکرہ ہورہا ہے چاروں طرف۔ ابھی جو نظام موجود ہے وہ سینکڑوں برسوں کے انسانی مشاہدات اور اس کی نسل در نسل منتقلی کی وجہ سے ہے۔ مگر بارشوں کے نئے نظام میں ہم کیا کریں گے؟ ہم کو نہیں معلوم۔ ہمیں اس سلسلے میں ابھی سے تجربات کرنے ہوں گے، ورنہ ہماری تیار فصلیں ناگہانی بارشوں، سیلاب یا خشک سالی سے تباہ ہوتی رہیں گی۔ ہمارے قومی اور بین الاقوامی کھیلوں کے پروگرام بارشوں کی وجہ سے خراب ہوتے رہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم کو کچھ ایسے طریقے معلوم کرنے ہوں گے جو حیاتیاتی ہوں یا غیر حیاتیاتی، مگر اس سے ان زہریلی گیسوں میں کمی آسکے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ ماحول دوست اشیاء کا استعمال بڑھانا ہوگا۔ توانائی کے متبادل نظام کو اپنانا ہوگا۔ کاشت کاری میں کیمیائی اشیاء کا استعمال کم سے کم کرنا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ درختوں کو لگانا ہوگا۔ گھریلو اور صنعتی فضلہ کو زیادہ سے زیادہ دوبارہ کام کا بنانا ہوگا، اور جو Recycle کے قابل نہ ہو اس کو Inciniration کے بعد سائنسی بنیاد پر بنائی گئی Landfilسائیٹ میں ڈالنا ہوگا۔ اصل مسئلہ بڑھتی ہوئی مقدار کا ہے جو کسی طرح بھی کنٹرول میں نہیں آرہی ہے، کیونکہ کوئی بھی سادہ زندگی گزارنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ ایک ایسے ضروری زہر کی طرح ہے جو ہر حال میں پینا لازمی ہے، چاہے مستقبل قریب میں اس کے نتائج کچھ بھی نکلیں، کیونکہ نام نہاد ترقی ہی معیشت ہے۔ یہی سیاست ہے، یہی آج کی تہذیب و تمدن ہے، اور سب سے بڑھ کر یہی طاقت کا سرچشمہ ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار ایک ایسا جن ہے جس کو بوتل میں بند کرنا ضروری ہے۔ اس جن کو امریکہ میں منی سوٹا اسٹیٹ کی ایک کمپنی نے جس کا نام ’’کول مکین ٹیکنالوجی ان‘‘ ہے، واپس بوتل میں بند کردیا ہےبلکہ اس سے خدمت بھی لینا شروع کردی ہے اور اپنی ڈوبتی ہوئی کمپنی کی آمدنی میں اضافہ شروع کردیا ہے۔ اس کمپنی نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اس سے پہلے کہ کھلی فضا میں پہنچے اور ماحول کو غیر متوازن کرے، دبائو کے تحت جمع کیا اور پھر اس کو اتنا ٹھنڈا کیا کہ یہ جمے ہوئے ذرات کی شکل میں آگئی۔ پھر ان جمے ہوئے ذرات والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو لیپ ٹاپ میں استعمال ہونے والی Hard Drive کو صاف کرنے میں استعمال کیا۔ اس نے انتہائی اعلیٰ درجے کی کارکردگی دکھائی اور گندگی کے Sub micron کی سطح سے بھی کم سائز والے ذرات یا گندگی کو صاف کردیا۔ یہ ٹیکنالوجی De-lonized پانی کے مقابلے میں 50 سے 80فیصد تک لاگت بچاتی ہے۔
امریکہ میں دھات کاٹنے والی صنعت ایک سال میں 100ملین گیلن تیل استعمال کرتی ہے کیونکہ اس کو پیٹرولیم بیس Lubricant استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے بدلے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا برفیلا Lubricant استعمال کیا جاسکتا ہے جو کم خرچ بھی ہے اور غیر بدبودار بھی، اس کے ساتھ ساتھ ماحول کی آلودگی کو بھی کنٹرول کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ طریقہ ماحول دوست ہے لہٰذا منی سوٹا کے آلودگی کے محکمہ نے 100,000 ڈالر اس کمپنی کو اس لیے دیئے ہیں کہ یہ مزید تحقیق کرے اور اپنی ٹیکنالوجی کو مزید معیاری بنائے۔ اس طریقہ کار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں خارج نہیں کی جاتی، بلکہ دوسری صنعتیں جو Co2خارج کررہی ہیں ان کو یہ کمپنی اس سے پہلے کہ وہ فضا میں جائیں، حاصل کرلیتی ہے۔
یہ کمپنی 1997ء میں قائم ہوئی تھی جو مائع گیس کے دبائو والے کنٹینر بناتی تھی اور2001ء سے زبردست مالی بحران کا شکار تھی، مگر اپنے انقلابی اقدام کی بدولت منافع کی طرف جارہی ہے۔ اس کمپنی نے اس قسم کی ڈائی کلینگ مشین بنائی جو زہریلے کیمیائی مرکبات کے بجائے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو خشک دھلائی کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ان مشینوں کی مارکیٹنگ یورپ اور ایشیا میں جاری ہے۔ کمپنی اب دوسری نسل کی خشک دھلائی کی منصوبہ بندی کررہی ہے جو پہلے سے زیادہ مؤثر اور ماحول دوست ہوگی۔ پہلی مشین میں ایک خطرناک صفائی والا کیمیائی مادہ (Perchloroethy Lene) استعمال ہوتا تھا جس کو کیلی فورنیا اسٹیٹ میں ممنوع کردیا گیا تھا۔ نئی مشین ایک غیر زہریلا مائع کپڑوں کو دھونے کے لیے استعمال کرتی ہے اور پھر کاربن ڈائی آکسائیڈ مائع کو باہر نکالنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ یہ طریقہ تیز رفتار، بہتر صفائی کرنے والا اور کم خرچ بھی ہے، یعنی اس میں معیار اور لاگت دونوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس مشین کی لاگت 130,000 ڈالر ہے، یعنی تمام مشینوں کی لاگت سے 50فیصد زیادہ، مگر کیونکہ یہ تیز رفتار اور کم خرچ والی ہے لہٰذا اس کی پیداواری صلاحیت زیادہ ہے۔ 40 سے45 فارن ہائٹ پر مائع کاربن ڈائی آکسائیڈ گرم مادوں کی نسبت کپڑوں کو کم نقصان پہنچاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے اربابِ اختیار اس جانب توجہ دیں اور سہولتیں فراہم کریں۔