عام انتخابات کے بعد ایک گمبھیر معاشی بحران نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، حکومت کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر بھی بہت کم رہ گئے ہیں۔ انتخابات سے قبل ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر تھے، لیکن غیر ملکی قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے باعث زرمبالہ میں کمی آئی اور ملکی بینکوں نے بھی حکومت کو قرض دینے سے معذرت کرلی، جس کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت بڑھ گئی اور مہنگائی آسمان پر جاپہنچی۔ پوری قوم اس پریشان کن صورتِ حال کا شکار ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے بروقت فیصلہ کیا اور قوم کی رہنمائی، مسئلے کے حل اور صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے اقتصادی ماہرین کی ایک کانفرنس بلائی۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے اس کانفرنس کی صدارت کی۔ کانفرنس میں سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کے علاوہ اقتصادی مشاورتی کونسل کے ثاقب شیرانی اور میاں اسلم، نصر اللہ رندھاوا، قاضی آصف لقمان، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما محمد اصغر ، مفتی عدنان کاکاخیل، چیئرمین پائیڈ ڈاکٹر اسد زمان، سابق ممبر ایف بی آر سرفراز خان، اسلامی سکوک کے ماہر جواد ماجد خان، اسلام آباد چیمبر کے رہنما، فیڈریشن کے سابق نائب صدر ظفر بختاوری، انجمن تاجران کے صدر کاشف چودھری، آل ٹریڈرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی سپریم کونسل کے ممبر سید عمران حسین بخاری، اسلام آباد اسمال چیمبر کے رائوجاوید اختر، ساجد اقبال، عمران شبیر عباسی، ماہر تعلیم میاں رمضان، وکلا برادری کے نمائندے سلیم شورش ایڈووکیٹ، بلیو ایریا یونین کے منتخب صدر یوسف راجپوت نمایاں مہمانوں میں شامل تھے۔ کانفرنس میں شرکاء نے کھل کر اظہارِ خیال کیا اور مجموعی طور پر یہی رائے سامنے آئی کہ نمودو نمائش کے بجائے ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے بغیر ملکی معیشت بہتر نہیں ہوسکتی۔ کانفرنس میں اپنے افتتاحی کلمات میں امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ شرعی اور آئینی حکم کے مطابق سود سے پاک معاشی نظام لاگوکیا جائے۔ ایف بی آر اور نیب خود قابلِ احتساب ادارے ہیں، آئی ایم ایف کے بارے میں پرویزمشرف، آصف زرداری، نوازشریف اور موجودہ حکمرانوں کے بیانات میں کوئی فرق نہیں ہے، بس الفاظ اور زبان تبدیل ہوئی ہے، حکومتی مشیروں کو بس آئی ایم ایف کی دکان کا پتا ہے۔ قرض پر خوشی کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ سوئس بینکوں سے رقم واپس نہ لانے والوں پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی جائے، ان کے شناختی کارڈ منسوخ کردئیے جائیں، جو ناجائز اثاثوں کا نہ بتائیں ریاست ان اثاثوں پر قبضہ کرلے، بے لاگ احتساب، دولت کی منصفانہ تقسیم اور انصاف کی بنیاد پر ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ سراج الحق نے کہا کہ خوشحال اور اسلامی پاکستان پوری قوم کا متفقہ مطالبہ ہے۔ ہم غریب اور مقروض اس لیے ہیں کہ افرادی قوت سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا، انسانی وسائل کی ترقی ہی روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ پاکستان کا معاشی سسٹم وینٹی لیٹر پر ہے۔ قرضے لینا کامیابی نہیں ہے، حکمران قرض ملنے کی اس طرح خوشی اور جشن منا رہے ہیں جیسے کشمیر فتح کر لیا ہو۔ مبارک بادیں دی جا رہی ہیں۔ اصل مسئلہ بدانتظامی ہے۔ 71 برسوں کے بعد یہ سوچ رہے ہیں کہ معیشت کیسی ہوگی۔ غیر دستاویزی معیشت کو باضابطہ بنادیں، پاکستان خوشحال ہوجائے گا۔ 