۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے
بعد مسلمانوں کی حالتِ زار
ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد صلیبی سوچ کے مالک فرنگی حکمراں پورے ہندوستان کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔ انگریزوں کے لیے ہندو کبھی مسئلہ نہیں بنے، وہ جلد ہی اپنی ایک ہزار سالہ غلامانہ خو کی وجہ سے نئے آقا کی چھڑی تلے آگئے۔ نئے آقا اور صدیوں کے تجربہ کار غلام میں سمجھوتا ہوگیا۔ تعلیمی اداروں اور دفتروں میں فارسی زبان ختم کردی گئی۔ انگریزی زبان رائج کردی گئی۔ ہندوؤں نے اردو اور مسلمان دشمنی میں انگریز اور انگریزی کا ساتھ دیا اور ذہنی آمادگی اور انگریزوں کی شہہ پر انھوں نے تعلیم بدیسی زبان میں حاصل کرنا شروع کردی اور سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں انگریزی کے نفاذ میں سامراجی حکمرانوں کی مدد اور تعاون کیا۔ رفتہ رفتہ وہ تعلیم‘ تجارت‘ صنعت اور سرکاری دفتروں میں چھاگئے اور مسلمان جن کو حکمراں اپنا دشمن سمجھتے تھے، بہت پیچھے رہ گئے کیونکہ انگریزوں نے ان ہی سے اقتدار چھینا تھا۔ ہندو قوم پہلے ہی صدیوں سے اکثریت میں ہونے کے باوجود اقتدار میں نہیں تھی، اب مسلمانوں کی دشمنی میں انگریزوں کے ساتھ مل کر ہر جگہ مسلمانوں کا استحصال کرنے لگی۔ مسلمانوں کو جو آٹھ سو سال کی حکمرانی کے بعد اس سے محروم ہوگئے تھے، سخت جھٹکا لگا۔ کیونکہ انھوں نے صدیوں سے غلامی کا مزا نہیں چکھا تھا لہٰذا وہ نہ صرف سرکش رہے بلکہ انگریزی کے خلاف ذہنی تحفظات کے حامل رہے۔ متعصب انگریز حکمرانوں نے مسلمانوں کی درسگاہوں‘ صنعت و حرفت اور تجارت سب کو پامال کرڈالا اور اسلامی ثقافت کو ختم کرکے فرنگی ثقافت‘ تعلیمات اور زبان کی ترویج شروع کردی۔ اس دوران ہندوؤں نے ہر شعبہ زندگی میں انگریزوں کی شہہ پر مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا اور انھیں بہت پیچھے دھکیل دیا، بلکہ کتنے ہی شعبوں سے ان کا صفایا کردیا۔ مسلمانوں کے تجارتی مراکز اور صنعت وحرفت کا خاتمہ کرکے تجارتی منڈیاں اپنے قبضے میں کرلیں اور فرنگیوں نے ہندوستان سے برآمدات اور خصوصاً مسلمانوں کی مصنوعات کی برآمد ختم کرکے ہندوستان کو خام مال کی برآمدی اور انگریزی مصنوعات کی درآمدی منڈیوں میں تبدیل کردیا۔
برطانوی راج میں تعزیراتِ ہند کا نفاذ
سلطنتِ مغلیہ کے سیکولر دور میں بھی متھرا کے راجا کو عدلیہ نے توہینِ رسالت کا مجرم گردان کر موت کی سزا سنائی اور مغل بادشاہ کے شدید دباؤ کے باوجود اس پر عمل درآمد ہوا۔ سلطنتِ مغلیہ کے سقوط کے بعد جب برعظیم ہندوستان میں برطانوی راج مسلط ہوگیا تو ۱۸۶۰ء میں گورنر جنرل ہند کی منظوری سے تعزیراتِ ہند (The Indian Penal Code)کو نافذ العمل کردیا گیا۔ اس سے پہلے سارے اسلامی ہندوستان (سلطنت مغلیہ) میں اسلامی قانون نافذ تھا۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات کے فیصلے قرآن و سنت اور فقہ کی روشنی میں صادر ہوتے تھے۔
تعزیراتِ ہند کی تدوین لارڈ میکالے کی سربراہی میں تشکیل شدہ کمیشن نے نپولین کوڈ کو سامنے رکھ کر کی تھی اور اس بارے میں انگریزی قوانین اور خاص طور پر انتظامی مصلحتوں کو پیش نظر رکھا گیا تھا۔ انگلستان میں اُس وقت بھی قانونِ توہینِ مسیح بطور عام قانون (Common Law) موجود تھا اور آج بھی (Blasphemy) انگلستان کے مجموعہ قوانین میں موجود ہے۔
