تحریک طالبان کے بانی ملّا عبدالغنی برادر کی رہائی

امارتِ الاسلامیہ افغانستان نے اپنے ایک بیان میں جہادی راہنما اور طالبان کے سابق سپریم کمانڈر ملّا محمد عمر مجاہد کے دستِ راست ملّا عبدالغنی برادر کی پاکستانی قید سے رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور مخلص مسلمانوں کی دعاؤں کی برکت سے امارتِ اسلامیہ کے سابق نائب سربراہ، شجاعت اور اخلاص کے مینار محترم ملّا برادر اخوند 9 سال قید کے بعد خیر و عافیت سے رہا ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ملّا عبدالغنی برادر نے جو ملّا برادر اخوند کے نام سے بھی مشہور ہیں، امارتِ اسلامیہ کے قیام اور امریکی جارحیت کے خلاف مزاحمت شروع کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اسی طرح روسی جارحیت کے خلاف افغان جہاد کے دوران بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
افغان صوبے اورزگان میں پیدا ہونے والے ملّا برادر اخوند کو 2003ء میں امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد نے اپنا معاون مقرر کیا تھا۔ وہ طالبان دورِ حکومت میں اہم اسٹرے ٹیجک صوبے ہرات کے گورنر رہنے کے علاوہ بطور ڈپٹی آرمی چیف بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے شیعہ اکثریت کے حامل بامیان صوبے کی فتح میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے اُس زمانے میں خوب شہرت حاصل کی تھی۔ ملا برادر نے امارتِ اسلامیہ کی قیادت کرتے ہوئے ان حالات میں قابض امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف جہاد کا علَم بلندکرتے ہوئے مزاحمتی تحریک کی قیادت کی کٹھن ذمہ داری سنبھالی تھی جب ملک بھر میں ڈیڑھ لاکھ امریکی اور نیٹو افواج اور ان کے ہزاروں افغان حامی اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کررہے تھے۔ امریکی جارحیت کا یہ وہ وقت تھا جب امریکی فوج نے جدید ہتھیاروں، جیٹ طیاروں اور جدید جنگی وسائل کے بل بوتے پر افغان عوام کے قتلِ عام اور ان پر تشدد کا آغاز کیا تھا۔ جب امارتِ اسلامیہ کے غیور مجاہدین نے قابض امریکی فورسز پر جوابی حملوں کا آغاز کیا اور ملک بھر میں ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا تو امریکی استعمار نے دیگر حربوں کے علاوہ یہ بھی کوشش شروع کی کہ کسی طرح امارتِ اسلامیہ کی قیادت کو تلاش اور گرفتار کیا جائے۔ بہت سی انٹیلی جنس کوششوں کے بعد وہ ملا برادر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہ سوچا کہ ملا برادر اخوند کو گرفتار کرنے سے ایک طرف امارتِ اسلامیہ کی قیادت میں خلا اور اس کی صفوں میں بدنظمی پیدا ہوجائے گی اور دوسری جانب امارتِ اسلامیہ کی قیادت کو دباؤ میں لاکر مختلف حربوں کے ذریعے انہیں اس بات پر مجبور کیا جا سکے گا کہ وہ ان کے ساتھ سودے بازی کریں اور جہاد کا سلسلہ ترک کردیں۔ جب کہ امریکہ جانتا نہیں تھا کہ امارتِ اسلامیہ کی قیادت سے لے کر ایک عام مجاہد تک سب اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی تمام مراعات اور عیش و عشرت کا لالچ، یا ہر قسم کی مشکلات اور تکالیف سے دوچار ہوکر بھی وہ اپنے مقدس مشن اور مؤقف سے ایک لمحے کے لیے بھی نہ تو دست بردار ہوں گے اور نہ ہی وہ کسی معاملے پر سودے بازی کے لیے تیار ہوں گے۔ اطلاعات کے مطابق 9 برس قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے دوران امریکہ نے متعدد بار ملا برادر اخوند سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان امن عمل اور مذاکرات شروع کرنے میں کردار ادا کریں۔ ان تمام حربوں اور دباؤ کے باوجود ملا برادر اخوند نے دوٹوک اور واضح جواب دیا کہ وہ عمر بھر جیل کی سزا کاٹنے کے لیے تو تیار ہیں لیکن امارتِ اسلامیہ کے اصولی مؤقف اور اعلیٰ دینی اقدار پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ دراصل ملا برادر اخوند کا یہی عزم و استقامت اور مظلوم مسلمانوں اور مجاہدین کی دعائوں کا اثر تھا کہ آخرکار وہ باعزت طور پرجیل سے رہا ہوگئے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ملاّ عبدالغنی برادر کی رہائی کی خبروں کی توثیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے بانی رہنمائوں میں شامل ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کابل کی جانب سے طویل عرصے سے کیے جانے والے مطالبے کی تکمیل ہے۔ اس رہائی کو واشنگٹن میں موجود سفارتی حلقے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کی تصدیق کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ہم ان اطلاعات سے آگاہ ہیں اور آپ کو پاکستانی حکام یا افغان حکومت سے رابطہ کرنے کے لیے کہیں گے جو طویل عرصے سے امن عمل میں شمولیت کے لیے ان کی رہائی کے خواہاں تھے۔ خیال رہے کہ چندروز قبل افغان طالبان نے ان میڈیا رپورٹس کی تصدیق کردی تھی جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی حکام نے طالبان کے سابق نائب سربراہ کو بغیر کسی شرط کے رہا کردیا ہے۔
واضح رہے کہ ملا عبدالغنی برادر نے ملا عمر کے ساتھ مل کر تحریک طالبان کی بنیاد رکھی تھی اور وہ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے سے قبل طالبان حکومت کا اہم حصہ تھے۔ انہیں فروری 2010ء میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے مشترکہ کارروائی میں کراچی سے گرفتار کیا تھا۔
یاد رہے کہ اکتوبر کے وسط میں امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان ڈاکٹر زلمے خلیل زاد کی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان سے ملاقات ہوچکی ہے جس میں افغان مسئلے کے پُرامن حل کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا گیا، جس کے بعد 2 ہفتوں سے بھی کم وقت میں طالبان رہنما کی رہائی عمل میں آئی ہے، جسے افغان امور کے ماہرین طالبان امریکہ مذاکرات کے تناظر میں ایک بڑا بریک تھرو قرار دے رہے ہیں۔ ترجمان امارتِ اسلامیہ افغانستان ذبیح اللہ مجاہد نے قطر دوحہ میں واقع امارت الاسلامیہ کے سیاسی دفتر کی معرفت ہونے والی اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے سیاسی دفتر کی مذاکراتی ٹیم کی ترکیب میں سیاسی دفتر کے سربراہ جناب الحاج شیرمحمد عباس ستانکزئی، سیاسی دفتر کے نائب جناب مولوی عبدالسلام حنفی، سیاسی دفتر کے اعضاء جناب شیخ شہاب الدین دلاور، جناب قاری دین محمد حنیف، جناب الحاج محمد زاہد احمد زئی اور جناب محمد سہیل شاہین نے امریکہ اور افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی ڈاکٹر زلمے خلیل زاد کی قیادت میں مذاکراتی ٹیم سے 12 اکتوبر 2018ء کو مملکتِ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ملاقات کی، اور جارحیت کے خاتمے اور افغان مسئلے کے پُرامن حل پر گفتگو ہوئی۔ امارتِ اسلامیہ کے نمائندوں نے مسائل کے حل اور حقیقی امن کی برقراری میں بیرونی افواج کی موجودگی کو بڑی رکاوٹ قراردیا اور کہا کہ افغانستان ایک اسلامی ملک ہے، جس کی اپنی اسلامی اقدار اور ثقافت ہے، اسے مدنظر رکھتے ہوئے حقیقی اور افغان شمول حل کے لیے جدوجہد کی جائے۔ آخر میں جانبین نے موافقہ کرلیا کہ ملاقاتوں کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔
دوسری جانب کابل میں واقع پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان نے پاکستان کے اعلیٰ حکام کے توسط سے کہا ہے کہ افغان طالبان کے اسیر رہنما ملا عبدالغنی برادر کو افغان امن عمل میں تعاون کے لیے رہا کیا گیا ہے۔ افغان میڈیا کے مطابق کابل میں پاکستانی سفارت خانے نے ملا عبدالغنی برادر کی پاکستان میں رہائی کی تصدیق کی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ایک اور طالبان کمانڈر ملا عبدالصمد ثانی کو بھی رہا کیا گیا ہے۔ سفارتی حکام نے کہا کہ ملا برادر کو افغان امن عمل میں مدد فراہم کرنے کے لیے رہا کیا گیا ہے۔ ملا عبدالغنی برادر کا شمار طالبان تحریک کے بانی رہنمائوں میں ہوتا ہے جو طالبان کے مرحوم سربراہ ملا عمر کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے۔ افغان میڈیا نے اپنے ذرائع سے بتایا ہے کہ امریکی نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے رواں ماہ دورۂ پاکستان کے دوران پاکستانی حکام سے ملا برادر کو رہا کرنے کی درخواست کی تھی۔
دریں اثناء قاری محمد یوسف احمدی ترجمان امارتِ اسلامیہ کی جانب سے جاری کردہ ایک وضاحتی بیان میں امریکہ کی جانب سے بعض طالبان راہنمائوں پر حال ہی میں عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے متعلق کہا گیاہے کہ ہمیں یہ اطلاعات ملی ہیں کہ امریکی وزارتِ خزانہ اور چند عرب ممالک نے امارت اسلامیہ کے چند رہنماؤں پر معاشی پابندیاں لگا دی ہیں۔ امارت اسلامیہ کے مذکورہ رہنماؤں میں سے کسی کا بھی امریکہ کے ساتھ کوئی معاشی معاملہ نہیں ہے، اس لیے یہ پابندیاں نمائشی اور بے اثر ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس طرزعمل سے امریکہ افغان تنازعے کو گفتگو، افہام وتفہیم اور تعقل کے ذریعے حل کرنا نہیں چاہتا، بلکہ طاقت اور دباؤ کے آپشن کو استعمال کررہا ہے، جس کا نتیجہ گزشتہ سترہ برسوں میں صفر رہا، اور یا امریکی حکومت کے اندر گہرے اختلافات موجود ہیں اور چند عناصر نہیں چاہتے کہ افغان مسئلہ حل کی جانب بڑھے۔ اسی طرح وہ عرب ممالک جو امریکہ کے ساتھ اس اقدام میں شریک ہیں، انہیں چاہیے کہ امریکی اشارے پر اسلامی ممالک اور مسلمان اشخاص پر پابندیاں نہ لگائیں۔ افغانستان ایک خودمختار اور آزاد ملک ہے، یہاں کے باشندے بھی حریت پسند ہیں، وہ اپنی آزادی اور حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور امریکہ کو اس امر پر مجبور کیا جائے گا کہ ہمارے ملک کے حقائق کو تسلیم کرے اور اپنی ناجائز جنگ، پابندیوں اور ظالمانہ اعمال کا خاتمہ کرے۔ راہِ حل کا واحد طریقہ یہ ہے کہ افہام وتفہیم، تعقل اور حقائق کو تسلیم کیا جائے، اگر امریکہ اس کے سوا دیگر طریقوں پر غور کررہا ہے، تو مستقبل کے برے انجام کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوگی۔
اس تمام تر صورت حال بالخصوص ملا عبدالغنی برادرکی اچانک رہائی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سوالات کا جواب ضرور تلاش کیا جانا چاہیے کہ آخر وہ کم سے کم نکات کون سے ہوں گے جن پر اتفاق کی صورت میں امریکہ اور طالبان کسی حتمی مفاہمت پر پہنچ پائیں گے۔ کیا ایسی کوئی مفاہمت افغان حکومت خاص کر شمالی اتحاد کے بااثرگروپ کو قبول ہوگی جس میں طالبان کے وجود اور ان کے سیاسی کردار کو تسلیم کرنے کے امکانات ہوں گے؟ اسی طرح طالبان جن پر پاکستان کا کنٹرول تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور جن کے بارے میں خود افغان حکومت اور امریکی انٹیلی جنس ادارے یہ رپورٹ دے چکے ہیں کہ ان کو ایران اور روس کی جانب سےمددمل رہی ہے، ایسے میں ایک سابق طالبان راہنما کی رہائی طالبان کو امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کی میزپر بٹھانے میں کیوں کر اور کس حد تک معاون ثابت ہوسکے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کیے بغیر امریکہ طالبان مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے کم از کم اس اسٹیج پر قائم کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