310 ارب ڈالر سے زائد کی غیر دستاویزی معیشت ہے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے، مگر آنے والی نسل کو بھی قرض کی ہتھکڑی پہنائی جارہی ہے، اور اس حکومت کو ایسے مشیر ملے ہیں جو اسے قرض کی یہی ہتھکڑی قوم کو پہنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ یہ کیسے مشیر ہیں، کیسے مشورے دیے جارہے ہیں؟ خود انحصاری کے بجائے پے در پے قرضوں کی طرف لے کر جارہے ہیں! اور ان مشیروں کو بس ایک آئی ایم ایف کی دکان کا ہی پتا ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ قوم کو صحیح منزل دینے کی ضرورت ہے۔ سی پیک کے حوالے سے شکوک وشبہات کے بادل ختم کیے جائیں۔ آئی ایم ایف کے بارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوںکے بیانات میں کوئی فرق نہیں ہے، بس الفاظ اور زبان تبدیل ہوئی ہے۔ یہی بات کی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جائیں یا نہ جائیں؟ کسی اور راستے پر جانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جاتا! آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کسی قوم کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔ خودفریبی سے نکلنا ہوگا، پاکستان کے حالات تبدیل کرنے کے لیے قوم کو خود تبدیلی کے لیے تیار ہونا ہوگا، اسی طرح بحرانوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو کسی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سود کی بنیاد پر قرض عذاب ہے۔ سودی نظام سے کوئی ملک نہیں چل سکتا۔ کس نے کہا ہے کہ اخراجات کم نہ کریں! برآمدات بڑھانے میں کیا رکاوٹ ہے! اصل مسئلہ بدانتظامی ہے۔ مقروض قوم کے خارجہ امور آزاد و خودمختار ہوتے ہیں نہ داخلی طور پر ہم آزادانہ فیصلے کرسکتے ہیں۔ سینیٹر سراج الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دستورِ پاکستان کے حکم کے مطابق ملک میں اسلامی معاشی نظام نافذ کیا جائے، تجارت اورکاروبار کو وسعت دی جائے، سودی نظام ختم کیا جائے، بزنس کمیونٹی کو اعتماد میں لیا جائے، نجی شعبہ جو کہ ترقی کا انجن ہے، اس کا اعتماد بحال کیا جائے۔ تاجروں اور نجی شعبے کو ایف بی آر اور نیب کے ذریعے ہراساں نہ کیا جائے۔ آج ملک و قوم کا جو حشر ہے وہ انہی اداروں کی وجہ سے ہے۔ سود سے پاک معیشت کسی مولوی یا پیر کا حکم نہیں بلکہ اللہ کا حکم ہے۔ عشر وزکوٰۃ کے نظام کو نافذ کریں۔ انہوں نے کہا کہ وزراء کے رکھ رکھائو اور پروٹوکول میں کوئی کمی نہیں آئی۔ انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے ملکوں کے ساتھ تجارتی توازن پیدا کیا جائے، یہ کیسی تجارت ہے کہ ہم ان سے پلاسٹک کے پھول لیتے ہیں مگر اپنی مصنوعات ان کے ممالک میں نہیں بھیج سکتے! سینیٹر سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ مالی وسائل اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے معاف کیے گئے تمام بھاری قرضوں کی وصولی کو یقینی بنایا جائے۔ سیاسی قرضوں کی معافی بھی این آر او تھا۔ کرپشن پر ریاستی قوت کے ساتھ قابو پانا ہوگا، رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں فیصلے کریں۔ معیشت کو دستاویزات کی صورت میں لائیں۔ صنعتی پیداوار میں اضافے کے لیے سستی توانائی کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظام معیشت کے لیے حکومت قدم بڑھاتی ہے تو قوم ساتھ دے گی۔بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کی بحالی کی ضرورت ہے۔ مہنگائی کا کوہ ہمالیہ ناقابلِ برداشت ہے، سانس لینا مشکل ہوگیا ہے۔ اگر سوئس بینکوں میں 345 ارب ڈالر موجود ہیں تو حکمرانوں کا فرض ہے کہ متعلقہ لوگوں کو یہ رقم واپس لانے پر مجبور کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری سیاست میں الزامات لگانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ ملک بدترین معاشی بحران کا شکار ہے، گزشتہ دسمبر سے روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے، سالانہ بجٹ خسارہ دو کھرب تک پہنچ چکا، بے روزگاری کی شرح 6 فیصد سے بڑھ چکی ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا گیا۔ آئی ایم ایف سے پہلے بھی 14 مرتبہ بیل آئوٹ پیکیج لیا گیا۔ یہ صورت حال بہت خطرناک حالات کی نشاندہی کررہی ہے۔ ہر نئی حکومت معاشی استحکام کے غلط دعوے کرتی ہے، ہر پاکستانی سوا لاکھ کا مقروض ہوچکا ہے جبکہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات بہت زیادہ ہیں۔ سالانہ اخراجات کا 50 فیصد قرضوں اور سود کی ادائیگی میں لگتا ہے۔ قابلِ ٹیکس طبقے کی بڑی تعداد ٹیکس دینے سے گریزاں ہے۔ ایمنسٹی اسکیم کے بجائے ٹیکس سسٹم میں اصلاحات کی جائیں۔ کم آمدن والے طبقے کے لیے مالی وسائل بڑھائے جائیں۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ تمام حکومتیں 14 بار آئی ایم ایف سے پیکیج لے چکیں۔ حکومت آئی ایم ایف کے پاس تو جاتی ہے مگر بنیادی تبدیلیاں نہیں کرتی۔ پچھلی حکومت موٹرویز اور پل بنا رہی تھی۔ ملکی معیشت کو تباہی سے بچانے کا راستہ سود کا خاتمہ ہے، جس ملک کی معیشت اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ پر آمادہ ہو وہ کیا ترقی کرے گا! پچیس لاکھ لوگوں کے پاس این ٹی این نمبر ہے مگر ٹیکس دس لاکھ دیتے ہیں۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان کے معاشی بحران کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے، ہمیں خود مل کر اپنے معاشی بحران کا حل تلاش کرنا ہے۔ معاشی بحران کسی ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے،2017 ء میں ڈالر 105 روپے کا تھا، آج کہاں پہنچ چکا ہے۔ پاکستان کا بجٹ خسارے میں جارہا ہے۔ پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے، پاکستان میں پانی کی قلت ہورہی ہے، چیف جسٹس آف پاکستان ڈیمز بنانے میں اہم کردار کررہے ہیں۔
سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا کہ ہر حکومت یہی کہتی ہے کہ اسے خزانہ خالی ملا ہے، جب نوازشریف آئے تھے اُس وقت بھی یہی صورت حال تھی، لیکن موجودہ حکومت نے شور زیادہ کیا ہے اور اس نے سعودی عرب سے ریلیف لے کر اچھا کیا ہے، اب اسے آئی ایم ایف کے پاس جانے میں آسانی رہے گی۔ اس حکومت کو بھی تین سال کا قرض لینے کے بعد تین برسوں میں بارہ مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہوگا تاکہ وہ انہیں اپنی پراگریس رپورٹ سے مطمئن کرسکیں، اور اس صورت میں ہی اگلی قسط ملے گی، اسی لیے وزیر خزانہ نے کہا کہ تین سال کے بعد صورت حال بہتر ہوجائے گی۔ بات یہ ہے کہ حکومت معاشی پالیسی کس طرح کی بناتی ہے، اور ہمارا المیہ یہی رہا ہے کہ ہماری پالیسی میں کوئی تسلسل نہیں رہا۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا کوئی کمال نہیں ہے، اس سے ملکی معیشت میں کوئی بہتری نہیں آتی، یہ کام گزشتہ کئی برسوں سے ہورہا ہے، ہماری درآمدات اور برآمدات میں فرق کم ہونا چاہیے۔ قومی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن ثاقب شیرانی ذاتی حیثیت میں شریک ہوئے اور انہوں نے کہا کہ درآمدات کے مقابلے میں برآمدات زیادہ ہونی چاہیے اور اس وقت ویت نام ایک ایسا ملک ہے جہاں یہ شرح کل جی ڈی پی کا 94 فی صد ہے، اور ہمیں اس سلسلے میں ایک ارب ڈالر ہی ملتے ہیں، جب کہ ویت نام چالیس ارب ڈالر کماتا ہے۔ تاجر رہنما، فیڈریشن کے سابق نائب صدر ظفر بختاوری نے کہا کہ حکومت بہت تاخیر سے فیصلہ کرنے کے قابل ہوئی ہے، اسے بہت پہلے فیصلہ کرنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں۔ تاخیر سے فیصلے کے نتیجے میں ڈالر کی قیمت بڑھ گئی ہے اور روپے کی قدر میں کمی آئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ برآمدات کی جانب توجہ دے تاکہ ہمیں زرمبادلہ کے دبائو سے باہر نکلنے کا موقع مل سکے۔