متعصب برہمن ہندوؤں نے مسلمان اور اسلام دشمنی اور آٹھ سو سالہ غلامی کا بدلہ لینے کی خاطر فضا کو مسلمانوں کے خلاف مزید خراب کرنے اور مسلمانوں کے خلاف حکمرانوں کے ذہنوں میں نفرت پھیلانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔
تحریک شاتمینِ رسول
اسلامی شعائر اور اکابرین کے خلاف مہم شروع کی گئی۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع کے تین عشروں میں ہندوؤں کی طرف سے اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ہرزہ سرائی اور توہینِ رسالت کے متعدد واقعات پیش آئے۔ ہندو فرنگی گٹھ جوڑ نے منظم انداز میں عاشقانِ رسولؐ یعنی مسلمانوں کے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق اور حد درجہ وارفتگی اور فدائی جذبے کو گہری نیند سلانے اور ختم کرنے کے لیے متعدد حربے اور نسخے آزمائے۔ ان میں سب سے مکروہ اور قابلِ مذمت ہتھکنڈہ اہانت اور توہینِ رسالت کا حربہ تھا جو عاشقان اور فدایانِ رسولؐ کی اپنے پیارے حبیبِ خدا اور رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت‘ عقیدت اور غیرتِ ایمانی کے لیے سب سے کڑا امتحان تھا۔ توہینِ رسالت کے واقعات ہندوؤں کی پیدا کردہ شدھی اور سنگٹھن تحریکوں کا حصہ تھے جن کا مقصد مسلمانوں کو ہندومت کی طرف مائل کرنا اور انھیں زبردستی ہندو بنانا تھا۔
آریہ سماج کے سوامی دیانند کی دل آزار کتاب ’’سیتارتھ پرکاش‘‘ کی اشاعت
۱۸۷۵ء میں پنڈت دیانند کی دل آزار کتاب ’’سیتارتھ پرکاش‘‘ پہلی بار بنارس میں شائع ہوئی۔ قادیانیوں کے بانی مرزا غلام احمد نے اس کتاب کے شائع ہوتے ہی کتاب ہذا کے مصنف اور ہندوئوں کے دوسرے رہنماؤں کو چیلنج کیا کہ جو کتاب مَیں (مرزا غلام احمد) لکھنے والا ہوں اگر ہندو اور سوامی دیانند مجھے اس کا جواب دیں تو میں انھیں دس ہزار روپے انعام دوں گا۔ مرزا غلام احمد نے اپنی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کا سلسلہ شائع کرنا شروع کردیا جس میں ہندودھرم‘ وید‘ آریہ سماج اور پنڈت دیانند پر اعتراضات کیے گئے اور الزامات لگائے گئے۔ اکتوبر ۱۸۸۳ء میں پنڈت دیانند کی موت واقع ہوگئی اور اگلے سال مرزا غلام احمد قادیانی نے براہین احمدیہ کی چوتھی جلد شائع کردی جس میں پنڈت دیانند کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا تھا۔ اسی سال یعنی ۱۸۸۴ء کے آخر میں سیتارتھ پرکاش کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا۔ اس میں دو ابواب کا اضافہ کیا گیا جن میں رسول اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر براہِ راست حملے کیے گئے جن کی وجہ سے ہندوستان بھر میں مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور کتاب کے خلاف پورے ہندوستان میں احتجاجی مظاہرے اور جلسے ہوئے اور جلوس نکالے گئے، اور حکومت سے کتاب ضبط کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
برطانیہ کے خلاف جرم بغاوت کی سزا
۱۸۹۸ء میں دفعہ ۱۲۴ الف تعزیراتِ ہند میں شامل کی گئی جسے جرم بغاوت قرار دے کر اس کی سزا عمر قید مقرر کی گئی۔ اسی سال ۱۸۹۸ء میں دفعہ ۱۲۴ الف کے ساتھ ہی ایک مزید دفعہ ۱۵۳ الف کا بھی اضافہ کیا گیا تاکہ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی وجہ سے ملک میں جو فتنہ اور فساد پیدا ہو، اس کا سدباب کیا جائے اور حکومت ان خطرات سے محفوظ رہ سکے۔ اس دفعہ کے تحت تقریر‘ تحریر، اشاروں یا کسی اور طریقے سے ہندوستان میں شاہِ برطانیہ کی رعایا کی مختلف جماعتوں میں دشمنی یا منافرت کے جذبات ابھارنے یا بھڑکانے والے شخص کو دو سال قید تک سزا یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی تھی۔ شاتمینِ رسول کے خلاف بھی مقدمات اسی دفعہ ۱۵۲ کے تحت قائم کیے گئے۔
