کہتے ہیں کہ خطائے بزرگاں گرفتن خطا است، لیکن اب ہم خود بزرگ ہوگئے ہیں اس لیے کوئی ہرج نہیں۔ یہ ہرج بھی عجیب لفظ ہے اور عموماً ’ہرج‘ اور ’حرج‘ میں گڑبڑ ہوجاتی ہے۔ ہرْج (را ساکن) عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے شورش، ہنگامہ، دنگا، فتنہ، نقصان، خسارہ، خلل، وقفہ، ڈھیل، دیرٍ۔ اردو میں بفتح ’ر‘ یعنی ہَرج مستعمل ہے اور عموماً نقصان کے معنیٰ میں آتا ہے، جیسے آپ کی وجہ سے میرا بڑا ہرج ہوا، یا فلاں کام کرنے میں ہرج ہی کیا ہے! عدالتی معاملات میں یہ کہا جاتا ہے کہ ’’ہرجہ، خرچہ ادا کرنا ہوگا‘‘۔ یہ اس صورت میں جب مقدمہ جھوٹا ہو اور دعوے دار ہار جائے۔ ’ہرجانہ‘ ہرج سے اردو میں آیا ہے یعنی ہرج کرنے کا معاوضہ، تاوان وغیرہ۔ اردو میں ایک لفظ ’ہرجانا‘ ہے، یعنی بازی ہار جانا، تھک جانا۔ یہ ’ہر‘ غالباً ہار کا مخفف ہے۔ سنسکرت میں ’ہر‘ بھگوان، وشنو، کرشن، مہادیو وغیرہ کو کہتے ہیں۔ ہربھجن کا مطلب ہے وشنو کی عبادت یا ثنا۔ ہندوئوں میں ہربھجن سنگھ نام ہوتا ہے۔ ایک محاورہ ہے ’’ہر کو بھجے سو ہرکا ہوئے، ذات پات نہ پوچھے کوئے۔ یعنی جو خدا کی بندگی کرے وہی اس کا پیارا، وہ کسی کی ذات پات نہیں پوچھتا۔ اس کے باوجود ذات پات کی تقسیم اور امتیاز بڑھتا جارہا ہے۔ ہریجنوں کو مندر میں نہیں جانے دیا جاتا۔ اچھوتوں کو ہریجن کا نام موہن داس کرم چند گاندھی نے دیا تھا، یعنی ’’ہری کی اولاد‘‘۔ مگر یہ چال ناکام رہی اور اچھوت اب تک اچھوت ہیں، یعنی انہیں چھونے سے دھرم بھرشٹ ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ ہندی میں کسی لفظ کی نفی بنانے کے لیے اس سے پہلے الف بڑھا دیا جاتا ہے۔ جیت سے اجیت، پوتر سے اپوتر، ہنسا سے اہنسا، چوک اور اچوک۔ فارسی میں بھی نفی بنانے کے لیے شروع میں میم بڑھا دیتے ہیں جیسے کشا سے مکشا، شو سے مشو، باش سے مباش۔ ایک محاورہ ہے ’’سگ باش برادر خرد مباش‘‘۔
حَرج (ح، ر بالفتح) بھی عربی کا لفظ ہے اور مطلب ہے تنگی، سختی، نقصان، ضرر، تضیع اوقات، دیر، کمی وغیرہ۔ اسی سے حارج ہے یعنی روکنے والا، مزاحمت کرنے والا۔ جمع حارجین۔ ہرج اور حرج دونوں عربی ہی کے الفاظ ہیں۔ ایک جملہ دیکھیے ’’آپ کے حارج ہونے سے میرا بڑا ہرج ہوا‘‘۔ یہ وضاحت اپنے اُن صحافی بھائیوں کے لیے ہے جو ’حامی‘ اور ’ہامی‘ کی طرح ان الفاظ میں بھی ادل بدل کردیتے ہیں۔
