غربت کا خاتمہ اور حکمرانی کا منظر نامہ

پاکستان کا بنیادی نوعیت کا ایک مسئلہ انسانی ترقی کا بحران ہے۔ کیونکہ معاشرے میں ہمیں انسانوں کے تناظر میں سیاسی، سماجی، معاشی اور ترقیاتی تضاد اور تقسیم واضح اور شفاف نظر آتی ہے۔ انسانی ترقی کا ایک بحران ہمیں صنفی بنیادوں یعنی عورتوں اورکمزور طبقات تک بھی گہرا نظر آتا ہے۔ اگر ہم سرکاری اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس میں سب سے زیادہ محرومی اور تقسیم سماجی شعبوں میں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی درجہ بندی میں ہم سماجی اور انسانی ترقی کے شعبے میں بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب انسانی ترقی پر سب سے کم سرمایہ کاری ہو تو یہ کیسے ممکن ہے ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہماری ترجیحات میں انسانی ترقی کا ایجنڈا ہی نہیں، اور ہم جان بوجھ کر کمزور طبقات کو مزید کمزور رکھ کر حکمراں طبقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
2017ء میں حاصل کیے گئے اعداد وشمار کی بنیاد پر ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس(ایچ ڈی آئی)کی 2018ء کی رینکنگ میں پاکستان 189ممالک کی فہرست میں 150ویں نمبر پر ہے۔ بھارت 130ویں، بنگلہ دیش136ویں اور نیپال 149 ویں نمبر پر ہونے کے سبب ہم سے آگے ہیں، جبکہ سری لنکا 76 ویں نمبر کے ساتھ اس وقت پورے خطے کا اسٹار ہے، یا اس کو سب پر برتری حاصل ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار، صفائی، انصاف جو انسانی ترقی کو سمجھنے کے حوالے سے بنیادی کلید ہیں، اس میں ہمیں سماجی، طبقاتی بنیادوں پر خاصے تلخ حقائق دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس غیر منصفانہ ترقی کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ حقیقی ترقی سے محروم نظر آتا ہے اور اس کو لگتا ہے کہ حکمرانی کے موجودہ نظام پر اس کا کوئی حق نہیں۔ دنیا میں جو بھی حکمرانی کا نظام ہے اگر اس میں عام آدمی کا حصہ نہ ہو تو اس کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور وہ نظام اپنی اہمیت کھودیتا ہے۔
پاکستان نے یقینی طور پر مختلف شعبوں میں ترقی کی ہے۔ مگر سمجھنا یہ ہوگا کہ ہم ترقی سے کیا مراد لیتے ہیں۔ اگر ہماری ترقی کی تعریف میں انتظامی ڈھانچہ ہو تو ترقی کی ایک اور تصویر دیکھنے کو ملتی ہے، لیکن اگر ترقی سے مراد انسانی ترقی ہے تو ہمیں اپنی ترقی کے عمل میں بہت محرومی نظر آتی ہے۔ انتظامی اور تعمیراتی ترقی اہم ہوتی ہے، مگر یاد رکھیں اگر ترقی کی اس تعریف میں انسان اور بالخصوص کمزور طبقے کو اہمیت نہیں دی جائے گی تو ترقی کا عمل جہاں غیر منصفانہ اور غیر شفاف ہوگا وہیں یہ ترقی معاشرے میں محرومی، بغاوت اور ریاستی و حکومتی نظام پر عدم اعتماد کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ اس وقت معاشرے میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا جو بڑا مسئلہ نظر آتا ہے اس کی ایک وجہ ملک میں موجود محرومی کی سیاست بھی ہے جس نے لوگوں میں حکمرانی کے نظام سے لاتعلقی کے عمل کو پیدا کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی سیاست میں اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں ایک بنیادی نکتہ انسانی اور کمزور طبقات کی ترقی کا ہے۔ وہ عمومی طور پر اپنے سیاسی مخالفین پر خوب تنقید کرتے ہیں اور ان کے بقول ان کے مخالفین نے اقتدار میں آنے کے بعد نہ انسانی ترقی کی اہمیت کو سمجھا اور نہ ہی اسے کوئی فوقیت دی۔ وزیراعظم عمران خان بار بار اس نکتہ کو اجاگر کررہے ہیں، وہ بعض ممالک کی طرح پاکستان میں بھی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی غربت کو کم یا ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چین، ترکی اور بھارت کی کچھ ریاستوں کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں جنہوں نے غربت کو کم کیا ہے۔ اب عمران خان اقتدار میں ہیں۔سوال یہ ہے کہ اس تناظر میں عمران خان کی حکومت عملی طور پر کیا کچھ کرتی ہے؟ کیونکہ خواب دکھانا اور بڑے بڑے سیاسی نعروں کو جذباتی رنگ دینا آسان، اور ان پر عمل درآمد کرنا خاصا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عمران خان کی حکومت اصل امتحان گاہ میں پہنچ گئی ہے جہاں ان کے پاس غلطیوں کی کوئی گنجائش نہیں، اور ان کو سوچ سمجھ کر اور درست حکمت عملی کے تحت حکمرانی کے نظام کو مؤثر اور شفاف بنانا ہوگا۔
حال ہی میں ورلڈ بینک کی جانب سے ہیومن کیپٹل انڈیکس (ایچ سی آئی) جاری ہوا جس میں ہماری تصویر بہت خراب ہے۔ پاکستان آخری 25 فیصد ملکوں میں آتا ہے۔ بھارت دوسری اور سری لنکا تیسری چوتھائی میں آتا ہے۔ ایچ ڈی آئی کے مقابلے میں ایچ سی آئی تھوڑا سا مختلف ہے۔ یہ ان عوامل پر کچھ زیادہ توجہ دیتا ہے جو انسانی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کی ایچ ڈی آئی اور ایچ سی آئی کی اس درجہ بندی سے پتا چلتا ہے کہ ہماری ریاستی، حکومتی اور سیاسی ترجیحات خاصی مختلف ہیں اور جو چیلنج ہمیں انسانی ترقی کے حوالے سے درپیش ہیں اس کی بڑی وجہ ہماری ناقص منصوبہ بندی، عدم ترجیحات، کمزور سیاسی کمٹمنٹ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور انسانی ترقی کے کم وسائل اور ترقی کے مواقع ہیں۔ یہ جو ہم وسائل کا رونا روتے ہیں اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جو وسائل ہمارے پاس ہیںکیا ہم ان کو بہتر اور منصفانہ استعمال کررہے ہیں؟ اس کا جواب ہمیں نفی میں ملتا ہے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ہاں منصوبہ سازوں سے لے کر فیصلے کرنے والوں تک سب کی ترجیحات میںعام آدمی کی فلاح شامل نہیں۔ اوّل ان کو عام آدمی کی ترجیحات سے کوئی دلچسپی نہیں، اور دوئم وہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کررہے ہیں۔ ایسے میں ایک بڑے سماجی اور منصوبہ بندی پر مبنی آپریشن کے بغیر کوئی بھی حکومت عام آدمی کی سیاست میں سرخرو نہیں ہوسکتی۔
اگرچہ ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے غربت کو کم کرنے کے تناظر میں بڑا کام کیا ہے، مگر نتائج بہت خراب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں اگر دیکھیں تو امیری اور غریبی کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔ لوگ بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ شیر خوار بچوں کی صحت اور بچوں کی نشوونما کے حوالے سے سست روی کا عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب تک ہماری ریاست تعلیم اور صحت کے شعبے میں جی ڈی پی کا کم ازکم چار فیصد بجٹ مختص نہیں کرے گی، کچھ نہیں ہوسکے گا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد خیال تھا کہ صوبے اپنے زیادہ وسائل کی وجہ سے انسانی ترقی میں اضافے اور غربت کم کرنے پر زیادہ توجہ دیں گے، مگر صوبائی حکومتوں کی نااہلی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