۱۸۹۹ ء میں شریمتی آریہ پرتی ندھی سبھا نے اس دل آزار کتاب کا ایک اور ایڈیشن شائع کیا اور اسلام دشمنی کا بھرپور وار کیا۔
یکم نومبر ۱۹۲۷ء کو لاہور کے راجپال پبلشر نے اس کا آخری ایڈیشن شائع کیا، اس کے چودھویں باب میں صفحہ ۷۰۷ سے ۷۸۱ تک قرآنی سورتوں کے بارے میں بے حد ہرزہ سرائی کی گئی۔
ان ہی دنوں ایک کتاب بعنوان ’’انیسویں صدی کا مہارشی دیانند‘‘ شائع ہوئی، جسے قاسم علی (مرزائی) نے تحریر کیا تھا۔ اس پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین کشیدگی مزید بڑھ گئی اور دونوں قومیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہوگئیں۔
راجپال کی اسلام اور بانیٔ اسلام دشمن سرگرمیاں
ہندوؤں کی طرف سے آریہ سماج کے لیڈر پنڈت چمیو پتی لال ایم اے پروفیسر ڈی اے وی کالج لاہور کے فرضی نام سے سوامی دیانند کے ایک چیلے مہاشے کرشن (ایڈیٹر پرتاب لاہور) نے رسوائے زمانہ (نعوذ باللہ) رنگیلا رسول نامی کتاب تحریر کی جسے لاہور کے ناشر مہاشے راجپال نے شائع کیا اور مصنف کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔ اس انتہائی دل آزار کتاب میں گستاخِ رسول نے قرآن و حدیث اور پیغمبر اسلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں دریدہ دہنی سے انتہائی دل آزار گستاخیاں کی تھیں۔
راجپال نے جو آریہ سماج تحریک اور اسلام کے خلاف اور اسلامی شعائر اور اکابرین کی توہین کی منظم مہم کے منصوبے کا روح رواں تھا، اس سے پہلے سیتارتھ پرکاش کے آخری ایڈیشن میں جسے اس نے یکم نومبر ۱۹۲۷ء کو لاہور سے راجپال پبلشرز کی طرف سے شائع کیا تھا، اس کتاب کے دیباچے میں لکھا تھا کہ ’’اس کتاب کی قیمت پہلے دو روپے تھی، پھر میں نے ڈیڑھ روپے کردی۔ پچھلے ساتویں ایڈیشن کی قیمت پرچار کی خاطر چودہ آنے (پہلے ایک روپے میں سولہ آنے اور ایک آنے میں چارپیسے ہوتے تھے) یعنی ایک روپے سے بھی کم کردی گئی تھی۔ اب اس کتاب کے خلاف جو ایجی ٹیشن ہورہا ہے، اس نے اس کی مانگ میں بہت اضافہ کردیا ہے اس لیے اس ایڈیشن کی قیمت صرف دس آنے رکھی گئی ہے جو اس کی محنت اور لاگت سے بھی کم ہے۔ امید ہے کہ آریہ پرش ہزاروں کی تعداد میں اس کی اشاعت کریں گے‘‘۔
ہندو آریہ سماج نے جو صدیوں سے اسلام اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انتہائی متعصبانہ، مخالف اور دل آزار مہم چلا رہا تھا، راجپال پبلشرز کو اپنا آلہ کار بنالیا جس نے اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف عمر بھر کتابیں چھاپنے کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا اور اس سلسلے میں بے دریغ پیسے خرچ کرنے لگا۔ مذکورہ دل آزار اور انتہائی گستاخانہ مواد کی حامل کتاب کے خلاف مسلمانوں کے زبردست احتجاج کے باوجود مسلمان اور اسلام دشمن فرنگی حکمرانوں اور متعصب ہندوؤں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی بلکہ راجپال کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی۔
سابق سپاہی منشی رام یا سوامی شردھانند