ایک غلطی جو بہت عام ہوتی جارہی ہے وہ ہے: آئیں تھیں، گئیں تھیں، سنائیں تھیں وغیرہ۔ یعنی دو جمع ایک ساتھ۔ جب ایسی غلطیاں بچوں کی کہانیوں اور ان کے لیے مخصوص صفحات پر ہوں تو ان کی سنگینی بڑھ جاتی ہے کہ دوسرے بچے بھی یہی سیکھیں گے۔ یہ تو ہم بار بار سمجھا چکے ہیں کہ جب کسی کو پکارا جائے تو نون غنہ نہیں آئے گا، مثلاً لوگو، انسانو، بچیو وغیرہ۔ سنڈے میگزین میں پھولوں کی دنیا کا مالی جانے کون ہے لیکن پھولوں کی نگہداشت میں لاپروائی نظر آتی ہے۔ تازہ شمارے 28 اکتوبر تا 3نومبر میں ایک کہانی کا آغاز ہی ’’پیاری بچیوں‘‘ سے ہورہا ہے۔ یہاں ’بچیو‘ ہونا چاہیے۔ اسی طرح ’’آئیں تھیں‘‘ کی جگہ ’آئی تھیں‘ ہونا چاہیے۔ یہ پہلے بھی سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پتّا درخت کا ہو یا کسی کے گھر کا پتا اور جسم کا ایک عضو پِتّا، ان سب کے آخر میں الف آتا ہے۔ بچوں کے لیے شائع ہونے والی تحریروں، کہانیوں پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور ہاں! یہ بچوں کو مما، پپا نہ سکھائیں، یہ ہمارے نہیں ہیں۔ ان کے بجائے امی، ابو کتنے پیارے الفاظ ہیں، اور اب تو ’موم، ڈیڈ‘ ہوگئے۔
آج کل جو اردو لکھی جارہی ہے اس میں ’دوران‘ کے بعد ’میں‘ غائب ہوگیا ہے۔ پروفیسر آسی ضیائی نے اپنی کتاب ’’درست اردو‘‘ میں لکھا ہے کہ 1955ء سے پہلے اس عجیب و غریب رجحان سے اہلِ قلم بالکل ناواقف تھے، مگر یہ جان لینا چاہیے کہ ’’دوران‘‘ کے ساتھ ’’میں‘‘ لانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ’’اثنا‘‘ کے ساتھ۔ مثلاً ’’اسی اثنا میں ایک غیر معمولی واقعہ ظہور پذیر ہوا‘‘۔ اس جملے کو اس طرح کوئی نہیں لکھتا کہ ’’اسی اثنا ایک غیر معمولی واقعہ …‘‘
تقرری، تنزلی بہت عام ہوگئے ہیں جب کہ دونوں غلط ہیں۔ صحیح لفظ ’تقرر‘ اور ’تنزل‘ ہے۔ جسارت کے ایک اداریے میں بھی ’’تنزلی کا راستہ‘‘ شائع ہوا ہے۔ ایک اصول یہ ہے کہ دو ہندی الفاظ کو فارسی ترکیب کے ساتھ ملانا غلط ہے۔ مثلاً چیخ و پکار، سوچ اور بچار۔ یہ ہندی کے الفاظ ہیں۔ ان کے درمیان فارسی وائو لانا درست نہیں۔ ان کی جگہ چیخ پکار اور سوچ بچار درست ہیں۔ اور یہی اردو کا روزمرہ ہے۔ برائے مہربانی کا صحیح املا ’’براہ مہربانی‘‘ ہوگا۔ گالیاں نکالنا غالباً پنجابی سے آیا ہے۔ اردو کا محاورہ ’گالیاں دینا‘، ’گالیاں بکنا‘ ہے۔ کسی استاد کا مصرع ہے ’’کہ اس نے دی مجھے گالی، سلام میں نے کیا‘‘۔ اب ’’نئی جدت‘‘ بھی عام ہوتا جارہا ہے۔ جدت کے معنی نئی چیز یا بات کے ہیں، لہٰذا جدت کے ساتھ ’’نئی‘‘ لانا بالکل زاید اور غلط ہے۔ اسی طرح ’’تا ہنوز‘‘ بھی غلط ہے۔ فارسی میں ہنوز کے معنی ’’ابھی تک‘‘ ہیں، چنانچہ ’’تا‘‘ لگانے کی ضرورت نہیں۔
