یہ زمینی حقیقت ہے کہ انسان کا دل ودماغ حقیقت کم پسند کرتا ہے اور فکشن (تخیلات، مفروضات) کے فریب میں زیادہ رہتا ہے۔ یہی خودفریبی بیسویں صدی کی عالمی اشرافیہ پر طاری رہی۔ لندن، نیویارک، ماسکو، برلن، اور جنیوا میں بیٹھ کر یہ باورکیا گیا کہ غیر مغربی دنیا میں تیسرے درجے کے انسان بستے ہیں، جن کی کوئی تہذیب، کوئی شناخت نہیں۔ ان کا کوئی ماضی، کوئی مستقبل نہیں۔
اس اشرافیہ نے ایک کہانی گھڑی۔ یہ سہ قطبی کہانی فاشزم، کمیونزم اور لبرلزم کی کشاکش پرمبنی تھی۔ 1945ء تک فاشزم کروڑوں انسانی زندگیوں کو روندتی ہوئی خاک و خون ہوگئی۔ 1960ء کی دہائی سے یہ کہانی دوقطبی ہوگئی۔ 1991ء تک کمیونزم کی خودفریبی خس و خاشاک ہوگئی۔ اب دنیا یک قطبی کہلائی جانے لگی۔ مغربی دانشور فرانسس فوکویاما نے تاریخ کی تکمیل کا دعوٰی کیا۔ غرض یک قطبی دنیا بلا روک ٹوک لبرلزم کی عالمگیریت کے لیے پُراعتماد نظر آئی۔
کئی ملکوں کی آزادی کا اہتمام کیا گیا۔ 1992-93ء سے اکیسویں صدی کے اوائل تک عراق، افغانستان، شام، یمن، الجزائر، اوردیگرکئی کمزور ریاستوں میں لبرلزم کی اقدار نے فسطائیت کی بدترین صورت اختیارکرلی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، یہ یقین پختہ ہوتا چلا گیا کہ فاشزم، کمیونزم اورلبرلزم اصل میں تینوں ایک ہی فلسفۂ حیات کی مختلف صورتیں ہیں۔ 2008ء کی معاشی کساد بازاری تک لبرلز یہ تسلیم کرچکے تھے کہ دنیا اب یک قطبی نہ رہی تھی۔ لبرلزم اور آزاد منڈی کی عالمگیریت کو شدید دھچکے لگے تھے، یہ سرحدوں سے آگے نہ بڑھ سکی تھیں۔ کمیونسٹ چین کی آزاد تجارت نے عالمی منڈی میں ہلچل مچادی۔ 2016ء میں برطانیہ نے معاشی بقاکے لیے یورپ سے ہی نظریں پھیر لیں، بریگزٹ پر رائے شماری ہوئی۔ یورپی یونین کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ گئے۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر چن لیا گیا، جس نے امریکہ کا لبرل تشخص مجروح کردیا، کثیرالثقافتی اقدار کچل دیں، اور تارکین وطن کے لیے سرحدیں بند کردیں۔ وہ امریکہ جو بندوق کی نوک پر لیبیا، عراق اورشام سمیت کئی خطے آزاد کروانے نکلا تھا، اب کہنے لگا کہ واشنگٹن نے لبرل اقدار کی عالمگیریت کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔ امریکہ میں چین اور ترکی کی درآمدات پر بھاری محصولات عائد کیے گئے۔ پروٹیکشنزم (تحفظِ تجارت) کی پالیسی اپنائی گئی۔
صورتِ حال یہ ہوچکی کہ یک قطبی لبرل آرڈر زیرو پر آچکا ہے۔ دنیا نان پولر عہد سے گزر رہی ہے۔ اسرائیلی مؤرخ اور دانشورYuval Noah Harari نے کتاب 21 ”lessons for the 21st centuryاکیسویں صدی کے لیے 21سبق“کے باب The end of history has been abandoned میں اس حیرت کا اظہار یوں کیا ہے: ’’لبرلز یہ بات بالکل نہیں سمجھ پارہے کہ تاریخ کس طرح طے شدہ راستے سے انحراف کرگئی۔ اس تلخ حقیقت کی کوئی توجیح وہ بیان نہیں کرسکتے۔ Infotech اور Biotech کے جڑواں انقلاب نے نہ صرف معاشرے اور معیشتوں بلکہ دماغوں اور جسموں کو بھی جکڑلیا ہے۔ ہمارے اندر کی دنیا میں انجانی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، جن کے نتائج سے ہم بے خبر ہیں۔‘‘
یہاں بیسویں صدی کے اہم جرمن سوشل سائیکالوجسٹ ایرک فرام کے مضمون Man- Wolf or Sheep سے چند جملے مغرب کی موجودہ کیفیت ظاہرکرتے ہیں:
