تعلیمی کانفرنس

قوم افراد سے بنتی ہے اور افراد کی کردار سازی درس گاہوں میں ہوتی ہے۔ بانیٔ پاکستان نے مملکتِ خداداد کے وجود میں آنے کے فوری بعد تعلیم کی اہمیت کا احساس بیدار کرنے کے لیے نومبر 1947ءمیں ”کُل پاکستان تعلیمی کانفرنس“ کی تجویز دیتے ہوئے فرمایا:
”قوموں کی موت و حیات تعلیم سے وابستہ ہے، اور دنیا جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہی ہے، وہ تعلیم ہی کی بدولت ہے۔ اگر ہم نے نظام تعلیم کو صحیح خطوط پر استوار نہ کیا تو ہم دیگر اقوام سے پیچھے رہ جائیں گے، ممکن ہے ہم اپنا وجود ہی کھو بیٹھیں“۔
اسے بدقسمتی یا ہماری نااہلی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ بانیٔ پاکستان کے اس بروقت انتباہ کے باوجود ہم نے اس جانب توجہ نہیں دی، اور آج ہم اس صورتِ حال سے دوچار ہیں جس کا خدشہ انہوں نے آج سے 71 برس قبل ظاہر کیا تھا، اور آج بھی ہمارا شمار تعلیمی پسماندگی کے لحاظ سے دنیا کے 9 ناخواندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے، اور حالت آج بھی یہ ہے کہ حکومت کے اہم مناصب پر براجمان لوگوں میں کہیں یہ احساس موجود نہیں کہ ہم اپنا کس قدر نقصان کرچکے ہیں اور اس کی تلافی کیوں کر ممکن ہے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
تنظیم اساتذہ جیسی تحریکیں اس ناگفتہ بہ صورت حال میں یقیناً غنیمت ہیں جو قوم اور اس کے ذمہ داران میں تعلیم کے حوالے سے ان کی ذمہ داریوں کا احساس بیدار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔تنظیم اپنے وابستگان کے افکار و خیالات کی تطہیر اور ملک کے نظام تعلیم کی بہتری کے لیے اپنی تجاویز و مشورے اعلیٰ حکومتی ایوانوں تک پہنچانے کے لیے مختلف النوع کانفرنسیں بھی منعقد کرتی رہتی ہے۔ اس سلسلے کی ایک اہم تعلیمی کانفرنس تنظیم اساتذہ پنجاب کے زیراہتمام لاہور کے جدید اور وسیع و عریض ”ایوانِ اقبال“ میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی صدارت تنظیم کے مرکزی صدر پروفیسر ڈاکٹر میاں محمد اکرم نے کی۔ کانفرنس میں پنجاب بھر کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے 1200 سے زائد مرد و خواتین اساتذہ نے شرکت کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ ایسی کانفرنسوں کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔
معروف ماہرینِ تعلیم ڈاکٹر حسین احمد پراچہ، ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر خالد رحمان، اقبال اکیڈمی لاہور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر تنولی، تحریک نفاذ ِ اردو کے صدر پروفیسر رضوان الحق، پروفیسر راؤ جلیل احمد، پروفیسر شفیق احمد، پروفیسر رانا اصغر علی اور پنجاب بھر کے اسکولوں اور کالجوں کی ایسوسی ایشنوں کے رہنماؤں ڈاکٹر زاہد شیخ، سید تنویر شاہ،حافظ عبدالناصر اور طارق محمود نے خطاب کیا اور یکساں نظامِ تعلیم اور یکساں نصابِ تعلیم کو قومی یک جہتی کا واحد ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ قوم کے تمام بچوں کو تعلیم دیئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے، تبدیلی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ قوم کے تمام بچوں کو ایک ہی سطح کی اسکول، کالج اور یونیورسٹی تعلیم مہیا کی جائے۔ تمام مقررین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت اگر واقعی ملک میں تبدیلی لانا چاہتی ہے تو اسے اس تبدیلی کا آغاز تعلیم سے کرنا چاہیے۔ آج بین الاقوامی اور قومی منظرنامہ حکومتِ پاکستان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ تبدیلی کا آغاز تعلیم سے کرے اور یکساں نظام تعلیم کے ذریعے بکھری ہوئی قوم کو ایک لڑی میں پروکر ایک مضبوط قوم بنادے۔ تعلیم کے ذریعے انسانی وسائل کو کارآمد بناکر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کو اپنی قومی پالیسی میں تعلیم کو اولیت دینی چاہیے اور تعلیم پر کم از کم جی۔ ڈی ۔ پی کا 7 فیصد خرچ کیا جائے۔
تعلیمی کانفرنس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ نجی شعبے نے تعلیم کو تجارت کا ذریعہ بنا لیا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تعلیم عام آدمی کی پہنچ سے دور ہورہی ہے۔ تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے، حکومت کا فرض ہے کہ اس کا یہ حق دلوانے میں مدد کرے۔ اقوامِ عالم اپنے شہریوں کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے ترقی کی منازل طے کررہی ہیں۔ لہٰذا بڑے بڑے شہروں کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کے لیے ضابطۂ اخلاق مقرر کیا جائے۔
کانفرنس کے آخر میں مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ ملک کے پانچوں صوبوں بشمول آزاد کشمیر میں یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے۔ ملک بھر کے پرائیویٹ اور گورنمنٹ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایک ہی طرح کا نصاب پڑھائیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق پاکستانی بچوں کو ان کی مادری اور قومی زبان میں تعلیم کا حق دیا جائے۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق اور ترقی یافتہ اقوام کی پیروی کرتے ہوئے ملک بھر میں اُردو ذریعہ تعلیم کا نفاذ کیا جائے۔ مقابلے کا ہر امتحان اردو میں لیا جائے۔ عدالتوں اور دفاترکی دفتری کارروائی قومی زبان اردو زبان میں کی جائے۔
ایسوسی ایشنوں کے نمائندوں نے اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ کے مسائل کانفرنس میں پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیاکہ اسکول ایجوکیشن میں غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والی این جی اوز کی مداخلت بند کی جائے۔ پنجاب کے اسکولوں میں 3000 اساتذہ کی خالی اسامیاں فوری طور پر پُر کی جائیں۔ پنجاب کے اسکول اساتذہ کے تبادلے پر پابندی فوری طور پر ہٹائی جائے۔ حکومت بعض اسکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کررہی ہے جس سے تعلیم میں تجارت کو مزید فروغ حاصل ہوگا، لہٰذا اس پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔ پنجاب کے 600 سے زائد کالجوں میں تقریباً 6 ہزار لیکچررز کی خالی اسامیوں پر فوری طور پر یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل نوجوانوں کو بھرتی کرکے طلبہ کو پہنچنے والے تعلیمی نقصان سے بچایا جائے۔ کالج اساتذہ کی ترقیوں کے عمل کو تیز کیا جائے اور اس کو ٹریننگ کے ساتھ وابستہ نہ کیا جائے۔ کنٹریکٹ کالج اساتذہ کو ترقی کے دن سے مستقل کیا جائے اور ان کی تنخواہ سے ہونے والی کٹوتی بند کی جائے۔