راجپال نے پولیس کے ایک ملازم منشی رام کو اپنی ناپاک مہم میں شامل کرکے اس سے پولیس کی ملازمت چھڑوائی اور ترکِ دنیا کا ڈھونگ رچایا، اور دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کا ایک سابق اہل کار شریمان مہاشا منشی رام سورگ باشی سوامی شردھانند کا روپ دھارکر اسلام دشمنی میں اس کا دست و بازو بن گیا، اور راجپال اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف لٹریچر شائع کرتا رہا۔ اس کا حوصلہ اتنا بڑھا کہ اس نے اللہ اور مسلمانوں کی محبوب ترین برگزیدہ ہستی نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیصلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو ہدف بناکر ناپاک کتاب رنگیلا رسول ( نعوذ باللہ) شائع کرنے کی جسارت کی۔
مسلمانوں کا احتجاج اور راجپال کے خلاف مقدمہ
اس ناپاک اور گستاخ کتاب کے مصنف کا نام چونکہ فرضی تھا لیکن کتاب کے ناشر راجپال کا نام اور پتا صحیح درج تھا تو مسلمانوں نے اخلاقی طور پر پہلے راجپال سے یہ دل آزار کتاب تلف کرنے کی درخواست کی، مگر اُس نے فرنگیوں اور ہندوؤں کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کے سبب ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اس پر اُس کے خلاف مسلمانوں نے اُس وقت تعزیراتِ ہند کی دفعہ ۱۵۳ الف کے تحت مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ دائرکردیا۔ عدالت نے راجپال کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ راجپال نے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کردی جہاں متعصب ہندو چیف جسٹس سرشادی لال کی ذاتی سفارش پر جسٹس کنور دلیپ سنگھ (عیسائی) نے ملزم کو رہا کردیا۔ ملزم کے خلاف اس نرم رویّے اور انتہائی جانبدارانہ فیصلے پر مسلمانوں کو شدید تاؤ آگیا اور اس کے خلاف پورے ہندوستان میں احتجاجی مظاہرے اور جلسے ہوئے اور جلوس نکالے گئے۔ ۴ اور ۵ جولائی ۱۹۲۷ء کی درمیانی شب مسلمانانِ لاہور کی جانب سے دہلی دروازے کے باغ میں ایک زبردست احتجاجی جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا جس میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ مولانا احمد سعید‘ مولانا مفتی کفایت اللہ‘ چودھری فضل حق اور خواجہ عبدالرحمن غازی پوری کی تقاریر کا اعلان کیا گیا۔
لاہور میں دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ اور مسلمانانِ لاہور کا جلسہ
اسی دن لاہور کے ڈپٹی کمشنر مسٹر اوگلوی نے دفعہ ۱۴۴ لگاکر جلسے کو ممنوع قرار دے دیا۔ منتظمین نے شعلہ بیان مقرر اور ممتاز مذہبی رہنما سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی تجویز پر یہ جلسہ میاں عبدالرحیم کے احاطے میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا جو حضرت شاہ محمد غوث ؒ کے مزار بیرون دہلی دروازے کے بالمقابل واقع تھا۔ اس وسیع احاطے میں یہ عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں ہزاروں فرزندانِ توحید جمع ہوئے۔ جلسے کی صدارت چودھری فضل حق مرحوم نے کی۔
فوج اور پولیس کے علاوہ ڈپٹی کمشنر مسٹر اوگلوی خود احاطے کے باہر موجود تھا۔ اُس نے اندر آکر اعلان کیا کہ دفعہ ۱۴۴ نافذ ہے لہٰذا یہ جلسہ خلافِ قانون ہے، آپ لوگ پانچ منٹ کے اندر اندر یہاں سے منتشر ہوکر چلے جائیں ورنہ مجھے گولی چلانے کا حکم دینا پڑے گا۔ اس کے اعلان کے جواب میں خواجہ عبدالرحمن غازی نے ڈپٹی کمشنر کو مخاطب کرتے ہوئے انگریزی میں کہا:
