تحریک انصاف کو اقتدار میں آئے ہوئے اتنے دن نہیں ہوئے جتنے مسائل اور مشکلات اُس کے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں۔ ہر روز کوئی مسئلہ، ہر روز کوئی مصیبت، ہر روز کوئی پریشانی۔ اگرچہ ان میں سے زیادہ مشکلات اور پریشانیاں معمولی نوعیت کی ہیں، لیکن بے تدبیری بلکہ بدتدبیری کے باعث یہ سنگین ہورہی ہیں۔ حکومت کی سنگین اور خوفناک نوعیت کی مشکلات بھی کچھ کم نہیں ہیں، لیکن وہ چھوٹی چھوٹی مشکلات ہی سے نکل نہیں پارہی۔ چھوٹی چھوٹی مشکلات زیادہ تر اس کی اپنی پیدا کردہ ہیں، اور ان کو حل کرنے میں جس جلد بازی، بے عقلی اور ناتجربہ کاری کا مظاہرہ ہوا ہے اس نے حکومتی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے زیادہ کردیا ہے۔ بہرحال مشکلات بڑی ہوں یا چھوٹی، ان کا حل اب حکومت کی ذمے داری ہے۔ اب نہ تو حکومت پچھلی حکومتوں پر ذمے داری ڈال کر بری الذمہ ہوسکتی ہے، اور نہ نعرے لگا کر اور چکنی چپڑی تقریریں کرکے عوام کو بہلا سکتی ہے۔ اُسے کچھ کرنا ہوگا، بلکہ سب کچھ اسے ہی کرنا ہوگا۔ حکومت اور حکمران جماعت کے اندرونی حلقے ان مشکلات کا اعتراف کرتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ بہت سی مشکلات سے بآسانی بچا جاسکتا تھا لیکن اقتدار کے زعم اور مینڈیٹ کے نشے میں وہی کچھ کیا گیا جو سابقہ حکومتیں کرتی رہی ہیں۔ پارٹی اور حکومت کے سنجیدہ طبقے صرف اس امید پر بہتری کے خواہاں ہیں کہ وزیراعظم چونکہ خود نیک نیت ہیں، حالات کی بہتری کے لیے اُن میں بڑا جذبہ موجود ہے اس لیے حالات آخرکار بہتر ہوجائیں گے۔ اُن کا ماننا ہے کہ اگر اوپر دیانت دار اور ذمے داری کا احساس رکھنے والا موجود ہو تو نیچے سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جب وزیراعظم خود کاروبار نہ کرے، کمیشن اور کک بیکس نہ لے، اپنے اور اپنے خاندان کے لیے غیر ضروری سہولتیں نہ لے، تو نیچے کا عملہ یہ سب کچھ کس طرح کرسکتا ہے! بظاہر اس مؤقف میں خاصی جان نظر آتی ہے اور خود وزیراعظم عمران خان بار بار یہی کچھ کہتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس معاملے میں مختلف شخصیات اور ممالک کی مثالیں بھی ایسی ہی دی ہیں جن سے ان کے اس مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اوپر کے ایک شخص کے صحیح ہونے سے پورا ملک صحیح ہوسکتا ہے؟ اور کیا کرپشن، کام چوری اور ہیرا پھیری میں گھٹنوں تک دھنسا ہوا پورا نظام محض ایک اچھے شخص کے آجانے سے یکدم درست ہوسکتا ہے؟ یہ لوگ یہ بات بھول رہے ہیں کہ پاکستان میں عمران خان پہلے دیانت دار حکمران نہیں ہیں، ان سے پہلے بھی دیانت داری کے حوالے سے مثال کا درجہ رکھنے والے حکمران رہے ہیں، لیکن ہم ہر روز کرپشن اور خرابی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے ہیں۔ قائداعظم سے زیادہ دیانت دار شخص اس صدی میں کون ہے؟ نہ صرف دیانت داری میں وہ اپنی مثال آپ تھے بلکہ مسلمانانِِ برصغیر اور باشندگانِ پاکستان کے مقبول ترین اور غیر متنازع لیڈر تھے۔ یہی نہیں وہ انتہائی معاملہ فہم، بااصول اور ڈٹ جانے والے شخص بھی تھے۔ ان کی ٹیم بھی اعلیٰ درجے کی تھی اور قائد کا ویژن بھی دوررس اور عالمگیریت پر مبنی تھا۔ لیکن کیا اُس دور میں کرپشن، ہیراپھیری اور بے ضابطگیاں موجود نہیں تھیں؟ حالانکہ پاکستان کے عوام نے آگ اور خون کا دریا عبور کرکے یہ ملک حاصل کیا تھا، اُس وقت جذبہ بھی تازہ تھا، لیکن کیا اُسی دور میں بڑے پیمانے پر جعلی کلیموں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا، جو ایک عرصے تک جاری رہا۔ اور بہت سے لوگ پاکستان میں منظم جرائم کی پہلی باقاعدہ شکل اسی بوگس کلیم بازی کو قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان اس قدر بااصول تھے کہ اُن کے بچے سرکاری گاڑی پر اسکول نہیں جاسکتے تھے۔ اُن کی جدی پشتی جائداد بلکہ جاگیر بھارت کے چار اضلاع میں پھیلی ہوئی تھی، انہوں نے نہ صرف کوئی کلیم داخل نہیں کیا بلکہ جب شہادت پائی تو اُن کے جسم پر پھٹی ہوئی بنیان اور بینک میں 34 روپے تھے۔ لیکن ان کے دور میں نہ صرف لوگوں نے لاکھوں کی جائدادیں بنائیں بلکہ افسر اور اہلکار بھی دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹتے رہے۔ اسکندر مرزا ملک کے ایسے صدر تھے جب انہیں ہٹایا گیا تو انہوں نے باقی زندگی انگلستان میں ایک ہوٹل میں منیجر کی نوکری کرکے گزاری، حالانکہ وہ بنگال کے نوابوں میں شامل تھے، لیکن ان کے دور میں کرپشن کی کئی نئی اقسام ایجاد ہوگئیں۔ وزیراعظم چودھری محمد علی بھی ایسے ہی پاک صاف آدمی تھے، لیکن اُن کے دور میں بھی ہر قسم کی کرپشن اور خرابی موجود رہی۔ شاید صرف اُس کی مقدار قابلِ برداشت تھی۔ صدر ایوب خان اور ضیا الحق کے ادوار کا بھی یہی حال تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو پر بھی کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا، وہ مقبول لیڈر اور معاملہ فہم انسان تھے۔ لیکن خلافِ ضابطہ تقرریاں اور تبادلے، قومیائی گئی صنعتوں میں لوٹ مار، اور کچی آبادیوں کے نام پر کھلی غنڈہ گردی اور کرپشن عروج پر پہنچی۔ صدر ضیا الحق کے دور میں منشیات مافیاز وجود میں آگئے، حالانکہ یہ سارے حکمران کرپشن کے الزام سے عاری تھے۔ یہی حال مختلف محکمہ جات کا ہے۔ آپ کی عدلیہ کے کسی بھی سربراہ پر کرپشن کا الزام نہیں۔ ان میں کئی تہجد گزار بھی تھے، لیکن ان کی ناک کے نیچے عدالتی عملہ تاریخ دینے، نقل فراہم کرنے اور اسی طرح کے چھوٹے بڑے کاموں کے لیے روزانہ لاکھوں روپے کی رشوت سمیٹ کر گھر جاتا رہا۔ یہ عملہ رشوت لے کر فیصلوں پر بھی کسی نہ کسی انداز میں اثرانداز ہوتا رہا۔ ڈپٹی کمشنر ضلع کا مالک ہوتا ہے، وہ چاہے سیاہ کرے یا سفید، کوئی اسے چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ اس ملک میں ایسے ڈپٹی کمشنر موجود تھے جو سائیکل پر دفتر آتے اور ٹفن میں دوپہر کا کھانا لاتے تھے، مگر اُن کے نیچے نہ صرف اُن کا اپنا دفتری عملہ بلکہ پورے ضلع کے محکموں نے اندھی مچائے رکھی۔ اس ملک میں ایک نہیں درجنوں دیانت دار اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری اور درجنوں بااصول چیف سیکرٹری رہے لیکن ان کی ناک کے نیچے یہ کرپشن ہوتی رہی اور ملک دہائیاں دیتا رہا۔ اس ملک میں ایسے ایسے وائس چانسلرز اور تعلیمی بورڈز کے سربراہان رہے ہیں جن کے دامن پر نمازیں پڑھی جاسکتی تھیں، لیکن اُن کے اپنے محکموں میں جعلی ڈگریاں، امتحانات میں اندھیر نگری، نقل کرانے کا منظم کاروبار اور دوسری خرابیوں کا راج رہا۔ اس ملک میں ترقیاتی اداروں کے کئی سربراہ ایسے آئے ہیں کہ جن کے پاس پوری پوری کالونیاں الاٹ کرنے کا اختیار تھا، مگر اُن کے جنازے چند مرلے کے مکان سے اُٹھے۔ مگر اُن کی ماتحتی میں کام کرنے والے کلرکوں اور چھوٹے افسروں کے گھر کنالوں پر محیط تھے۔ اس ملک میں ایسے ایسے کلکٹر اور ڈپٹی کلکٹر کسٹمز رہے ہیں جن کی پاک دامنی کی قسم اُن کے مخالفین بھی کھاتے ہیں، لیکن اُن کا ماتحت عملہ اُن کی ناک کے نیچے کروڑوں روپے کی رشوت روزانہ لیتا رہا اور خلقِ خدا کو خون کے آنسو رلاتا رہا۔ یہاں مختلف اتھارٹیز اور کارپوریشنوں کے ایسے ایسے چیئرمین آئے جو دن میں سات آٹھ نمازیں پڑھتے اور اپنا بیشتر وقت تبلیغی چلوں میں گزارتے تھے، مگر اُن کے محکموں میں کرپشن، ظلم اور زیادتی ایسی تھی کہ توبہ بھلی۔ اس ملک میں سیکریٹری کی سطح کے ایسے لوگ موجود تھے جو ریٹائر ہوئے تو ان کے پاس نہ اپنا گھر تھا نہ گاڑی، مگر ان کے ماتحت دنیا کے مہنگے ترین ممالک میں عیاشیاں کرتے پھرتے تھے۔ اسی ملک میں ایسے صحافی موجود ہیں جن کو لوگ دیانت داری کا چلتا پھرتا نمونہ کہتے ہیں اور یہ بڑے صحافتی عہدوں پر بھی رہے، لیکن ان کے نیچے صحافت لفافہ جرنلزم میں ڈھلتی رہی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو ایسے سیاست دان تھے جنہوں نے کرپشن کے الزام میں اپنے تین وزیروں کو فارغ کیا لیکن کرپشن نہ رکی۔
اس ساری کتھا کا مقصد یہ ہے کہ صرف اوپر سے بہتر اور دیانت دار آدمی کے آنے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے موجودہ نظام میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ احتساب کے عمل کو سخت اور بلاامتیاز بنانا ہوگا۔ قوم کے آئیڈیلز پیسے کی بنیاد پر نہیں علم اور دیانت کی بنیاد پر آئیڈیل کے مقام پر بٹھانا ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے دفتری، عدالتی اور احتسابی نظام میں مظلوم کی دادرسی کی گنجائش کم اور ظالم اور کرپٹ کے بچائو کے راستے زیادہ موجود ہیں۔ پھر اوپر بہتر آدمی کے آنے سے کیا ہوگا، جب ہر عمران خان کے پیچھے جہانگیر ترین، علیم خان، احسن جمیل گجر اور اعظم سواتی موجود ہوں گے تو کوئی بہتری نہیں آسکے گی۔