’’دراصل بات یہ ہے کہ ہمارا صنعتی نظم اور تہذیب توانا زندگی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ زندگی کی جانب ہمارا رویہ مشینی اور مکینکل بنادیا گیا ہے۔ ہمارا بنیادی فعل اشیا کی پیداوار تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ انسان اس نظام میں ’شے‘ بن کر رہ گیا ہے… انسان کوئی بے جان جامد شے نہیں۔ جس دن ہم اسے ایسا بنادیتے ہیں وہ مرجاتا ہے، وہ مایوسی کی تاریک وادیوں کا مسافر بن جاتا ہے۔ اسے زندگی سے نفرت ہوجاتی ہے۔ وہ اس کی حیات بخش پیشکش ٹھکرا دیتا ہے اور ہر قسم کی زندگی کو ختم کرنا چاہتا ہے… ہمیں توجہات کا رخ مشینی آلات پر مرکوز کرنے کے بجائے انسانوں کی فلاح کی جانب موڑنا ہوگا۔‘‘
ایرک فرام کا یہ شکوہ صنعتی عہد کے لیے تھا، جبکہ آج بائیوٹیک اور انفوٹیک کی دنیا ہے، جہاں انسانی جسم و دماغ کی باریکیوں میں جاکر تبدیلیاں رونما کی جارہی ہیں۔ انسانی جین میں ترامیم کی جارہی ہیں۔ بائیوٹیک نے ڈی این اے پرگویا حملہ کردیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تباہ کن کارگزاریوں نے ماحولیات پر جان لیوا اثرات مرتب کیے ہیں۔ زندگی کے لیے زمین کا ماحول مسلسل ناموافق ہورہا ہے۔ جدیدیت اور سائنس پرستی کے مہلک اثرات نہ صرف مہیب ہیں بلکہ نامعلوم ہیں۔ ہرگزرتا حادثہ چونکا دینے والی خبریں سامنے لارہا ہے۔ سب سے اہم ترین بحران’لاتعلقی‘ کا ہے۔ بہت سے لوگوں کا اجتماع بھی تنہائی سے دوچار ہے، سب اپنے اپنے اسمارٹ فون کی اسکرین میں کھوئے ہوئے ہیں، کوئی کسی سے ہم کلام نہیں۔ انسانی صفات تکنیکی خصوصیات میں ڈھل رہی ہیں۔ لاتعلقی کا یہ بحران طرزِ زندگی، تہذیب، عقیدے اور نظریۂ حیات پر آچکا ہے۔ مغرب اور مغرب زدہ لوگ لاتعلقی کی وبا میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اس نظریاتی خلاکی بنیادی وجہ لبرل اقدار کی ناکامیاں ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط ہی سے مابعد جدیدیت کی صورت میں یہ لاتعلقی اور یاسیت مغربی ادب و فلسفے میں نمایاں ہوچکی تھی، جس نے اکیسویں صدی میں وبائی صورت اختیار کرلی ہے۔ لبرلزم میں اصلاحات کے لیے تگ و دوکی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں معروف جریدے دی اکانومسٹ نے تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ غرض انتہائی بے یقینی کا ماحول ہے۔ لبرلزم کی مرکزیت ختم ہوچکی ہے، یہ کمیونسٹ اور دیگر غیرلبرل نظاموں میں منتشر ہوچکی ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی لبرل آرڈر سے خوش ہے، مگر داخلی طور پر کمیونسٹ ون پارٹی ڈھانچے پر مستحکم ہے۔ لبرلزم کے علَم بردار امریکہ اور یورپ میں منڈیوں کی حد بندیاں کی جارہی ہیں اور تارکین وطن پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔ مغربی بیانیہ پھر قومی ریاستوں کی تاریخ دہرا رہا ہے۔ مغرب نے لبرلزم کی عالمگیریت سے معذرت کرلی ہے، کیونکہ یہ اس کی اہلیت نہیں۔ اس نااہلیت کی جڑیں مال پرستی، ظاہر پرستی، سائنس پرستی اورانسان پرستی میں ہیں۔ یہی وہ مجموعی جاہلیت ہے، استاذ سید مودودیؒ نے نصف صدی پیچھے جس کی نشاندہی کردی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ نان پولر دنیا کے بحران میں لاتعلق مغرب زدگان کیا کریں۔ گمراہ کن اصطلاحوں میں ’’ترقی‘‘ سب سے زیادہ قابلِ اصلاح ہے، اس کی درست تعبیر درپیش سوال کے لیے نسخۂ کیمیا ہوسکتی ہے۔ یہ راکٹ سائنس نہیں ہے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انسان کی ترقی نفسِ اطمینان میں ہے، اس نفسِ اطمینان کا کوئی تعلق لبرلزم کی لاتعلقی سے نہیں ہے۔ حرص و طمع میں جکڑی انسانی دنیا کی فلاح صرف اسی ہستی رحمن کی بندگی میں ہے، جو انسانی عقل و فہم کا خالق بھی ہے، اور مالک بھی ہے۔