’’ہم اس قانون کو اپنے پاؤں تلے روندتے ہیں جو ہمیں اپنے پیارے نبی محبوب ِخدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے تحفظ کی ضمانت نہیں دیتا۔ تم جو چاہوکرلو، ہم یہ جلسہ ہر حال میں کریں گے‘‘۔
ممتازعالم دین اور شعلہ بیان مقررسید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اس موقع پر تاریخی خطاب کیا، انھوں نے کہا:
’’آج بنی نوع انسان کو عزت و توقیر بخشنے والے فخرِ انسانیت کی ناموس خطرے میں ہے، جس جلیل القدر ہستی کی عزت پر تمام موجودات کو ناز ہے، آج مفتی کفایت اللہ اور مولانا احمد سعید کے دروازے پر اُم المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ اور اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ آئیں اور فرمایا: ہم تمھاری مائیں ہیں، کیا تمھیں معلوم نہیں ہے کہ کفارنے ہمیں گالیاں دی ہیں! اب دیکھو تو کہیں حضرت عائشہ صدیقہؓ یہاں دروازے پر تو نہیں کھڑی ہیں؟‘‘
یہ سن کر حاضرین میں کہرام مچ گیا اور مسلمان دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ انھوں نے مزید کہا:
’’تمھاری محبت کا تو یہ عالم ہے کہ عام حالتوں میں کٹ مرتے ہو لیکن کیا تمھیں معلوم نہیں کہ آج سبز گنبد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تڑپ رہے ہیں اور حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ پریشان ہیں اور اپنا حق طلب کررہی ہیں۔ اگر آج تم ان کی ناموس کی خاطر جانیں دے دو تو کچھ کم فخر کی بات نہیں۔یاد رکھو یہ موت آئے گی تو پیام حیات لے کر آئے گی۔‘‘ (روزنامہ زمیندار جولائی۱۹۲۷ء)
سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی یہ تقریر اس قدر مؤثر اور جذبات سے پُر تھی کہ تمام مجمع میں حشر برپا ہوگیا۔ لوگوں کے جتھے کے جتھے باغ میں جلسہ گاہ جاتے اور گرفتاری پیش کرتے۔ ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ یہ سلسلہ کچھ دیر جاری رہا۔ بعد میں شاہ صاحب نے عوام کو اپنے جذبات پر قابو رکھنے کی اپیل کی اور ایک قرارداد منظوری کے لیے پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ہمارا مقصد قتل و غارت گری نہیں ہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ برطانوی حکومت تعزیرات ِہند میں ایک ایسی دفعہ کا اضافہ کرے جس کی رو سے بانیانِ مذہب کے خلاف تقریر و تحریر پر پابندی ہو اور اس کی خلاف ورزی کرنے والا مجرم قرار پائے۔ اس قرارداد کی منظوری کے بعد جلسہ برخاست کردیا گیا۔ جلسے کے بعد ناموسِ رسالتؐ پر ولولہ انگیز خطابات سننے کے بعد تمام مسلمانوں کی غیرتِ ایمانی جوش میں آگئی اور جلسے میں موجود تمام مسلمان جذبۂ شہادت سے سرشار ہوکر راجپال، متعصب عیسائی جج کنور دلیپ سنگھ اور حکومت کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے سول سیکریٹریٹ کی طرف چل پڑے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے فوری طور پر دفعہ ۱۴۴ نافذ کرکے جلوس کو منتشر کرنے کا حکم دیا، مگر ان پُرجوش مسلمانوں کو نہ تو قید و بند کی صعوبتوں کی پروا تھی اور نہ اپنی جانوں کی۔ سب ناموسِ رسولؐ پر اپنی جان نثارکرنے کی تمنا رکھتے تھے۔ حکومت ان ہزاروں افراد کو تو گرفتار نہ کرسکی البتہ سرکردہ راہنماؤں کو حراست میں لے کر جیل میں ڈال دیا۔
واحد مسلم ترجمان اخبار Muslim Outlook