ہم اپنے پڑھے لکھے اور ناخواندہ نوجوانوںکو ایسے کیا ہنر سکھا سکیں گے یا ان کے لیے ایسے کیا روزگار کے مواقع پیدا کرسکیں گے جو ان کی غربت کو کم کرسکیں۔ غربت کا خاتمہ نوجوانوں میں فنی تربیت اور صلاحیتوں سے جڑا ہے، اور اس کے بعد ریاست اور حکومت ایسے مواقع مہیا کرتی اور ماحول کو سازگار بناتی ہے جہاں وہ باعزت طریقے سے معاشی ترقی کے دھارے میں شامل ہوتے ہیں۔ قومی سطح پر نوجوانوں میں وسیع پیمانے پر شہری اور دیہی سطح پر کام کو بڑھانا ہوگا۔ فنی تعلیم کو مارکیٹ کی ضرورتوں کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ نوجوانوں کو ریاست اور حکومت پر بوجھ بنانے کے بجائے ان میں ذاتی سطح پر کام کرنے کے رجحان کو پیدا کرنا ہوگا۔ اس وقت ملک میں لوگوں کوتیار کرنا ہوگا کہ وہ خود آگے بڑھیں اور اپنے لیے ترقی کے نئے راستے تلاش کریں، اور حکومت کا کام اس صورت حال میں ایسا سازگار ماحول پیدا کرنا ہے جو نوجوان طبقے کو ترقی کے نئے راستے اور نئے مواقع پیدا کرنے میں آسانیاں پیدا کرے۔
حکومتی سطح پر جو پالیسیاں بنائی جائیں ان میں کمزور طبقات سمیت خطِ غربت سے نیچے رہ جانے والے افراد کو اپنی ترجیحات کا حصہ محض نعروں کی سطح پر نہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے بنایا جانا چاہیے۔ بجٹ، منصوبہ بندی اور عمل درآمد سمیت نگرانی کے نظام میں بڑے پیمانے پر پہلے سے موجود نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ بالخصوص مقامی نظامِ حکومت کو مضبوط بنا کر لوگوں میںشہریوں کی شمولیتکے تصور کو اجاگر کرنا ہوگا۔ نجی شعبے کو زیادہ باوقار طریقے سے مواقع دینے ہوں گے کہ آگے بڑھ کر کمزور طبقات کو بنیاد بنا کر نئے پروگرام شروع کرے۔ خواتین کو جو معاشرے کا ایک بڑا حصہ ہیں، معاشی ترقی کے عمل میں مؤثر انداز میں شامل کرنا ہوگا، اور خاص طور پر گھریلو سطح پر مقامی چھوٹی صنعت کو پیدا کرکے اس کے ساتھ ان عورتوں کو جوڑنا ہوگا۔ کیونکہ عورتوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو شاید گھر سے باہر نکل نہ سکے گی اور ان کو گھر کی سطح پر کام دینا ہوگا۔
نوجوانوں کو یہ شعور دینا ہوگا کہ حکومت پر انحصار کرنے کے بجائے وہ خود آگے بڑھ کر اپنے لیے چھوٹے پیمانے پر کام کا آغاز کریں۔ حکومت تعلیم، صحت، روزگار، ماحول اور انصاف کے نظام کو مؤثر اور شفاف بناکر اپنے قومی، سماجی اور ترقی کے اشاریے کے نظام کو قابلِ قبول بنا سکتی ہے۔ اس کے لیے غربت کے خاتمے کا عمل حکومتی ترجیحات اور منصوبہ بندی میں ایک بڑی سرجری کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ عمل روایتی اور فرسودہ طریقوں سے نہیں ہوگا، اس غیر معمولی صورت حال میں ہمارے اقدامات بھی غیر معمولی ہونے چاہئیں جو ہمیں حقیقی ترقی کی جانب پیش قدمی میں مدد فراہم کرسکیں۔