پیشکش: ابوسعدی
ابوالمعالی میرزا عبدالقادر بیدل عظیم آباد میں پیدا ہوئے۔ شہزادہ محمد اعظم کے دربار سے منسلک رہے۔ شہزادے نے ان سے اپنی شان میں قصیدہ لکھنے کی فرمائش کی۔ بیدل نے انکار کیا اور شاہی ملازمت چھوڑ کر دہلی آگئے اور گوشہ نشینی اختیار کی، مگر اُس دور کے بہت سے امرا، رئوسا اور صاحبانِ علم نے ان کی قدر افزائی میں کوئی فرق نہ آنے دیا۔ 1721ء میں اسی شہر سے شہرِ خموشاں میں چلے گئے۔ مرزا غالب اور اقبال دونوں بیدل کے طرزِ ادا اور موضوعات کو پسند کرتے ہیں۔ تصوف و معرفت اور فلسفیانہ افکار میں بیدل ایک انفرادی طرز کے مالک ہیں۔ ان کا کلام کمیت اور کیفیت ہر دو اعتبار سے بلند ہے۔ مضمون آفرینی، نازک خیالی، اسرارِ تصوف اور رموزِ معرفت کے بیان میں لاثانی ہیں۔ زندگی میں صرف شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی چند فتوحات اور حکمت عملیوں کی تعریف کی ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے کی تعریف و توصیف میں قلم استعمال نہیں کیا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے مگر چار جلدوں میں ان کا جو کلیات افغانستان سے شائع ہوا وہ لائقِ اعتماد ہے۔
(پروفیسر عبدالجبار شاکر)
مذاق
یہ واقعہ ایک مزاحیہ لطیفہ بھی ہے اور حقیقت بھی ہے۔ اسلام میں کتے کو نجس مانا گیا ہے اور اس کے لعاب کو نجس العین مانا گیا ہے۔ اگر یہ لعاب کپڑے پر لگ جائے تو کپڑا نجس ہوگا، اور جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ ایک صاحب کے پاس ایک مولوی صاحب گئے اور دیکھا کہ ایک کتا ان کی بغل میں دبا ہوا تھا، جب بیٹھے تو کتا ان کی گود میں رہا۔ مولوی صاحب نے کہا کہ آپ نے کتا پالا ہے اچھا کیا، مگر انسان کے بچے کی طرح اسے گود میں بٹھانا، پیار کرنا تو اچھا نہیں ہے۔ اس نے فوراً کہا کہ مولوی صاحب میں کتے کو اس لیے ہر وقت پاس رکھتا ہوں کہ موت سے محفوظ رہوں، آپ کے یہاں کتابوں میں لکھا ہے کہ جس گھر میں کتا ہو، تو فرشتے نہیں آتے۔ جب کتا میرے پاس ہے تو جان نکالنے والا فرشتہ میرے پاس کیسے آئے گا؟ مولوی صاحب نے فرمایا کہ یہ خیال اور استدلال آپ کا غلط ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ کتے بھی مرتے ہیں، موت سے تو کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔ آپ نے یہ مثل سنی ہوگی ’’جیسی روح ویسے فرشتے‘‘۔ جو فرشتے کتوں کی روح قبض کرتے ہیں وہی فرشتے آپ کی روح بھی نکالیں گے۔ آپ کے پاس وہ فرشتے نہیں آئیں گے جو اچھے لوگوں کے پاس آتے ہیں، آپ کے پاس وہ فرشتے آئیں گے جو کتوں کی، سوروں کی، اور بد جانوروں کی روح نکالتے ہیں۔ جواب معقول تھا، وہ خاموش بلکہ پشیمان ہوگئے۔
باغ وبہار
باغ وبہار میرامن دہلوی کی داستانوی کتاب ہے جو ْاُنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں جان گلکرسٹ کی فرمائش پر لکھی۔ باغ و بہار کو میر امن نے امیر خسرو کی فارسی داستان قصہ چہار درویش سے اردو میں ترجمہ کیا ہے اردو کی لازوال کتابوں کی جب فہرست بنائی جاتی ہے ، اس وقت نثر کی پہلی کتاب کے بہ طور ’باغ وبہار‘ کا بلا استثنا انتخاب ہوگا۔ اس کتاب کے مصنف کی شہرت اور حیثیت اپنے زمانے میں کچھ زیادہ نہیں تھی۔ دہلی، لکھنو اور عظیم آباد کے قیام کے بعد ملازمت کی تلاش میں بُڑھاپے کے دَور میں میرامّن جب کلکتّہ پہنچ کر بہادر علی حسینی کی وساطت سے فورٹ ولیم کالج کے شعبہ ہندستانی میں مامور ہوتے ہیں، اُس وقت بھی اُن کی تنخواہ محض چالیس روپے طے ہوتی ہے جب کہ اردو کے دوسرے اہلِ قلم اُن سے پانچ گنی ماہانہ تنخواہ حاصل کرتے ہیں۔ اِسے اتّفاق کے علاوہ اور کیا کہاجائے کہ میرامن کو جو پہلی کتاب ترجمہ کے لیے ملی، اس کی زبان منتقلی کا کام انھوں نے اس طرح دل لگا کر کیا جس کے سبب’ باغ وبہار‘ جیسی بے مثال کتاب سامنے آئی۔ آج باغ وبہار کے فارسی اور اردو ماخذات تاریخ کے نہاں خانے میں گم ہوگئے لیکن دوصدیوں سے زیادہ گزر جانے کے باوجود وقت کی گرد سے باغ وبہار نہ صرف محفوظ رہی بلکہ اس کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔
ہزار دانا
حضرت عثمانؓ (656ء) کے غلام حمران بن اہان نے بنو عبس کے ایک آدمی سے کہا: کیا وجہ ہے کہ تمہارے قبیلے کا ہر فیصلہ صحیح اور منصوبہ کامیاب ہوتا ہے؟ کہنے لگا: ہم میں خوش قسمتی سے ایک دانا و فلسفی موجود ہے جس سے قبیلے کے تمام افراد جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے، ہر بات میں مشورہ لیتے ہیں، باَلفاظِ دیگر ہم میں ایک ہزار دانا و فلسفی ہیں۔
باسی کھیر اور نماز
عرب دودھ اور گندم کو ابال کر کھیر سی تیار کیا کرتے تھے جسے وہ ’کامخ‘ کہتے تھے۔ ایک دن ایک دیہاتی عرب ایک شہری جوجی کے ہاں گیا۔ اس نے اسے دن کی باسی کامخ کھلا دی جس کا ذائقہ و رنگ سب بگڑ چکا تھا۔ کھانے کے بعد دیہاتی نماز عشاء کے لیے مسجد میں گیا۔ جب امام اس آیت پر پہنچا (حرمت علیکم المیتۃ والدّم و لحم الخنزیر…) (اللہ نے تم پر یہ چیزیں حرام کی ہیں یعنی مُردار لہو، خنزیر کا گوشت…) تودیہاتی نے پچھلی صف سے آواز دی: ’’مولانا! جوجی کی کامخ کو نہ بھولیے گا۔‘‘
ایسا کو تیسا
ایک تاجر کسی کے پاس چالیس من لوہا بطور امانت چھوڑ گیا۔ دو سال بعد واپس آیا اور اپنی امانت طلب کی تو وہ کہنے لگا کہ چوہے کھا گئے ہیں۔ تاجر مایوس ہوکر اس کے گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ اس کا بچہ کھیل رہا ہے، اسے اٹھا کر گھر لے گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بچے کی تلاش میں تاجر کے گھر جا پہنچا اور پوچھنے لگا کہ میرا بچہ تو نہیں دیکھا؟ کہا: دیکھا ہے، اسے ایک کوا چونچ میں پکڑ کر اڑا جارہا تھا۔ کہنے لگا: یہ کیسے ممکن ہے؟ جواب دیا کہ جس بستی میں چوہے چالیس من لوہا کھا سکتے ہیں وہاں کوے بیس سیر وزنی بچہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ وہ بات کو سمجھ گیا، معافی مانگی اور لوہا دے کر بچہ لے گیا۔
تاریخ میں نظیر
مامون کے دورِ خلافت (813۔833ء) میں اس کے چچا ابراہیم بن مہدی (839ء) نے (817ء میں) علَم بغاوت بلند کردیا تھا۔ جب وہ گرفتار ہوکر مامون کے سامنے آیا تو اس نے اپنے وزیر احمد بن ابی خالد احول (833ء) سے پوچھا کہ اس سے کیا سلوک کروں؟ کہا:’’اگر آپ اسے قتل کردیں گے تو تاریخ عالم میں آپ جیسے سینکڑوں مل جائیں گے، اور اگر معاف کردیں گے تو تاریخ آپ کی مثال نہیں پیش کرسکے گی۔‘‘