صرف ایک انگریزی اخبار مسلم آؤٹ لک مسلمانوں کی ترجمانی کرتا تھا۔ اخبار نے اپنے اداریے میں جسٹس کنور دلیپ سنگھ کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا کہ ہر مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق اپنی زندگی کو حرمت ِرسولؐ پر نثار کرنا فخر سمجھتا ہے اور آج ہر مسلمان اس فرقہ وارانہ دل آزاری پر کبیدہ خاطر ہے اور اپنے پیارے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر اپنے خون کا ایک ایک قطرہ نثار کرنے کے لیے تیار ہے۔ قانون میں اس امر کی واضح اور کافی گنجائش موجود ہے کہ وہ راجپال جیسے شاتمِ رسول اور دریدہ دہن گستاخ کا محاسبہ کرے۔ مسلمان ایک زندہ اور عملی قوم ہیں، اگر عدالت نے اپنے فیصلے پر نظرثانی نہ کی تو کوئی عاشقِ رسولؐ اس منہ زور راجپال کا پیٹ چاک کردے گا۔ سامراجی اور اسلام دشمن انگریز حکومت نے اس نکتہ چینی اور تنبیہ کے باوجود اپنی طاقت کے زعم میں مسلمانوں کے جوشِ ایمانی کی شدت کا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش نہ کی بلکہ اخبار مذکورہ کے مالک اور مدیر کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے دو دو ماہ قید اور ایک ایک ہزار روپے جرمانہ کی سزا دی۔ اُس وقت ایک من گندم کی قیمت صرف ایک روپیہ تھی۔ اس اعتبار سے یہ بہت بھاری جرمانہ تھا۔
مسلمان عدالتوں‘ متعصب ذرائع ابلاغ‘ اکثریتی فرقے ہندو اور حکومتی رویوں سے مایوس تھے اور انتہائی غم و غصے میں مبتلا تھے۔ حالات انتہائی مایوس کن تھے۔ فرنگی حکومت مسلمانوں کا کوئی مطالبہ ماننے سے انکاری تھی۔ جلسے جلوسوں پر بھی مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بناکر جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں نے اس بے حد اہم مسئلے کا عملی حل ڈھونڈنے کی ٹھانی اور فیصلہ کیا کہ جب تک ایک ایک مسلمان زندہ ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے خلاف بھونکنے والی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا جائے۔
شاتم ِرسولؐ پر غازی خدا بخش کا حملہ
۲۴ ستمبر ۱۹۲۷ء کی صبح راجپال اپنی دکان پر موجود تھا، ایک تیس سالہ مسلمان دودھ فروش غازی خدابخش نے اس پر تیز دھار چاقو سے حملہ کرکے اسے زخمی کردیا۔ وہ بدبخت جان بچانے کے لیے تیزی سے بھاگ کھڑا ہوا۔ غازی خدا بخش گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا۔ غازی خدا بخش نے وکیل کرنے سے انکار کردیا۔ عدالت میں اقرار پر انہیں سات سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی اور قید کاٹنے کے بعد پانچ پانچ ہزار روپے کی تین ضمانتیں فقط امن کی خاطر جمع کرانے کا حکم دیا گیا۔
غازی مجاہد عبدالعزیز خان
توہینِ رسالت کے اس واقعے کی گونج افغانستان تک پہنچ گئی اور ایک غیور افغانی تاجر عبدالعزیز خان کابل سے کوہاٹ پہنچا، ۱۹ اکتوبر ۱۹۲۷ء کو یہ مردِ مجاہد کوہاٹ سے لاہور پہنچا اور لوگوں سے پوچھتے پوچھتے ملعون ناشر راجپال کی دکان پر پہنچ گیا۔ اتفاق سے دکان پر اُس وقت راجپال کے بجائے اس کا ایک دوست سوامی سیتانند اس کی جگہ بیٹھا ہوا تھا۔ غازی عبدالعزیز نے اسے راجپال سمجھ کر جہنم رسید کردیا اور چلاّکر اعلان کیا کہ میں نے موذی کو ختم کردیا ہے، مجھے گرفتار کرلو۔ مقدمے میں غازی عبدالعزیز خان کو ۱۴ سال قید کی سزا ہوئی۔
خوف وڈر سے غیر محفوظ راجپال کے شب و روز