ایک اور دلچسپ اصطلاح اخبارات میں نظر آرہی ہے ’’کام کا دائرۂ کار‘‘۔ ارے بھئی ’کام‘ اور ’کار‘ کا تو ایک ہی مطلب ہے۔ صرف کام کا دائرہ لکھنا کافی ہے، لیکن تسلی نہیں ہوتی، جیسے ’’گول دائرہ‘‘ لکھے بغیر مزا نہیں آتا، جیسے دائرہ چوکور یا مستطیل بھی ہوتا ہو۔
چھٹی جماعت کے اردو نصاب کی کتاب میں ایک جملہ ہے ’’کڑکی اٹھالی‘‘۔ ہم تو اب تک یہی سمجھتے رہے کہ کڑکی کا مطلب خالی جیب یا غربت ہے۔ لیکن اسے سہا تو جاسکتا ہے، اٹھایا کیسے جائے گا؟ معلوم ہوا کہ کڑکی کا مطلب وہ چیز جس سے لڑکے چھوٹے چھوٹے پرندے پکڑتے ہیں۔ چوہے دان کو بھی کہتے ہیں۔ شاید آلہ کڑک کی آواز کے ساتھ بند ہوجاتا ہو۔ عوام میں تو کڑکی کا مطلب یہی ہے کہ جیب خالی ہے یا گھر میں کچھ نہیں ہے۔ کڑک بجلی کی آواز، سخت اور مہیب آواز کو بھی کہتے ہیں، جیسے یہ شعر ہے:
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
زمیں جس نے سارے عرب کی ہلادی
کڑک کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز کو بھی کہتے ہیں اور کڑکو بدمزاج عورت کو کہتے ہیں۔ لیکن کڑکی کا مذکورہ مطلب ہمارے لیے نیا ہے اور لغت کے مطابق اردو کا لفظ ہے۔ لڑکپن میں ایک ٹوکری کے نیچے لکڑی کھڑی کرکے اور اس میں رسّی باندھ کر دور بیٹھ جاتے تھے اور ٹوکری کے اندر دانا بکھیر دیتے تھے۔ جب کوئی پرندہ، کبوتر وغیرہ اندر جاتا تو رسّی کھینچ لی جاتی۔ شاید اس کو بھی کڑکی کہتے ہوں۔
غزالی اکیڈمی میرپورخاص سے بہت ہی محترم جناب امیر الدین مہر نے مشورہ دیا ہے کہ صلوٰۃ، زکوٰۃ وغیرہ جیسے عربی الفاظ کو صلات، زکات یا زکوات لکھا جائے۔ عربی جرائد اور کتب میں ایسے ہی لکھا جاتا ہے، اس سے سندھی لکھے پڑھے لوگوں کو آسانی ہوگی اور ان کا تلفظ درست ہوجائے گا۔ ہم جب جدہ کے اخبار ’اردو نیوز‘ میں کام کرتے تھے تو عرب چیف ایڈیٹر نے ان الفاظ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تو قرآنی املا ہے۔ عرب جرائد میں یہ قرآنی املا رائج نہیں ہے لیکن اردو میں رائج ہے اور یہی ہونا چاہیے۔ اس سے قرآنی اصطلاحات سے وابستگی بھی رہتی ہے۔ سندھی لکھے پڑھے لوگوں کا تلفظ اساتذہ صحیح کروا سکتے ہیں۔ یوں بھی عام اردو الفاظ کا تلفظ کون سا صحیح ہے کہ اردو بولنے والے بھی غلط تلفظ ادا کررہے ہیں جیسے ہم نے ولی عُہد کا ذکر کیا ہے۔