بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے کلی شابو میں 24 اکتوبر کو مسلح افراد نے ایک نجی اسکول پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں چار بچے ٹانگوں میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوگئے۔ یہ واقعہ اسکول میں ہاف ٹائم پر ہوا۔ بچے اسکول کے صحن میں کھیل کود رہے تھے اور کھانے پینے میں مصروف تھے کہ اس دوران مسلح شخص یا افراد نے آکر مرکزی دروازے پر گولیاں چلائیں۔ ملزمان فرار ہوگئے۔ زخمی بچوں کو سول اسپتال لے جایا گیا۔ اس واقعے نے شہر میں خوف و ہراس پیدا کردیا ہے۔ یہ فیلوشپ اسکول1996ء میں عالمی ادارۂ صحت کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا۔ اسسٹنٹ کمشنر سٹی ثانیہ صافی کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے اسکول کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تاہم دروازہ اندر سے بند ہونے کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ پولیس تحقیقات میں اب تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی، تاہم یہ واقعہ دہشت گردی کا لگ رہا ہے، اور ان ہی بنیادوں پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے تحقیقات میں لگے ہوئے ہیں۔ یقینا اس واقعے نے حکومت، پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں، سیاسی جماعتوں اور عوامی و سماجی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ہونا بھی چاہیے تاکہ تحقیقات میں تیزی لاکر ملزمان تک جلد پہنچا جائے۔ دوسری صورت میں اللہ نہ کرے کوئی سنگین سانحہ پیش آسکتا ہے۔ حکومت اور سیکورٹی اداروں کے لیے شہر، نواح اور مضافات کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کو تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں ہے، اور دہشت گرد اپنے اوچھے اور بزدلانہ ارادوں کو آسانی سے تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم ان پر فوری گرفت تدارک کا بہترین طریقہ کار ہے۔ پولیس نے واقعے کا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج کرلیا ہے۔
اسکول پر فائرنگ کے اگلے دن ہی نواں کلی کے قریب کوتوال قبرستان میں تھانہ بروری کے محرر محمد موسیٰ اچکزئی کو نامعلوم دہشت گردوں نے ہدف بناکر قتل کردیا۔ پیش ازیں 11 اکتوبر کو شہر کے طوغی روڈ پر پولیس اہلکار کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ یہ چند واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کا نیا نیٹ ورک فعال ہوا ہے۔ چنانچہ پولیس اور سیکورٹی ادارے جو یقیناً اس حوالے سے حساس اور متحرک ہیں، وہ مزید دن رات ایک کریں تاکہ ماضی کی طرح اس نیٹ ورک کا بھی خاتمہ ہو، وگرنہ یہ دہشت گرد شہر اور شہریوں، پولیس اور دوسری فورسز کو نقصان سے دوچار کریں گے۔
شہر کوئٹہ سمیت بلوچستان دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ دہشت گرد گروہ ملک و قوم کا بہت نقصان کرچکے ہیں۔ دہشت گرد گروہوں پر بہت حد تک قابو پایا جاچکا ہے۔ پھر بھی وقتاً فوقتاً واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے ان گروہوں کو مکمل تعاون مل رہا ہے۔ قندھار کے گورنر ہائوس میں قتل ہونے والا پولیس چیف عبدالرازق اچکزئی بالخصوص بلوچ شدت پسندوں کا مددگار تھا۔ کئی افراد کوئٹہ اور صوبے کے مختلف مقامات سے حراست میں لیے جاچکے ہیں جن کے تعلقات و مراسم جنرل عبدالرازق اور اس کے نیٹ ورک سے ثابت ہوئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ عبدالرازق ’را‘ کے ساتھ مل کر پاکستانی طالبان اور اُن سے جڑی دوسری تنظیموں کی سرپرستی بھی کرتا تھا۔
25 اکتوبر کو بلوچستان کے ضلع واشک میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جہاں آئی جی ایف سی بلوچستان (سائوتھ) میجر جنرل سعید احمد ناگرہ کے قافلے پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ اطلاعات یہ آئیں کہ ایف سی کے دو اہلکار اس حملے میں جاں بحق ہوگئے۔ آئی جی ایف سی کا قافلہ پنجگور سے خضدار جارہا تھا کہ ان پر واشک کی تحصیل ناگ سے تقریباً دس کلومیٹر دور پہاڑی علاقے میں حملہ ہوا۔ اس ہملے میں آئی جی ایف سی محفوظ رہے۔