ان متواتر حملوں کی دہشت اور خوف سے راجپال کی زندگی انتہائی غیر محفوظ اور محدود ہوکر رہ گئی، کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوا۔ اس نے حکومت سے اپنی جان کی حفاظت کے لیے مدد مانگی، چنانچہ حکومت نے پولیس کے دو ہندو سپاہی اور ایک سکھ حوالدار اُس کی حفاظت پر مامورکردیئے۔ راجپال اس پہرے کی قید زدہ زندگی سے جلد تنگ آگیا اور لاہور سے سیر و تفریح کے لیے باہر چلا گیا۔ کئی ماہ بعد اُس خیال سے واپس آیا کہ مسلمانوں کے جذبات ٹھنڈے پڑچکے ہوں گے۔ اس نے پھر اپنا کاروبار شروع کرلیا اور حفاظت کے لیے پولیس کی امداد بھی طلب نہ کی۔
۱۶ اپریل ۱۹۲۹ء: لاہور میں موسم بہار میں دن کے ساڑھے بارہ بجے ایک بیس سالہ نوجوان اپنے دوستوں کے ہمراہ بیٹھا باتیں کررہا تھا کہ سڑک سے اُس کے کانوں میں یہ صدا آئی کہ ہے کوئی جانباز جو حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ کی ناموس کی حفاظت کرے۔ نوجوان فرطِ جذبات اور جوش سے لبیک لبیک کہتا ہوا اٹھا اور ایک تیز چھرا حاصل کرکے تقریباً ایک بجے دوپہر انارکلی میں واقع راجپال کی دکان اسپتال روڈ نزد مزار قطب الدین ایبک لاہور پہنچ گیا۔ شومئی قسمت ملعون راجپال اس وقت دکان پر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ نوجوان غازی علم الدین ترکھان تھا جو ۴ دسمبر ۱۹۰۸ء کو لاہور کے محلے چابک سواریاں میں پیدا ہوا تھا۔
غازی کی للکار اور ملعون راجپال کا خاتمہ
غازی علم الدین نے اسے للکارتے ہوئے کہا کہ راجپال اپنے جرم کی معافی مانگو، اس دل آزار کتاب کو ضائع کرنے کا وعدہ کرو اور آئندہ کے لیے ایسی مذموم حرکتوں سے توبہ کرو، ورنہ موت کے لیے تیار ہوجاؤ۔ راجپال نے اس للکار کو محض ایک گیدڑ بھبکی سمجھا اور خاموش بیٹھا رہا۔ غازی علم الدین نے کچھ توقف کیا اور کچھ جواب نہ پاکر ایک بھرپور وار کرکے اس ملعون کا خاتمہ کردیا۔ اُس وقت دکان میں راجپال کے دو ملازم بھی موجود تھے۔ یہ سب دیکھ کر اور غازی علم الدین کی للکار سن کر وہ حواس باختہ ہوگئے اور ان پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ بت بن کر کھڑے رہے اور راجپال کو بچانے کے لیے کچھ نہ کرسکے۔
غازی علم الدین اطمینان سے کھڑے رہے اور جب شور و غل سن کر لوگ جمع ہوگئے تو باآوازِ بلند سب کو بتانے لگے کہ میں نے اس گستاخ راجپال کا قتل عشقِ رسولؐ میں کیا ہے۔ انارکلی پولیس نے آکر غازی علم الدین کو گرفتار کرلیا۔ راجپال کے دونوں ملازم عینی گواہ تھے، ان کے بیانات لے لیے گئے۔ مقدمے کا چالان ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں پیش ہوا۔
غازی علم الدین کو پھانسی کی سزا اور اپیل
عدالت نے فردِ جرم عائد کرکے بیان لیا اور مقدمہ سیشن جج کے سپرد کردیا۔ ایک ہفتے بعد مقدمے کی سماعت ہوئی۔ وکیل صفائی خواجہ فیروز الدین اور بیرسٹر فرخ حسین سلیم ایڈووکیٹ نے انتہائی معقول اور ٹھوس دلائل پیش کیے لیکن عدالت نے دفعہ ۳۰۲ کے تحت فردِ جرم عائد کرکے ۲۲ مئی ۱۹۲۹ء کو پھانسی کی سزا سنادی۔ فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ قائداعظم محمد علی جناح سمیت ملک کے نامور وکلا نے غازی علم الدین کے مقدمے کی پیروی کی۔
اس فیصلے کے خلاف ملک بھر میں مسلمانوں نے کئی احتجاجی جلسے کیے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اس اپیل کی پیروی کرتے ہوئے ٹھوس دلائل کے ساتھ عدالت پر واضح کیا کہ اسلام میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے کرنا توہینِ رسالت ہے جس کی سزا موت ہے۔ گستاخِ رسول راجپال کی شائع کردہ کتاب انتہائی دل آزار ہے جس کو پڑھ کر کوئی مسلمان اپنے نبیؐ کی توہین برداشت نہیں کرسکتا اور جذبات پر قابو نہیں پاسکتا۔ اسے پڑھ کر ہر غیرت مند مسلمان کا خون کھول اٹھتا ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بدلہ لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ غازی علم الدین نے یہ اقدام توہینِ رسالت پر انتہائی اشتعال انگیز کیفیت میں اٹھایا ہے، اس لیے اس کے خلاف دفعہ ۳۰۲ قتل عمد کے بجائے دفعہ ۳۰۸ قتل بوجہ اشتعال کارروائی کی جائے اور ملزم کو موت کے بجائے سات سال قید کا سزاوار قرار دیا جائے، جبکہ دفعہ ۳۰۴ کے تحت اس کی زیادہ سے زیادہ سزا دس سال قید ہے۔
غازی کی موت کی سزا بحال رہی
۱۵ جولائی کو انگریز ججوں نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد غازی کی اپیل خارج کرتے ہوئے سیشن جج کا فیصلہ برقرار رکھا۔ غازی نے یہ فیصلہ سن کر مسکراتے ہوئے کہاکہ شکر الحمدللہ میں یہی چاہتا تھا۔ برسوں قیدی بن کر جیل میں گلنے سڑنے کے بجائے ناموس ِرسولؐ پر قربان ہونا باعثِ فخر ہے۔ اللہ تعالیٰ میری اس ادنیٰ سی قربانی کو شرفِ قبولیت سے نواز دے تو مجھے اور کیا چاہیے!
۱۴اکتوبر کو انہیں میانوالی جیل منتقل کیا گیا۔ شہادت سے قبل ان کی آخری خواہش پر انہیں دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس طرح یہ سچا عاشقِ رسولؐکلمہ شہادت پڑھتے ہوئے تختہ دار پر چڑھ گیا اور جام شہادت نوش کرکے حیاتِ ابدی پاگیا۔
علامہ اقبال نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ جانباز اور رسمِ شبیری کا احیاء کرنے والے غازی علم الدین شہید کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ پنجابی میں ادا کیا تھا:
’’اسیں گلاں ہی کردے رہے تے ترکھان دامنڈا بازی لے گیا‘‘
(ہم باتیں ہی کرتے رہے اور ترکھان کا لڑکا بازی لے گیا)
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
غازی علم الدین شہید ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو جرم عشقِ رسولؐ میں تختۂ دار کو چوم کر ہمیشہ کے لیے گستاخانِ رسول کے گلے کا پھندا بن گئے اور صرف ۲۱ برس کی عمر میں صدیوں کا سفر اس سج دھج اور شان سے طے کیا کہ اس کی گردِ سفر کا ایک ایک ذرہ عاشقانِ رسولؐ کے قافلوں کے لیے نشان ِمنزل بن کر رہ گیا ہے۔
غازی علم الدین شہید کو میانوالی جیل میں پھانسی دے کر وہیں جیل کے احاطے میں دفن کردیا گیا کیونکہ فرنگی حکومت کو یہ خدشہ تھا کہ اگر غازی علم الدین کی لاش کو لاہور لایا گیا توضبط کے سب بندھن ٹوٹ جائیں گے، مگر مسلمانوں کے احتجاج نے حکومتِ برطانیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔لاہور اور دوسرے شہروں میں ہڑتالیں شروع ہوگئیں۔ کاروبارِ زندگی ٹھپ ہوکر رہ گیا۔
شہید کی میت کی لاہور آمد، نماز ِجنازہ اور تدفین
بالآخر ۱۴ نومبر ۱۹۲۹ء کو غازی علم الدین شہیدِ ناموسِ رسالت مآب ؐکی میت میانوالی سے لاہور لائی گئی۔ جنازہ چوبرجی پہنچا تو پورا لاہور امڈ آیا۔ لاکھوں افراد نے نمازِ جنازہ پڑھی۔ بعد ازاں میانی قبرستان میں تدفین ہوئی۔ علامہ اقبالؒ نے بذاتِ خود غازی علم الدین شہید کے جسدِ خاکی کو لحد میں اتارا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے